پی پی پی کی حکومت کے خاتمے کے چنددنوں بعد رحمان ملک
ٹیلیویژن پر نمودار ہوئے اور بہت سی نادر دستاویز عوام کو دکھانے کے بعد
اپنا یہ مطالبہ دہرایا کہ نیب ان دستاویز کی بنیاد وں پر میاں برادران کے
خلاف مقدمات قائم کر کے انھیں انتخابات کیلئے نا اہل قرار دے۔ کیسی بے تکی
حرکت تھی جو کہ رحمان ملک نے کی تھی ۔سنجیدہ حلقوں نے رحمان ملک کی اس چال
کو بڑے ہی غیر سنجیدہ انداز میں لیا تھا کیونکہ یہ ساری دستا ویز اس وقت
بھی رحمان ملک کی دسترس میں تھیں جب وہ وزیرِ داخلہ تھے اور میاں برادران
پر مقدمات دائر کرنے کا آئینی اختیار رکھتے تھے۔ہونا تو یہ چائیے تھا کہ جب
رحمان ملک وزیرِ داخلہ تھے تو وہ ان دستا ویز کی بنیاد پر کاروائی کرتے اور
قومی خزانے کو لوٹنے اور اس پر ہاتھ صاف کرنے والے عناصر کے خلاف قانونی
کاروائی کر کے انکی اصلیت قوم کو بتاتے اور یہ ثا بت کرتے کہ پی پی پی
کرپشن کاارتکاب کرنے والوں کو کسی بھی حال میں معاف نہیں کرتی لیکن افسوس
صد افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا اور میاں برادران انتخابات کے نتیجے
میں اقتدار کی مسند پر جلوہ افروز ہو گئے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب پی
پی پی اقتدار میں تھی اور رحمان ملک وزیرِ داخلہ تھے تو انھیں کس نے ان
مقدمات کو قائم کرنے سے روکا تھا جن کے بارے میں وہ نگرانوں سے مقدمات دائر
کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے ۔کچھ لوگوں نے یہ فرض کر لیا ہوا ہے کہ وہ بہت
چالاک اور ہوشیار ہیں اور عوام بالکل بدو اور بیوقوف ہیں لہذا انھیں اسطرح
کی رنگ بازیوں سے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے اور وہ ایسا کرتے رہتے ہیں لیکن
آخر میں خود ہی بیوقوف بن جاتے ہیں۔رحمان ملک کا فرض تھا کہ اگر یہ مقدمات
سچائی پر مبنی تھے تو انھیں عدالتوں میں دائر کرتے اور میاں برادران کو ان
کی کرپشن کی بنیا د پر سزا دلواتے لیکن ان ایام میں تو پی پی پی اس جانب
دیکھنے کیلئے بالکل تیار نہیں تھی کیونکہ وہ اپوزیشن کو اس طرح کا احساس
نہیں ہونے دینا چاہتی تھی جس کی وجہ سے ملک میں ہنگامی صورتِ حال پیدا ہو
جاتی اور اس کے پانچ سالہ اقتدار کے چھن جانے کا کوئی خدشہ جنم لے لیتا ۔پی
پی پی کی قیادت کے دل و دماغ پر پانچ سال پورے کرنے کی دھن سوار تھی چاہے
اس کی وجہ سے کرپٹ عناسر قانون کی گرفت میں آئیں یا نہ آئیں ۔پی پی پی کا
استدلال تھا کہ پانچ سال پورے کرنا جمہوریت کی مضبوطی کیلئے انتہائی ضروری
ہیں اور انھوں نے اس ہدف کو ہرحا ل میں حاصل کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا
لیکن اپنی اس سوچ کی انتخابات میں انھیں بڑی ہی بھاری قیمت چکانا پڑی تھی
کیونکہ عوام نے انھیں ان انتخابات میں بالکل مسترد کر دیا تھا۔کیا اس طرح
کی سوچ کے معنی یہ لئے جائیں کہ پانچ سالوں کے اقتدار کی خاطر انصاف کا خون
ہوتا ہے تو ہو جائے لیکن سیاسی مخالفین اور گناہ گاروں سے کوئی پوچھ گچھ
