آج بڑے دنوں بعد پھر وہی
پاکستانی سیاست اور اس کی گندگی اور ہمارےچند سیاسی گنج ہائے گراں مایہ
یعنی لیڈران حضرات عرف جمہوریت باز اور ان کے کارناموں پہ قلم گھسیٹ رہا
ہوں جن کے کارنامے سن کر کانوں کو ہاتھ لگانے کا عمل اور توبہ کا لفظ بہت
چھوٹا لگتا ہے مگر یہی ہمارے لیڈران ہیں اور یہی ہماری گندی سیاست کی حقیقت،
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی، محترم قائرین دراصل بات یہ ہے کہ
الیکشن سے پہلے قائد عوامی، لیڈر روحانی، شیخ السیاست اور پیر جمہوریت جناب
میاں محمد نواز شریف صاحب کا یہ بیان سن سن کر کان پگ گئے کہ ہمیں واضع
اکثریت دو، ہمیں بھاری مینڈیٹ دو، ہمیں بیساکھیوں سے مستثنیٰ حکومت دینا ۔
ہمیں اپاہج حکومت مت دینا کہ مفاہمت زدہ حکومت کا کوئی فائدہ نہیں اور پھر
دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں عوام نے آپ حضرت کو خوب ووٹ ڈالا (دھاندلی والا
موضوع الگ ہے) مگر یہ جب بھاری مینڈیٹ اور واضع اکثریت کی حکومت بن گئی تو
وہی مفاہمت پالیسی اور ایسی تقدیر بدلی کہ پہلے سو دن میںہی عوام کو بجو
بنا دیا کہ جیسے ضروریات زندگی پاکستانیوں پہ حرام قرار پائیں ،مجھے گن گن
کر کوئی ایسی شئے بتاؤ کہ جس کی قیمت نہ بڑھی ہو بلکہ یہ تو روز کا شیڈول
بن گیا ۔ ڈالر کو ہی دیکھ لو کہ پہلے سو دن میں اٹھانوے روپے سے ایک سو دس
تک جا پہنچا دیا کہ واضع جمہوریت بہترین انتقام ہے ، چند اہم ترین ضروریات
زندگی پر نظر ڈالیں تو آٹا سینتیس روپے فی کلو سے اڑتالیس روپے فی کلو ، سی
این جی چوہتر روپے فی کلو سے چوراسی روپے فی کلو ، موبائل ٹیکس سترہ فیصد
سے پچیس فیصد، جی ایس ٹی ایک فیصد اضافہ سے سترہ فیصد اور سب سے بڑا ظلم
کبیر ہ پیٹرول بجلی اور ڈالر کیساتھ ہوا ،پیٹرول اٹھانوے روپے سے فی لیٹر
سے ایک سو پندرہ روپے فی لیٹر اور بجلی پانچ روپے فی یونٹ سے ڈائریکٹ بارہ
یونٹ یعنی لگتا ہے کہ عوام کی تقدیر بدل چکی اور واقعی آج کے اس دورمیں دو
سو یونٹ کیا ہوتے ہیں ؟ کہ جب کپڑے سلنے والی مشین سے لیکر کپڑے استری کرنے
والی استری تک ہر شہ بجلی پر چلتی ہو ۔آہ! یہ عوام کی جلی ہوئی قسمت ۔ بجلی
کی قیمتوں میں ایسا تاریخ شکن اضافہ معصوم ،غریب، بےچارہ اور ذہنی و فکری
نابالغ عوام کیساتھ سر عام زیادتی نہیں تو اور کیا ہے؟ اور یہ محدود سسٹم
تو صرف ڈھکوسرا ہے اور باقی رہے یہ شیر شیر کرنے والے چند جیالے تو ان کی
سمجھ کوئی اگلے چھ ماہ میں درست ہو جائیگی کہ جب کھانے کو روٹی نہ ملے،
پہننے کو کپڑے نہ ملے، بچوں کو تعلیم نہ ملے، خود کو روزگار نہ ملے، تو یہ
شیر پن باہر نکلتے دیر نہیں لگے گی ۔ چی جسٹس صاحب نے کہا کہ وزیراعلیٰ
بادشاہ نہیں کہ جسے چاہے اونے پونے داموں زمینیں دے دے ۔ جناب چی جسٹس صاحب
کی زود رسی اور جرات کو ست سلام اور عزت مآب کا یہ بھی کہنا تھا کہ بجلی کی
قیمتوں میں اضافہ غیر قانونی ہے تو مجھے کوئی بتائے تو سہی کہ یہاں قانون
کونسی شہ ہے؟ پاکستان کے ملکی خزانے پر صاکے ڈالنا اور روزانہ کی بنیادوں
پر وارداتیں کرنا قانونی ہے؟ یا ملکی دولت لوٹ لوٹ کر اپنے سوئس اکاؤنٹ
