سامراجی قوتوں کی معاون بن کراقوام متحدہ اپنی ساکھ کھو
چکی ہے وہ کیسے اس سوال کا جواب آپ کو کالم کے آخر میں مل جائے گا مگر سب
سے پہلے قرضوں میں جکڑے ہوئے غریب عوام کے حکمرانوں کی بیرون ملک عیاشیوں
کی تفصیل ز را ملاحظہ فرمالیں کہ راہبروں کے بھیس میں کیسے کیسے راہزن
پاکستانیوں کا خون چوسنے کے لیے آئے اور پھر چلے بھی گئے مگر نہ انکے بعد
والوں نے ان سے کوئی سبق سیکھا اور نہ ہی موجودہ حکمرانوں نے مگر آپ زرا
غریب عوام پر پیپلز پارٹی کے 5سالہ دور اقتدارمیں حکمرانوں کی سرکاری خرچ
پر آنیاں اور جانیاں زرا ملاحظہ فرمائیں کہ سابق صدر آصف علی زر داری سمیت
دو سابق وزراء اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے 133 غیر ملکی
دوروں پر 2ارب 40 کروڑ سے زائد رقم قومی خزانے سے اڑا دی ، سابق صدر زرداری
نے اس دوران سرکاری خرچ پر دبئی کے 16نجی دورے بھی کر ڈالے،گیلانی بھی
پیچھے نہ رہے بطور وزیراعظم برطانیہ کے 2نجی دورے کیے،راجہ پرویز اشرف بھی
اپنے 9 ماہ کے اقتدار میں حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے 8 بیرونی
دورے کر کے قومی خزانے سے 40 کروڑوں روپے سے زائد خرچ کر ڈالے، صدر کے
2008کے دورہ سعودی عرب میں 31رکنی وفد نے ان کے ہمراہ سفر کیا جن میں وفاقی
وزرائے اور بیوروکریٹس کی9بیویاں بھی ہمراہ تھیں جبکہ وزیر اعظم یوسف رضا
گیلانی کے 2008کے دورہ سعودی عرب میں 39رکنی وفد میں ان کے 2بھائی ان کی
بیویاں، ایک بیٹی، ایک پوتے اور دیگر قریبی عزیزوں نے بھی سرکاری خرچ پر
سفر کیا سابق صدر آصف علی زر داری نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں 82 غیر
ملکی دورے کیے جن میں ان کے دوبئی کے 16نجی دورے تھے جبکہ دیگر تمام دورے
سرکاری نوعیت کے تھے۔ 2008میں ان کے دورہ سعودی عرب میں 31رکنی وفد ان کے
ہمراہ تھا جس میں وفاقی وزراء،ارکان اسمبلی اور بیوروکریٹس سمیت ارکان وفد
کی بیگمات بھی شریک تھیں۔ وفد میں ڈپٹی سپیکر کی اہلیہ، وزیر خارجہ شاہ
محمود قریشی کی اہلیہ، رحمان ملک کی اہلیہ، مشیر خزانہ کی اہلیہ، چیئرمین
نیب کی اہلیہ، ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی اہلیہ، سیکرٹری خارجہ، سیکرٹری
پٹرولیم اور ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ کی اہلیہ شامل تھیں۔ صدر کے اکثر غیر
ملکی دوروں میں سابق وزیر دفاع چوہدری احمد مختار نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ
شرکت کی۔ ان کے برطانیہ کے ایک نجی دورے میں ان کے پریس سیکرٹری فرحت اﷲ
بابر بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ شریک ہوئے۔ صدر نے 2008 میں 7،2009میں
20،2010 میں 14، 2011میں 22، 2012 میں 23 اور 2013 میں 6 غیر ملکی دورے کیے
جن پر مجموعی طور پر ایک ارب 31کروڑ سے زائد کے اخراجات آئے۔ اس طرح پیپلز
پارٹی کے دور اقتدار میں 2 وزراء اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز
اشرف نے تقریباً ایک ارب روپے کے 51 غیر ملکی دورے کیے۔ وزیر اعظم نے 2008
میں 39 رکنی وفد کے ہمراہ سعودی عرب کا دورہ کیا جس میں وفاقی وزراء، ارکان
اسمبلی اور بیورو کریٹس سمیت ارکان وفد کی بیگمات نے بھی شرکت کی۔ مسلم لیگ
(ن) کی خواتین ارکان نزہت صادق اور طاہرہ اورنگزیب بھی وفد کے ہمراہ تھیں
جبکہ ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت اور اے این پی کی خورشید بیگم نے اپنے
خاوندوں کے ہمراہ دورے میں شرکت کی۔ دورے میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی
اہلیہ عزت بانو، وزیر اعظم کی صاحبزادی خصیٰ بتول، وزیر اعظم کے فرزند موسیٰ
گیلانی، وزیر اعظم کے پوتے اسفند یار، وزیر اعظم کے عزیز مطب علی شاہ کی
اہلیہ عقیدت زہرہ، احمد مختار کی اہلیہ، پرویز اشرف کی اہلیہ ، جہانگیر بدر
کی اہلیہ نے بھی سرکاری خرچ پر سفر کیا۔ وزیر اعظم گیلانی نے 2008 میں چین
کا دورہ کیا جس میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر، ان کی اہلیہ رضا تاثیر اور
بیٹی شہر بانو تاثیر بھی وزیر اعظم کے ہمراہ تھیں۔2009میں ان کے مصر کے
دورے کے دوران (ن) لیگ کی رکن اسمبلی انوشہ رحمان بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
وزیر اعظم گیلانی نے 2008 میں 7، 2009 میں 5، 2010 میں 9، 2011 میں 16 اور
2012 میں 6 دورے کیے جبکہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے جون 2012 سے مارچ
2013 کے 9ماہ ماہ کے دور اقتدار میں 8غیر ملکی دورے کیے۔
اب آتے ہیں اقوام متحدہ کی طرف جوسامراجی قوتوں کی معاون بن کراقوام متحدہ
اپنی ساکھ کھو چکی ہے اقوام متحدہ کا 66سالہ کردار اپنے منشور کی نفی کرتا
ہے قوموں کے حقوق کی برابری،انسانوں کی بہتری کیلئے بین الاقوامی
دوستی،اقتصادی،سماجی اورثقافتی تعاون کے فروغ کا حامل ادارہ آج سامراجی
قوتوں کے جارحانہ عزائم اور مظلوم و محکوم عوام پر جارحیت سمیت ان تمام غیر
قانونی قبضوں کو تحفظ فراہم کئے ہوئے ہے جن کی وجہ سے عالمی امن مسلسل خطرے
سے دو چار چلا آرہا ہے : یو این اوکی بجائے ایک غیر جانبدار ادارے کا قیام
دنیا کی اہم ضرورت ہے چوبیس اکتوبر 1945کو اقوام متحدہ معرض وجود میں آئی
اس سلسلے میں دنیا کے پچاس ممالک کے نمائندوں نے انتہائی سوچ و بچار کے بعد
جو منشور و مقاصد تیارکئے ان کا لب لباب یہ تھا کہ اقوام متحدہ آنے والی
نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچائے گی اور دنیا بھر میں امن وسلامتی کے قیام کو
ممکن بنائے گی۔انسانوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ چھوٹی وبڑی قوموں کے حقوق کی
برابری،انسانوں کی بہتری کیلئے بین الاقوامی دوستی، اقتصادی،سماجی
اورثقافتی تعاون کا فروغ اس کا اولین فرض ہوگا۔لیکن اقوام متحدہ کا65 سالہ
کردار اپنے منشور اور مقاصد کی نفی کرتا ہے یو این او نے سامراجی قوتوں کے
جارحانہ عزائم اور مظلوم و محکوم عوام پر جارحیت سمیت ان تمام غیر قانونی
قبضوں کو تحفظ فراہم کرنا شروع کردیا جن کی وجہ سے عالمی امن مسلسل خطرے سے
دو چار چلا آرہا ہے ا یو این اوکی بجائے ایک بااختیار اور غیر جانبدار
ادارے کا قیام دنیا کی اہم ضرورت ہے۔جو کسی کے زیر اثر نہ ہو اور نہ ہی
کوئی قوت ویٹو پاور رکھتی ہو آپس میں کسی قسم کا مذہبی،علاقائی،رنگ و
نسل،قومیت کا تعصب نہ ہو تمام ممالک کے لوگ سر اٹھا کر عزت اور امن سے ترقی
کریں |