شب برات کو ہمارے مسلم نوجوانوں نے سیرو تفریح،مٹرگشتی،
پٹاخہ بازی اورہلڑبازی کا ذریعہ سمجھ لیا ہے جو انتہائی بری بات ہے اسلام
میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہمارے مسلم نوجوانوں کی ایسی ہی حرکتوں کی وجہ
سے بہت سارے غیر مسلم یہ سمجھنے لگے ہیں کہ جس رات مسلم نوجوان سڑکوں پر
تیزی سے موٹر سائیکل دوڑائیں، ایک دوسرے پر بازی مارنے کے لیے گاڑی تیزی سے
دوڑاتے ہوئے ماحولیات پر اثر انداز ہوں،گلی کوچوں میں ہلڑ بازی کرتے پھریں،
پٹاخہ بازی کرکے لوگوں کی عبادت اور نیند میں خلل ڈالیں اور چوراہوں پر گپ
شپ کرتے ہوئے نظر آئیں تو سمجھ لو کہ مسلمانوں کی بڑی رات (یعنی شب برات)
آگئی۔اس طرح کی باتیں میرے کئی غیر مسلم دوستوں نے کہی۔میں نے انھیں گرچہ
یہ بات بتائی کہ اسلام میں اس کی کیا حیثیت ہے لیکن ایک بڑے طبقہ کے درمیان
جو چیز ایک مرتبہ ذہن میں نقش کر جائے اس کو مٹانا مشکل ہوتا ہے اور اس کے
نقصانات بھی ہوتے ہیں۔
اخبارات کی رپورٹوں کے مطابق (واضح رہے کہ میں یہاں پر اردو اخبارات کی بات
نہیں کر رہا ہوں دہلی سے شائع ہونے والے درجن بھر سے زائداردو اخبارات میں
سے کسی نے بھی اس خبر کو جگہ نہیں دی وجہ کیا رہی مجھے نہیں پتہ )لیکن ہندی
اور انگریزی اخبارات کے بقول اس موقع پریعنی شب برات پیر کے روز 25جون
کوآدھی رات کے بعد دو ہزار سے زیادہ بائکرس نے دارالحکومت دہلی کے انڈیا
گیٹ سمیت کئی علاقوں میں طوفان بدتمیزی برپاکیا۔ گھر لوٹ رہے لوگ اس ہنگامے
کی وجہ سے سڑکوں پر ہی قید ہو کر رہ گئے۔بائکرس جام میں پھنسی گاڑیوں کے
بونٹ پر کودنے لگے۔ گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے گئے۔ مخالفت کرنے پر لوگوں سے
مارپیٹ کی گئی۔ کاروں اور بائک پر سوار لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ خوف اس
قدر بڑھا کہ لڑکیاں رونے لگیں۔ ایسے حالات کے آگے دہلی پولیس بھی بے بس نظر
آئی۔ فساد مچانے سے روکنے پر پتھراؤکیا گیا جس میں دو پولیس اہلکار زخمی ہو
گئے۔ کئی عورتوں کی بھی پٹائی کی گئی۔ 11 لوگوں کو گرفتار کرنے کے علاوہ
تقریبا سو موٹر سائیکلیں ضبط کر لی گئیں،جبکہ ایک شخص کی موت کی بھی خبر ہے
۔عینی شاہدین کے مطابق، سڑکوں پر خطرناک کرتب بازی اور بدتمیزی کرتے بائکرس
نے گویا شہر کے ایک حصے پر قبضہ کرلیا تھا۔ سڑکوں پر موجود لوگ خود کو خطرے
میں محسوس کر رہے تھے۔پولیس شرارت پسند لڑکوں کے آگے کافی لاچار نظر آرہی
تھی۔
اخبارات کی رپورٹوں پر میں بالکل بھی یقین نہیں کرتا اگر خود اپنی آنکھوں
سے یہ حرکتیں نہ دیکھتا۔جامعہ نگر کو مسلمانوں کاسب سے بڑا علاقہ تصور کیا
جاتا ہے اور یہ بھی کہ یہیں سب سے زیادہ پورے ہندوستان کے پڑھے لکھے ،اہل
علم ،دانشور اور قابل مسلمان رہتے ہیں۔لیکن شب برات کے موقع پر پوری رات
پٹاخوں کی آواز یں آتی رہیں۔وہ بھی اتنی خطرناک کہ مت پوچھئے۔وہ مسلم نو
جوان جو چھوٹے چھوٹے مسلم مسائل کو لے کر بے تاب ہو جاتے ہیں، حق اور انصاف
کی بات کرتے ہیں ایسے موقع پر ان کا ذہن کام کیوں نہیں کرتا۔والدین اور
