چراغِ بزمِ ستم ہیں ہمارا حال نہ پوچھ
محمد علم اللہ اصلاحی
لوگ کہتے ہیں یہ بستی ہے مسلمانوں کی
آؤ پھر سیر کریں اس کے شبستانوں کی
تو آئیے کچھ ذکر کرتے ہیں ’دہلی ‘کے اس علاقے کا۔
"جہاں پورے ملک کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ،مہذب ، ادب اور ثقافت سے تعلق
رکھنے والے افراد رہتے ہیں "
"جہاں دریائے جمنا کے خوبصورت کنارے اور ہرے بھرے باغ ،کویل کی کوک اور
پرندوں کی چہچہاہٹ سے گونجتے ہیں "۔
" جہاں پر واقع معروف ،قدیم ،ثقافتی اور مرکزی دانش گاہ’ جامعہ ملیہ
اِسلامیہ‘ اک عالم کو اپنے علم سے منور کرتی ہے "۔
" جہاں ہندوستان کی تقریباً تمام ہی ملی تنظیموں کے دفاتر اور مراکز ہیں "۔
"جہاں سے’ ملی گزٹ ‘،’ہندوستان ایکسپریس‘،’دعوت‘،’افکار ملی‘ ،’ریڈینس‘،’پیام
تعلیم‘،’کتاب نما ‘کے علاوہ سیکڑوں اخبارات ،رسائل و جرائد اور میگزین
چھپتے اور اک جہان کے دلوں پر راج کرتے ہیں "۔
" جہاں عالمی شہرت یافتہ’اسکورٹ‘ ( دل کا اسپتال )،’ ہولی فیملی‘ اور’
مہندرا سنگھ‘ جیسے مستشفی خانے واقع ہیں"۔
جہاں کے کباب شاورما ، ذائقے دار پکوان و ڈشوں کی خوشبوؤں سے معطر
ریستورانوں کی قطاریں پورے انڈیا میں معروف ہیں۔"
" جہاں فطرت سے محبت کرنے والے انسانوں کے علاوہ نیلے ،پیلے اور ہرے پنکھوں
والے ہزاروں پرندوں کی" اوکھلا برڈ سینکچواری " میں آمد ہوتی ہے "۔
" جہاں پورے ملک سے آنے والی وسائل حمل و نقل طرح طرح کے پھلوں اورسبزیوں
کو " اوکھلا سبزی منڈی " میں پہنچاتے ہیں "۔
جب اس جگہ کا ذکر کیا جائے تو ان گنت اہم ،پرکشش ،معروف اور رنگا رنگ
روشنیوں ،تہذیبوں اور تاریخوں سے آراستہ مقامات کا نام سن کر ہمارے دل میں
ایک عجیب و غریب اور کسی الگ دنیا کا تصور ابھرتا ہے۔اور یوں لگتا ہے گویا
اس جنت نشاں علاقے میں ہر قسم کی سہولیات ہوں گی ،یہاں کے لوگ خوش و خرم
اور بے فکر ہونگے،یہاں کے پر سکون ماحول میں بسنے والے چین کی بنسری بجا
رہے ہوں گے اور بہترین طریقے پر پر سکون اور معیاری زندگی گزار رہے ہوں گے۔
لیکن اگر ذرا آنکھیں کھول کر دیکھا جائے تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔میں یہاں پر
نیو فرینڈس کالونی ،ذاکر باغ ،کالندی کنج ،جسولہ جیسی پوش کا لونیوں اور
بستیوں کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ جہاں حکومت کے ہر طرح کی عنایات اکرامات
اور نوازشات شامل حال رہتی ہیں۔جہاں بڑے بڑے مالدار لکھ پتی،کروڑ پتی، ارب
پتی، کھرب پتی، بیوروکریٹس ،لیڈر اور وی آئی پیز رہتے ہیں۔بلکہ میں بات کر
رہا ہوں ان بستیوں کا جہاں کے لوگوں کا ایک ایک پل اور ایک ایک لمحہ کرب
اور بے چینی میں گزرتا ہے۔ جن کی نہ تو حکومت کو فکر ہے اور نہ ہی ان
