ابھی ہم پشاور کے گرجا گھر میں ہونے والے افسوس ناک
دھماکے میں غمگین ہی تھے کہ دوسرا دھماکہ قصہ خوانی بازار میں ہو گیا،ایک
ہی خاندان میں جب 18 لاشیں پہنچی ہو گی کیا عالم ہو گا،کتنی سانسیں رک گئی
ہو گی،کیسا لمحہ ہو گا ظاہر اس کا اندزہ تو وہی کرسکتے ہیں ،جو متاثر ہوتے
ہیں،بیسیوں زندہ انسان آن ہی آن میں موت کی نیند سلا دیے گے،دوسروں کی جنگ
میں بلاوجہ کودنے کا انجام اتنا بھیانک، شاید اس ڈکٹیٹر کو بھی اس کا
اندازہ نہ ہو اہو گا ،جو چند ڈالر وں کی وجہ سے اپنے کندھے پر لگے بیج بھی
بھول بیٹھا تھا،جس نے یہ بھی سوچنا گورہ نہ کیا تھا کہ ہماری تا ریخ کیا
تھی،بس ایک ہوس تھی جس کی خاطر اس نے پل بھر میں پوری قوم کا سودا کر لیا
تھا،اور ہمیں ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا کہ ہم میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت
بھی ختم ہو گی،کون ہمیں مار رہا ہے، ہم خود کشمکش کا شکار ہیں، شایدامریکہ
شاید طالبان ،نہیں ، کونسے طالبان ،پاکستانی یا افغانی ،اچھے یا برے ؟شایدبھارت،ممکن
ہے اسرائیل کی شرارت ہو، شاید القاعدہ کی پلاننگ ہو،پتہ کسی کو کچھ
نہیں،ہوا میں تیر چل رہے ہیں ،ہمیں خود بھی پتا ہوتا ہے کہ یہ طفل تسلیاں
ہیں،اصل بات یہ ہے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ ہمیں مار کون رہا ہے بس اور شاید
کہ کبھی پتہ بھی نہ چل سکے۔،اور چلے بھی کیسے ہم پتہ کرنا جو نہیں چاہتے۔
عالمی دنیا میں ہم دہشت گرد ہیں،بھارت جیسا ملک ہمیں کہتا ہے کہ پاکستان
دہشت گردی کا مرکز ہے،مر بھی ہم رہے،لاشیں ہماری اٹھ رہی ہیں،ڈرون میں ہم
مارے جا رہے ہیں ،بچے ہمارے یتیم ہو رہے ہیں،خاندان ہمارے اجڑ رہے ہیں،اور
صفائیاں بھی ہم پیش کر ہے ہیں،ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بن گی ہے،ہر جگہ ہم
شک کی نگا ہ سے دیکھے جا تے ہیں،ہمارا جرم صرف مسلمان اور پاکستانی ہونا
ہے،ہم اپنے پاکستانیوں سے مذاکرات کی کو شش کرتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہونے
دیے جاتے،چند ڈالروں کے عوض پورے ملک کو گروی رکھ لیا گیا،اپنے ہم وطنوں پر
اسلحہ تان لیا گیا،کیا ملا ہمیں؟لاشیں؟بدامنی؟ذلت ورسوائی؟اور اوپر ہمارے
حکمران لوگ ،ملک جس طرح بھی چل رہا ہو،نہ ان کے خزانے میں کمی آتی ہے ،دہشت
گردی سے متاثرہ لوگ ہوں یا زلزلہ زدگان امداد کے انتظار میں تڑپتے رہیں پھر
بھی ان کے بینک بیلنس میں آپ کمی نہیں دیکھیں گے،اضافہ ہی ہوتا رہتا
ہے،عوام بیچاری تڑپ رہی ہے ،حکمران تسلیاں دے رہے ہیں-
اﷲ اﷲ کر کے مذاکرات کی باتیں چلی ہیں،بڑے زور وشور سے اجلاس بلایا
گیا،ادھر مذاکرات میں کچھ سنجیدگی آئی اور وہاں تیسری قوت سر گرم
ہوئی،پشاور میں دھماکے کر کے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ طالبان کر رہے ہیں
ابھی جنگ جاری ہے،اور وہاں ان کے ہاں ڈرون کر کے ان کو پیغام دیا جا رہا ہے
کہ مذاکرات ممکن نہیں،دشمن ہنس رہا ہے ،ہم دم بخود ادھر ادھر بغلیں جھانک
رہے ہیں،کون دشمن کون دوست کچھ پتہ نہیں ،اور ہمارا دوستی اور دشمنی کا
معیا ر ملاحظہ ہو،طالبان ملک کے اس لیے دشمن قرار دیے جاتے ہیں کہ وہ آئین
کو نہیں مانتے،اور اس سے ملکی سالمیت کو خطرہ ہے،اس لیے یہ ٹھہرے ہمارے
دشمن،اب ہمارے وزیر اعظم صاحب کا بیان سنیں جو انہوں نے امریکہ میں کہا کہ
امریکہ ڈرون اٹیک بند کرے یہ پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے،اورامریکہ
ٹھہرا ہمار ادوست،یعنی ایک گروہ اگر سالمیت کے لیے خطرہ ہے تو وہ دشمن، اور
دوسرا خطرہ ہے تو وہ دوست،فرق کیا ہے آپ کی نظر میں ان کا،دوستی اور دشمنی
کا معیار کیا ہے؟ہم عوام کیا سمجھیں؟کہ امریکہ کے پاس ڈالر ہے اور طالبان
کے پاس نہیں ،یہی معیار ہے؟؟حضور والا بہت ہو گی سیاست ،بہت ہو گے
بیانات،پہلے دو بار وزیر اعظم بن کر بہت بیانات کر لیے،کچھ عوام کا بھی
سوچیں،ہمت کریں عوام آپ کے ساتھ ہے،جرات کا مظاہرہ کریں،اب ضرورت کوئی جرات
مندانہ قدم اٹھانے کی ہے،بیانات تو آپکو بھی بھول جاتے ہوں گے ،عملی کام کا
وقت ہے،مصلحتوں کو بالائے طاق رکھیں،ہمت کریں،اور جو مذاکرات کا جو قدم
اٹھایا ہے اس میں مزید تاخیر مت کریں،اور مذاکرات کا عمل شروع کریں ،ورنہ
عوام اسی طرح لاشیں اٹھاتی رہیں گی ،تیسری قوت اپنا کام کر جائے گی،اور یوں
آپ ایک اور موقع گنوا بیٹھیں گے،جو شایدبہت بڑا پچھتاوا بن جائے،دوستی اور
دشمنی کا معیار بھی واضح کریں،تاکہ لوگوں کو فرق تلاش کرنے میں مشکل نہ ہو۔ |