سرپرست حضرات ان کو کیوں نہیں روکتے۔جامعہ نگر کے قلب میں چار بڑے ہاسپیٹل
ہیں۔ ہولی فیملی ،مہندرا جان ،الشفا اوراسکورٹ۔ وہاں کتنے مریضوں کو ان کی
اس آتش بازی سے پریشانی ہوئی ہوگی۔کتنے بیمار ،ضعیف اور معصوم بچوں کی
نیندیں خراب ہوئی ہوں گی ؟کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی۔یہ صرف آج کی بات
نہیں ہے بلکہ اور بھی شادی بیاہ اور اسی طرح کی دوسری تقریبا ت میں اس قسم
کا غیر اسلامی اور غیر مہذب کام جاری رہتا ہے اور کوئی بھی اس کا نوٹس نہیں
لیتا۔ممبئی میں رہنے والے میرے ایک دوست جناب شوکت پرویزصاحب نے ٹیلی فونک
گفتگو کے دوران بتایا کہ ان کے یہاں بھی اس طرح کی حرکتیں شب برات اور
دوسرے موقعوں پر خوب ہوتی ہیں۔
آخر کہاں جا رہے ہیں ہم؟ کونسا رویہ اختیار کر رہے ہیں ہمارے نوجوان؟یہ کون
سا ثواب کا کام ہے ؟اور اسلام یا مسلمانوں کا اس سے کیا بھلا ہو رہا ہے
؟۔آخر وہ بچے ان حرکتوں کے ذریعہ کون سا اسلامی پیغام عام کرنا چاہتے
ہیں۔ہمارے ائمہ مساجد اور ذمہ داروں کو اس پر غور کرنا چاہئے اور اس کی
اصلاح کا اقدام کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے ا س عمل سے غیر
مسلموں میں نہ صرف غلط فہمیاں پھیلتی ہیں اور اسلام کی شبیہ متاثر ہوتی ہے
بلکہ اس کے دور رس نتائج بھی مرتب ہوتے ہیں اور نیوٹن کے قانون کے مطابق کہ
’’ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے ‘‘جس کے نتیجہ میں دوسروں کو’’ کھل کھیلنے‘‘ کا
موقع مل جاتا ہے۔اور وہ ’’موقع ‘‘کو ’’غنیمت ‘‘جانتے ہوئے کوئی بھی دقیقہ
فروگزاشت نہیں ہونے دیتے۔اور اسی کا فائدہ اٹھا کر انگریزی اور بعض ہندی
اخبارات نے جو رپورٹنگ اور تبصرے کئے ہیں وہ تکلیف دہ ہیں۔ظاہر ہے کہ انھوں
نے اپنے اعتبار سے کوئی غلط بھی نہیں لکھا ہے بلکہ انگریزی اور بعض ہندی
اخبارات نے اسی موقع کا فائدہ اٹھا کر جو باتیں کہی ہیں بہر حال اسے
جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے اس طرح کے کرتب کرتے
ہوئے نوجوانوں کو دیکھا ہے۔
اسی کا فائدہ اٹھاکر دہلی کے لفٹنٹ گورنر جناب تجندر کھنا صاحب کو وشو ہندو
پریشد نے اس پر لگام کسنے اور اسے جہاد و دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہوئے اس
پر اسی قسم کے قوانین لگا کر مسلم نوجوانوں کو سزا دینے کا مطالبہ ہے۔حیرت
کی بات تو یہ ہے کہ بعض خود ساختہ مسلم قائدین نے اس پر احمقانہ اور بصیرت
سے خالی تبصرے بھی کئے ہیں اور بیان بازی کاسلسلہ بھی شروع کر
دیاگیاہے۔بجائے اس کے کہ وہ مسلم نوجوانوں کی تربیت کرتے اور آئندہ انھیں
ایسی حرکتیں نہ کرنے کی ترغیب دیتے ،مسلم بچوں کی حمایت پر یہاں تک کہہ گئے
کہ جب غیر مسلم کرتے ہیں تو کچھ نہیں اور مسلمان کرتے ہیں تو پیٹ میں درد
ہونے لگتا ہے۔ارے بھیا !جو کام غیر مسلم کریں گے چاہے وہ خراب ہی کیوں نہ
ہو ہم بھی کریں گے، یہ کون سی منطق اور کون سا فلسفہ ہے ؟
ان تمام معاملات میں ایک اور بات بھی حیرت انگیز رہی کہ وہ اردو اخبارات جو
مسلمانوں کے ایک ایک مسئلہ پر کڑی نگاہ رکھنے کے دعویدار ہیں ان میں سے کسی
