نوازشریف اوروزیرپانی وبجلی پنجاب کے لئے کراچی
سے650میگاواٹ بجلی تو نہ چھینیں..؟
ہمارے یہاں رواں سال مئی کے گرم موسم میں جہاں گیارہ مئی کے ہونے والے عام
انتخابات کی انتخابی مہم جوئی نے سیاست کو گرمائے رکھاتووہیں، سیاسی
بازگروں کو بھی یہ سوچنے اورلائحہ عمل تیارکرنے پر تیارکیا کہ اقتدار میں
آنے کے بعد قوم کی گرم مزاجی اور عدم برداشت کا امتحان کس طرح لیاجائے اور
اِس میں کس طرح اضافہ کیاجائے آج اپنی اِس سوچ پر کاربندحکمران اپنی
صلاحیتوں کو بروئے کارلارہے ہیں اور قوم کی گرم مزاجی اور اِس کی عدم
برداشت کا امتحان بھی مہنگائی کے طوفان برپاکرکے لینے میں مصروف ہیں اگرچہ
آج جب میں اپنا یہ کالم رقم کررہاہوں ،اکتوبر کا پہلا ہفتہ شروع ہوچکا ہے
اور اِن لمحات میں موسمِ گرما کی جاتی ہوئی گرمی کے انتہائی گرم ترین دن چل
رہے ہیں، کسانوں کے لئے اکتوبر کی یہ گرمی دھان کی پکائی کے لئے مفید ہے تو
وہیں حکمرانوں کے لئے بھی یہ گرم ترین دن قوم کی گرم مزاجی اور اِس کے عدم
برداشت کے عنصر کو مزید بھڑکانے اور اِن میں آگ بھرنے کے لئے بڑی اہمیت کے
حامل ہیں اور اِن گرم دنوں میں نواز حکومت نے اپنے ایک سو پچیس دن کس طرح
عوام کو تنگ اور پریشان کرکے پورے کئے ہیں آج یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی
نہیں ہے،
اگرچہ اِس میں آج کوئی شک نہیں ہے کہ قوم نے گیارہ مئی کے عام انتخابات میں
جن بے شمار چاہتوں ،محبتوں اور اُمیدوں کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور
اِس کے سربراہ میاں محمدنواز شریف کی شخصیت کو ووٹ دے کراِنہیں جس خلوص سے
اقتدار کی مسندپر بیٹھایاتھاآج نہ تونوازشریف اُس طرح عوام کے معیار پر
پورااُترسکے ہیں اور نہ اِ ن کی حکومت ہی نے مسائل اور پریشانیوں کے ہاتھوں
گھائل ہونے والے عوام کے جسموں پر لگی چوٹوں اور اِن چوٹوں سے اُٹھنے والی
ٹیسوں کی پرواہ کرتے ہوئے اِنہیں ریلیف دینے کے خاطر کسی بھی معاملے کا حل
نکال کر اِن کے جسموں پر لگے زخموں پر ذراسامرہم رکھاہے آج اُلٹا نواز
حکومت نے عوام کے ناجانے کس کئے کا بدلہ بجلی اور پیٹرولیم مصنوعا ت کی
قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کرکے لیا ہے کہ اِس نے عوام پر مہنگائی کی
درندگی اور سفاکیت کوبے لگام چھوڑکرجو مثال قائم کردی ہے جو 66سالہ مُلکی
تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ہے یعنی نواز حکومت نے اپنے صرف ایک سو پچیس دنوں
ہی میں قوم کی کمر پر ایساچھراگھونپا ہے کہ قوم کاوجود جگہہ جگہہ سے زخموں
سے چورچورہوگیاہے،اور اِس بھی سونے پہ سُہاگہ یہ کہ پہلے سے بے لگام اور
ردندہ صفت مہنگائی کے ہاتھوں لب دم عوام سے یہ کہاجارہاہے کہ عوام کو مُلکی
معیشت کو سہارادینے اورحکمرانوں کی عیاشیوں کے خاطر کڑوی گولی نگلنی ہوگی،
