بین الاقوامی ساکھ کا جنازہ نکل گیا، افغانستان میں
فوجیوں کے پیمپر اور خواتین فوجیوں کی وردی کھٹائی میں پڑ گئی۔
آج کل امریکہ میں 'شٹ ڈاؤن' کا موسم ہے۔ جوسیاحوں کے لیے خاصی ناامیدی کا
باعث بن سکتا ہے کیوں کہ بیشتر عجائب گھروں، نیشنل پارکس اور دیگر قومی
یادگاروں کے ملازمین کو "غیرضروری" قرار دیے جانے کے سبب ان مقامات کو عوام
کے لیے بند کردیا گیا ہے۔ شٹ ڈاون سے دنیا میں ’’امریکا کی بین الاقوامی
سطح پر ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ امریکی اتحادی اس سے مزیدد مایوسی کا شکار ہو
گئے ہیں۔ حتی کہ امریکا کی خواتین فوجیوں اور عام فوجیوں کے یونیفارم کی
تیاری میں بھی دشواری ہو سکتی ہے۔ کیونکہ پینٹا گان یونیفارم اپنے سول کے
شعبے سے سلواتا ہے جو اس شٹ ڈاون کی زد میں آ چکے ہیں۔ اب افغانستان میں
امریکی فوجیوں کے لیے بھجوائے جانے والے پمپرز کے بھی لالے پڑ گئے ہیں۔ گو
ابھی نہیں بتایا ہے کہ انہیں بھی پینتاگان سے وابستہ سول کا شعبہ تیار کرتا
ہے یا بھاری اخرجات کر کے اوپن مارکیٹ سے خریدے جاتے ہیں۔حکومتی کاروبار
بند ہو گیا جبکہ کارکنوں کو یہ بھی علم نہیں کہ انہیں اگلی تنخواہوں کے چیک
کب ملیں گے۔ واشنگٹن کی گلیاں خالی ہیں اور فضا میں بے یقینی کا احساس ہے۔
موجودہ حالات میں امریکا کو اپنے فوجی اخراجات اور روزمرہ کے اخراجات کی
ادائیگی کے لیے ہر روز چار ارب ڈالر کا قرض لینا پڑتا ہے-
یکم اکتوبر منگل کو جب رات کے بارہ بجے تو واشنگٹن کی گلیاں خالی تھیں اور
فضا میں بییقینی کا احساس پایا جاتا تھا۔ صدر باراک اوباما سمیت بہت سے
لوگوں کو امید تھی کہ کانگریس میں عین آخری وقت پر ایسا کوئی نہ کوئی تصفیہ
ہو جائے گا جس کی مدد سے حکومتی اداروں کو بند ہونے سے روکا جا سکے گا لیکن
یہ امید نہیں بر آئی۔ دو عشروں بعد امریکا میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ
واشنگٹن میں معمول کی حکومتی اور دفتری گہما گہمی نظر نہیں آتی۔ حکومتی
کاروبار بند ہو چکا ہے۔ کارکنوں کو یہ بھی علم نہیں کہ انہیں اگلی تنخواہوں
کے چیک کب ملیں گے۔ بازاروں کی رونق ختم ہورہی ہے، اور میوزیم، اور سیاحتی
ادارے بند ہیں۔ امریکی حکومت اگر اس شٹ ڈاون سے نکل بھی گئی تو قرضوں کا
بحران سامنے کھڑا ہے، جس میں حکومت کو اپنے اخراجات کے لئے نئے قرضے لینے
ہیں۔ جس کی اب کوئی حد نہیں رہی ہے۔ یہی نہیں اب تو اگلا ممکنہ حکومتی شٹ
ڈاؤن بھی محض چند ہفتے دور رہ گیا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی کو عام طور پر شہد کی
مکھیوں کے چھتے کی طرح پرہجوم قرار دیا جاتا ہے، سات لاکھ سے زائد وفاقی
ملازمین اور ان کئی ملین سیاحوں سے بھرا ہوا، جو پورا سال اس شہر میں ایک
قومی یادگار سے دوسری تک جاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ امریکا میں وفاقی حکومت
اس ملک کا سب سے بڑا آجر ادارہ ہے، جس کے دو ملین سے زائد ملازمین کے اہل
خانہ کا انحصار ان کارکنوں کو ملنے والی تنخواہوں پر ہوتا ہے۔موجودہ شٹ
ڈاؤن کی وجہ سے وفاقی حکومت کے قریب آٹھ لاکھ ملازمین کو بغیر تنخواہوں کے
رخصت پر بھیجا جا چکا ہے۔ کئی وفاقی ایجنسیاں اور محکمے بند ہو چکے ہیں اور
