تحریر : محمد اسلم لودھی
میاں شہباز شریف کا شمار ایسے پاکستانی سیاسی رہنماؤں اور بہترین منتظمین
میں ہوتا ہے جن کی بروقت فیصلہ بینی ٗ متحرک قیادت اور بہترین انتظامی
صلاحیتوں کا اعتراف نہ صرف قومی سطح پر کیا جاتاہے بلکہ دنیا بھر میں بھی
انہیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ بہت
خوبصورت ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جس کام کا تہیہ کرلیتے ہیں پھر اس
کو پایہ تکمیل تک پہنچانے سے پہلے نہ خود سکون لیتے ہیں اور نہ ہی انتظامی
اداروں کو ریلیکس کرنے دیتے ہیں انہیں صرف سپیڈی ( تیز رفتار ) وزیر اعلی
ہی نہیں کہاجاتا بلکہ وہ اپنے منصوبوں میں کرپشن اور رشوت خوری کو صفر تک
محدود رکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ہر سال کی طرح حالیہ سیلاب کے دوران
بھی انہوں نے ناسازی طبع کے باوجود جس طرح سیلاب کے متاثرین کی مدد اور
دیکھ بھال کی اس کو سراہا جانا بے حد ضروری ہے ۔ اس کے باوجود کہ میاں محمد
شہباز شریف کی ذاتی کارکردگی کا گراف بہت اونچا ہے لیکن یہ بات سمجھ سے
بالاتر ہے کہ پنجاب کے باقی وزرا ء مشیر اور پارلیمانی سیکرٹریز صرف لاہور
میں اپنے ائیر کنڈیشنڈ دفتروں تک ہی محدود ہوکر کیوں رہ جاتے ہیں کیا یہ
شہباز شریف کی ہی ڈیوٹی ہے کہ وہ راجن پور ٗ پیر محل ٗ مظفر گڑھ ٗ ناروال
اور چنیوٹ کے علاقوں میں سیلاب زدگان تک پہنچ کر ان کی دادرسی کریں کیا یہ
فرض رانا ثنا اﷲ اور دیگر وزیروں اور مشیروں کانہیں بنتا وہ صرف صوبائی
اسمبلی میں لطیفے سنانے اور دوسرے سیاسی رہنماؤں پر جگتیں کسنے کے لیے ہی
رہ گئے ہیں ۔ڈینگی نے ماضی میں اڑھائی تین سو افراد کی جانیں لی تھیں شہباز
شریف کی برق رفتاری کی وجہ سے ڈینگی پر قابو تو پالیا گیا تھا لیکن اب پھر
یہ مسئلہ سر اٹھاتا ہوا نظر آرہا ہے بلکہ ڈینگی سے متاثرہ دو اڑھائی درجن
مریض پھر زیر علاج ہیں بارش کا پانی اگر واسا بروقت نہیں نکالے گا تو ڈینگی
مچھروں کی پیدا ئش کو کون روک سکتا ہے واسا اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں
مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے ۔اس پر یہ خبر انتہائی تکلیف دہ ہے کہ صرف تین
مہینوں میں پنجاب میں آٹے کی قیمت میں 230 روپے فی من اضافہ ہوچکا ہے آٹا
وہ بنیادی آئیٹم ہے جو ہر انسان کی ضرورت ہے اگر شہباز شریف سیلابی علاقوں
میں مصروف ہیں تو کیا باقی وزیر ٗ مشیراور انتظامی ادارے صرف تنخواہیں وصول
کرنے کے لیے رہ گئے ہیں وہ آٹے کے بحران پر قابوپانے کے لیے کیوں نہیں
نکلتے ۔ پولیس کی نااہلی کی بنا پر پنجاب میں بھی بھتہ خوری ٗ اغوا کاری
اور ڈاکہ زنی کی وارداتیں عروج پر پہنچ چکی ہیں جس کااعتراف خود وزیر اعلی
کرچکے ہیں اگر پولیس ٹھیک ہوجائے تو آدھے سے زائد مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
ذوالفقار چیمہ ایک دیانت دار ٗ جرات مند اور بے داغ کردار کا حامل پولیس
افسر ہے اگر وزیر اعلی پنجاب انہیں کو انسپکٹر جنرل کے عہدے پر فائز کرکے
انہیں سیاسی دباؤ سے آزاد کردیں تو ایک مہینے میں صوبہ پنجاب بھتہ خوری ٗ
اغوا کاری ٗ ڈاکہ زنی ٗ زناکاری ٗ سٹریٹ کرائمز سے چھٹکارا حاصل کرکے ایک
پرامن صوبہ بن سکتا ہے نہ جانے کیوں میاں شہباز شریف کی توجہ ابھی تک
ذوالفقار چیمہ کی طرف مبذول نہیں ہوئی ۔ پنجاب میں فوڈ اتھارٹی اور محکمہ
صحت کے سینکڑوں افسر اور ملازمین ہر سال کروڑوں روپے کا بجٹ ہڑپ کرجاتے ہیں
لیکن ان کی ملی بھگت اور لاپرواہی سے نہ صرف عطائی ڈاکٹروں اورنیم حکیموں