نے بھی اس مسئلہ پر چند سطریں لکھنا مناسب نہیں سمجھا۔کسی اخبار میں رپورٹ
تک نہیں آئی۔اور تو اور مسلم سماج کے کسی بھی مذہبی، سماجی یا سیاسی رہنما
نے اس طرز عمل کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کی۔سب نے چپی سادھے رکھی۔
گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔اور یہ بھی افسوسناک ہے کہ اپنے سماج کے حقوق کیلئے
روز ٹی وی پر اپنے گراں قدر خیالات کا اظہار کرنے والی ملی تنظیموں نے بھی
اس موضوع پر کچھ لب کشائی نہیں کی۔حد تو یہ کہ سیاسی لیڈروں سے لے کر جامع
مسجد کے امام احمدبخاری اور فتح پوری مسجد کے امام مولانا مفتی مکرم احمد
صاحبان بھی چپ رہے۔ہاں ایک بیان مسلم مجلس مشاورت کے صدر ڈاکٹر ظفر الاسلام
خان کی طرف سے دیکھنے کو ملا لیکن اردو اخبارات نے مشاورت کے بیان کو کوئی
خاص اہمیت نہیں دی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انہیں ا پنے معاشرے سے وابستہ نوجوانوں کے
قانون کی دھجیاں اڑانے پر چپ رہنا چاہئے تھا؟ ظاہر ہے، انہیں اس سوال کا
جواب دیریا سویر دینا ہوگا۔ انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔یہاں
والدین اور سرپرستوں کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی ہو گی انھیں اپنے بچوں کو
بتانا ہو گا کہ پٹاخے پھوڑنا، آتش بازی کرنا ،موٹر سائکلوں کی ریس
لگانا،سڑک جام کرنا ،دوسروں پررکیک تبصرہ کرنا، لڑکیوں کو چھیڑنا یہ بہت ہی
سنگین اخلاقی اور قانونی جرم ہے۔ہزاروں کی تعداد میں غیرمسلمین کی نقل کرتے
ہوئے سڑکوں پر موٹرسائیکلوں سے کرتب بازی، مقابلے اور ہڑبونگ مچانا،اپنے
علاقوں میں رات بھر پٹاخے پھوڑنا ایک ایسا عمل ہے جس سے دوسرے انسانوں کو
اذیت ہوتی ہے۔ اور مسلمان تو وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسانوں
کو اذیت وتکلیف نہ پہنچے۔
قرآن مجید میں بھی اس طرح کی خرافات سے بچنے کی سخت الفاظ میں تاکید کی گئی
ہے اور منع کرتے ہوئے کہا گیا ہے: ’’اور بے جا خرچ نہ کرو،بے جا خرچ کرنے
والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا نا شکرا :بنی اسرائیل ‘‘(آیت
نمبر 27 )اسی طرح سے پہلی قوموں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ بنایا تو اللہ
تعالی کے عذاب میں مبتلا ہوئیں ان سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہئے وگرنہ ہم
پر بھی اللہ کا عذاب دور نہیں ،اللہ تعالی نے فرمایا’’اور چھوڑ دو ( اے
محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا
بنا رکھا ہے اور ان کی دنیاوی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا ہے‘‘ ۔
(الانعام آیت نمبر70)
اس لئے میں اخیر میں نوجوانوں سے کہوں گا کہ خدارا ایسی حرکتیں مت کیجیے جس
سے اس دین متین کا تقدس پامال ہواوراسلام کے چہرے پرداغ آئے۔آپ مسلم نوجوان
ہیں تو مسلم ہونے کا ثبوت دیجئے ،لوگوں کی مدد کیجئے ،اسلامی تعلیمات اور
اس کے اصولوں پر عمل کر کے لوگوں کے ذہنوں میں ایک مثبت فکر پیدا کرنے کی
کوشش کیجئے کہ اس سے اسلام کا بھی بھلا ہوگا اور خود آپ کا بھی۔