کم از کم تعداد میں صرف وہی ملازمین اس وقت کام پر ہیں جن کی موجودگی وفاقی
حکومت کے کاروبار کو چلتا رکھنے کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔ امریکا میں مالی
بحران سے پیدا ہونے سے آٹھ لاکھ سرکاری ملازمیں کے فوری متاثر ہونے کے بعد
اس خطرے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جارہا ہے کہ اگر مالی بحران کے اسباب
دور نہ کیے گئے تو امریکا کی دنیا بھر میں موجود فوجی سرگرمیاں اور آپریشنز
بھی اس کی زد میں ہوں گے۔ امریکی خواتین اور مرد فوجیوں کے یونیفارم سلوانے
میں بھی دشواریاں آسکتی ہیں۔امریکہ میں دونوں سیاسی جماعتوں جماعتوں کے
درمیان اصل جھگڑاوہ انشورنس کا بل ہے جس کے تحت ان لاکھوں امریکیوں کو صحت
کی سہولیات فراہم کی جانی ہیں جو اپنی جیب سے 'ہیلتھ انشورنس' خریدنے کی
استطاعت نہیں رکھتے۔'اوباما کیئر' نامی یہ قانون یکم اکتوبر سے شروع ہونے
والے مالی سال سے مؤثر ہوگیا ہے یکن معاملہ یہ ہے کہ ری پبلکن جماعت کے
ارکان اس قانون کے سخت مخالف ہیں اور انہوں نے ان بجٹ تجاویز کو منظور کرنے
سے صاف انکار کردیا ہے جس میں اس قانون کے لیے بھی رقم مختص ہوگی۔دوسری
جانب صدر اوباما اور ان کی جماعت 'ڈیموکریٹ' کے ارکانِ کانگریس کسی ایسے
بلِ کو منظور کرنے سے انکاری ہیں جس میں 'اوباما کیئر' کے لیے بجٹ نہیں
رکھا جائے گا۔دونوں جماعتوں کے اپنے اپنے موقف پر اصرار کے باعث نئے مالی
سال 14-2013 کا بجٹ منظور نہیں کیا جاسکا ہے جس کے باعث امریکی حکومت کو
اپنی "غیر ہنگامی نوعیت" کی سرگرمیاں معطل کرنا پڑی ہیں۔'شٹ ڈاؤن' کے دوران
میں امریکی معیشت کی پیداواری صلاحیت میں روزانہ 30 کروڑ ڈالر کی کمی ہوگی۔
لیکن اس بحران سے متعلق اصل پریشانی اس کا دورانیہ ہے۔ یہ 'شٹ ڈاؤن' جتنا
طویل ہوگا، امریکی معیشت اتنا ہی زیادہ نقصان اٹھائے گی۔امریکی پارلیمان –
جسے کانگریس کہا جاتا ہے – کے دونوں ایوانوں کے درمیان بجٹ پر موجود
اختلافات دور نہ ہونے کے سبب یکم اکتوبر سے امریکی حکومت 'شٹ ڈاؤن' ہوگئی
ہے۔کسی بھی ملک کی حکومت گاڑی کی طرح ہوتی ہے جو 'روپے پیسے' کے ایندھن سے
چلتی ہے۔ اب اگر گاڑی میں ایندھن نہ ڈالا جائے تو لامحالہ وہ رک جائے
گی۔امریکی حکومت کی گاڑی میں ایندھن بھرنے کی ذمہ داری کانگریس کی ہے جو یہ
فیصلہ کرتی ہے کہ حکومت کو کب، کتنی رقم، کس سرگرمی کے لیے دی جانی
ہے۔امریکہ میں نئے مالی سال کا آغاز یکم اکتوبر سے ہوگیا ہے۔ اس کا مطلب ہے
کہ امریکی حکومت نے گزشتہ مالی سال میں کانگریس سے اپنی سرگرمیوں کے لیے جو
پیسہ لیا تھا، وہ 30 ستمبر کو ختم ہوگیا اور اب اسے اپنے کام جاری رکھنے کے
لیے مزید رقم کی ضرورت ہے۔لیکن کانگریس کے دونوں ایوان – یعنی سینیٹ اور
ایوانِ نمائندگان - تاحال نئے سال کے بجٹ پر متفق نہیں ہوسکے ہیں۔ان دونوں
ایوانوں کے اختلافات کے باعث نیا مالی سال شروع ہونے کے باوجود اس کا بجٹ
منظور نہیں ہوسکا اور پیسے نہ ہونے کے باعث امریکی حکومت کو اپنی سرگرمیاں
اور ادارے بند کرنے پڑ گئے ہیں۔ اس بندش کو ہی 'شٹ ڈاؤن' کہا جاتا ہے۔
امریکہ میں مالی وسائل نہ ہونے کے باعث حکومت کا اپنی سرگرمیاں روکنا کوئی
ایسی نئی بات بھی نہیں۔سنہ 1977 سے اب تک امریکی حکومت 17 بار 'شٹ ڈاؤن' کا