اِن کی اِس قربانی سے جہاں مُلکی معیشت کسی حد تک سنورے گی تووہیں حکمرانوں
کے دامن بھی خوشیوں سے بھرجائیں گے،سو مُلکی معیشت اور قومی خزانے سے
حکمرانوں کی عیاشیوں کے لئے پاکستانی قوم کو کڑوی گولیاں نگل کر ضرورقربانی
دینی ہوگی جس کی ابتداء بجلی اور پیٹرولیم مصنوعا ت کی قیمتوں میں بے تحاشہ
ہونے والے اضافے سے کردی گئی ہے اور آئندہ بھی ایسے یا اِس سے بھی زیادہ
اضافوں کے لئے قوم کو تیار رہناپڑے گا، کیوں کہ قوم اِس حوالے سے جتنی بھی
قربانی دے گی اِس سے قومی خزانے بھرے گااور حکمران خوشحال ہوں گے۔
جبکہ یہاں آمرانتہائی افسوسناک ہے کہ حالیہ دنوں میں نوازحکومت نے بجلی اور
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کس طرح اضافہ کیااِس کے اِس فعل سے اِس کے
آئندہ کے عوام دُشمن اقدامات کا اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اگر یہ حکومت ایک
دوسال قائم رہ گئی تو یہ عوام دُشمنی میں کس حد تک جاسکتی ہے،اَب اِس میں
کوئی دورائے نہیں ہے ،ماضی میں زدراری حکومت پر لعن تعن کرنی والی یہی ن
لیگ تھی مگرآج جب یہ خود اقتدار پر قابض ہوگئی ہے توآج اِسے بھی اپنے
گریبان میں جھانکناچاہئے کہ یہ اقتدار میں آنے کے بعد خودکیاکررہی ہے،آج
اِس کا اندازہ اِسے ہویانہ ہومگر اِس کے مظالم عوام جانتے ہیں جو اِس کی زد
میں آرہے ہیں اور جب تک یہ حکومت رہے گی یہ اِس کے مظالم سہتی رہے گی، کیوں
کہ یہ پاگل عوام ہی تو ہے جس نے اِس کی سبزباتوں اور سُنہیرے خوابوں میں
آکر اِسے اپنے ووٹوں سے اقتدار کی مسندِ پر بیٹھایاہے، اَب یہ اپنے کئے کو
خود سزا بھگتے، آج عوام کے ہاتھ میں اﷲ سے سوائے اِس دعا کے کچھ نہیں ہے
کہ’’اﷲ قوم کو نوازحکومت اور وزیرخزانہ کے ظالمانہ اقدامات سے بچائے‘‘۔اور
قوم اِن ظالم حکمرانوں سے نجات دلانے کے لئے ایک طرف اﷲ سے دعائیں کررہے ہے
تو دوسری طرف فوج کے کسی اچھے اقدام کی جانب سے اُمیدوں سے دیکھ رہی ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نوازحکومت قومی خزانہ بھرنے اور بیرونی قرضوں
کی ادائیگی کی آڑ میں قومی اداروں کی بے لگام نج کاری سے پاکستانی عوام کو
ایسٹ انڈیاکی کمپنییوں کی طرز پر دوبارہ غلام بناناچاہ رہی ہے،موجودہ حالات
میں اِس کے عزائم سے ایسالگتاہے کہ جیسے اِس کے پاس قومی اداروں کو بیچنے
اور اغیارکے ناپاک قدم پاکستان میں جمانے اور قوم کی 66سالہ آزادی کو سلف
کرکے اِسے پھرسے غیروں کا غلام بنانے کے سوااور کوئی منصوبہ بندی نہیں
ہے،اِس کا اندازہ اِس سے بھی بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ گزشتہ دنوں کابینہ کی
کمیٹی برائے نجکاری نے پی آئی اے، اسٹیل ملز، یوبی ایل اور پاورکمپنیوں
سمیت31سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کرکے مُلک اور قوم کو ایسٹ