نے پنجاب بھر میں اپنے دھندے کو پھیلا رکھا ہے بلکہ لاہور جیسے شہر میں
ہسپتال بھی قائم کرلیے ہیں جعلی اور زائد از معیاد ادویات کی فروخت ٗ جعلی
ٹماٹو کیچپ ٗ جعلی مشروبات ٗ غیر میعاری ٹافیاں نمکو ٗ گٹکے کی فروخت ہورہی
ہے یہ محکمے اگر لاہور میں نہیں روک سکتے تو پنجاب کے دور دراز شہروں اور
قصبوں کاپرسان حال کون ہوگا ۔ دینی مدرسوں ٗ جیلوں ٗ اینٹیں بنانے والے
بھٹوں ٗ ورکشاپوں ٗ ہوٹلوں ٗ ٹرک اور بس اڈوں ٗ کوٹھیوں اور بنگلوں میں کام
کرنے والے بچوں( لڑکیوں اور لڑکوں ) کا جس طرح معاشی استحصال اور جنسی
استحصال ہورہا ہے اس کا تصور کرکے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے عورتوں اور بچوں
کا تحفظ کرنا جس محکمے کی ذمہ داری ہے وہ لمبی تان کر سو رہا ہے ۔حافظ آباد
کے سابق ایم این اے لیاقت بھٹی نے جس طرح ایک غریب خاندان کی لڑکیوں کو
زنجیروں سے باندھ رکھا تھا وہ ایک مثال ہے وزیر اعلی کو ہر حال میں ایکشن
لے کر ان شعبوں میں عورتوں اور بچوں کا تحفظ یقینی بناناہوگا وگرنہ عورتوں
اور بچوں کا مستقبل بہت تاریک ہوجائے گا ۔بجلی کے بحران کے لیے نکلنے جس
جنگی بنیادوں پر معاہدے اور پیش رفت ہورہی ہے اسی جنگی بنیادوں پر پنجاب کے
صحرائی اور پہاڑی علاقوں میں تیل گیس اور دیگر قیمتی معدنیات کی تلاش کی
اشدضرورت ہے تاکہ پنجاب کو ہمیشہ کے لیے بجلی گیس کے بحرانوں سے نکالاجاسکے
۔اس لمحے جبکہ ماہانہ آٹھ دس ہزار روپے تنخواہ لینے والا شخص بھی ہاتھ میں
بجلی کا بل لیے لوگوں سے خیرات مانگنے پر مجبور ہے وہاں ایسے عمر رسیدہ
افراد کا پرسان حال کون ہوگا جن کو نہ تو کسی سرکاری محکمے سے پنشن ملتی ہے
اور نہ ہی کوئی مالی سہارا ۔ اگروزیراعلی عمررسیدہ افراد کے مسائل پر
ہمدردانہ توجہ فرماتے ہوئے ایک انتظامی حکم جاری کردیں تو نیکی کا بہت بڑا
کام ہوگا کہ 55 سال سے اوپر والے ملازمین جن سرکاری و نیم سرکاری اور
پرائیویٹ اداروں میں کام کررہے ہیں انہیں ریٹائرمنٹ سے پہلے ادارے کے خرچ
پر ایک مرتبہ حج یا عمرہ ضرور کروایا جائے اور ایسے افراد جو کسی بھی ادارے
میں کام نہیں کرتے انہیں حکومت پنجاب حج اور عمرے کی سرکاری طور پر سہولت
فراہم کرے بلکہ 60 سال سے زائد عمر کے تمام افراد کو ہسپتالوں میں مفت علاج
ٗ لیبارٹریز میں مفت ٹیسٹ ٗ بسوں ٗ ٹرینوں میں مفت سفر ٗ میڈیکل سٹور وں سے
ذاتی علاج کے لیے مفت ادویات کی فراہمی ٗ تمام ہوٹلوں سے مفت کھانے کی
سہولت فراہم کی جائے۔اس کے ساتھ ساتھ اگر درس نظامی پاس علما پر مشتمل اگر
قاضی کورٹس قائم کردی جائیں تو انصاف کی تیزرفتار فراہمی اور مجرموں کو
بروقت سزا کے عمل کو تیز تر بنا یا جاسکتا ہے ۔ لاہور سمیت پنجاب کے تمام
بڑے شہروں میں ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لیے دو منزلہ سڑکیں اور
ایکسپریس وے کی تعمیر بھی ضروری ہے جبکہ سیلابی پانی کو کنٹرول کے لیے وسطی
اور جنوبی پنجاب میں دریائی علاقوں میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بناکر ہر سال سیلاب
کی تباہ کاریوں سے بچا جاسکتا ہے یہی سیلابی پانی بجلی اور زراعت کے لیے
استعمال کیاجاسکتا ہے اس مقصد کے لیے بھی چینی کمپنیوں سے معاہدے کرکے ان
پر اپنی روایتی رفتاری سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ مسائل اتنے زیادہ ہیں
جبکہ عوام کا درد رکھنے والے شہباز شریف صرف ایک ہیں اس لمحے یہی سوچ
ابھرتی ہے کاش پنجاب میں شہباز شریف جیسا ایک اور لیڈر ہوتا جو تمام سرکاری
اداروں کو عوامی مسائل کے حل کے لیے متحرک تو رکھتا۔ |