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف
محمد علم اللہ اصلاحی
شب برات کو ہمارے مسلم نوجوانوں نے سیرو تفریح،مٹرگشتی، پٹاخہ بازی
اورہلڑبازی کا ذریعہ سمجھ لیا ہے جو انتہائی بری بات ہے اسلام میں اس کی
کوئی گنجائش نہیں۔ ہمارے مسلم نوجوانوں کی ایسی ہی حرکتوں کی وجہ سے بہت
سارے غیر مسلم یہ سمجھنے لگے ہیں کہ جس رات مسلم نوجوان سڑکوں پر تیزی سے
موٹر سائیکل دوڑائیں، ایک دوسرے پر بازی مارنے کے لیے گاڑی تیزی سے دوڑاتے
ہوئے ماحولیات پر اثر انداز ہوں،گلی کوچوں میں ہلڑ بازی کرتے پھریں، پٹاخہ
بازی کرکے لوگوں کی عبادت اور نیند میں خلل ڈالیں اور چوراہوں پر گپ شپ
کرتے ہوئے نظر آئیں تو سمجھ لو کہ مسلمانوں کی بڑی رات (یعنی شب برات)
آگئی۔اس طرح کی باتیں میرے کئی غیر مسلم دوستوں نے کہی۔میں نے انھیں گرچہ
یہ بات بتائی کہ اسلام میں اس کی کیا حیثیت ہے لیکن ایک بڑے طبقہ کے درمیان
جو چیز ایک مرتبہ ذہن میں نقش کر جائے اس کو مٹانا مشکل ہوتا ہے اور اس کے
نقصانات بھی ہوتے ہیں۔
اخبارات کی رپورٹوں کے مطابق (واضح رہے کہ میں یہاں پر اردو اخبارات کی بات
نہیں کر رہا ہوں دہلی سے شائع ہونے والے درجن بھر سے زائداردو اخبارات میں
سے کسی نے بھی اس خبر کو جگہ نہیں دی وجہ کیا رہی مجھے نہیں پتہ )لیکن ہندی
اور انگریزی اخبارات کے بقول اس موقع پریعنی شب برات پیر کے روز 25جون
کوآدھی رات کے بعد دو ہزار سے زیادہ بائکرس نے دارالحکومت دہلی کے انڈیا
گیٹ سمیت کئی علاقوں میں طوفان بدتمیزی برپاکیا۔ گھر لوٹ رہے لوگ اس ہنگامے
کی وجہ سے سڑکوں پر ہی قید ہو کر رہ گئے۔بائکرس جام میں پھنسی گاڑیوں کے
بونٹ پر کودنے لگے۔ گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے گئے۔ مخالفت کرنے پر لوگوں سے
مارپیٹ کی گئی۔ کاروں اور بائک پر سوار لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ خوف اس
قدر بڑھا کہ لڑکیاں رونے لگیں۔ ایسے حالات کے آگے دہلی پولیس بھی بے بس نظر
آئی۔ فساد مچانے سے روکنے پر پتھراؤکیا گیا جس میں دو پولیس اہلکار زخمی ہو
گئے۔ کئی عورتوں کی بھی پٹائی کی گئی۔ 11 لوگوں کو گرفتار کرنے کے علاوہ
تقریبا سو موٹر سائیکلیں ضبط کر لی گئیں،جبکہ ایک شخص کی موت کی بھی خبر ہے
۔عینی شاہدین کے مطابق، سڑکوں پر خطرناک کرتب بازی اور بدتمیزی کرتے بائکرس
نے گویا شہر کے ایک حصے پر قبضہ کرلیا تھا۔ سڑکوں پر موجود لوگ خود کو خطرے
میں محسوس کر رہے تھے۔پولیس شرارت پسند لڑکوں کے آگے کافی لاچار نظر آرہی
تھی۔
اخبارات کی رپورٹوں پر میں بالکل بھی یقین نہیں کرتا اگر خود اپنی آنکھوں
سے یہ حرکتیں نہ دیکھتا۔جامعہ نگر کو مسلمانوں کاسب سے بڑا علاقہ تصور کیا
جاتا ہے اور یہ بھی کہ یہیں سب سے زیادہ پورے ہندوستان کے پڑھے لکھے ،اہل
علم ،دانشور اور قابل مسلمان رہتے ہیں۔لیکن شب برات کے موقع پر پوری رات
پٹاخوں کی آواز یں آتی رہیں۔وہ بھی اتنی خطرناک کہ مت پوچھئے۔وہ مسلم نو
جوان جو چھوٹے چھوٹے مسلم مسائل کو لے کر بے تاب ہو جاتے ہیں، حق اور انصاف
کی بات کرتے ہیں ایسے موقع پر ان کا ذہن کام کیوں نہیں کرتا۔والدین اور