شکار ہوئی ہے۔ آخری بار حکومت کو 1996 میں اس کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ شٹ
ڈاؤن 21 دن جاری رہا تھا۔امریکہ میں دوجماعتی سیاسی نظام رائج ہے اور اس
وقت وہاں کی پارلیمان واضح تقسیم کا شکار ہے۔ ایوانِ بالا، یعنی سینٹ میں
صدر براک اوباما کی جماعت 'ڈیموکریٹ' کی اکثریت ہے جب کہ ایوانِ نمائندگان
میں 'ری پبلکن ' کو اکثریت حاصل ہے۔دو جماعتی ایوان ہونے کے باعث امریکہ
میں اس وقت تک نہ تو کوئی قانون بن سکتا ہے اور نہ ہی بجٹ منظور ہوسکتا ہے
جب تک دونوں ایوان اس کی منظوری نہ دے دیں۔اس شٹ ڈاون کے باوجود امریکی
حکومت کی وہ تما م سرگرمیاں بدستور جاری رہیں گی جن کا تعلق قومی سلامتی،
دفاع اور ہنگامی نوعیت کی صورتِ حال سے ہے۔ امریکہ کی وفاقی حکومت کے زیرِ
انتظام چلنے والے تمام ادارے اپنے ملازمین میں سے ان افراد کی نشاندہی کریں
گے جن کا اپنی ملازمت پر موجود رہنا "قومی سلامتی یا انسانی جانوں اور
املاک کے تحفظ" کے لیے "ضروری" ہے۔ان تمام "ضروری " ملازمین کو بدستور اپنی
ذمہ داریاں انجام دینا ہوں گی اور انہیں کانگریس کی جانب سے فنڈز جاری کیے
جانے کے بعد اس عرصے کا معاوضہ بھی دیا جائے گا۔ البتہ دیگر "غیر ضروری"
ملازمین کو اس وقت تک بغیر تنخواہ کے گھر بیٹھنا پڑے گا جب تک نیا بجٹ
منظور نہیں ہوجاتا۔اس 'شٹ ڈاؤن' سے پولیس اور امریکی فوج کے مسلح اہلکار
متاثر نہیں ہوں گے البتہ محکمہ دفاع کے چار لاکھ سول ملازمین میں سے نصف کو
بغیر تنخواہ کے گھر بیٹھنا ہوگا۔اسی طرح محکمہ خارجہ کی بیرونِ ملک جاری
بیشتر سفارتی سرگرمیاں بھی جاری رہیں گی اور ویزا درخواستوں کی وصولی
اوراجرا بھی جاری رہے گا۔امریکہ کی داخلی سکیورٹی کے ذمہ دار ادارے
'ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی' نے اپنے کل دو لاکھ ملازمین میں سے 86 فی
صد کو "ضروری" قرار دیا ہے۔ باقی کے 14 فی صد ملازمین 'شٹ ڈاؤن' کے عرصے کے
دوران بغیر تنخواہ کے رخصت پر بھیج دیے گئے ہیں۔امریکہ میں 'شٹ ڈاؤن' کا
موسم سیاحوں کے لیے خاصی ناامیدی کا باعث بن سکتا ہے کیوں کہ بیشتر عجائب
گھروں، نیشنل پارکس اور دیگر قومی یادگاروں کے ملازمین کو "غیرضروری" قرار
دیے جانے کے سبب ان مقامات کو عوام کے لیے بند کردیا گیا ہے۔امریکہ کی
وفاقی حکومت کے ملازمین کی تعداد لگ بھگ 22 لاکھ ہے۔ ان میں امریکی فوج کے
مسلح اہلکار اور محکمہ ڈاک کے وہ ملازمین شامل نہیں جو 'شٹ ڈاؤن' سے
مستثنیٰ ہیں۔ان 22 لاکھ ملازمین میں سے لگ بھگ آٹھ لاکھ کو 'شٹ ڈاؤن' جیسے
حالات میں "غیرضروری" سمجھا جاتا ہے اور انہیں 'شٹ ڈاؤن' کے عرصے کے دوران
میں بغیر تنخواہ کے چھٹیوں پر بھیجا جاسکتا ہے۔ "غیر ضروری" قرار دیے جانے
والے ملازمین 'شٹ ڈاؤن' کے دوران بھی سرکاری امور انجام دے سکتے ہیں لیکن
ایسا کرنا ان کے لیے نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔ 'شٹ ڈاؤن' کے عرصے کے دوران
میں "غیر ضروری" سرکاری ملازمین کی جانب سے اپنے سرکاری امور کی انجام دہی
تیکنیکی طور پر غیر قانونی عمل ہے۔ حتیّٰ کہ یہ ملازمین اس عرصے کے دوران
میں اپنا سرکاری ای میل اکاؤنٹ بھی چیک نہیں کرسکتے۔سادہ سی بات یہ ہے کہ
