نریندر مودی بھارت میں
وزیر اعظم کا امیدوار
متنازعہ سیاست دان نریندر مودی بھارتیہ جنتہ پارٹی کے اگلے برس کی انتخابی
مہم کے سربراہ ہیں۔ ان کے وزیر اعظم بننے کے امکانات بھی ہیں۔کیونکہ بھارت
میں انتخابی مہم کی سربراہی پانے کا مطلب ہے کہ وہ 2014 کے پارلیمانی
انتخابات میں وزارت عظمیٰ کے لیے بی جے پی کے امیدوار ہوں گے۔ نریندر مودی
اپنی الیکشن مہم میں کامیابی کے لئے ایک بار پھر نفرت کی سیاست شروع کردی
ہے۔ وہ گزشتہ ایک دہائی سے بھی زائد عرصے سے اقتصادی لحاظ سے خوشحال ریاست
گجرات کے وزیر اعلیٰ چلے آرہے ہیں۔ بی جے پی 2014 کے انتخابات میں کامیاب
رہے گی یا نہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ اس انتخاب میں پاکستان کے خلاف
نفرت کا زہر ضرور پھیلائے گی۔ وزارت عظمیٰ کے منصب کی جانب سفر میں مودی کا
ایک بڑھتا ہوا قدم ہے اس کے باوجود کہ بہت سے بھارتی باشندے انہیں 2002 کے
مسلمان مخالف فسادات کے حوالے سے براہ راست ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ نریندر
مودی بھارت بھر میں اپنی جماعت اور اپنی ذات کی حمایت کی مہم چلا تو رہے
ہیں لیکن گجرات فسادات میں مسلمانوں کے اجتمائی قتل کے سائے ان کے ساتھ
رہیں گے۔ مودی کے ایک ریاستی وزیر کو عدالت نے فسادات بھڑکانے کے الزام میں
عمر قید کی سزا سْنا رکھی ہے تاہم مودی پر کوئی الزام ثابت نہیں کیا
جاسکا۔گجرات میں مسلمانوں کی بڑی تعداد بستی ہے۔ جو آج تک مودودی کے جرائم
کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہے۔ 62 سالہ نریندر مودی کے ہدف پر بائیں بازوں
کی جانب جھکاؤ رکھنے والی حکمراں کانگریس پارٹی ہے، جس کے نوجوان رہنما
راہول گاندھی کی مقبولیت میں گزشتہ کچھ عرصے سے کمی دیکھی جارہی ہے۔ مودی
خود کو ایک تاجر دوست اصلاح پسند کے طور پر پیش کرتے ہیں جو کانگریس کو
شکست دینے کے بعد دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریت کے باسیوں کی معاشی تقدیر
بدلنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ نئی دہلی میں کانگریس حکومت کو بدعنوانی کے متعدد
اسکینڈلز نے بھی خاصا متاثر کیا، جنہیں بی جے پی نے سیاسی حربے کے طور پر
خوب اچھالا۔
اگرچہ جنتا پارٹی میں ان کے سیاسی گرو 82 سالہ لال کرشنا اڈوانی اور اوما
بھارتی جیسے سینیئر سیاست دان وزارت عظمیٰ کے لیے مودی کی نامزدگی کے مخالف
ہیں تاہم مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق پارٹی کا مجموعی مزاج مودی کے حق میں
ہے ۔وزیر اعظم نوازشریف کی طرف سے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کو مبینہ
طور پر دیہاتی عورت کہے جانے پر مودودی نے نواز شریف کے خوب لتے لیئے ہیں۔
بھارتی سیاست میں اس حوالے سے گرما گرمی جاری ہے۔مودی نے اس واقعہ پر ایک
جلسہ میں خوب گرم تقریر کی۔لیکن اب بی جے پی کے رہنما اور نامزد وزیراعظم