انڈیاکمپنیوں کی طرز پر غلام بنانے کا جو تہیہ کررکھاہے اِس سے اِس کے
آئندہ کے منصوبوں کی عکاسی ہوتی ہے،اَب اِس کے اِن عزائم کے آگے بندباندھنے
کے لئے ساری پاکستانی قوم اور ہر محب وطن سیاسی و مذہبی جماعتوں کو
متحدہوناہوگااور کاروباری ذہانت رکھنے والے اپنے وزیراعظم میاں محمدنواز
شریف اور اِن کے بیوپار وزراء سے پوچھناہوگااور اِن کے قومی اداروں کی نجی
کاری کے لئے تیزی سے اُٹھتے قدم روکنے اور ہر اُس اقدام کے آگے
بندباندھناہوگاجس سے مُلک اور قوم کونقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، جبکہ
ہوناتو یہ چاہئے تھاکہ پہلے کسی بھی قومی ادارے کو نجی تحویل میں دینے سے
قبل حکومت کواِس میں خود سے ایسی اصطلاحات کرنی چاہئے تھیں کہ اجن سے یہ
ادارہ کارآمدہوجائے اوراگراِس کے بعد بھی اِس میں کوئی بہتری نظرنہ آتی تو
پھرکوئی نجی کار ی کے لئے ایساقدم اٹھاتی جس کا مُلک اور قوم کو فائدہ
پہنچتا ناکہ آج نوازحکومت جذبات میں بغیرسوچے سمجھے ایسے قدم اُٹھائے کہ جس
کا پچھتاواساری زندگی آنے والی نسلوں کو اُٹھاناپڑے۔
آج قوم اور حکومت کے پچھتاوے کی ایک مثال کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن
ہے ، اِس لئے کہ جب یہ ادارہ قومی تحویل میں تھاتواِس کی سوسالہ کارکردگی
بتاتی ہے کہ اِس ادارے نے شہرِ قائدکراچی کو روشنیوں کا شہربنائے رکھااور
اپنے وسائل اور وفاق کی معاونت سے اتناکچھ کیا کہ شہرِ کراچی ساری دنیامیں
روشنیوں کے لقب سے پہچاناجانے لگامگر پچھلے آٹھ نو سالوں میں جب سے یہ
ادارہ نجی تحویل میں گیاہے اِس کی کارکردگی صفر سے بھی بدترہوگئی ہے، اِس
کی انتظامیہ نے اپنی نااہلی اور زیادہ کمانے کے چکر میں اِس شہرقائدکو
اندھیروں کا شہربنادیاہے، اور شہرکراچی سے کا روشنیوں کے شہرکا لقب چھین کر
اِسے اُس مقام پر لاکھڑاکیاہے کہ آج جس میں مسلسل رہنے والے اندھیروں کی
وجہ سے وحشت اور خوف محسوس ہونے لگاہے، اور وزیراعظم میاں نوازشریف
جی..!اِس پر ظلم یہ کہ مُلکی معیشت کو سہارادینے اور مُلک کو سب سے زیادہ
کماکردینے والے اِس شہرکراچی کی تباہی اور اندھیروں کا آپ کو ذرابھی احساس
نہیں ہے، آپ نے کے ای ایس سی کی نااہل انتظامیہ کے کرتوتوں کے بارے میں
کوئی پوچھ گچھ نہیں کی کہ آپ یہ ہی پوچھ لیتے کہ تم لوگوں نے شہرکراچی کو
کیوں اندھیروں میں دھکیل دیاہے..؟اور اِس بنیادپر اِس سے اِس کی ذمہ داری
واپس لینے کاہی کوئی حکم صادر فرمایا دیتے کہ کیوں اِس کی انتظامیہ معاہدے
کے مطابق ادارے کے اپنی تحویل میں لینے کے بعد اپنی صلاحیتوں سے ایک یونٹ
بھی بجلی پیدانہیں کرپائی ہے..؟کیوں اِدھراُدھر(پنجاب اور دیگر ذرائع) سے
بجلی مانگ کا اپنی دُکان چمکائی جارہی ہے ...؟اور کراچی کے(گھریلواور
