دہلی اسمبلی کے انتخاب کے مدنظر بھارتیہ جنتا پارٹی کی
دہلی میں ایک منعقدہ ایک چناوی ریلی میں بھاجپا کی طرف سے وزیراعظم کے عہدے
کے نامز د امیدوار نریندر مودی نے نواز شریف کے نام کے ساتھ اپنی سیاست
شروع کردی اور نواز شریف کے نام کی مالا سلسلہ وار جاپنے لگے۔ جس سے محسوس
ہوا کہ جیسے نواز شریف ان کے سیاسی حریف ہیں۔اور وہ ان کے مدمقابل ہیں۔ان
کی ریلی تو دہلی میں ہورہی تھی۔معلوم ہورہا تھا ۔یہ چناوی ریلی دہلی میں
نہیں بلکہ پاکستان میں ہورہی ہے۔حالانکہ نریندر مودی نے اپنے ہی ملک کے
وزیر اعظم مسٹر من موہن سنگھ کی جس طرز پر تضحیک ، تذلیل اور تنقید کی ۔اس
سے ان کے سیاسی قد کا پتہ چل گیا ۔ انہوں نے ہندوستان کے وزیر آعظم کیلئے
نازیا الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ وہ باراک اوبامہ کے آگے گڑگڑارہے
ہیں یہ کہ کر انہوں نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کا مذاق اڑاکر ہندوستان کے سوا
کروڑ عوام کی توہین کردی۔ من موہن سنگھ کا اپنی جانب سے تمسخر اڑا کر پھر
اس کو نواز شریف سے منسوب کردیا کہ ’ نواز شریف نے ہمارے وزیر آعظم من موہن
سنگھ کو ایک دیہاتی عورت کہا ۔ جس سے ہمار ا سرشرم سے جھک گیا ۔یعنی غلطی
مودی جی کریں تو ٹھیک ہے کوئی اور کرے توپھر وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔یہ
بات سچ ہے کہ جس طرح نریندر مودی، نوازشریف کے نام کا سہار ا لیکر اب کھل
کر سیاست کرنے لگے ہیں۔ایسی روش انہوں نے گجرات کے الیکشن میں بھی استعمال
کی تھی پرویز مشرف کو اپنا مدمقابل بنایا تھا۔ ان کی اس مکارانہ حرکتوں سے
صاف واضح ہوتا ہے کہ بھاجپا کا آکسیجن ہیں’’ مودی‘‘ ۔۔مودی کا آکسیجن ہیں
’’ نواز شریف‘‘۔، بھاجپا کی اس چناوی ریلی میں مودی نے نواز شریف کا نام
تقریباً پچاس بار لیا۔ان کی خوب تشہیر کی۔ان کے اس عمل سے ہندوستان میں
موجود پاکستان کا ہائی کمیشن اور پاکستانی عوام مودی کے مشکور و ممنوں بن
گئے؟۔بھاجپا کی سیاسی ریلی میں نواز شریف کے نام کی مالا بار بار پڑھی جاتی
رہی۔ بھاجپاکی اس ابتدائی ریلی سے یہ بات نکل کر سامنے آتی ہے۔ کہ نریندر
مودی اب ہر ریلی میں نواز شریف کا نام لینا نہیں بھولیں گے۔ اس لئے کہ اب
نواز شریف کا نام ان کیلئے آکسیجن بن گیا ہے۔ اب وہ اس کے بغیرسیاسی طور پر
زندہ نہیں رہ سکتے ہیں۔
بہرحال یہاں یہ کہا جائے تو مناسب ہوگا۔ کہ مودی میں دم خم نواز شریف کے
نام سے ہے۔ نواز شریف کا نام نہیں تو پھر مودی کہیں نہیں۔مردہ بھاجپا کو
زندہ کرنے کیلئے اب نواز شریف کا نام ہی کافی ہے۔اب یہ ممکن نظر آتا ہے۔کہ
بھاجپا کی جہاں جہاں بھی سیاسی ریلیاں ہوں گی۔ ان کی ہر ریلی میں نوازشریف
فوٹو مودی کی جیب میں موجود رہے گا۔فی الوقت نواز شریف کامودی کے دل میں
موجود رہنابڑی حیرت کی بات ہے اس سے کچھ عجب و غضب بھی ہوسکتا ہے۔ |