نریندر مودی کی رائی کا پہاڑ بنا کر پوائنٹ اسکورنگ کی کوشش ان کے گلے پڑ
گئی ہے، بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے نریندر مودی کی باتوں پر ردعمل
دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم نوازشریف نے ایسی کوئی بات نہیں کی
اور اگر ایسا کچھ کہا بھی ہے تو دیہاتی عورت ہونا کوئی گالی نہیں ہے۔بھارتی
وزیر خارجہ نے تو اپوزیشن رہنما نریندر مودی کو مکمل احمق قرار دیتے ہوئے
کہا کہ یوں لگتا ہے کہ مودی صاحب کو دیہاتی خواتین پسند نہیں، ان کے لیے ہر
دیہاتی عورت ایک گالی کے مترادف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی نہ تو اخبار
پڑھتے ہیں اور نہ ہی ٹی وی دیکھتے ہیں، انہوں نے اپنے گرد چند احمق اکٹھے
کر رکھے ہیں جن کی لکھی تقریریں مودی طوطے کی طرح پڑھ دیتے ہیں۔بھارتی وزیر
خارجہ نے ہندو انتہا پسند رہنما پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مودی کے
قول اور فعل میں ہمیشہ تضاد رہا ہے، ان کے اندر حقائق کو جاننے کی صلاحیت
کی کمی ہے، وہ نہ تو سیاست کو سمجھتے ہیں اور نہ کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔وزیر
اعظم نوازشریف کی جانب سے من موہن سنگھ کو دیہاتی عورت کہے جانے کی خبر
منظر عام پر آنے کے بعد نریندر مودی نے اسے بھارتی وزیراعظم کی بے عزتی کے
مترادف قرار دے کر کافی واویلہ مچایا تھا، دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف
کے اس بیان کی بعد میں تردید بھی کی جا چکی ہے۔ دوسری جانب نریندر مودی
درندہ ہے۔نریندر مودی قاتل ہے۔نریندر مودی کو پھانسی دی جانی چاہئے۔نریندر
مودی مسلمانوں کی نسل کشی کا ذمہ دار ہے۔نریندر مودی گجرات فساد کا اصل
چہرہ ہے۔ جیسی شہ سرخیاں اور سرخیاں بھارتی اخبارات میں شائع ہوتی ہیں ،جو
گزشتہ 10 سالوں عوام پڑھتے اور دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ سرخ سرخ رنگ کی یہ
لائنیں اپنے رنگ سے ہی انسانی خون کی المناک داستان سناتی نظر آتی ہیں۔
بھارتی جریدے ’’نئی دنیا‘‘ نے مودی سے 25 سوالات کیے تھے۔ اس مضمون کی سرخی
کچھ اس طرح سے تھی۔ نریندر مودی ’’نئی دنیا‘‘ کے 25 سوال،جن کا جواب فیصلہ
کرے گا کہ مودی انسان ہے یا شیطان؟ اور آگے ایک بڑا سوالیہ نشان۔مودی کا
رویہ اخبارات اور صحافیوں سے بھی بڑا جا رحانہ ہے۔ مودی کے بارے میں کہا
جاتا ہے کہ وہ انٹرویو نہیں دیتے ہیں اور اگر کوئی ان سے کسی میٹنگ میں
براہ راست سوال بھی کرے تو وہ بری طرح سے ناراض ہوجاتے ہیں، سوالنامہ تک
اٹھاکر پھینک دیتے ہیں اور فوراً وہاں سے چل دیتے ہیں۔ مودی کسی بھی جرنلسٹ
کو انٹرویو نہیں دیتے ہیں۔ گجرات فسادات کے حوالے سے یہ بات بھی ریکارڈ کا
حصہ ہے کہ مودی پولیس کے بڑے بڑے افسروں کو یہ ہدایات دے رہے تھے کہ ہندؤں
کو غصہ کے اظہار کا موقع دیا جائے اور یہ ایک دو نے نہیں کئی اہم عہدیداران
