بھارت نے ایک بار پھر اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ
کرتے ہوئے دہشت گردی کا الزام پاکستان پر تھوپ کر پاک بھارت مذاکرات کو بھی
دہشتگردی کو ختم کرنے کے ساتھ نتھی کردیا ہے۔ بھارتی صدر پرناب مکھرجی نے
ترکی کے معروف اخبار ”ٹوڈیز زمان“ کو انٹرویو میں پاکستان پر سرحد پار دہشت
گردوں کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پاکستان سے مطالبہ
کیا کہ دہشت گردوں نے آپ کی سرزمین پر جو دہشت گردی کے کیمپ قائم کر رکھے
ہیں ان کو ختم کیا جائے۔ پاکستان جب تک اپنی سر زمین پر دہشت گردوں کے کیمپ
اور دہشت گردی کا انفراسٹرکچر ختم نہیں کرتا تب تک اس کے ساتھ جامع مذاکرات
میں پیشرفت ممکن نہیں۔ پاکستان دہشت گردی انفراسٹرکچر کے خاتمے کے حوالے سے
بھارت کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی پاسداری کرے۔پرناب نے کہا توقع ہے نواز
شریف منموہن کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کریں گے۔ موجودہ ماحول میں پاکستان
کے ساتھ مذاکرات آگے بڑھنا مشکل ہیں۔ نواز شریف کی جانب سے بھارت کے لیے
خیرسگالی کے جذبے کا خیر مقدم کرتے ہیں، پاکستان کے ساتھ تجارت، سرمایہ
کاری اور معاشی شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا چاہتے ہیں، بھارت پاکستان کے
ساتھ پر امن، دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات کا خواہاں ہے اور اس کے لیے
دہشت گردی اور تشدد سے پاک ماحول کی ضرورت ہے۔ جب تک دہشت گردی اور خوف کا
ماحول پیدا کیا جاتا رہا تو اس صورت میں آپ مذاکرات میں دوسرے نئے امور پر
کیا بات کریں گے۔ پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر سنجیدہ کوششوں کی ضرورت
ہے کیونکہ بھارت کے خلاف زیادہ تر دہشت گردی کی کارروائیاں پاکستان کے زیر
کنٹرول علاقوں سے ہوتی ہیں۔ مذاکرات سے پہلے مناسب ماحول پیدا کیا جائے۔
اصل لائن آف کنٹرول ہے جہاں سیز فائر کا معاہدہ ہے، اس کی اکثر خلاف ورزی
کی جاتی ہے۔ بھارتی صدر نے کہا کہ شملہ معاہدہ وہی ٹائم فریم ہے جس کے تحت
ہم تمام مسائل مذاکرات کے حل کر سکتے ہیں تاہم اس کے لیے امن ضروری ہے۔
بھارت سرحد پار دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پر عزم ہے۔
بھارتی میڈیا نے بھی پاکستان مخالف پروپیگنڈا جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ
بھارت کے خلاف سرد جنگ پاکستان کی پالیسی اور اس کا وژن ہے، رواں سال کے
آخر میں سبکدوش ہونے والے پاکستانی آرمی چیف بھارت مخالف ایجنڈا اور وژن
اپنے جانشین کو سونپ کر رخصت ہوں گے۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز نے
پاکستانی پالیسیوں اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ اور
لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ موسم سرما کے آغاز
سے قبل سرحدوں پر دراندازی کے واقعات میں اضافہ اس بات کا عندیہ ہے کہ
پاکستانی فوج اپنی بھارت مخالف سرگرمیوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہی ہے۔
اخبار میں شائع ایک رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی آرمی چیف جنرل
اشفاق پرویز کیانی اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل فوج کا ایجنڈا اپنے آنے والے
جانشین کو منتقل کرنے پر غور کررہے ہیں اور یقینی طور پر کشمیر اور بھارت
مخالف سرد جنگ کا ایجنڈا منتقل کرکے ہی رخصت ہوں گے۔ اخبار کے مطابق جنرل
کیانی ممکنہ طور پر وزیراعظم نواز شریف کو یہ پیغام بھی دے رہے ہیں کہ
سویلین لیڈر شپ نہیں بلکہ فوجی قیادت ہی کشمیر کے ایجنڈے پر ڈکٹیٹ کرے
گی۔جبکہ بھارت کے اپنے ہی سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ وی کے سنگھ نے بھارت
کی مرکزی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ پاک بھارت سرحد
پر کشیدگی کی صورتحال کی ذمے دار بھارت کی مرکزی حکومت ہے۔وہ فوج کو اپنی