جب لوگوں کو تنخواہ نہیں ملے گی، تو وہ خریداری کے لیے بازاروں کا رخ کریں
گیاور نہ ہی کریڈٹ کارڈ اور قرض پر لی جانے والی اشیاء کی قسطیں ادا
کرپائیں گے۔ اس عدم ادائیگی کے باعث کاروباری اور معاشی اداروں کی آمدن
متاثر ہوگی جس کا اثر امریکی معیشت پر پڑے گا۔بعض امریکی تجزیہ کاروں کو
خدشہ ہے کہ 'شٹ ڈاؤن' کے دوران میں امریکی معیشت کی پیداواری صلاحیت میں
روزانہ 30 کروڑ ڈالر کی کمی ہوگی۔ لیکن اس بحران سے متعلق اصل پریشانی اس
کا دورانیہ ہے۔ یہ 'شٹ ڈاؤن' جتنا طویل ہوگا، امریکی معیشت اتنا ہی زیادہ
نقصان اٹھائے گیایک عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق مالی مسائل کی وجہ سے شٹ
ڈاون جاری رہا تو اس سے بحری جنگی جہازوں کی مرمت اورجنگی آپریشن کے علاوہ
فوج کے مختلف شعبوں کے لیے تربیت کا اہتمام بھی مشکلات سے دوچار ہو سکتا
ہے۔امریکا کے دفاعی حکام کے مطابق اس شروع ہو جانے والے شٹ ڈاون سے افواج
کوسول کے شعبے سے ملنے والی معاونت کے بعد بالواسطہ طور پر امریکی افواج کی
افرادی قوت بھی متاثر ہو گی۔ اس لیے یہ بھی خدشہ ہے کہ مسلح افواج کو بعض
شعبوں کے لیے آلات کی رسد میں رکاوٹ پیدا ہو جائے۔اس بارے میں ایک سینئیر
فوجی ذمہ دار کا کہنا تھا ’’ شٹ ڈاون سے جو اثرات فوج کو برداشت کرنا پڑیں
گے ان کا احساس فوری طور پر زیادہ نہیں ہو گا، البتہ بعد ازاں اس شٹ ڈاون
کے مضمرات کا احساس ہو جائے گا۔’’
ان ذرائع کے مطابق بحری جنگی جہازوں سے شپ یارڈز پر ہونے والے کام متاثر
ہوں گے، فوج کے بعض انتظامی شعبوں کے معمولات بھی گڑ بڑ ہو سکتے ہیں۔واضح
رہے امریکی فورسز کی اس شٹ ڈاون پر فکر مندی کا کھلے عام ذکر نہیں کیا جا
رہا لیکن مسقبل میں اس معاملے کے سنگین نوعیت کے اثرات کا احساس ہر سطح پر
ہے کہ پیر سے شروع ہونے والا شٹ ڈاون کس قدرخطرناک ہو سکتا ہے۔اس سے پہلے
امریکا کو ایک اسی نوعیت کے شٹ ڈاون کا سامنا 1995 میں کرنا پڑا تھا۔
اٹھارہ سال قبل ہونے والے شٹ ڈاون کے حوالے سے ایک سابق میجر جنرل کا کہنا
تھا ’’ امریکا کو اس وجہ سے بوسینیا میں ایک آرمرڈ یونٹ تشکیل دینے میں
انتہائی زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔’’امریکا کے وزیر دفاع چک ہیگل
کا اس شٹ ڈاون کے بارے میں کہنا ہے ’’امریکا کی بین الاقوامی سطح پر ساکھ
متاثر ہوگی اور امریکی اتحادی اس سے مزیدد مایوسی کا شکار ہوں گے۔’’امریکی
پینٹاگان کے حکام میں بھی اس شٹ ڈاون پر سخت تشویش کی ایک لہر ہے، حتی کہ
امریکا کی خواتین فوجیوں اور عام فوجیوں کے یونیفارم کی تیاری میں بھی
دشواری ہو سکتی ہے۔ کیونکہ پینٹا گان یونیفارم اپنے سول کے شعبے سے سلواتا
ہے جو اس شٹ ڈاون کی زد میں آ چکے ہیں۔ان ذرائع نے افغانستان میں امریکی
فوجیوں کے لیے بھجوائے جانے والے پمپرز کے بارے میں نہیں بتایا ہے کہ انہیں
بھی پینتاگان سے وابستہ سول کا شعبہ تیار کرتا ہے یا بھاری اخرجات کر کے
اوپن مارکیٹ سے خریدے جاتے ہیں۔
کوئینی پیک یونیورسٹی کے جائزے کے مطابق تقریباً 72 فیصد افراد ہیلتھ کیئر
بل کی وجہ سے ہونے والے اس ’شٹ ڈاون کے حق میں نہیں۔ شٹ ڈاون کے بعد
واشنگٹن میں معمول کی حکومتی اور دفتری گہما گہمی نظر نہیں آئی، حکومتی