تنظیموں کو جو ہمیشہ اور ہر آن حقوقِ اِنسانی کی بات کرتی ہیں ، جب دہلی
جیسے شہر میں اَیسی تعصب و تنگ نظری کے جال میں پھنسی ہوئی بستیاں بنیادی
سہولتوں سے محروم ہیں تو باآسانی یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دیہی علاقوں
کی کیا صورتحال ہوگی؟ وہاں کی مسلم بستیوں میں بنیادی وسائل کی کس قدر کمی
ہوگی ؟ وہاں کے باشندے کس کسمپرسی اور بدحالی میں زندگی گزار رہے ہوں گے۔؟
کیا آپ دہلی کے اس علاقہ کا تصور کر سکتے ہیں جس میں بعض ایسی بھی بستیاں
ہیں جہاں پوری کی پوری بستی میں محض ایک یا دو دسویں پاس ہیں۔ہزاروں ایسے
ہیں جن کےووٹر آئی ڈی (شناختی کارڈ )نہیں ہے ،نالیاں اور سڑکیں نہیں
ہیں۔نوجوان نوکریوں سے محروم ہیں ،پانی بجلی اور اسی طرح کی دیگر بنیادی
سہولیات کا فقدان ہے،شاید نہیں !
مگر یہ حقیقت ہے اور ذاکر نگر،غفار منزل،ابوالفضل،شاہین باغ ،طوبی کالونی
،بٹلہ ہاوس،محبوب نگر اور اس جیسی ایسی کئی بستیوں کا شمار ایسے ہی علاقوں
میں ہوتا ہے۔ جہاں کھانے پینے کے ڈھابے اور ریستوران کے سامنے گندگی کا
ڈھیر پڑا بدبو پھیلاتا دکھائی دیتا ہے تو کہیں آٹو رکشا اسٹینڈ عوامی بیت
الخلاء کے ساتھ ہی بنا نظر آتا ہے۔ کہیں پورے کے پورے بس اسٹینڈ میں کیچڑ،
گندگی،بدبو اور دلدل کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے تو کہیں صحت کی خدمات
فراہم کرنے والے سرکاری ہسپتال، میڈیکل کالج، نجی نرسنگ ہوم وغیرہ گندگی
اور کوڑے کے ڈھیر اور ٹھہرے ہوئے گندے برساتی پانی سے گھرے ہوئے دکھائی
دیتے ہیں۔ان علاقوں میں آپ کہیں بھی چلے جائیں۔ بینک، کوئی بھی سرکاری
دفتر، مساجد ،اسکول ،سنیما گھر یہاں تک کہ ذاتی کاروباری مراکز وغیرہ تمام
جگہوں پر کوڑے کا ڈھیر، نالوں کے رکے ہوئے پانی، ان پر اُڑتے، بھنبھناتے
زہریلے مچھروں کی افزائش نسل کی کالونیاں دکھائی دیں گی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ آپ کو انہی جگہوں پر دہلی سرکار کے ہورڈنگز اور بڑے بڑے
بینر وعدوں وعیدوں اور مبارکبادوں کے ساتھ آویزاں نظر آئیں گے۔جنہیں دیکھ
کر ذہن میں سوال اٹھے گا کہ کیا حکومتِ دہلی کو اس بات کی تھوڑی سی بھی
سمجھ نہیں ہے کہ یہاں کے عوام نہ صرف ہوڑدنگ دیکھنے کی بلکہ ان کے اردگرد
پھیلی گندگی، اندھیرے اور بھاری ترقی کو دیکھنے کا مادہ بھی رکھتے ہیں۔ان
کی صرف اتنی سی تمنا ہوتی ہے کہ وہ اور ان کے بچے بیمار نہ پڑیں، خوش رہیں،
ہر طرح کی نہ سہی کم از کم بنیادی سہولیات تو ہوں۔ مگر یہاں پر حکومت کا
کام کاج کس طریقے سے چل رہا ہے۔ان علاقوں سے گذرتے ہوئے بدرجہ اتم محسوس
کیا جا سکتا ہے۔بلاشبہ پھیلی گندگی کے لیے ایک حد تک عوام کو بھی ذمہ دار
ٹھہرایا جا سکتا ہے لیکن دہلی کے کوڑے دانوں میں دھماکے کیا ہو گئے گویا