مرضی سے نہیں چلنے دے رہی۔
بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر سلمان بشیر نے کہا ہے کہبھارت کو پاکستان
کے خلاف بے بنیاد الزامات لگانے سے باز رہنا چاہیے کیونکہ اس سے دوطرفہ
تعلقات کو نقصان پہنچا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا
ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات علاقے میں امن، ترقی
اورخوشحالی کے لیے بہت اہم ہیں۔ پاکستان بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا
خواہاں ہے کیونکہ یہ دونوں ملکوںکے عوام کے بہترین مفاد میں ہے۔ سلمان بشیر
نے دونوں ملکوںکے درمیان کشمیر سمیت تمام حل طلب معاملات کے حل کے لیے
اعتماد سازی کے اقدامات اور بات چیت کی ضرورت پرزور دیا۔ دوسری جانب ہفتے
کے روز سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ بلوچستان اور دیگر
علاقوں میں بھارتی مداخلت کے ثبوت بھارت کو فراہم کر دیے ہیں۔ بلوچستان میں
بھارتی مداخلت کو ہر فورم پر اٹھایا جائے گا۔ بھارت واویلا اور الزام تراشی
کی بجائے مذاکرات کی طرف قدم بڑھائے، دہشت گردی سے بھارت کم پاکستان زیادہ
متاثر ہے۔ بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات مذاکرات کے ذریعے
حل کرنے کے خواہاں ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی سے متعلق بھارت کو اپنی
تشویش سے آگاہ کیا ہے، اگر بھارت کے پاکستان کے بارے میں تحفظات ہیں تو
ہمیں ان سے زیادہ تحفظات ہیں لیکن الزام تراشی سے معاملات حل نہیں ہوتے۔
خلوص نیت سے ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں مذاکرات سے مسائل حل ہوں تو زیادہ بہتر
ہے۔
اس حوالے سے وزیراعظم نے بھی ہر فورم پر بات کی ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی
کے بھارت کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت ہیں اور یہ ثبوت جنہیں فراہم کرنے تھے،
فراہم کر دیے ہیں، ان ثبوتوں کو ہر فورم پر اٹھایا جائے گا۔ بھارت کے ساتھ
کشمیر، پانی اور دہشت گردی سمیت تمام معاملات ہر فورم پر اٹھائیں گے۔ انہوں
نے کہا کہ مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کا کوئی نعم البدل نہیں، مذاکرات سے
ہی اختلاف ختم ہوتے ہیں ،بھارت سے مسائل مذاکرات سے ہی حل ہونے چاہئیں۔
بھارت الزامات کی بجائے بات چیت کا عمل شروع کرے، کشمیر سرکریک اور سیاچن
کے مسائل کے حل کے لیے آگے بڑھے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے معاملے پر
پاکستان کو بھارت سے تحفظات ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے نیویارک میں اپنے
بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ سے ملاقات میں یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ بلوچستان
میں مداخلت کے ثبوت متعلقہ بھارتی حکام کو دے چکے ہیں، اس حوالے سے ثبوت
سینٹ اجلاس میں بھی پیش کیے جا چکے ہیں۔ بھارت کے ساتھ مذاکرات کا کوئی
متبادل نہیں، مذاکرات ہونے چاہئیں کیونکہ مذاکرات سے ہی بات آگے بڑھے گی۔
دہشت گردی جتنی بھارت کے لیے تشویشناک ہے اس سے زیادہ پاکستان کے لیے بھی
باعث تشویش ہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی سے مسئلے کا حل نہیں نکلے گا۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دونوں ممالک کو مل کر سنجیدگی سے کام کرنا ہو
گا۔ وزیراعظم نوازشریف نے منموہن سنگھ سے کہا تھا کہ مذاکرات کے ذریعے
کشمیر سمیت تمام مسائل حل کرنے چاہئیں۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ
خان نے کہا ہے کہ بلو چستان اور خیبر پختونخوا میں خود کش حملے بھارتی
بدنام زما نہ خفیہ ایجنسی”را “کروا رہی ہے، بھارت کی بدنام زمانہ ایجنسی
”را“ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حالات خراب کر رہی ہے، حکو مت کے پاس
اس کے ٹھوس ثبوت ہیں۔پاکستان کے خلاف بھارت کا وا ویلا بے بنیاد ہے۔ |