کاروبار بند ہو گیا جبکہ کارکنوں کو یہ بھی علم نہیں کہ انہیں اگلی
تنخواہوں کے چیک کب ملیں گے۔ واشنگٹن کی گلیاں خالی ہیں اور فضا میں بے
یقینی کا احساس ہے، صدر بارک اوباما سمیت بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ
کانگریس میں عین آخری وقت پر ایسا کوئی نہ کوئی تصفیہ ہو جائے گا جس کی مدد
سے حکومتی اداروں کو بند ہونے سے روکا جا سکے گا لیکن یہ امید اپنے بر آنے
کی منتظر ہی رہی۔ دریں اثناء یورپین سنٹرل بنک کے چیف مارینو ڈرگئی کا کہنا
ہے کہ امریکہ میں ہونے والا شٹ ڈاون دنیا بھر کی معیشت کے لئے خطرہ بن سکتا
ہے۔ منگل یکم اکتوبر کی صبح واشنگٹن میں جو ملازمین حسب معمول اپنے کام پر
آئے، انہیں یہ سننا پڑا کہ حکومتی دفاتر کی بہت بڑی تعداد بند ہو چکی ہے
اور وہ واپس اپنے اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں۔ امریکی حکومت کی موجودہ
مالیاتی صورت حال پر ناامیدی اور پڑمردگی کا شکار ایسے بہت سے ملازمین کا
کہنا تھا کہ اصل میں تو ایوان نمائندگان کے ارکان کی تنخواہیں روکی جانا
چاہییں تھیں۔ ایسے ایک سرکاری ملازم نے بڑی بے صبری سے کہا، ’’اگر ہمیں
تنخواہیں نہیں ملیں گی تو انہیں (کانگریس کے ارکان کو) بھی تنخواہیں نہیں
ملنی چاہییں۔‘‘امریکا میں اس حکومتی شٹ ڈاؤن سے انتہائی اہم حکومتی ادارے،
مثال کے طور پر پبلک اسکول، ٹرانسپورٹ اور قومی سلامتی کے ادارے متاثر نہیں
ہوئے۔ لیکن اب امریکی دارالحکومت میں وہ عوامی گہما گہمی بھی نظر نہیں آتی
جو اس شہر کا خاصا بن چکی ہے۔ درجنوں پبلک عجائب گھر، قومی یادگاریں، حتیٰ
کہ قومی چڑیا گھر تک بند ہو چکے ہیں۔ اس پس منظر میں حکام خبردار کرتے ہوئے
یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ صرف واشنگٹن ڈی سی کے علاقے میں اس شٹ ڈاؤن سے ہونے
والا نقصان روزانہ بنیادوں پر 200 ملین ڈالر اور ہفتہ وار بنیادوں پر قریب
ایک بلین ڈالر تک ہو سکتا ہے۔
امریکی کانگریس کے اقدامات کی عوامی تائید و حمایت کی موجودہ شرح پہلے ہی
بہت کم تھی جو مزید کمی کے بعد اس وقت محض 10 فیصد کی تاریخی حد تک کم ترین
شرح تک پہنچ چکی ہے۔ اس وقت پورے امریکا میں عام لوگوں کے پاس اگر کچھ ہے
تو وہ سیاستدانوں کے خلاف ظاہر کیا جانے والا وہ غصہ ہے، جس کی وجہ منتخب
عوامی نمائندوں کی اس حوالے سے کسی مصالحتی حل تک پہنچنے میں ناکامی
ہے۔امریکی نشریاتی ادارے CNN کے ORC کے ساتھ مل کر کرائے جانے والے ایک
تازہ عوامی سروے کے نتائج کے مطابق ہر دس میں سے سات امریکی شہریوں کی رائے
میں وفاقی حکومتی ادارے چاہے محض چند ہی روز کے لیے بند ہوں، یہ بنیادی طور
پر ایک بڑی منفی پیش رفت ہے۔ واشنگٹن میں ایک مقامی شہری نے کہا، ’’امریکی
شہری کے طور پر مجھے اس صورت حال پر بہت غصہ بھی ہے اور شرمندگی بھی ہو رہی
ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ بات امریکا کے لیے بے عزتی کا باعث ہے۔‘‘
امریکی فضائیہ کے ایک سینئر افسر کَلّیٹن کے مطابق کانگریس کے ارکان کے
رویوں میں، جو پارٹی بنیادوں پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں
مصروف ہیں، فوری طور پر کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ بہت سے امریکی شہری
