ڈالر کے آگے سجدہ ریز ہونے کا مقابلہ

جو لوگ پاکستان اور بھارت کے دُکھ سُکھ سانجھے ہونے کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں، حالات ایک بار پھر اُن پر مہربان ہیں۔ شکر خورے کو کہیں نہ کہیں سے شکر مل ہی جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ پاک بھارت مشترکہ اقدار تلاش کرنے والوں کا بھی ہے۔ بات جغرافیے، ثقافت اور تاریخ تک رہتی تو کوئی بات نہ تھی۔ اب تو امریکی ڈالر بھی ’’قدرِ مشترک‘‘ ہوکر رہ گیا ہے۔ ڈالر کے ذکر پر آپ چونک گئے ہوں گے۔ مگر کیا کیجیے کہ جنہیں چونکنا چاہیے وہ اب تک خوابِ غفلت میں ہیں۔ اب دیکھیے نا، دونوں ممالک کا روپیہ ڈالر کے آگے سجدہ ریز ہے۔ اور اِس سے کہیں بڑھ کر، حقیقت تو یہ ہے دو میں سے ہر روپیہ زیادہ سے زیادہ فرماں برداری ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے۔

ایک زمانے سے یہ بات کہی جارہی تھی کہ ہماری معیشت اور زری نظام مسابقت کے قابل نہیں رہا۔ اب ثابت ہوگیا کہ ہمارا روپیہ بھی ’’مقابلے‘‘ کی سَکت رکھتا ہے۔ ڈالر کے مقابل قدر کی گراوٹ میں پاکستانی روپیہ بھارتی ’’ہم منصب‘‘ کو مُنہ دینے پر کمر بستہ ہے! اور ایسا لگتا ہے کہ اِس ’’معرکے‘‘ میں ہم تھوڑا بہت میدان مار کر ہی لوٹیں گے!

ایک زمانے سے ہم سُنتے آئے ہیں کہ بھارت علاقائی سُپر پاور ہے اور خطے کی کوئی بھی معیشت اُس کے مقابل کھڑی نہیں ہوسکتی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، اشیائے صرف اور صنعتی برآمدات کے شعبے میں بھارت کے خلاف میدان میں اُترنا بظاہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ بھارت نے دُنیا بھر میں نالج ورکرز بھیج رکھے ہیں جو ڈھیروں زرِ مبادلہ وطن بھیج کر معیشت کو مستحکم کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ پھر راتوں رات کیا ہوا کہ بھارتی روپیہ، ڈھیروں زرِ مبادلہ کے باوجود، امریکی ڈالر کے سامنے ڈھیر ہوگیا، بلکہ ڈھے گیا؟ بات ہرگز ایسی نہیں کہ آسانی سے سمجھ میں آسکے۔ جس ملک کو معیشت کے بل پر علاقائی سُپر پاور ہونے کا زُعم رہا ہے اور جو افغانستان کے ذریعے بیرونی مہم جُوئی کا شوق بھی پورا کرنا چاہتا ہے اُس کے لیے سفارت کاری کے سمندر میں راتوں رات یہ ’’سنکٹ‘‘ کا جزیرہ کہاں سے اُبھر آیا؟

ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ بھارت عالمی معیشت میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے پَر تول رہا تھا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ راتوں رات سارے سپنے راکھ ہوئے؟ سپنوں کا تاج محل کیونکر زمیں بوس ہوگیا؟
پاکستان اور بھارت میں ڈالر کی قدر اِتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ عقل دنگ ہے اور ہاتھ تنگ ہوا جاتا ہے۔ ہر گزرتا ہوا دن ڈالر کے کھونٹے کو مضبوط کر رہا ہے۔ اور سچ پوچھیے تو دونوں ہمسایا کرنسیوں کے سینے میں ڈالر کی کیل گڑی جارہی ہے! حیرت کی بات یہ ہے کہ عالمی منڈی میں ڈالر کمزور ہو رہا ہے۔ کئی کرنسیاں اُسے مُنہ دینے پر تُلی ہوئی ہیں اور اِدھر ہم ہیں کہ ہماری کرنسیاں اپنا سا مُنہ لیکر رہ گئی ہیں! پاکستان ہو یا بھارت، روپے کی قدر میں گراوٹ کا یہ حال ہے کہ کچھ دن بعد شاید روپے کو ایک نظر دیکھنے کے بھی لوگ پیسے مانگا کریں گے!

دُنیا یہ تماشا دیکھ کر محظوظ ہو رہی ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا اپنے پَر سمیٹ کر ڈالر کے سامنے خاصا reserved ہوگیا ہے۔ اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ریزرو بینک آف انڈیا کے وہ reserves کیا ہوئے جو ایسی ہی مشکل کی گھڑیوں میں کام آیا کرتے ہیں! کیا اُنہیں کسی مزید بُرے وقت کے لیے بچاکر رکھا گیا ہے؟