کمرشل)صارفین کوچوری اور بوگس بلنگ کی مدمیں زائد بلنگ سے ماہانہ اربوں اور
کھربوں کمارہی ہے ...؟مگر ادارے پر ایک پائی بھی خرچ نہیں کررہی ہے...؟اِن
تمام باتوں کے باوجود بھی آپ نے اور آپ کی حکومت کے وفاقی وزراء پانی و
بجلی اور خزانہ نے کراچی کو پنجاب سے ملنی والی 650میگاواٹ بجلی بھی
بندکرکے محکمہ کے ای ایس سی کے کراچی کو اندھیروں میں ڈبونے والے عزائم کی
تکمیل میں اپنا بھی حصہ ڈال دیاہے، یہ ٹھیک ہے کہ پنجاب سے کراچی کو
650میگاواٹ بجلی دی جارہی تھی، اِس سے کراچی شہرروشن تھااور اِس کے کارخانے
اور صنعتیں چل رہیں تھیں، مگروزیراعظم نوازشریف جی..! یہ عمل کوئی نیاتو
نہیں تھا، یہ تو پراناہی طریقہ کار تھا جو ایک معاہدے کے تحت ہوتارہا،
مگرآج ایک ایسے وقت میں کہ جب محکمہ کے ای ایسی سی کی نااہل اور کمرشل
ذہانت کی نجی انتظامیہ پہلے ہی شہرقائد کے لئے جنجال بنی ہوئی ہے اور اِس
نے اِس روشنیوں کے شہرکو اندھیروں میں دھکیل کر مُلک کے اِس معاشی حب کا
ستیاناس کررکھاہے اِس پر اُوپر سے آ پ کی حکومت نے کراچی سے کسی کنیہ پروری
کی بنیادپر اِس کی 650میگاواٹ بجلی بھی بندکردی ہے جس سے شہرکراچی میں سیاہ
ترین اندھیرے لمبے ہوچکے ہیں اور اِس شہر کی صنعتوں اور کارخانوں کی چمنیوں
سے نکلنے والے دھویں بندہوکر مُلکی معیشت کے پہیوں کو بھی روک رہے ہیں ۔
سواِس بنیاد پر وزیراعظم نوازشریف جی...!فوری نوٹس لیں اور کراچی کو پنجاب
سے ملنی والی 650میگاواٹ بجلی جو بندکردی گئی ہے یا کرنے کا ارادہ ہے اِ سے
بندنہ کریں اور کسی بھی ادارے کو محض جذبات میں آکرنجی تحویل میں نہ دیں
کیوں کہ ہر نجی تحویل کی انتظامیہ بعد میں ایساہی کرے گی آج جیساکہ محکمہ
کے ای ایس سی کی نجی انتظامیہ کررہی ہے،کیوں کہ حکومت جب بھی کسی معاملے
میں اِسے بلاتی ہے تو اِس کی انتظامیہ اِسے لٹ کر یہ جواب دیتی ہے کہ ہم
حکومت کو کسی بات کا جواب دینے کے اہل نہیں ہیں ، ہم سے کسی بھی کام کے
بارے میں ہمارے مالکان پوچھ سکتے ہیں ، حکومت نہیں اور پھریوں اِس کے اِس
جواب کے بعد حکومت منہ لٹکاکر اور تلملاکر رہ جاتی ہے، قبل اِس کے کہ قومی
اداروں کو نجی تحویل میں دیئے جانے کے بعداِن کی انتظامیہ کا رویہ بھی
حکومت کے ساتھ ایساہوجائے جیساکہ محکمہ کے ای ایس سی کی انتظامیہ کا ہے
نواز حکومت کو چاہئے کہ وہ قومی اداروں کو محض قومی خزانہ بھرنے اور قرضوں
کی ادائیگیوں کے لئے نجی تحویل میں نہ دے ، اِس کام کے لئے اپنے اور دیگر
وسائل بروئے کار لائے ، اور حکومتی اخراجات اور وزراء و اراکین پارلیمنٹ کو
ملنے والی مراعات اور عیاشیوں کو کنٹرول کرے تو بہت کچھ بہتر ہوسکتاہے
اوراگرحکومت نے ایسا نہ کیاتو پھر پاکستانی قوم اﷲ سے صرف یہ ہی دعا کرے گی
کہ ’’ اﷲ قوم کو نواز حکومت کے ظالمانہ اقدامات سے بچائے‘‘۔ |