حکومتی اداروں کی موجودہ بندش کے لیے ایوان نمائندگان میں ریپبلکن ارکان کو
ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس نے صدر اوباما کو صحت عامہ
کے شعبے میں ان کے سنگ میل قرار دیے جانے والے پروگرام سے پیچھے ہٹنے پر
مجبور کرنے کے لیے دفتری کام کرنے والے سرکاری ملازمین کے خاندانوں کو
مالیاتی حوالے سے جیسے یرغمال بنا رکھا ہے۔واشنگٹن میں بین الاقوامی معیشت
کے پیٹرسن انسٹیٹیوٹ کے ایک سینئر محقق جیکب کِرکیگارڈ کو خدشہ ہے کہ
موجودہ صورت حال کچھ بہتر ہونے سے پہلے مزید خراب ہو گی۔ ان کے مطابق، ’’اس
میں کوئی شک نہیں کہ حکومتی شٹ ڈاؤن ملکی معیشت کو بہت مہنگا پڑے گا، ایک
ایسی معیشت جس کی کارکردگی پہلے ہی سے بہت اچھی نہیں ہے۔‘‘ان حالات میں
امریکی کانگریس کے ڈیموکریٹ اور ریپبلکن ارکان عنقریب ہی مل کر ایک بار پھر
کوئی نہ کوئی مصالحتی حل نکالنے کی کوششیں کرنے پر مجبور ہو جائیں گے
کیونکہ امریکی حکومت اپنی معمول کی کارکردگی کو یقینی بنانے کے لیے زیادہ
سے زیادہ جتنے قرضے لے سکتی ہے، ان کی موجودہ حد ممکنہ طور پر 17 اکتوبر کو
پوری ہو جائے گی امریکا میں اس سے قبل بھی شٹ ڈاون ہوتے رہے ہیں۔ کچھ کا
دورانیہ محض چند گھنٹوں کا رہا ہے جبکہ عمومی طور پر یہ دو سے تین دن میں
ختم ہوجاتا ہے۔ تاہم طویل ترین شٹ ڈاون 21 دنوں پر محیط رہا ہے۔یہ گزشتہ شٹ
ڈاون تھا جو 16 دسمبر 1995 کو شروع ہوا تھا اور 5 جنوری 1996 تک جاری رہا
تھا۔ شٹ ڈاون میں حکومت کے پاس اخراجات کرنے کی قانونی اجازت نہیں ہوتی
جبکہ قرض کے بحران میں حکومت کے پاس اخراجات کی منظوری تو ہوتی ہے مگر
اخراجات کے لیے نہ تو اس کے پاس رقم ہوتی ہے اور نہ ہی اسے مزید قرض حاصل
کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ ان میں آپس میں یہ تعلق ہے کہ نتیجہ دونوں کا ایک
ہی نکلتا ہے یعنی حکومت کے پاس اپنے ضروری اخراجات کے لیے یا تو رقم موجود
نہیں ہوتی یا پھر اس کی منظوری نہیں ہوتی۔ اس طرح حکومت کے تمام پروجیکٹس
پر کام رک جاتا ہے اور وفاقی ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی بھی ممکن نہیں
ہوپاتی۔اس قانون کی وجہ سے ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ قانون سازوں کے درمیان
پائے جانے والا اختلاف واضح طور پر منظر عام پر آیا ہے۔ڈیموکریٹس کا کہنا
ہے کہ اوباما کیئر قانون تمام تقاضون کو پورا کرتے ہوئے منظور کیا گیا اور
اب یہ امریکی قانون کا حصہ ہے۔ امریکا کو اپنے فوجی اخراجات اور روزمرہ کے
اخراجات کی ادائیگی کے لیے ہر روز چار ارب ڈالر کا قرض لینا پڑتا ہے۔امریکی
کانگریس کی جانب سے امریکی حکومت پر قرض لینے کی ایک حد مقرر کی جاتی ہے۔
جب قرض کی رقم اس حد تک پہنچ جاتی ہے تو مزید اخراجات کے لیے قانونی طور پر
حکومت بینکوں سے مزید قرض نہیں لے سکتی۔ اس طرح حکومت کے پاس اخراجات کے
لیے رقم نہیں ہوتی۔ اسے قرض کا بحران کہا جاتا ہے۔ اس وقت امریکا پر قرض کی
حد 16.4 ٹریلین ڈالر ہے جو توسیع کرکے 2011ء میں مقرر کی گئی تھی۔ تکینیکی
طور پر امریکا اس حد کو 31 دسمبر 2012ء میں پار کرچکا ہے۔ تاہم اس برس
جنوری میں خصوصی اقدام کے ذریعے امریکی حکومت کو اس میں مہلت دے دی گئی تھی