حکومت کو بہانہ مل گیا علاقوں میں ڈسٹ بین نہ رکھنے کا۔(راقم الحروف خود
کئی بار کیلے کے چھلکے، بریڈ کے خالی پیکٹ ہاتھ میں لئے آدھا آدھا کلومیٹر
تک پیدل چلا، لیکن کہیں کوئی ڈسٹ بین دکھائی ہی نہیں دیا۔)
پارٹیوں اور لیڈروں کے بڑے بڑے بینروں کی جیسے باڑھ آئی ہو،کہیں کوئی عید
کی مبارکباد دیتا نظر آتا ہے،تو کہیں کوئی چھوٹے سے کرائے گئے کام کی
تفصیل،کہیں موٹے موٹے حروف میں خرچ کئے گئے بجٹ لکھے نظر آئیں گے تو کہیں
عوام کا بے جا شکریہ ادا کرتے ہوئے اشتہارات۔کہیں امید بھری نگاہوں کے ساتھ
عوام سے ووٹوں کی التجا کرتی تصویر لگی ہوگی اور ٹھیک اس کے نیچے کوڑے کا
بدبو دار ڈھیر انھیں کا منہ چڑا رہا ہوگا۔اگر برانڈ، مصنوعات اور کمپنیاں
اتنے بڑے سائز کے ہورڈنگز لگاتی ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ
گاہکوں کو بہلا پھسلا کران کے خواب خرید کر اپنی مصنوعات بیچتی ہیں۔لیکن
سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت اور لیڈر اس طرح کے جارحانہ مہنگے اشتہارات میں
بے شرمی سے اُتر کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟سچی بات تو یہ ہے کہ جتنی بجلی
کی کھپت ان اشتہارات کوشو کرنے یا روشنی میں نہلانے کے لئے ہوتی ہے۔ اتنی
بجلی تاریک گلیوں یا کمیونٹی اداروں میں فراہم کی جائے تو حکومت کو بنا
اشتہارات ہی کے عزت و شہرت مل جائے۔مانا کہ سیاسی اشتہارات کی دوڑ میں
سیاسی پارٹیاں اور خود موجودہ حکومت بھی برانڈ کے طرز پر کام کرتی ہے لیکن
برانڈ کمپنیاں بھی اس حد تک بے شرمی اور اسراف نہیں کرتیں جتنا کہ یہ سیاسی
لیڈران۔
کچھ ایسے ہی حالات و مناظر کو دیکھ کر حیدرآباد دکن کے مشہور تاجر و قلم
کار علیم خان فلکی نے اپنے بلاگ " سفرنامہ ؛ دلی کہاں است " میں لکھا کہ ”
اوکھلا، ذاکر نگر اور جامعہ ملیہ وغیرہ میں پتہ نہیں چلتا کہ پہلے گندگی کو
بسانے کی پلاننگ کی گئی یا پہلے مسلمانوں کو بسنے کا موقع دیا گیا۔یہاں کے
لوگ صبر ایوارڈ دیے جانے کے لائق ہیں۔ بالخصوص بارش کے موسم میں جب گندے
نالے اور بارش کا پانی ایک ساتھ مل کرسڑک پر گنگا جمنی تہذیب کی طرح اتحاد
سے بہتے ہیں تو پتہ نہیں لوگ سانس کس طرح لیتے ہیں۔ ایک صاحب سے ہم نے
پوچھا "آپ کی ناک کس طرح یہ بدبو برداشت کر لیتی ہے"، انہوں نے پوچھا "یہ
ناک کہاں ہوتی ہے"۔اتفاق سے ملک کی سرکردہ دینی اور ملّی جماعتوں کے مراکز
بھی انہی علاقوں میں ہیں، اسی لئے حکومت بھی یہاں کی گندگی کو مسلمانوں کے
پرسنل لائف کی طرح کا ایک داخلی معاملہ سمجھتے ہوئے بالکل دخل اندازی نہیں
کرتی۔ البتہ کبھی انکاؤنٹر یا دہشت گردی کی کسی اِسٹوری کی شوٹنگ کرنی ہوتی
ہے تو ادھر آ جاتی ہے کیونکہ بٹلہ ہاوس جیسے علاقوں میں شوٹنگ سے فلم بہت