بھرنا قانونی ہے۔ سو دنوں میں پانچ سو ارب ڈالرز کے نوٹ چھاپ دینا قانونی
ہے یا غریب ،معصوم، ادھموری اور ذہنی مریض ہوچکی نیم پاگل عوام کو بندر کی
طرح نچانا اور بھیلنے میں ڈال اس کا رس نکالناقانونی ہے؟ یہاں قانونی اور
غیر قانونی کیا ؟ یہاں سب ڈرامے بازیاں اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ خود دیکھ
لو کہ ایک ڈکٹیٹر کے ساتھ معاہدہ کرکہ ملک سے فرار ہونے والے آج جمہوریت کی
مضبوطی کے راگ لگانے لگے۔ چار سو اٹھارہ ملین ڈالرز کی کرپشن عظیم کرنے
والے آج تقدیریں بدلنے کے عدوے کرنے لگے۔ چلو مان لیا کہ انیس سو نناوے میں
پاکستان دن دو سو گناہ رات چار سو گنا ترقی کررہا تھا نندی پور میں دودھ کی
نہربہتی تھی اور بمبوالی راوی بیدیان (لاہور نہر) میں شہد کی نہر بہتی تھی۔
عام آدمی دن میں پانچ وقت کھانا کھاتا تھا ۔ ملک کے نوے فیصد بچے اسکول
جاتے تھے، کسی کو پتہ بھی نہیں تھا کہ رشوت کس شہ کا نام ہے، روزگار اتنا
زیادہ تھا کہ نوجوان کم پڑھ رہے تھے، ملکی ادارے کب بیچے جارہے تھے وہ تو
بس مذاق تھا، عدالتیں رات و رات انصاف دے دیتی تھیں، انقلابی زرعی پالیسی
آگئی تھی، یکساں نظام تعلیم جاری ہوگیا تھا، ملاوٹ ختم ہوگئی تھی، جعل سازی
اور جعلی دوائیں ببی اور بکنی بند ہوگئیں تھیں، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے
تھے، یہ پیلی ٹیکسی اسکیم نے ملکی خذانے کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا،
سپریم کورٹ پہ کوئی حملہ نہیں ہوا تھا اور یہ کرپشن نام کی کوئی شہ نہیں
تھی بلکہ کرپشن لفظ انگریزی ڈکشنری میں ابدی نیند سو رہا تھا مگر پچھلے سو
دنوں میں اپنی بھاری مینڈیٹ کی بھاری حکومت کا کوئی ایک ڈھنگ کا کام تو
بتادو اور بد تمیزی کی انتہا دیکھو کہ ڈالر ایک سو دس کا ہوگیا، پٹرول اور
بجلہ کہاں پہنچ گئے لیکن بیان بازی اب بھی نہیں تھمی اور آخر میں خیبر
پختونخوا اسمبلی کا بھی ذکر کرلیں کہ جہاں کل پرسوں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا
جس میں واہیاتی اپنے عروج پر تھی یہ رکن اسمبلی کہلائے جانے والے لوگ کہ جو
عوام سے ووٹوں کی بھیک لیکر اسمبلی پہنچتے ہیں اور پھر آتے ہی بدمعاشیاں
اور غنڈہ گردیاں شروع ، پان دس گارڈ لے لیئے، ایک آدھ قبضہ مافیا بنالی،
پانچ سات سو جیالے رکھ لیئے اور پتہ نہیں کیا کیا یعنی مختصر یہ کہ عوام کی
گردن پر سور ہوگئے ، منہ سے کہتے نہیں تھکتے کہ ہم اسمبلیوں کا انتہائی
احترام کرتے ہیں تو وہ کون سے لفظ ہیں جو یہ لوگ اسمبلیوں میں استعمال نہیں
کرچکے، کسی نے سہی کہا ہے کہ یا بے غیرتی تیرا آسرا!! یہ اسمبلی ہے کسی کے
نانا کی جائے پیدائش نہیں، یا کسی کے باپ کی جاگیر نہیں کہ ہینکیاں
پھینکیاں کرو۔ مجھ کو تو سمجھ نہیں آتی کہ اس قوم نے کونسا اجتماعی گناہ
کرلیا ہے کہ خدا ہمیں جس کی سزا دے رہا ہے اور یہ زرداری، میاں چوہدری اور
پیر جی ہی ہمارا مقدر ہیں کہ کوئی جناح جیسا خالص آدمی ہماری بد نصیب قوم
اور بد نصیب سیاست کو نصیب ہی نہیں ہوا !!۔۔۔٭٭٭ ٭٭٭ پاکستان زندہ باد،
پاکستان پائندہ باد٭٭٭٭٭٭ |