اس وقت جب کہ نئی (نواز) حکومت، معاشی، بیل آؤٹ پیکیج کے
لیے آئی ایم ایف کی طرف دوڑی جارہی ہے.... دوسری طرف.... یہی حکومت 65 پبلک
سیکٹر اداروں کی نجکاری یا ری اسٹرکچرنگ کے لیے بھی سرگرم عمل ہے، جن میں
سے بیشتر کے بارے میں یہی کہا جارہا ہے کہ یہ ادارے ”نقصان“ میں چل رہے ہیں،
(معاصر ”ڈان“ کی اسی اشاعت میں اسٹیل ملز کے حوالے سے الگ تفصیلی آرٹیکل
شائع ہوا ہے، ان شاءاللہ وہ بھی جلد پیش کیا جائے گا) اس بابت یہ بھی بتایا
جارہا ہے کہ حکومت یہ اقدامات، بجٹ سپورٹ کے حصول کے لیے کررہی ہے، وہ بھی
ایسے حالات میں جب کہ سرمایہ کاری اور میکرو اکنامکس (Macro Economics) کے
اشارئیے منفی (Adverse) جارہے ہیں۔ معاصر ”ڈان“ کے معیشت پر 09 تا 15 ستمبر
2013ءکی اشاعت میں فاضل ماہر معیشت خلیق کیانی نے مزید تحریر فرمایا ہے۔
حکومت 30 ستمبر 2013ءتک 30 اداروں کی نجکاری کے لیے اپنی حکمت عملی کا
اعلان کرے گی، جب کہ باقی ماندہ 35 اداروں کے لیے31 دسمبر تک اعلان متوقع
ہے۔
ان تمام مذکورہ، تباہی کی جانب گامزن اداروں کی بربادی کے اسباب میں اول
بدعنوانیاں، بدانتظامی (Mismanagement) اور سیاسی مداخلت.... جس کے ساتھ
نااہل بیورو کریسی بھی اپنا کردار ادا کر ہی رہی ہے اور جو گزشتہ چند برسوں
کی مجموعی صورت حال ہے....
یہ اچھی بات ہے کہ نواز لیگ نے جون میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اس حقیقت کا
درست طورپر ادراک کرلیا ہے کہ.... سرمایہ کاری میں شدید کمی کی صورت حال
میں کاروبار کے لیے مشکلات درپیش ہیں اور پبلک سیکٹر کے بڑے اداروں کی
”کمزور کارکردگی“ بھی ایک ایسا عنصر ہے، جو نہ صرف سرمایہ کاری کی راہ میں
رکاوٹ ہے، بلکہ خود ان اداروں کی ترقی کی رفتار بھی سست کردیتا ہے۔ اور یہ
سب کچھ اس صورت حال میں ہورہا ہے جب کہ، پاکستان، ایک ایسے ملک کی حیثیت
سے، جس کے اندر فروغ اور استحکام کی بہت زیادہ اہلیت ہے، اور قدرت نے اسے
بے بہا انسانی، اور دیگر قدرتی وسائل سے نوازا ہے، اور اس کی ایک بہت بڑی
جغرافیائی و سیاسی اہمیت بھی ہے، اور یہ بات وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے
کہی بھی ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پیش کردہ مطالبات میں سے ایک اہم اور بنیادی
مطالبہ، جس پر مستقبل کی مزید امداد کا انحصار ہے.... یہ ہے کہ حکومت وقت
کاروبار کے لیے بہتر ماحول اور بنیادی ڈھانچہ، تشکیل دے، تاکہ بزنس کمیونٹی
جو چاہے، اندرون ملک ہو، یا باہر.... وہ نجکاری کے عمل کی جانب متوجہ اور
متحرک ہوسکے.... اور اس شعبے میں اپنا حصہ ادا کرے۔ چناں چہ اس کے جواب میں
اسحاق ڈار نے تجارت و مالیات کی پالیسی کے میمورنڈم میں تحریر کیا ہے کہ:
ہم پبلک سیکٹر کے اداروں کی اصلاح و بہتری کے لیے کوشاں ہیں، اس سلسلے میں
ان اداروں کی کمزور کارکردگی اور ان اداروں کے لیے مختص وسائل کو بہتری کی
سمت لانے کے لیے اپنی توجہ مرکوز کررہے ہیں۔ اسحاق ڈار کا یہ موقف آئی ایم
ایف کے پاس جمع کروایا گیا ہے۔
اسحاق ڈار نے مزید کہا ہے کہ حکومت نے ایک متعینہ مدت کے اندر زیر عمل لائی