سرپرست حضرات ان کو کیوں نہیں روکتے۔جامعہ نگر کے قلب میں چار بڑے ہاسپیٹل
ہیں۔ ہولی فیملی ،مہندرا جان ،الشفا اوراسکورٹ۔ وہاں کتنے مریضوں کو ان کی
اس آتش بازی سے پریشانی ہوئی ہوگی۔کتنے بیمار ،ضعیف اور معصوم بچوں کی
نیندیں خراب ہوئی ہوں گی ؟کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی۔یہ صرف آج کی بات
نہیں ہے بلکہ اور بھی شادی بیاہ اور اسی طرح کی دوسری تقریبا ت میں اس قسم
کا غیر اسلامی اور غیر مہذب کام جاری رہتا ہے اور کوئی بھی اس کا نوٹس نہیں
لیتا۔ممبئی میں رہنے والے میرے ایک دوست جناب شوکت پرویزصاحب نے ٹیلی فونک
گفتگو کے دوران بتایا کہ ان کے یہاں بھی اس طرح کی حرکتیں شب برات اور
دوسرے موقعوں پر خوب ہوتی ہیں۔
آخر کہاں جا رہے ہیں ہم؟ کونسا رویہ اختیار کر رہے ہیں ہمارے نوجوان؟یہ کون
سا ثواب کا کام ہے ؟اور اسلام یا مسلمانوں کا اس سے کیا بھلا ہو رہا ہے
؟۔آخر وہ بچے ان حرکتوں کے ذریعہ کون سا اسلامی پیغام عام کرنا چاہتے
ہیں۔ہمارے ائمہ مساجد اور ذمہ داروں کو اس پر غور کرنا چاہئے اور اس کی
اصلاح کا اقدام کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے ا س عمل سے غیر
مسلموں میں نہ صرف غلط فہمیاں پھیلتی ہیں اور اسلام کی شبیہ متاثر ہوتی ہے
بلکہ اس کے دور رس نتائج بھی مرتب ہوتے ہیں اور نیوٹن کے قانون کے مطابق کہ
’’ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے ‘‘جس کے نتیجہ میں دوسروں کو’’ کھل کھیلنے‘‘ کا
موقع مل جاتا ہے۔اور وہ ’’موقع ‘‘کو ’’غنیمت ‘‘جانتے ہوئے کوئی بھی دقیقہ
فروگزاشت نہیں ہونے دیتے۔اور اسی کا فائدہ اٹھا کر انگریزی اور بعض ہندی
اخبارات نے جو رپورٹنگ اور تبصرے کئے ہیں وہ تکلیف دہ ہیں۔ظاہر ہے کہ انھوں
نے اپنے اعتبار سے کوئی غلط بھی نہیں لکھا ہے بلکہ انگریزی اور بعض ہندی
اخبارات نے اسی موقع کا فائدہ اٹھا کر جو باتیں کہی ہیں بہر حال اسے
جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے اس طرح کے کرتب کرتے
ہوئے نوجوانوں کو دیکھا ہے۔
اسی کا فائدہ اٹھاکر دہلی کے لفٹنٹ گورنر جناب تجندر کھنا صاحب کو وشو ہندو
پریشد نے اس پر لگام کسنے اور اسے جہاد و دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہوئے اس
پر اسی قسم کے قوانین لگا کر مسلم نوجوانوں کو سزا دینے کا مطالبہ ہے۔حیرت
کی بات تو یہ ہے کہ بعض خود ساختہ مسلم قائدین نے اس پر احمقانہ اور بصیرت
سے خالی تبصرے بھی کئے ہیں اور بیان بازی کاسلسلہ بھی شروع کر
دیاگیاہے۔بجائے اس کے کہ وہ مسلم نوجوانوں کی تربیت کرتے اور آئندہ انھیں
ایسی حرکتیں نہ کرنے کی ترغیب دیتے ،مسلم بچوں کی حمایت پر یہاں تک کہہ گئے
کہ جب غیر مسلم کرتے ہیں تو کچھ نہیں اور مسلمان کرتے ہیں تو پیٹ میں درد
ہونے لگتا ہے۔ارے بھیا !جو کام غیر مسلم کریں گے چاہے وہ خراب ہی کیوں نہ
ہو ہم بھی کریں گے، یہ کون سی منطق اور کون سا فلسفہ ہے ؟
ان تمام معاملات میں ایک اور بات بھی حیرت انگیز رہی کہ وہ اردو اخبارات جو
مسلمانوں کے ایک ایک مسئلہ پر کڑی نگاہ رکھنے کے دعویدار ہیں ان میں سے کسی