نے میڈیا کو بتائی ہے۔ گجرات کے اہم آئی پی ایس آفیسر سنجیو بھٹ نے تو کھلم
کھلا مودی کو فساد کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ بھارت میں مودی کی مسلم دشمنی
روز روشن کی طرح عیاں ہے جس کو انہوں نے کبھی نہیں چھپایا۔ انھوں نے تو
یہاں تک کیا کہ گجرات فساد کے متاثرین کو اور ان کی مدد کرنے والوں کو
ڈرایا دھمکایا تھا ۔گجرات کے فساد کی کہانی، کسی شواہد کی محتاج نہیں ہے
اور جس طرح اس میں مسلم نسل کشی کی گئی اور خود نریندر مودی نے جس طرح اس
میں حصہ داری نبھائی اسے سب جانتے ہیں۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والا مودی اب
خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دس سال بعد اب مودی کہتے ہیں
کہ اگر میں قصوروار ہوں تو مجھے پھانسی پر لٹکا دو،لیکن جس شخص کے خلاف
گزشتہ دس برسوں میں ایف آئی آر تک درج نہیں ہوسکی ،اسے کون پھانسی دے گا؟
مودی کو جب بھی جیسے بھی موقع ملا ہے ،اس نے مسلمانوں کو زک پہنچانے میں
کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مودی کے دل میں مسلمانوں کے لئے بے پناہ نفرت ہے ۔
انھیں گجرات کے فساد کے لئے نہ کوئی پچھتاوا ہے اور نہ وہ معافی مانگیں گے۔
مودی کو بھارت میں ’اسٹیٹ اسپانسرڈٹیرارزم‘ کا بانی کہا جاتا ہے۔ ان کے دور
حکومت میں مسلمانوں کوٹارگٹ کرکے مارا گیا۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر
مودی کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ ایک بہترمنتظم، اور
ایک فیصلہ کن ذہنیت کے سیاسی رہنما ہیں۔ بہت دنوں سے یہ چرچا عام ہے کہ
مودی ہی بھارت کا بیڑہ پار کریں گے۔ میڈیا اور قوم پرست تجزیہ کاروں نے ایک
ایسا تاثر قائم کر دیا ہے کہ خود نریندر مودی اپنے بارے میں بھرم میں مبتلا
نظر آنے لگے ہیں۔مودی گجرات میں دوہزار دو کے قتل عام اور اس کے بعد ریاست
کے مسلمانوں اور عیسائی اقلیتوں کو ریاست کے اصل دھارے سے الگ کرنے سے قبل
ایک اوسط درجے کے غیر محسوس سیاست داں تصور کیے جاتے تھے۔ لیکن ایک بار
اقتدار ملنے کے بعد مودی نے پورے نطام پر اپنی آہنی گرفت مضبوط کی اور بہت
شعوری طور پر انہوں نے دو پہلوؤوں پر توجہ مرکوز کی ہے۔گجرات پہلے سے ہی
بھارت کی سب سے بڑی صنعتی ریاست رہی ہے۔ مودی نے اسے صنعتکاروں کے لیے اور
بھی بہتر بنا دیا۔مودی نے اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ بھارتی معاشرے اور
بھارت کی سیاست میں ہندو قوم پرستی کو بہت برجستہ اور کھل کر فروغ دیا۔ ان
کی اقتصادی ترقی کی بنیاد نفرتون پر قائم رہی ہے۔ مودی کی سیاست کا محور
نفرت ہے۔ یہ نفرت کبھی سیکولر سیاسی نظام کے خلاف نظر آئے گی تو کبھی بھارت
کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف۔ مودی کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ کوئی بھی تقریر ،
کوئی بھی بیان کسی کو نشانہ بنائے بغیر پورا نہیں ہو تا۔ مودی کی مذہبی