جاسکنے والی حکمت عملی اختیار کی ہے، جس کے تحت مشترکہ مفادات کونسل (سی سی
آئی) سے پبلک سیکٹر کے ان 65 اداروں کی نجکاری کے لیے منظوری حاصل کرنے پر
کام کررہی ہے، تاکہ یہ فیصلہ کرنے میں سہولت ہوسکے کہ ان اداروں کی نجکاری
زیادہ مناسب ہوگی یا پھر ان کے ”منافع بخش“ ہونے کی گنجائش مد نظر رکھتے
ہوئے، ان کی تعمیر نَو (ری اسٹرکچرنگ) کی جائے؟ دوسری طرف حکومت کے مدنظر
یہ بھی ہے کہ کوئی ادارہ ایسا بھی ہے، جس کو وہ بدستور پرائیویٹ سیکٹر میں
رکھنا چاہتی ہو، یا پھر غیر منافع بخش ادارے بند کردیے جائیں۔
اس حکمت عملی (اسٹریٹیجی) میں اس پہلو کو بھی مدنظر رکھا جائے گا کہ ان
اداروں کی مالیاتی صورتِ حال (حسابات) کیا کچھ ظاہر کررہی ہے؟ حکومت کی
جانب مستوجبات کی بابت تفصیلی معلومات بھی ان امور میں شامل ہوں گی۔
اگرچہ، یہ سارا عمل انتہائی سست رفتاری سے جاری ہے لیکن حکومت، ان اداروں
کو چلانے کے لیے پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے چیف ایگزیکٹیوز، اور کارپوریٹ
باڈیز کے ارکان کی خدمات کے حصول کے لیے بھی کوشاں ہے تاکہ یہ ادارے
کاروباری خطوط پر چلائے بھی جاسکیں۔ اس منصوبے کو ”ڈیولپنگ میڈیم ٹرم ایکشن
پلان“ کا نام دیا گیا ہے، جس کے تحت پی آئی اے، اسٹیل ملز اور پاکستان
ریلوے کی، ”ری اسٹرکچرنگ“ کی جائے گی۔ یہ ایکشن پلان، جس کے ایک جزو کے طور
پر، مذکورہ بالا سرکاری اداروں (پی آئی اے، اسٹیل ملز، ریلوے) کی جزوی طور
پر نجکاری بھی کی جائے گی۔
مزید برآں، غیر ملکی فرمیں، اس سارے معاملے دوسرے رخ پر بھی دیکھ رہی ہیں،
جس میں امن و امان کی صورت حال، توانائی کا بحران، اور نجکاری کے متعلق
کلیدی نوعیت معاملات کی جانب.... عدالتی فیصلوں میں تاخیر.... جیسے اُمور
شامل ہیں۔ بہر طور، حکومت بھی، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو ایسی سہولیات فراہم
کرنے کے لیے کوشاں معلوم ہوتی ہے کہ جن کے ذریعے ایف بی آر بینک اکاﺅنٹس کا
جائزہ لے سکے، قابل ٹیکس اثاثہ جات کا سراغ لگاسکے۔ اس کے مدنظر، امکان، یہ
بھی ہے کہ اس (ممکنہ) صورت حال کے پیش نظر، لوگ پبلک سیکٹر میں شیئرز
خریدنے کی طرف زیادہ توجہ دینے لگیں.... جس سے مارکیٹ میں سرمائے میں اضافے
کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ از کار رفتہ آلات اور ساز و سامان.... تاحال، عدم
ادا شدہ قرضہ جات کی واپسی، کا معاملہ لاگتوں کی منافع بخشی کو کم کردینے
والے ایندھن، اور ساتھ میں، نیشنل کیریئرز کے منافع بخش ہونے پر بھی اثر
انداز ہورہے ہیں۔
ری اسٹرکچرنگ کے مقصد کے تحت، حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کروائی
ہے کہ وہ جون 2014ءتک پی آئی اے کے 26 فی صد حصص کی نجکاری کردے گی۔ اس
مقصد کے لیے پی آئی اے کی دو مراحل میں نجکاری کی جائے گی چناں چہ، دوسرے
مرحلے کے طور پر دسمبر 2013ءتک پی آئی اے کے غیر کار گزار اور غیر منافع
بخش حصوں کو پبلک سیکٹر انٹرپرائزار کے طور پر پیش کردیا جائے گا۔ حکومت،
اس مرحلے کے لیے، جس کو ”پی آئی اے۔ 2“ کا نام دیا جارہا ہے، ایک گارنٹی کے