ہِٹ ہوتی ہے۔ چونکہ اب آبادی ہزاروں گنا بڑھ چکی ہے، زمانہ ترقی کر رہا ہے
اس لیے ان علاقوں کو اب مغلیہ انتظامیہ سے نکال کر شیلا دکشت کے انتظامیہ
کے تحت لانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ محترمہ نے جو نئی دہلی کو ترقی دی ،وہ
واقعی قابلِ تعریف ہے۔ لگتا ہے آپ یورپ یا امریکہ ہی کے کسی شہر میں پہنچ
گئے ہوں۔ یہ عجیب معاملہ ہے جو اب حیدرآباد میں بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ
صاف ستھرے علاقوں میں باہر سے آ کر بسنے والے رہیں اور اصل شہری انہی تنگ و
تاریک و متعفن پرانے علاقوں میں رہیں جنہیں ان کے آبا و اجداد نے بسایا
تھا۔“
ان کی یہ تحریر بظاہر طنزیہ معلوم ہوتی ہے لیکن اس کا ایک ایک حرف سچائی کی
گواہی دے رہا ہے۔ان کے لفظ لفظ سے درد اور کرب کا اظہار ہو رہا ہے۔یہ صرف
علیم خان کی بات نہیں ہے اس بارے میں اور بھی بہت سارے لوگ لکھتے ہیں اور
حکومتی ذمہ داران کو حقیقت سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر حکومتی ذمہ
داروں کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی بلکہ الٹا یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے
کہ۔’’مسلمانوں کا کام ہی ہے صرف رونا ،یہ اُن کی عادت بن چکی ہے۔ ‘‘ اب
انھیں کون بتائے کہ ہم واقعی میں ہمیشہ روتے رہتے ہیں یا درد اور تکلیف سے
کراہتے ہیں۔بقول شاعر:
میں رونا اپنا روتا ہوں تو وہ ہنس ہنس کے سنتے ہیں
انھیں دل کی لگی اک دل لگی معلوم ہوتی ہے
خیر وہ تو ایک مسلمان کا تجزیہ تھا کچھ غیر مسلم دوستو ں کے تجزیے کو بھی
دیکھ لیں۔’گوپال پرساد‘ اپنے بلاگ”سمپرن کرانتی “میں ’زہریلی ہو چکی ہے
دہلی کی آب و ہوا‘ میں لکھتے ہیں ”دہلی میں جہاں جہاں لینڈ ہیں، وہاں زیر
زمین پانی زہریلا ہو چکا ہے۔ پینا تو دور یہ دوسرے کاموں کے قابل بھی نہیں
رہ گیا ہے۔ اس سے اٹھتی بو اور گندگی کی وجہ سے ارد گرد کے لوگوں کا سانس
لینا بھی دوبھر ہے۔فضائی آلودگی کی سطح خطرے کو پار کر چکی ہے۔ان تمام کے
باوجود لینڈ فل کے مسئلے سے مستقل طور پر نجات حاصل کرنے کے لئے نہ تو دہلی
حکومت کے پاس کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی دہلی میونسپل کارپوریشن کے پاس“۔وہ
آگے لکھتے ہیں:”دہلی کے اوکھلا اور غازی پور لینڈ فل سائٹ کے ارد گرد آباد
لوگوں کی زندگی جہنم بن چکی ہے۔ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا (کیگ)
کی ہندوستان میں ویسٹ مینیجمنٹ نامی رپورٹ میں دہلی کے بھلسوا ں اور اوکھلا
لینڈ فل کے ارد گرد زیر زمین پانی کا ٹی ڈی ایس (ٹوٹل ڈزولو سولڈ) مطلوبہ
حد سے 800 فیصد زیادہ ہے۔ اس کی وجہ سے زمین کا بھاری پن مقررہ حد سے 633
فیصد زیادہ ہو چکا ہے۔ اس لینڈ فل کے کیچڑ کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ پانی
