پھولوں کا شہر پشاور، پھر لہو لہو

 ابھی کو ہاٹی چرچ اور چارسدہ روڈ پر بس میں ہو نے والے دھماکوں کی نتیجہ میں جان بحق ہونے والوں کا خون خشک بھی نہیں ہوا تھا، زخمیوں کی پٹیاں ہسپتالوں میں اتری بھی نہیں تھیں کہ قصہ خوانی بازار میں تیسرا بڑا کار بم دھماکہ ہوا جس کے نتیجہ میں 45افراد جان بحق اور 115زخمی ہو ئے متعدد دکانیں تباہ ،مسجد شہید اور درجنوں گا ڑیاں راکھ کا ڈھیر بن گئیں۔قصہ خوانی بازار بے گناہ اور معصوم لو گوں کے خون سے سرخ ہو گیا۔سیاسی لیڈرشپ ہمدردی جتانے مو قع واردات اور ہسپتال پہنچی بھی تو اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف زہر اگلواکر سیاسی سکور حاصل کرنے کی کو شش کرتی رہی۔

9ستمبر کو اے پی سی میں شدت پسندوں سے مذاکرات کی نوید سنا کر حکومت عوام کو لالی پاپ سنانے لگی ، مگر عوام پو چھتی ہے،مذاکرات کب ہو نگے؟ جب پور ا خیبر پختونخواہ قبرستان بن جا ئیگا، تب مذاکرات کئے جا ئینگے ؟اے پی سی میں ہو نے والے مذاکرات کے فیصلہ کو بیس دن سے ذیادہ ہو چکے ہیں مگر اب تک ایک انچ کی پیش رفت بھی نہیں ہو ئی۔حکومت کا کو ئی ایجنڈا ہے نہ کو ئی رابطہ ۔حکومت کی طرف سے مکمل خاموشی ، جبکہ ملک دشمن عنا صر کی طرف سے پوری یکسوئی کے ساتھ کا روائیاں جاری ہیں۔ ان کے عزم میں کوئی کمی ہے نہ کو ئی لڑکھڑاہٹ، جب کہ حکو مت کے تو پا وئں ہی نظر نہیں آتے، لڑ کھڑاہٹ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔ما یو سی ہے ، جھنجلاہٹ ہے،خیبر پختونخوا کا مسلسل خون بہی رہا ہے مگر کسی کے کا ن پر جوں تک نہیں رینگتی۔ صرف مذ متی بیان یا بیرونی سازش کی بیان بازی کرنے کے بعد اربابِ اقتدار و اختیارسکون کی نیند سو جاتے ہیں۔ عوام پو چھتی ہے ،اگر ان دھما کوں میں بیرونی ہا تھ ملوث ہے تو آپ کی پو لیس، آپ کی فوج ،آپ کی اینٹیلیجنس ادارے ،یہ سب کیا کر رہے ہیں ؟ کیا وہ ان کے مذموم حرکتوں کو طشت از بام نہیں کر سکتے ؟ کیا وہ ان کے ہا تھ روک نہیں سکتے؟کیا وہ عوام کو یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ یہ کو ن ہیں جو یہ دھماکے کرا رہا ہے ،کون خیبر پختونخواہ میں خون کی ہو لی کھیل رہا ہے، طالبان، بھارت یا امریکہ ؟ طالبان تو ان دھما کوں سے بار بار لا تعلقی کا اظہار کر رہا ہے وزیر اعظم نواز شریف بھی فرماتے ہیں کہ ان دھماکوں کے پیچھے خفیہ ہا تھ ملو ث ہو سکتا ہے اگر ایسا ہی ہے تو اور کون ہے بھار ت ؟ اگر یہ بھارت ہے تو جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا ؟ جبکہ من مو ہن سنگھ نے ڈ نکے کی چوٹ پر کہا کہ پاکستان اس خطہّ میں دہشت گردی کا کا رخانہ ہے۔انہوں نے تو سفارتی آ داب کو بھی مدنظر نہیں رکھا جبکہ نواز شریف ان سے محبت کی پینگیں بڑھاتے رہے ۔ اگر ان دھماکوں کے پیچھے امریکہ کا ہا تھ ہے توان سے کھل کر با ت کیوں نہیں کی جا تی۔روز روز مرنے سے کیا ایک دن مرنا بہتر نہیں، روز روز مرنا، روز روز اپنوں کی لا شیں اٹھانے سے تو یہ بہتر ہے کہ ایک دن ہی مر جا ئیں۔

عمران خان کو صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام نے اس لئے ووٹ دئیے تھے کہ وہ امن کی بات کرتے تھے جبکہ اے این پی صو بے میں امن قائم کرنے میں ناکام ہو چکی تھی ۔ اب ان کا امتحان ہے اگر چہ ان کے ہاتھ میں مکمل اختیا ر نہیں مگر صوبہ خیبر پختو نخوا میں امن کی ذ مہ داری ان کے سر ہے اور عوام کی نظریں ان کی طر ف ہی اٹھتی ہیں لہذ ا ان کو چا ہئیے کہ وہ ایمر جنسی کی بنیا د پر صو بہ خیبر پختونخوا میں امن
لانے کی سر تو ڑ کو شش کرے۔ اگر ان کی نہیں چلتی، مر کزی حکومت ان سے تعاون نہیں کرتی یا امن دشمن عنا صر اتنے طا قتور ہو چکے ہیں کہ ان کے سامنے وہ بے بس ہیں تو پھر کسی لگی لپٹی بغیر عوام کو سچ بتاتے ہو ئے اقتدار کو چھوڑ دے، صوبائی اسمبلی تو ڑ نے کا اعلان کرتے ہو ئے حکو مت کسی اور کے حوالہ کر دے۔

نجانے کیوں ، مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں روز روز قتل و غارت کا یہ گھنا ونا کھیل کو ئی غیر ملکی طا قت کھیل رہا ہے ، حکو مت اس سے پو ری طرح با خبر بھی ہے مگر ہماری لیڈر شپ اتنی بز دل ہے کہ وہ ان کا نام لیتے ہو ئے بھی ڈرتی ہے ، کجا یہ کہ وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر کہے کہ بس، جو کر لیا، بہت کر لیا، اس کے بعد اس پاک سر زمیں پر ہما را اختیار ہو گا اور اگر کسی نے آ ئیند ہ یہاں بارود سے بھری گا ڑی یا میزائیل سے لیس ڈرون بھیجنے کی حماقت کی تو پھر ہم ہو نگے یا تم ہو گے ۔ہم ما ریں گے یا مریں گے مگر ذلالت کی زندگی گزاریں گے نہ اپنے عوام کو مزید اس طرح مارنے کی اجازت دیں گے۔جب تک ہماری قیا دت اپنے دل و دماغ میں چھپے خوف کو باہر نکال نہیں پھینکتی ، تب تک قصہ خونی بازار میں ہو نے ولے افسوسناک واقعہ کی طرح مزید واقعات کا ہو نا خارج از امکان نہیں، لہذا حکو مت کے ارباب و اختیار سے یہی گزارش ہے کہ خدا را ! اس خفیہ ہاتھ کو تلاش کرو ، جس کا ذکر تم روز کرتے ہو، مگر ہم پر رحم کرو اور ان ظالموں سے مذکرات کرو یا جنگ ، ہمیں اس سے غرض نہیں مگر ہمیں آگ و خون کے اس سمندر سے نکال دو، ہمارے اعصاب شل ہو رہے ہیں اور ہمارے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 286678 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More