ساتھ قرضہ فراہم کرے گی۔ یہ قرضہ پی آئی اے کے اضافی (سرپلس) ملازمین کو
”گولڈن شیک ہینڈ“ کے ذریعے، سبکدوش کرنے کے لیے فراہم کیا جائے گا۔ یہ کام
بھی جون 2014ءتک مکمل کرلیا جائے گا۔
پی آئی اے بعض لازمی اجزاءاپنے پاس ہی رکھے گی، جن سے اسے کام لینا ہوتا
ہے، اس کی اسٹریم لائن کارگزار ہے، جو اس کی ”ورکنگ فورس“ ہے، اس کے علاوہ
پی آئی اے کو حکومت سے بھی مالی امداد ملنے کی توقع ہے۔ جون 2014ءتک اس کے
26 فی صد شیئرز کی اسٹریٹیجک انویسٹرز کو فروخت سے ملنے والی رقوم سے، پی
آئی اے، مزید کارگزار طیاروں کے لیز پر، اور زیادہ منافع بخش روٹس کے حصول
کے لیے کوشش کرے گی۔
جہاں تک ”نان فلائٹ“ سرگرمیوں کا تعلق ہے، اس مقصد کے لیے پی آئی اے ایک
اور ذیلی کمپنی قائم کرنے پر غور کررہی ہے، جس کا ”فوکس“.... ”کورایکیوٹیز“
پر ہوگا!
جہاں تک پاکستان اسٹیل ملز کا تعلق ہے، اس کو دوبارہ کارگزار بنانے کے
لیے.... بنیادی امر یہ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ اسٹیل ملز کو دراصل
عالمی سطح پر فولاد کی قیمتیں گرنے سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ چناں چہ حکومت کا
کہنا یہ ہے کہ وہ اس ضمن میں ماہرین پر مشتمل بورڈ تشکیل دے رہی ہے اور
اسٹیل ملز کو ایک محفوظ ”کمرشل کریڈٹ لائن“ فراہم کرنے کے لیے بھی کوشاں
ہے، جس سے قرضہ جات اقساط.... اور نَو عملے کی تنخواہوں کی ادائیگی، اور
خام مال کی خریداری ممکن ہوگی۔ اس مقصد کے لیے زیادہ تر قرضے بینکوں سے لیے
جائیں گے۔
اسٹیل ملز کی تعمیر نو (ری اسٹرکچرنگ) سمیت مطلوبہ دیگر تمام مقاصد کے
ستمبر 2013ءکے اختتام تک حصول کے لیے، نجکاری کمیشن اور کابینہ کی
کمیٹی.... ایک ”تیز رفتار پروسیس“ پر کام کررہے ہیں، ( ان سطور کی اشاعت تک
ان اہداف کے حصول میں کسی نہ کسی حد تک پیش رفت کا امکان ہے)
حکومت پاکستان نے اس امر کو بھی واضح کردیا ہے کہ اس نے کمرشل اور انرجی
سیکٹرز میں ایسے اداروں کا انتخاب کرلیا ہے، جن کی جلد از جلد نجکاری کردی
جائے گی۔ چناں چہ ایم ای ایف پی کے مطابق: حکومت دسمبر 2013ءتک ایسے مشیران
کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے، جو دو بڑی کمپنیوں کے باقی ماندہ
شیئرز، دو بڑی کمپنیوں کو فروخت کرنے میں مدد کرسکیں، ان میں پرائیویٹ
سیکٹر بھی شامل ہوسکتا ہے۔ اور جو یہ کام مارکیٹ کی صورت حال کے مد نظر،
مکمل کرواسکیں۔
دو ”بلیوچپ“ کمپنیوں، او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کے نسبتاً کم تر
شیئرز، سرمایہ کار اداروں کی ”ضروریات“ اور عالمی منڈی کی صورت حال مد نظر
رکھ کر فروخت کیے جائیں گے۔ لہٰذا ان مشیران کا تقرر اسی سلسلے میں کیا
جارہا ہے) جب کہ وسطی دورانیے میں، انرجی کمپنیوں کو بھی، ان اداروں میں
شامل کردیا جائے گا، جن کی بھی نجکاری مقصود ہے۔ معاصر ”ڈان“ کی محولہ بالا
رپورٹ یہاں اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔
اب قوم کی طرف سے صرف چند سوالات کیے جاتے ہیں، جن کے جوابات ، پوری نواز
لیگ حکومت اور خصوصاً اس کے وزیر خزانہ اور سیکرٹری خزانہ، اور گورنر اسٹیٹ
بینک کے ذمے ہیں اول یہ کہ نواز حکومت جس طرح ان اہم ترین قومی اداروں کو
ٹھکانے لگانے کے لیے ”بے تاب“ پائی جارہی ہے، یعنی وہی ”عاشقی“ صبر طلب اور
”تمنا“ بے تاب.... والا معاملہ ہے۔ کیا اتفاق فاﺅنڈری سمیت، حکمراں جماعت
کے تمام عقل مند اور دور اندیش، رہنما، اپنی اپنی ہر طرح کی، منقولہ و غیر
منقولہ جائیداد، زمینیں، کارخانے ”قوم کے بہترین مفاد میں“ جلد از جلد بیچ
ڈالنے کے لیے اس قدر زبردست قسم کی ”پُھرتیاں“ دکھانا پسند فرمائیں گے یا
نہیں؟.... نہیں تو کیوں؟ ذرا تفصیل سے اور کچھ زیادہ پھرتی سے قوم کو اس کا
جواب عنایت فرمائیں....!
دوسرے یہ کہ یہ سارے کے سارے ادارے، جن کی تعداد پہلے 46 پھر 65 بتائی گئی،
اور اب معاصر ”جسارت“ کی حالیہ اشاعت کے مطابق، دراصل تعداد 85 ہے، یہ سب
قومی ادارے ہیں، یعنی قوم کی ملکیت ہیں، اور ان کی اپنی اپنی جگہ اقتصادی
کے علاوہ.... تزویراتی اہمیت بھی ہے، جو پوری قوم کو بہت اچھی طرح معلوم
ہے۔ ورنہ عدالت عظمیٰ پاکستان، سب سے بہتر اور بالکل معتبر ترین قومی ادارے
کی حیثیت سے، خود ہی پوری دنیا کے سامنے واضح کردے گی۔ یہ تزویراتی اہمیت
رکھنے والے ادارے ہی بِک گئے تو ملک و قوم کے پاس کیا بچے گا؟ جن اداروں کے
قیام میں پوری قوم کا نہ صرف سرمایہ بلکہ خون پسینہ بھی لگا ہوا ہے۔ ان
اداروں کو اس قدر جلدی بیچ ڈالنے کی دوڑ دھوپ، جب کہ خود نواز حکومت کے
قیام کو چھ ماہ بھی پورے نہیں ہوئے.... انتہائی حیران کن بلکہ پوری
دنیا.... اور خصوصاً خود قوم کے لیے انتہائی گہرے شکوک و شبہات کا باعث
ہے.... جس کی ذمے دار بھی خود نواز حکومت ہے۔ آخر حکومت کو ان اداروں کو اس
قدر عجلت میں بیچ ڈالنے کی ایسی کیا ضرورت پیش آرہی ہے؟ جب کہ اتنی کم مدت
میں تو ان قومی اداروں کے قیام کی پوری طرح منصوبہ بندی بھی نہیں کی
جاسکتی.... نواز حکومت اس کا دو ٹوک جواب دے اور قوم کو اس امر کی بھی وہ
کیا ضمانت پیش کررہی ہے کہ ان اداروں کے خریداروں کے پیچھے کوئی ملعون متل
نہیں کھڑا ہوا ہے؟
تیسرے یہ کہ یہ ادارے ہی بِک گئے تو ان سے زرمبادلہ کتنا، کس طرح قومی
خزانے میں آئے گا؟ اور کون وصول کرے گا؟ اور ملازمین کے مستقبل کی کیا
ضمانت ہے؟ کیوں کہ اب تک جتنے بھی ادارے نجکاری کی بھینٹ چڑھے ہیں، ان کی
حالتِ زار اور ان کے ملازمین کی صورت حال دنیا کے سامنے ہے، اسٹیل ملز کی
تو ابھی کُلّی تو کیا جزوی نجکاری بھی نہیں ہوئی لیکن صرف پیداوار، ملازمین
کی تنخواہوں کی ادائیگی اور اس کے مالی نقصانات کا گوشوارہ ہی، جو انتہائی
بھیانک منظر نامہ پیش کرتا ہے، وہ اسٹیل ملز کے کسی بھی ملازم سے دریافت
کرلیا جائے۔
مزید.... یہ کہ.... جب ایک (تاحال ”نامعلوم“) خریدار، ہمارے ایسے کسی ادارے
کو چلاسکتا ہے اور منافع بھی حاصل کرسکتا ہے (ورنہ وہ اسے خریدے گا ہی
کیوں؟) تو یہ کام حکومت کیوں نہیں کرسکتی۔ ایک ”وزیر،باتدبیر“ نے پچھلی
حکومتوں کے وزراءکی طرح بالکل یہی کہا ہے کہ حکومت کا کام ادارے چلانا نہیں
ہے۔ معاصر ”جسارت“ نے اس پر بالکل بجا سوال اٹھایا ہے کہ پھر حکومت کا کام
کیا ہے؟ اس کا جواب حکومت وقت کے ذمے ہے!
سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ ان تمام اداروں کی.... جن کی اب تک معاصر جسارت
کے حوالے سے تعداد 85 تک پہنچ چکی ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہورہا ہے کہ نواز
حکومت نے پہلے جو 46 اداروں کی تعداد بتائی تھی.... وہ جھوٹ اور دھوکا دہی
کی ”سرکاری واردات“ کے سوا.... کچھ بھی نہیں تھی.... اب بھی قوم کو مزید
دھوکا دینے کے لیے یہ تعداد 65 بتائی جارہی ہے۔ (اس فریب در فریب کا
پردہ.... روزنامہ ”اسلام“ پچھلے دنوں چاک کرچکا، جبھی تعداد 64 سے ایک
ادارہ بڑھاکر 65 کردی گئی.... یہ بھی فریب ہی ثابت ہوا، معاصر جسارت نے
صحیح تعداد 85 بتادی ہے) اس کے بعد ہمارے پاس آخر کون سا قومی ادارہ باقی
رہ جائے گا؟
ان تمام قومی اداروں پر، قوم کا حق کیا اور کتنا رہ جائے گا؟ ملک کے اہم
ترین مراکز پر ”نامعلوم“ خریداروں کے، (جی ہاں قوم نوٹ کرے اور خوب اچھی
طرح سے کہ ابھی تک ایسے کسی بھی ادارے کے کسی بھی خریدار کا نام پتا، ملک
کچھ بھی قوم کو بتایا ہی نہیں گیا ہے کہ ان اہم ترین قومی اداروں کو آخر
کون خریدرہا ہے؟) قبضے کے بعد ملک کی سلامتی و تحفظ کے بارے میں جو لاتعداد
تحفظات در پیش ہوجاتے ہیں، ان کا تدراک کون اور کس طرح کرے گا؟.... اس کے
بعد تو صرف جی ایچ کیو اور عدالت عظمیٰ ہی باقی بچتے ہیں.... کیا اب اگلے
مرحلے پر ان دونوں اہم ترین قومی اداروں کی نجکاری کی جائے گی؟.... اس سب
سے زیادہ بھیانک سوال کا جواب ہے نواز حکومت کے پاس....؟ ورنہ عساکر
پاکستان کے سردار اور عدلیہ پاکستان کے سربراہ، نواز حکومت کے وزیراعظم اور
وزیر خزانہ سمیت تمام ذمے داران سے واضح جواب طلب کرلیں.... کہ قوم نے نواز
حکومت کو ملک کے اہم ترین ادارے بیچ کھانے کا مینڈیٹ تو بہر حال ہر گز نہیں
دیا ہے اور یہ عمل قومی سلامتی و تحفظ اور ملک و قوم کی یکجہتی و بقاءکے
لیے جس درجہ تباہ کن ہے.... وہ ان دونوں قومی قائدین زیادہ کوئی نہیں
جانتا، پس ان دونوں رہنماﺅں (آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان) ہی کی
خدمات میں قوم کی جانب سے یہ سارا معاملہ، پیش کیا جاتا ہے، کہ ان دونوں
قائدین کے سوا، کوئی دوسرا، یہ صورت حال نہیں سنبھال سکتا، لہٰذا، چیف جسٹس
آف پاکستان سے اور آرمی چیف ہی سے سب سے پہلے اس معاملے پر توجہ فرمانے کی
قوم کی جانب سے استدعا کی جاتی ہے کہ اس کے سوا، ملک و قوم کو نیلام ہوجانے
سے بچانے کی اور کوئی صورت بھی تو نہیں رہی....! |