کا ڈی ڈی ایس مناسب حد سے 2000 فیصد زیادہ ہے اور اس کا کھارا پن 533 فیصد
زیادہ۔پانی میں کلورائڈس کی ضرورت کی حد فی لیٹر 250ملی گرام کے مقابلے میں
فی لیٹر 4100 ملی گرام ہے۔اوکھلا لینڈ فل سائٹ کا ٹی ڈی ایس ضرورت کی حد سے
244 فیصد زیادہ ہے۔زمینی پانی زہریلا ہو چکا ہے۔ ان لینڈ فلوں کے ارد گرد
کی ہوا کا معیار بھی تباہ ہو چکا ہے۔اس کے ارد گرد کے علاقے کی فضائی
آلودگی خطرے کی سطح کو کبھی کی پار کر چکی ہے“۔
ایک اور بلاگر ’نلیما‘ کے ” واد سمواد“ نامی بلاگ آنکھ کی کر کری کالم کے
تحت شائع مضمون ’گذرئیے بھوک، ہوس اور گندگی کے مارکیٹ سے - ذرا دامن بچا
کے ‘پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک قاری کملیش مدان لکھتے ہیں ”آگرہ سے دہلی کی
طرف آنے پر جب حضرت نظام الدین کے نالے کے اوپر سے گزرتے ہوئے دہلی میں
داخلہ ہوتا ہے تو وہاں صاف دکھائی دیتا ہے کہ لوگوں اور اس نالے پر رہنے
والے جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔آگے بڑھنے پر اوکھلا کے شارٹ کٹ پر
ریلوے کے کنارے رفع حاجت، نشہ کرتی نوجوان غریب نسل جو شائننگ انڈیا کو
شرمسار کرتی ہے۔وہیں خود کے نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے پہلے جب لوکل ٹرین
رکتی ہے تو آپ دیکھیں گے کہ کس کس طرح کے لوگ پٹریوں کے کنارے اسموکنگ،
شراب نوشی کرتے ہوئے عجیب و غریب حالات میں ملتے ہیں“۔
اس مضمون کو لکھنے سے پہلے میں نے کئی علاقوں کا دورہ کیا ،لوگوں سے
ملاقاتیں کیں اور ان کے مسائل جاننا چاہے۔تو انھوں جو باتیں بتائی وہ خون
کے آنسو رلا دینے والی تھیں کسی کا کہنا تھا کہ گندگی اتنی ہے کہ میری
بچیوں کے رشتے نہیں لگ رہے ،لوگ واپس لوٹ جاتے ہیں ،ایک اور شہری کا رونا
تھا کہ ڈائریا (پیچش)کی وجہ سے میرے جواں سال بیٹے کا انتقال ہو گیا ،ایک
اور شہری کی دُہائی تھی کہ اس علاقہ میں کوئی ایسا بندہ نہیں ہوگا جسے کچھ
نہ کچھ بیماری نہ ہو۔ایک اور صاحب کا کہنا تھا کہ مسجد کو جاتے ہوئے ہمیشہ
اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کپڑے ناپاک نہ ہو جائیں۔ہر زبان پر
ایک الگ کہانی تھی۔کن کن کا ذکر کروں ،میرے قلم میں اتنی تاب بھی نہیں ہے۔
پڑھے لکھے لوگوں سے بات کی تو ان کی الگ داستانیں تھی۔ کسی کو جاب نہ ملنے
کی شکایت تو کسی کو علاقہ میں بہتر اسکول نہ ہونے کا شکوہ۔کئی لوگوں نے
بتایا کہ حق اطلاعات ایکٹ کے تحت پوچھے جانے والے سوالات کا بھی گو ل مول
جواب دیا جاتا ہے۔لوگوں کی یہ بھی شکایت تھی کہ صفائی ملازمین کو ئی آٹھ دس
دنوں میں ایک بار آ کر محض خانہ پری کر جاتے ہیں ، ہم لوگوں کے لاکھ کہنے
پروہ نہیں مانتے، اِضافی رقومات کا مطالبہ کیا جاتا ہے وہ بھی پورا کر دیا