اِدھر ہمارا اسٹیٹ بینک ہے کہ روپے کی قدر میں گراوٹ روکنے کے حوالے سے static ہے۔ یہ ’’زمیں جُنبد، نہ جُنبد گل محمد‘‘ کے مصداق صورتِ حال کو محض تماشائی کی حیثیت سے دیکھ رہا ہے۔ یہ روش خود اسٹیٹ بینک کو تماشا بنانے پر تُلی ہوئی ہے۔ چند لوگوں نے اِسے باپ کی جاگیر یعنی estate bank بناکر صرف کاغذ کے نوٹ چھاپنے کا ادارہ بنا ڈالا ہے۔ وہ سُنہرا دور خیال و خواب کی نذر ہوا جب چھاپی جانے والی کرنسی کی پُشت پر سونا ہوا کرتا تھا۔ روپے کی پُشت پناہی کے لیے سونا رکھنے کی روایت نے دم توڑا تو اندھا دُھند نوٹ چھاپنے کی روش پر گامزن رہنے والوں کی چاندی ہوگئی۔ اب ہر مسئلے کا صرف یہ حل رہ گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوٹ چھاپیے اور پھیلا دیجیے۔ دُنیا کِس چیز پر مرتی ہے؟ زر پر! ہاتھ میں زر ہو تو مسائل حل ہوتے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں زری نظام کے مینیجرز نے شاید یہ سمجھ لیا ہے کہ زر کا حجم بڑھانے سے مسائل حل ہوجائیں گے۔ یہی سبب ہے کہ بازار میں زیادہ سے زیادہ (کاغذی) زر لایا جارہا ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ بعض دِل جلے ماہرین اِس صورتِ حال کو ’’افراطِ زر‘‘ (زر کی زیادتی) قرار دے کر سرکاری مشینری ’’بے فضول میں‘‘ شرمسار کرنے پر تُلے ہوئے ہیں!

بازارِ زر میں ڈالر جیسے عفریت کو سامنے دیکھ کر ہمارے مانیٹری مینیجرز نے شُتر مُرغ کی طرح ریت میں مُنہ چُھپالیا ہے۔ ڈالر نے قیامت ڈھانے کی قسم کھا رکھی ہے اور ہم اُسے خوش آمدید کہنے پر بضد ہیں! کبھی کبھی مہمان نوازی کا انداز مہمان کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ ڈالر کے معاملے میں ہمارا رویہ کچھ ایسا ہی ہے۔ یعنی ع
’’وہ‘‘ آئے، آئے کہ ہم دِل کُشادہ رکھتے ہیں!
طرح طرح کے بے بنیاد خدشات ہیں جو ڈالر کو مضبوط کئے جارہے ہیں۔ عالمی معیشت کے تمام اشاریوں کو یکسر نظر انداز کرکے ہم نے یہ فرض کرلیا ہے کہ ڈالر کی چھتری تان لینے سے معاشی و مالیاتی مسائل کے چھینٹوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے!

پاکستان میں اب ہر چیز اِس تیزی سے قدر کھو رہی ہے کہ اہلِ وطن کو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کے گھٹتے رہنے پر ذرا بھی حیرت نہیں۔ روپیہ کیوں اِس قدر بے قدر ہوا جارہا ہے، اِس کی توضیح اور توجیہ منفرد انداز سے کی جارہی ہے۔ کوئی کہتا ہے حج سیزن میں ڈالر کی طلب بڑھ ہی جایا کرتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو ہر سال حج سیزن میں ڈالر قیامت کیوں نہیں ڈھاتا؟ صرف اب کے ایسا کیوں ہے کہ ہم حج سے بہت پہلے اپنے ہی روپے کو کنکریاں مارنے پر تُل گئے ہیں؟ کسی کا استدلال ہے کہ بیرونی قرضوں کا دباؤ اور ادائیگیوں کا معاملہ ڈالر کی وقعت بڑھا رہا ہے۔ مگر یہ بھی کوئی انوکھی کیفیت نہیں۔ پاکستان پر تو قرضوں کا بوجھ ہر وقت رہتا ہے۔ پھر تو ہر وقت روپے کی قدر ایسی تیزی ہی سے گھٹتی رہنی چاہیے! اِتنی ساری بہانے بازی کرنے کے بجائے صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیا جاتا کہ معاملات نا اہل مشینری کے ہاتھ میں ہیں؟
بھارت میں بھی کوئی سمجھ نہیں پارہا کہ ڈالر کے سامنے روپے نے کیوں ریت میں سَر دے دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں مقابلہ ہو رہا ہے کہ ڈالر کے آگے کون کس حد تک سجدہ ریز ہوسکتا ہے! شاید ’’پیا‘‘ کو رِجھانے کا اِن کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا! اگر دونوں ممالک اِس روش پر گامزن رہے تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ڈالر کا چھوٹا سا بنڈل خریدنے کے لیے گاڑی بھر کرنسی دینی پڑے گی!
پاکستان کے فائنانشل مینیجرز اب بھی بیدار نہ ہوئے تو روپے کی بے توقیری بڑھتی جائے گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم مال کے بدلے مال کے نظام (بارٹر سسٹم) کو گلے لگالیں! وقت آگیا ہے کہ ڈالر کے آگے سجدہ ریز ہونے کا عمل ترک کرکے قومی غیر و حمیت کے تقاضے کے طور پر اپنی کرنسی کو مضبوط کرنے پر توجہ دی جائے۔ دِل کی تسلی کے لیے صرف یہ خیال کافی نہیں کہ بھارتی روپیہ بھی تو ڈالر کے آگے سجدہ ریز ہے! اہمیت اِس بات کی ہے کہ ہماری کرنسی قیام کی حالت میں رہے۔

M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524485 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More