اور عبوری طور پر اسے مزید قرض لینے کی اجازت بھی۔ اب اندازہ ہے کہ شٹ ڈاون
کے مسئلے سے نمٹتے ہی سترہ اکتوبر کو اوباما حکومت کو قرض کے بحران کا
سامنا کرنا پڑے گار ہیلتھ انشورنس سے محروم افراد کو رعایتی نرخوں پر
پالیسی حاصل کرنے کا موقع فراہم کرے گا تاکہ بیماری کی صورت میں لوگ گھمبیر
معاشی مسائل سے دوچار نا ہوں۔ یکم اکتوبر کی نصف شب سے کچھ دیر قبل وائٹ
ہاؤس کی بجٹ ڈائریکٹر سیلویا بْرویل نے وفاقی اداروں کو ’’مرحلہ وار شٹ
ڈاؤن کے منصوبے پر عملدرآمد‘‘ کا ایک ہدایت نامہ جاری کیا۔ اس اقدام سے
تقریباً آٹھ لاکھ سرکاری ملازمین متاثر ہوں گے۔متاثر ہونے والے وفاقی
سرکاری اداروں میں نیشنل پارک سروس، ٹریفک سیفٹی ایجنسیز اور محکمہ دفاع
شامل ہیں۔ اس ہدایت نامے سے متاثر ہونے والوں میں اکثریت سول ملازمین کی ہو
گی۔ ہوم لینڈ سکیورٹی ایجنٹ، بارڈر سکیورٹی کے دفاتر اور قانون نافذ کرنے
والے ادارے کام کرتے رہیں گے۔ اس شٹ ڈاون کے باوجود صدر براک اوباما کہتے
ہیں کہ امریکی افواج کے اہلکار اپنے فرائض انجام دیتے ہیں اور تمام جاری
کارروائیاں بشمول جو افغانستان میں تعنیات ہیں، اپنا کام جاری رکھیں گے۔ ان
کا کہنا تھا کہ وہ ایک بل پر دستخط کریں گے جس سے اس بات کو یقینی بنایا
جائے گا کہ افواج کے ارکان کو تنخواہوں کی ادائیگی ہوتی رہے۔انھوں نے
کانگریس سے شٹ ڈاؤن کے خاتمے کے لیے کام کرتے رہنے کے عزم کا اظہار بھی
کیا۔اس شٹ ڈاؤن سے صحت عامہ کا قانون متاثر نہیں ہوگا جو کہ کانگریس میں
ہونے والی کھینچا تانی کی ایک بڑی وجہ رہا۔مبصرین کا کہنا ہے کہ دو ہفتوں
سے زائد رہنے والے شٹ ڈاؤن سے ملک کی پہلے سے خراب اقتصادی صورتحال مزید
سست روی کا شکار ہوگی، ھس کی بڑی وجوہات میں سیاحت کی مد میں آمدن میں کمی
اور شٹ ڈاؤن سے متاثرہ وفاقی ملازمین کی جانب سے اخراجات میں کمی شامل ہوں
گی۔امریکہ میں حکومت کا جزوی شٹ ڈاؤن جمعرات کو تیسرے روز میں داخل ہو گیا،
جب کہ اس کے فوری خاتمے کے بظاہر کوئی آثار نہیں۔کانگریس کے رہنماؤں نے صدر
براک اوباما سے بدھ کو دیر گئے تقریباً ایک گھنٹہ طویل بند کمرہ ملاقات کی
تھی جس کے بعد بھی بجٹ کی منظوری سے متعلق کوئی پیش رفت نا ہو سکی۔ایوانِ
نمائندگان کے اسپیکر جان بوئینر کے مطابق مسٹر اوباما نے اْنھیں بتایا کہ
وہ شٹ ڈاؤن کے خاتمے سے متعلق کسی سمجھوتے پر بات نہیں کریں گے۔سینیٹ میں
ڈیموکریٹک رہنما ہیری ریڈ کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹ ریپبلکنز کے ساتھ خوشی سے
ان معاملات پر بات چیت کرنے کو تیار ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں بشرطیکہ بجٹ
منظور کر کے شٹ ڈاؤں کا خاتمہ کیا جائے۔تاہم ملاقات سے قبل مسٹر اوباما نے
نشریاتی ادارے سی این بی سی کو بتایا کہ وہ مشکل صورت حال میں ریپبلکنز کے
ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اْنھوں نے شٹ ڈاؤن کو قطعاً غیر ضروری قرار
دیا۔امریکی حکومت کے شٹ ڈاؤن کی وجہ سے صدر براک اوباما کو اپنا متوقع
دورہِ ایشیا مختصر کرنا پڑا ہے۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ مسٹر اوباما
ملائشیا اور فلپائن نہیں جائیں گے، تاہم توقع ہے کہ وہ ایشیا پیسیفک