نفرت کی سیاست سے کانگریس اس قدر خوفزہ رہی ہے کہ گزشتہ دس برس سے پارٹی نے
انتخابات میں اپنے مسلم رہنماؤں کو انتخابی مہم تک کے لیے نہیں اتارا ہے۔
نریندر مودی کا ہندو نظریاتی غرور اس حقیقت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ان کی
موجودہ کابینہ میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے اور اسمبلی کے انتخابات میں ایک
بھی مسلم کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے۔بڑے بڑے سیاسی تجزیہ کار اور انتخابی پنڈت
گجرات میں نریندر مودی کی زبردست فتح کی پیش گوئیاں کررہے ہیں۔بھارت میں آج
کل یہ بحث زوروں پر ہے کہ کیا مودی ملک کے اگلے وزیر اعظم بنیں گیں۔ کیا وہ
وزیر اعظم بننے کے بعد پورے ملک میں ہندوئیت کے اپنے نظریے کو نافذ کریں
گے؟بھارت کی حکمراں جماعت کانگریس بھی مودی کی اس لابی کی اعصابی سیاسی جنگ
کے آگے مغلوب نظر آ رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی اور
منفی سیاست کے رحجان سے گھبراہٹ میں مبتلا ہیں۔ کانگریس گجرات میں مودی کی
منفی اور نفرت پرمبنی سیاست کا منہ توڑ جواب دینے کے بجائے اسی کے پیرائے
میں خود کو پیش کرنے کوشش کرتی رہی ہے۔
منفی سیاست اور مذہب پرمبنی قوم پرستی بھارت کی سیکولر جمہوریت کے لیے ایک
بہت بڑا چیلنج ہے۔ مودی اسی جمہوریت کی پیداوار ہیں لیکن وہ بلا شبہ جمہوری
اصولوں پر یقین نہیں رکھتے۔ گجرات میں مودی کی ممکنہ جیت اور قومی سطح پر
ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت تمام جمہوریت پسندوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
بھارت کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے حالیہ دنوں میں جنگی جنون کو ہوا دے
کر پاکستان میں ان بھارتی شردھالوؤں کے پروپیگنڈے کی قلعی کھول دی ہے، جو
اٹھتے بیٹھے پاکستان کو مذہبی تنگ نظری اور اردو پریس کو جنگجوئی کا نعرہ
دیتے اور بھارتی سیاستدانوں کے علاوہ میڈیا کو امن پسند، روشن خیال اور ذمہ
دار قرار دیتے نہیں تھکتے۔ انہیں اندرون و بیرون ملک ہر پیش آنے والے ہر
واقعہ میں پاکستانی اسبیلشمنٹ، فوج اور خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ نظر آتا ہے
یا نان سٹیٹ ایکٹرز کی کارستانی اور حالیہ واقعات نے ثابت کیا ہے کہ
پاکستان دشمنی آج بھی بھارت میں مقبول موضوع ہے اور قومی سوچ کا مرکز و
محور اس لئے میڈیا ان جذبات کو ہوا دے رہا ہے۔ مودی اور ان کے حواریوں کو
یہی فضا اچھی لگتی ہے۔ ہندو جوتشی، نجومی اور پنڈت بھی کئی سال سے شور مچا
رہے ہیں کہ چین کے تعاون سے پاکستان 2013میں بھارت پر حملہ کر سکتا ہے،
2011 میں بھارتی اکنامک گروتھ رکنے کی پیش گوئی سچ ثابت ہونے پر ان جوتشیوں
اور پنڈتوں پر ضعیف الاعتقاد، توہم پرست، بھارتی فوجی و سیاسی قیادت کا
اعتماد بڑھ گیا ہے ا ور وہ سمجھتی ہے کہ اگر اس ٹولے نے جنگ کی مہورت نکالی
ہے تو درست ہی ہو گی۔ پنڈتوں نے 2013میں ہمالیہ کے پہاڑوں سے ایک مہارشی کے
اترنے کی پیش گوئی کی ہے جو بھارتی فوج کی قیادت کرے گی۔ اگر بھارت نے ان
جوتشیوں کے بقول 2013ء میں پاکستان کی اندرونی صورتحال سے فائدہ نہ اٹھایا
تو پھر پاکستان ناقابل تسخیر ہو سکتا ہے اور بھارت کے لئے بہت بڑا خطرہ۔
شادی بیاہ اور بچے کی پیدائش کے معاملے میں جوتش پر یقین رکھنے والے بھارتی
آخر ان باتوں کو سچ کیوں نہ مانیں؟ 2013 کے بھارت کی انتخابی مہم میں بھی
پاکستان دشمنی اہم انتخابی موضوع ہے اور کانگریسی حکومت نریندر مودی جیسے
فرقہ پرست، مسلمان و پاکستان دشمن مدمقابل کا توڑ سرحدی کشیدگی، پاکستانی
سفارت کار پر حملے اور دوستی بس کے سامنے رکاوٹوں کی صورت کر رہی ہے، لیکن
اگر مسلمانوں کو کتے کے پلے سے تشبیہ دینے والے نریندر مودی نے پاکستان
دشمن عوامی جذبات کے فائدہ اٹھا کر کامیابی حاصل کر لی۔ تو بھارتی جوتشیوں
کی پیش گوئیوں کے مطابق پاک بھارت تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی؟ من موہن سنگھ
نواز شریف ملاقات سے پاکستان کو کیا حاصل ہو گا؟ اگر چہ مودی پر گجرات میں
سنہ 2002 کے فسادات کے سلسلے میں الزامات لگے ہوں لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی
میں انہیں وزیر اعظم کے عہدے کا سب سے مضبوط دعویدار مانتے ہوئے انہیں پہلے
بی جے پی کی انتخابی مہم کمیٹی کا چیئرمین نامزد کردیا گیا۔اسے نریندر مودی
کی چمتکار ہی کہا جائے گا کہ چاہے گجرات اسمبلی انتخابات ہو یا پھر دوسرے
انتخابات وہاں ان کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی سے زیادہ مودی کی شخصیت حاوی
رہتی ہے۔
نریندر مودی سنہ 1950 میں گجرات میں مہسانا کے واڈنگر علاقے میں پیدا ہوئے۔
انھوں نے علم سیاست میں ایم اے کیا۔ بچپن سے ہی ان کا جھکاؤ ہندو شدت پسند
تنظیم آر ایس ایس کی جانب تھا۔ گجرات میں آر ایس ایس کی بنیاد کافی مظبوط
مانی جاتی ہے۔
وہ 1967 میں 17 سال کی عمر میں احمد آباد پہنچے اور اسی سال وہ آر ایس ایس
کے رکن بن گئے۔ اس کے بعد 1974 میں وہ نرمان آندولن یعنی تعمیر نو تحریک
میں شامل ہوگئے۔
اس طرح فعال سیاست میں آنے سے پہلے مودی کئی سالوں تک آر ایس ایس کے پرچارک
یا مبلغ رہے۔سنہ 1980 کی دہائی میں جب مودی گجرات کی بی جے پی اکائی میں
شامل ہوئے تو کہا جانے لگا کہ کہ پارٹی کو مذہبی ہندو تنظیموں کی انجمن سے
براہ راست فائدہ حاصل ہوگا۔وہ سال 1988-89 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی گجرات
اکائی کے جنرل سیکریٹری بنائے گئے۔ نریندر مودی نے بی جے پی کے سینر رہنما
لال کرشن اڈوانی کی 1990 کی سومناتھ سے ایودھیا جانے والی رتھ یاترا کے
انعقاد میں اہم کردار ادا کیا تھا۔اس کے بعد وہ بی جے پی کی جانب سے کئی
ریاستوں کے انچارج بنائے گئے۔
مودی کو 1995 میں بی جے پی کا قومی سکریٹری اور پانچ ریاستوں کی انتخابی
