سیاست میں آنا اور پھر سیاست کرنا بہت مشکل کام ہے مگریہ
کام پاکستان میں بہت ہی آسان ہے بس زرا سا ڈرامہ کیا تین چار الٹے ہاتھ
مارکرجذباتی تقریریں کرنا شروع کردی تو سمجھ لیں کہ آپ بھی سیاسی لیڈر بن
گئے ہیں اور یہ وہ سیاسی دوکاندار ہوتے ہیں جن کو سوائے لوٹ مار کے اور
کوئی کام نہیں آتا یہ سیاستدان الیکشن سے پہلے عوام کو ایسے ایسے حسین خواب
دکھاتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کرکوئی خدمت کوئی محب وطن ہی نہیں ہے اور ووٹ
لینے کے لیے عوام کے تلوے چاٹنے تک جاتے ہیں مگر جیسے ہی انہیں اقتدار ملتا
ہے تو وہ سمجھنے لگتے ہیں یہ جو اقتدار ملا ہے یہ تو انکا خاندانی حق بنتا
تھا اور پھر وہ اسی نام نہاد اور جھوٹی شان وشوکت کے ہمراہ عوام کے سروں پر
جوتیاں برساتے ہیں مسلم لیگ حکومت کی خامیوں کو تو ہم آئے روز منظر عام پر
لالا کر انہیں آئینہ دکھا رہے ہیں مگر خیبر پختونخواہ میں کیا ہوگیا جسے سب
ایک مثالی حکومت بنانے کے دعوے کرتے تھے اور انکے وعدے سن سن کر یہ خیال
کیا جاتا تھاکہ عمران خان کے پی کے میں مثالی کام کرکے ثابت کریں گے کہ ان
میں قابلیت ابھی باقی ہے مگر وہاں سے آنے والے حقائق نے سارا نقشہ کی تبدیل
کردیا کہ عوام نے نئے پاکستان کا نعرہ سن کر عمران خان کو ووٹ دیا تاکہ وہ
حکومت میں آکر انکے دکھوں کا مداوا کرسکیں انکی پریشانیاں بانٹ کر انہیں
خوشیوں کی مالا پہنائے اور انکی برسوں کی محرومیوں ،ناکامیوں اور مایوسیوں
کو ختم کرکے انہیں بھی باعزت زندگی گذارنے کے زرائع کے مواقع فراہم کیے
جائیں مگر وہ تو سابق تمام حکمرانوں سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے عمران خان
نے گزشتہ چار ماہ کے دوران اپنی جماعت کے دو ایم پی ایز سمیت دہشت گردی کے
واقعات میں جاں بحق ہونے والوں میں کسی کے لواحقین کے پاس جا کر تعزیت نہیں
کی ، گزشتہ چار ماہ کے دوران خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے ایک درجن سے
زائد واقعات میں تحریک انصاف کے ممبران صوبائی اسمبلی فرید خان ، عمران خان
مہمند ، سینئر پولیس و فوجی افسران سمیت سینکڑوں افراد جاں بحق ہوئے مگر نہ
تو پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان ، وزیراعلیٰ پرویز خٹک جبکہ نہ ہی کسی
صوبائی وزیر نے دہشت گردی میں جاں بحق ہونے والوں کے گھر جا کر لواحقین سے
تعزیت کرنا گوارا کیا ۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے چار
ماہ گذشتہ روز پورے ہو گئے ہیں جبکہ اس عرصے کے دوران صوبے میں دہشت گردی
کے درجن سے زائد بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے جن میں پی ٹی آئی کے دو ایم پی
ایز ، سینئرپولیس و فوجی افسران سمیت سینکڑوں بے گناہ افراد لقمہ اجل بنے ۔
گزشتہ چار ماہ کے دوران ضلع ہنگو میں تحریک انصاف کے ایم پی اے فرید خان کو
3جون کو جبکہ عمران خان مہمند کو 27 اگست کو خود کش حملوں کا نشانہ
بنایاگیا ۔ اس کے علاوہ متعدد سینئر پولیس افسران اس عرصے میں دہشت گرد
حملوں کا نشانہ بنے جبکہ 15 ستمبر کو پاک فوج کے میجر جنرل ثناء اﷲ ،
لیفٹیننٹ کرنل توصیف کو اپر دیر میں شہید کیاگیا جبکہ حالیہ دنوں پشاور میں
چرچ پر حملے میں سو کے لگ بھگ مسیحی مارے گئے ، اس کے علاوہ پشاور میں
سرکاری ملازمین کی بس پر دہشت گردوں کے حملے میں درجنوں ملازمین شہید ہوئے
مگر یہ امر افسوسناک ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی جماعت
کے دو ایم پی ایز سمیت دہشت گرد حملوں میں شہید ہونیوالے کسی فرد کے گھر
جاکر تعزیت کرنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے
لواحقین سے تعزیت کرنے کے لئے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا یا کوئی وزیر بھی
نہیں گیا ۔ اس کے برعکس عمران خان جب انتخابی مہم کے دوران لاہور میں لفٹر
سے گر کر شدید زخمی ہوئے تو شوکت خانم میموریل ہسپتال میں عیادت کے لئے
پہنچنے والوں کا تانتا بندھ گیا تھا اس طرح سابقہ دور میں بھی حکمران دہشت
گردی کے واقعات کی نذر ہونے والوں کے لواحقین سے کسی نہ کسی شکل میں تعزیت
کرتے رہے جبکہ بعض واقعات کے متاثرین کے پاس وفاقی وزراء ، وزرائے اعلیٰ ،
اور صوبائی وزراء تعزیت کے لئے ان کے گھر بھی پہنچے تھے ۔ برعکس اس کے
تحریک انصاف کے رہنما کہتے ہیں کہ کیا عمران خان کے جاکر تعزیت کرنے سے
دہشت گردی کے واقعات میں مرنے والے دوبارہ زندہ ہوجائیں گے - |