اقتصادی تعاون تنظیم اور مشرقی ایشیا کے ممالک کی تنظیم کے سربراہ اجلاسوں
میں شرکت کے لیے انڈونیشیا اور برونائی کا دورہ کریں گے۔امریکی نیشنل
سکیورٹی کونسل کی ترجمان کیٹلن ہیڈن نے کہا کہ یہ اقدام ایوانِ نمائندگان
کی وجہ سے ’’حکومت کے شٹ ڈاؤن کا ایک اور نتیجہ ہے‘‘۔شٹ ڈاؤن کی وجہ وائس
آف امریکہ کی نشریات متاثر نہیں ہوئی ہیں، تاہم سمتھ سونیئن عجائب گھر اور
کئی ایسے دفاتر بند ہیں جن کا تعلق وفاقی ٹیکس اور غریب لوگوں کو خوراک کی
فراہمی جیسی سہولتوں سے ہے۔پینٹاگون کے بیشر سیولین ملازمین بھی کام پر
نہیں جا رہے، اگرچہ امریکی فوج بدستور اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہی ہے۔
خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کی تقریباً تمام سرگرمیاں بند ہو گئی
ہیں۔دیگر وفاقی ملازمین نوکری پر جا رہے ہیں تاہم اس بات کی کوئی ضمانت
نہیں کہ اْنھیں کام کا معاوضہ ملے گا۔ صدر براک اوباما نے کانگریس میں ری
پبلیکن ارکان سے مطالبہ کیا ہیکہ وہ کاروبار ِحکومت کو دوبارہ جاری کرنے
میں مدد دیں، کیونکہ، اْن کے بقول، حکومتی ’شٹ ڈاؤن‘ جتنا طول پکڑے گا،
معیشت کو اْتنا ہی شدید نقصان پہنچے گا۔اوباما نے قوم سے خطاب میں، صدر
اوباما نے ری پبلیکنز کے لیے ایک پیغام میں کہا : ’بجٹ منظور کیا جائے۔ بِل
ادا کیے جائیں۔ مزید انتظار مناسب نہیں۔ تاخیر سے کام نہ لیا جائے‘۔صدر
اوباما نے کہا کہ صحت عامہ کا پروگرام جاری ہے؛ اور ہیلتھ کیئر انشورنس
حاصل نہ کر سکنے والے 15 فی صد امریکی اس نئے پروگرام سے استفادہ کر سکیں
گے۔ اْنھوں نے انشورنس کے بغیر افراد کو ’ہیلتھ کیئر ڈاٹ گو‘ وزٹ کرکے،
اپنا نام درج کرنے کا مشورہ دیا، جہاں، اْن کے بقول، کم آمدنی والے افراد
کو کم لاگت پر بہتر خدمت فراہم ہونے کا موقع ملے گا۔حکومت کے فخریہ ہیلتھ
کیئر پروگرام کے معاملے پر وفاقی حکومت کے شٹ ڈاؤن پر، صدر نے ری پبلیکنز
پر ’نظریاتی مہم جوئی‘ پر عمل پیرا ہونے کا الزام لگایا۔ری پبلیکن پارٹی کی
اکثریت والے ایوان نمائندگان نے نئے مالی سال کے لیے حکومتی رقوم مختص کرنے
کے معاملے کو ہیلتھ کیئر پروگرام سے منسلک کیا ہوا ہے، جسے وہ ’اوباما
کیئر‘ کا نام دیتے ہیں۔ اور اْنھوں نے بارہا اِس کے لیے رقوم نہ مانگے
جانے، اِسے مؤخر کرنے یا ختم کردینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہر بار، ڈیموکریٹک
پارٹی کے اکثریت والی سینیٹ نے ایسی قانون سازی کو مسترد کر دیا ہے۔ بجٹ کے
بارے میں کسی قانون سازی پر سینیٹ کا متفق ہونا لازمی ہے۔شٹ ڈاؤن کے دوران،
تقریباً آٹھ لاکھ وفاقی کارکن ’فرلو‘ (انضباطی چھٹی) پر ہیں، جب کہ باقی
وفاقی کارکن کام پر ہیں، حالانکہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اْنھیں
ڈیوٹی کی انجام دہی پر ادائگی ہوگی۔ کہا جا رہا ہے کہ شٹ ڈاؤن کا ’وائس آف
امریکہ‘ کی نشریات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم، قومی پارکس، ٹریفک کے
حفاظتی ادارے بند رہیں گے، جب کہ محکمہ دفاع کے زیادہ تر شہری ملازمین بے
روزگار رہیں گے۔ امریکی فوج اپنے فرائض ادا کرتی رہے گی، اور افغانستان
جیسی فوجی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ |