کہتے ہیں گزرا ہوا وقت واپس نہیں
آتا لیکن اگر آپ کے پاس تھوڑا وقت ہوتا دیکھیں 1991اور 2013کے کیلنڈر کے
تمام دن اور تاریخ ایک ہی وقت آتے ہیں اور اسی طرح میاں محمد نواز شریف
1991میں بھی وزیر اعظم تھے اور اب بھی ۔ تاریخ پر نظر دہرائی جائے تو کراچی
میں جناح پور نقشہ کی سازش پر ایم کیو ایم کے خلاف ریاستی آپریشن ہوا اور
اب بھی وہی صورتحال سامنے آرہی ہے لیکن صرف آپریش کا نام تبدیل ہوا ہے ۔
ایم کیو ایم پر الزامات کی بارش برسنا شروع ہوگئی ہے اور خدا نہ کرے کہ تیز
آندھی اور چمکتی بجلی کے ساتھ شہر قائد کی گلیاں خون کی ندیوں کی طرح سرخ
ہوجائیں۔ چند ماہ پہلے ایم کیو ایم سند ھ حکومت میں شامل ہو نے کے لئے
ریفرنڈم کروارہی تھی کہ قائد تحریک الطاف حسین بھائی پر ایک ڈرامائی فلم
تیار ہوئی اور پاکستان کے میڈیا پر آج یا کل گرفتاری کی باتیں دعوے کیساتھ
کی جانے لگی پر حالات ایسے بدلے پتہ بھی نہ چلا اور اگر شاید سندھ حکومت
میں شمولیت اختیار کر جاتی تو میڈیا پر پی پی پی ڈیل کا تماشہ رچایا
جاتا۔ایم کیو ایم نے 1991میں مرکز میں کراچی کی صورتحال پر فوج بلانے کا
مطالبہ کیا تھا اور اب بھی فوج بلانے کا مطالبہ کیا ہے کہ کراچی میں بھتہ
مافیا، دہشت گردں ، قبضہ گروپوں اور سٹریٹ کرائم اور بدامنی پھلانیوالو ں
کا خاتمہ کیا جائے اور اس کے بعد اگلے ہی روز وزیر داخلہ چوہدری نثار علی
خان نے جناح پور نقشہ کی جگہ مہاجر ری پبلیکن آرمی کا انکشاف کر دیا۔ آپ کو
یاد ہو کے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیساتھ حافظ سعید قتل کا الزام لگایا
گیااور اسی طرح سابق شپنگ وزیر بابر غوری پر نیٹو کنٹینر ز کے انکشاف ہوا ۔
وزیر اعظم پاکستان نے کراچی میں اسی حوالے سے آل پارٹی کانفرنس کی اور
کراچی آپر یشن کی نگرانی ڈی جی رینجر ز کو سونپی اور تما م پارٹیوں کو
مشاورت میں ساتھ رکھا لیکن یار رہے۔اس بات پر کوئی شک نہیں کہ کراچی کو اس
حالا ت پر پہنچانے کے لئے تمام سند ھ کی سیاسی ،مذہبی جماعتوں کے کچھ ذمہ
داراں کا ہاتھ ہے لیکن جس پارٹی کا کراچی کے حالات خراب کرنے میں جتنا ہاتھ
ہیں اتنے ہاتھ کاٹ دے جائیں ۔ اور ہاں اب ڈر ہے کہ گورنر اور سندھ حکومت کو
پچانے کے لئے کوئی نئی سیاست کا آغاز نہ ہوجائے جو چند ہی د نوں میں سامنے
آئیں گے او ر اس وقت میں وزیر اعظم نوازشریف اور مسلم لیگ ن کی اعلی قیادت
اس پر غور کررہی ہے ۔ کوئی بھی جماعت مینڈیٹ کی وجہ سے پارلیمنٹ میں ہے۔
صرف کسی ایک جماعت کے خلاف سازش اس کے مینڈیٹ کو نہ ماننے کے مترادف ہے اور
یہ عوام اور پارلیمنٹ کی توہین ہے جسکی سزا کا تعین سپریم کورٹ نے آج تک نہ
کیا ۔ |