نے بھی اس مسئلہ پر چند سطریں لکھنا مناسب نہیں سمجھا۔کسی اخبار میں رپورٹ
تک نہیں آئی۔اور تو اور مسلم سماج کے کسی بھی مذہبی، سماجی یا سیاسی رہنما
نے اس طرز عمل کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کی۔سب نے چپی سادھے رکھی۔
گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔اور یہ بھی افسوسناک ہے کہ اپنے سماج کے حقوق کیلئے
روز ٹی وی پر اپنے گراں قدر خیالات کا اظہار کرنے والی ملی تنظیموں نے بھی
اس موضوع پر کچھ لب کشائی نہیں کی۔حد تو یہ کہ سیاسی لیڈروں سے لے کر جامع
مسجد کے امام احمدبخاری اور فتح پوری مسجد کے امام مولانا مفتی مکرم احمد
صاحبان بھی چپ رہے۔ہاں ایک بیان مسلم مجلس مشاورت کے صدر ڈاکٹر ظفر الاسلام
خان کی طرف سے دیکھنے کو ملا لیکن اردو اخبارات نے مشاورت کے بیان کو کوئی
خاص اہمیت نہیں دی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انہیں ا پنے معاشرے سے وابستہ نوجوانوں کے
قانون کی دھجیاں اڑانے پر چپ رہنا چاہئے تھا؟ ظاہر ہے، انہیں اس سوال کا
جواب دیریا سویر دینا ہوگا۔ انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔یہاں
والدین اور سرپرستوں کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی ہو گی انھیں اپنے بچوں کو
بتانا ہو گا کہ پٹاخے پھوڑنا، آتش بازی کرنا ،موٹر سائکلوں کی ریس
لگانا،سڑک جام کرنا ،دوسروں پررکیک تبصرہ کرنا، لڑکیوں کو چھیڑنا یہ بہت ہی
سنگین اخلاقی اور قانونی جرم ہے۔ہزاروں کی تعداد میں غیرمسلمین کی نقل کرتے
ہوئے سڑکوں پر موٹرسائیکلوں سے کرتب بازی، مقابلے اور ہڑبونگ مچانا،اپنے
علاقوں میں رات بھر پٹاخے پھوڑنا ایک ایسا عمل ہے جس سے دوسرے انسانوں کو
اذیت ہوتی ہے۔ اور مسلمان تو وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے انسانوں
کو اذیت وتکلیف نہ پہنچے۔
قرآن مجید میں بھی اس طرح کی خرافات سے بچنے کی سخت الفاظ میں تاکید کی گئی
ہے اور منع کرتے ہوئے کہا گیا ہے: ’’اور بے جا خرچ نہ کرو،بے جا خرچ کرنے
والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا نا شکرا :بنی اسرائیل ‘‘(آیت
نمبر 27 )اسی طرح سے پہلی قوموں نے اپنے دین کو کھیل تماشہ بنایا تو اللہ
تعالی کے عذاب میں مبتلا ہوئیں ان سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہئے وگرنہ ہم
پر بھی اللہ کا عذاب دور نہیں ،اللہ تعالی نے فرمایا’’اور چھوڑ دو ( اے
محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا
بنا رکھا ہے اور ان کی دنیاوی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا ہے‘‘ ۔
(الانعام آیت نمبر70)
اس لئے میں اخیر میں نوجوانوں سے کہوں گا کہ خدارا ایسی حرکتیں مت کیجیے جس
سے اس دین متین کا تقدس پامال ہواوراسلام کے چہرے پرداغ آئے۔آپ مسلم نوجوان
ہیں تو مسلم ہونے کا ثبوت دیجئے ،لوگوں کی مدد کیجئے ،اسلامی تعلیمات اور
اس کے اصولوں پر عمل کر کے لوگوں کے ذہنوں میں ایک مثبت فکر پیدا کرنے کی
کوشش کیجئے کہ اس سے اسلام کا بھی بھلا ہوگا اور خود آپ کا بھی۔
ختم شدہ: |