پارٹی انچارج بنایا گیا۔ اس کے بعد 1998 میں انہیں جنرل سکریٹری ( تنظیمی
امور ) بنایا گیا۔
اس عہدے پر وہ اکتوبر 2001 تک رہے۔ لیکن 2001 میں یشو بھاء پٹیل کو وزیر
اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے بعد مودی کو گجرات کی قیادت سونپی گئی۔ اس وقت
گجرات میں زلزلہ آیا تھا اور زلزلے میں 20 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوگئے
تھے۔مودی کے اقتدار سنبھالنے کے تقریبا پانچ ماہ بعد ہی گودھرا ریل حادثہ
ہوا جس میں کئی ہندو کارسیوک ہلاک ہوگئے۔ اس کے فوراً بعد فروری 2002 میں
گجرات میں مسلمانوں کے خلاف فسادات بھڑک اٹھے۔ان فسادات میں حکومت کے مطابق
ایک ہزار سے زیادہ اور برطانوی ہائی کمیشن کی ایک آزاد کمیٹی کے مطابق
تقریبا 2000 افراد ہلاک ہو گئے۔ ان میں زیادہ تر مسلمان تھے۔جب اس وقت کے
وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے گجرات کا دورہ کیا تو انہوں نے انہیں
’راجدھرم ادا کرنے‘ انھیں وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے فرض ادا کرنے کا مشورہ
دیا جسے واجپئی کی ناراضگی کے علامت کے طور پر دیکھا گیا۔مودی پر یہ الزام
لگے کہ وہ فسادات کو روکنے میں ناکام رہے اور انہوں نے اپنے فرض کی ادائیگی
نہیں کی۔ جب بھارتیہ جنتا پارٹی میں انہیں عہدے سے ہٹانے کی بات اٹھی تو
انہیں اس وقت کے نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی اور ان کے حامیوں کی طرف
سے حمایت ملی اور وہ عہدے پر برقرار رہے۔گجرات میں ہونے والے فسادات کی بات
کئی ممالک میں اٹھی اور مودی کو امریکہ جانے کا ویزا نہیں ملا۔ برطانیہ نے
بھی دس سال تک ان سے اپنے تعلقات منقطع رکھے۔مودی پر الزام لگتے رہے لیکن
ریاست کی سیاست پر ان کی گرفت مسلسل مضبوط ہوتی گئی۔ گجرات بی جے پی میں اب
کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آتا جو ان کو چیلنج کرنے کے بارے میں سوچ بھی
سکے۔اب تو بی جے پی کے قومی سطح کے لیڈر بھی کھلے عام مودی کی تنقید کا
خطرہ نہیں مول لیتے ہیں۔مودی ایک اچھے مقرر مانے جاتے ہیں اور انہیں آر ایس
ایس کی بھی حمایت حاصل ہے۔انہیں گجرات میں خوشحالی اور ترقی کا کریڈٹ بھی
دیا جاتا ہے، حالانکہ بہت سے لوگ اس سے متفق نہیں ہیں۔بھارت کے کچھ بڑے
صنعت کار بھی ان کی پالیسیوں کی کھل کر تعریف کرتے ہیں۔ مسلسل تین بار
اسمبلی کے انتخابات میں کامیابی ان کی مقبولیت پر مہر لگاتی ہے۔ بی جے پی
کی کئی سابق اتحادی سیاسی پارٹیاں فسادات کا حوالہ دیتے ہوئے مودی کو بی جے
پی کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے
تیار نہیں ہیں۔جہاں مودی پر 2002 کے فسادات کو نہ روکنے کے الزام لگے ہیں،
وہیں ان کی حکومت میں وزیر کے عہدے پر رہنے والی مایا وڈنان انہی وجوہات سے
28 سال کی سزا بھگت رہی ہیں۔مودی کے ناقدین کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ
فسادات میں کردار کی وجہ سے ہی مودی نے وڈنان کو وزیر کے عہدے سے نوازا
تھا۔ مودی کے خلاف فسادات سے متعلق کوئی الزام کسی عدالت میں ثابت نہیں
ہوئے ہیں۔تاہم، خود مودی نے بھی کبھی فسادات کے بارے میں نہ تو کوئی افسوس
ظاہر کیا ہے اور نہ ہی کسی طرح کی معافی مانگی ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ
فسادات کے چند مہینوں کے بعد ہی جب دسمبر 2002 میں ریاست میں اسمبلی
انتخابات میں مودی نے کامیابی حاصل کی تھی تو ان کو سب سے زیادہ فائدہ ان
علاقوں میں ہوا تھا جو فسادات سے سب سے زیادہ متاثر تھے۔اس کے بعد 2007 کے
اسمبلی انتخابات میں انہوں نے گجرات کی ترقی کو ایشو بنایا اور پھر کامیابی
حاصل کی۔پھر 2012 میں بھی نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی گجرات اسمبلی
انتخابات میں فاتح رہے اور اب مرکز میں اپنا سیاسی سکہ چلانے کی راہ پر
گامزن ہیں مودی پالیسی سے زیادہ انفرادی رہنما پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
ابتدائی دنوں میں وہ اپنی ہر تقریر میں گاندھی فیملی کو نشانہ بنایا کرتے
تھے۔ وہ سونیا گاندھی کے اطالوی نڑاد ہونے پراکثر نسلی اور شخصی طنز کیا
کرتے تھے۔
کانگریس پارٹی آزادی کے بعد کے بیشتر سال اقتدار میں رہی ہے۔اختلاف جمہوریت
کا بنیادی پہلو ہے لیکن کانگریس سے مودی کی نفرت جمہوریت کی حدوں کو پار کر
گئی ہے۔ وہ انتخابات میں کانگریس اور اس کے سیاسی نظریات کو شکست دینے کی
بات نہیں کرتے وہ کانگریس کو ہی ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔مودی اپنے
حامیوں سے ایک ایسے بھارت کی تعمیر کی بات کر رہے ہیں جس میں کانگریس کا
وجود نہیں ہوگا۔ کانگریس کے وجود کو ہی ختم کرنا ان کا سب سے بڑا نعرہ
ہے۔یہ ایک خطرناک سیاسی روش ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے پروگراموں اور
پالیسیوں کی بنیاد پر اقتدار میں آنے کے لیے انتخاب لڑتی ہیں کسی سیاسی
جماعت کو تباہ کرنے کے لیے نہیں۔
آنے والے دنوں میں مودی یقیناً اپنے پروگرام اور پالیسیاں عوام کے سامنے
پیش کریں گے لیکن ابھی تک ان کی روش منفی رہی ہے۔ منفی سیاست سے بہت زیادہ
دنوں تک عوام کی حمایت نہیں حاصل کی جا سکتی۔نریندر مودی کو یہ بات ذہن
نشین کر لینی چاہیے کہ سیاسی جماعتیں کسی کے ختم کرنے سے نہیں ختم ہوتی، وہ
اپنے فرسودہ اور منفی نظریات سے فنا ہوتی ہیں۔مودی اپنے انتظامی معاملات
میں بھلے ہی ایک باصلاحیت منتظم رہے ہوں لیکن سیاست میں خواہ وہ ان کی اپنی
پارٹی رہی ہو یا حریف جماعتیں ان کی روش ہمییشہ منفی رہی ہے۔یہ دور نفرتوں
کی سیاست کا نہیں مثبت سیاست کا ہے۔ جماعتیں اپنی کارکاردگی، رہنماؤں کی
شخصیت اور پروگراموں کی بنیاد پر جانچی پرکھی جائیں گی۔ مودی کو کامیاب
ہونے کے لیے جمہوریت کا یہ گر بہت جلد سیکھنا ہوگا ورنہ وہ خود اپنی منفی
سیاست کی نذر ہو جائیں گے۔ |