جائے تب بھی وقت پر وہ نہیں آتے اور یوں ہفتوں ہفتوں گندگی پڑی رہتی ہے۔
نالی کی سڑاند اور تعفن کی وجہ سے آئے دن ہم نت نئی بیماریوں کے شکار رہتے
ہیں ،اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی قیمت کے ساتھ ساتھ علاج و معالجہ ہمارے
لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہی ہے۔بہت سارے لوگ تو بات کرنے سے ہی کترا
رہے تھے ،گویا خواجہ حیدر علی آتش کی زبان میں وہ کہنا چاہ رہے ہوں۔
چراغِ بزمِ ستم ہیں ہمارا حال نہ پوچھ
جلے تھے شام سے پہلے بجھے ہیں شام کے بعد
اس سلسلہ میں حکومتی ذمہ داران سے بات کی جائے تو وہ مختلف حیلوں بہانوں سے
خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور ساری ذمہ داری ایجنسیوں اور متعلقہ
اداروں کی لاپرواہی پر ڈال دیتے ہیں وہیں جب عوام سے بات کی جائے تو وہ
حکومت کی اندیکھی اور عصبیت پرستانہ رویوں کا رونا روتے ہیں۔ظاہر ہے ایسے
گندگی پھیلنے اور پھیلانے کے لئے جہاں ریاست کے عوام کو بری نہیں کیا جا
سکتا، وہیں ریاستی حکومت اور مقامی بلدیہ اور حکومت کے محکمہ صحت کو بھی
راست طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔لیکن یہاں پر سوال اٹھتا ہے کہ کیا
مقامی انتظامیہ، میونسپل ادارے، اور دیگر ایجنسیاں گندگی کے اس انبار اور
بیماری کی جڑ کے خلاف ایک وسیع مہم نہیں چھیڑ سکتیں؟ نالی اور نالوں کی
صفائی کو لے کر کیا وسیع مہم نہیں چلائی جا سکتی ؟ جس سطح پر وزیر اعلی کی
دیگر علاقوں پر نوازشات ہیں اسی سطح پر اگر ان علاقوں میں بھی حفظان صحت کے
لئے بیداری کی مہم چلائی جائے تو انہیں کامیابی نہیں ملے گی ؟
لیکن سچ تو یہ ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر آنکھیں پھیر لی ہیں ،اگر کسی کو
واقعی نیند آ جائے تو اسے جگایا اور بیدار کیا جا سکتا ہے لیکن اگر کوئی
جان بوجھ کر آنکھیں موند لے تو اسے کبھی بھی بیدار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی
حال حکومت کا ہے ۔وہ چاہتی ہی نہیں یہاں کے مسائل حل کرنا ، ورنہ یہ صورت
حال نہ ہوتی ،لوگ خون کے آنسو نہ رو تے ،بوڑھے کمزور اور ضعیف افراد اپنی
تقدیر کو کوسنے کے علاوہ منتظمین ،حکومت اور اداروں کو برا بھلا نہ کہہ رہے
ہوتے۔افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ اس علاقہ کے مکینوں کو بھی اس کی فرصت
نہیں کہ وہ ناانصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں او ر اپنے حقوق چھین
سکیں۔ظاہر سی بات یہ ہے کہ جب بنیادی اور لازمی سہولیات کے فقدان کے باوجود
عوام کا ایک بڑا طبقہ ذہنی طور پرکسی بیداری مہم کا حصہ بننے کو ہی تیار نہ
ہو، تو چند مٹھی بھر بیدار لوگ کر بھی کیا سکتے ہیں؟
ختم شدہ: |