نہیں ہو گی ۔جمہوریت کے حقیقی معنی تو احتسابی نظام کا قیام ہوتا ہے اور
کسی وجہ سے اگر احتسابی نظام قائم نہیں ہوتا توسمجھ لیجئے یہ جمہورت کے نام
پر کوئی دوسرا کھیل ہے کیونکہ جمہوریت میں کسی کو بھی احتساب سے استثناء
حاصل نہیں ہوتا۔
پی پی پی نے اپنے دورِ حکومت میں بڑی اہم آئینی ترامیم کیں جو کہ ایک
تاریخی کارنامے کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس کا کریڈٹ پی پی پی کو نہ دینا اس
کے ساتھ زیادتی ہو گی لیکن بدقسمتی سے پی پی پی احتساب کا قانون لانے میں
ناکام رہی۔وہ چیز جس کی قوم کو سب سے زیادہ ضرورت تھی اس جانب حکومت اور
اپوزیشن نے بالکل دھیان نہیں دیا بلکہ حیلے بہانوں سے اس مو ضو ع کو ٹالٹے
رہے۔پانچ سالوں کا عرصہ کوئی معمولی مدت نہیں ہو تی لیکن ان پانچ سالوں میں
ا حتسا ب کا قانون پارلیمنٹ میں پیش نہ کیا جاسکا۔ ہمارے ہاں چند خاندانوں
نے ملکی وسائل اور اس کے سارے خزانوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور وہی بار بار
پارلیمنٹ کا حصہ بنتے ہیں لہذا کوئی ممبر آف پارلیمنٹ یہ نہیں چاہتا کہ وہ
کسی بھی ادارے کے سامنے جوابد ہ ہو ۔ پاکستان کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے
کہ قانون کمزوروں اور ناتوانوں کیلئے ہوتا ہے لہذا اہلِ اقتدار طبقے اس کی
زد سے ہمیشہ بچے رہتے ہیں۔ میری ذ اتی رائے ہے کہ ملکی حالات اس نہج پر
پہنچ گئے ہی جہاں پر اب حتساب کے مطالبے کو مزید ٹالا نہ جا سکے گا۔پوری
قوم اس بات پر متفق ہے کہ ہر اس شخص کا ا حتساب ضروی ہے جس نے ملکی خزانے
کو لوٹا ہے اور اس پر ہاتھ صاف کیا ہے۔عمران خان کی تحر یکِ انصاف نے عوام
کے اندر اس احسا س کو اتنا قوی کر دیا ہے کہ اب اس سے صرفِ نظر کرنا ممکن
نہیں رہا۔اس وقت پاکستانی عدالتوں میں بے شمار مقدمات زیرِ التوا ہیں جو
اپنے منطقی انجام کو پہنچنا چاہتے ہیں ۔اگر تحریکِ انصاف میدان میں موجود
نہ ہوتی تو یہ ممکن تھا کہ مک مکا ؤکے تحت ان مقدمات کو سرد خا نے میں ڈال
دیا جا تا لیکن تحریکِ انصاف کی موجودگی میں ایسا ممکن ہوتا ہوا نظر نہیں
آرہا کیونکہ تحریکِ ا نصا ف نے اسی ایک نعرے پر تو لاکھوں ووٹ حاصل کئے ہیں۔
پی پی پی کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں جس ایشو پر سب سے زیادہ گرد اڑ ئی
گئی وہ سوئیس کیس تھا ۔عدلیہ اور حکومت کئی بار تصادم کے قریب پہنچے لیکن
پھر کسی انجانے ہاتھ کی طلسماتی کارستانی سے یہ تصادم ٹلتا رہا ۔ آٹھ ستمبر
اس استثناء کی آخری تاریخ تھی کیونکہ اب آصف علی زرداری صدارت سے فارغ ہو
چکے ہیں اور ان کا صدارتی استثناء باقی نہیں رہا ۔ دیکھتے ہیں کہ اب اس
مقدمے کا کیا نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کیونکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری
بدستور اپنے عہدے پر فائز ہیں اور ان کی پہلی ترجیح یہی ہو گی کہ اس مقدمے
پر کاروائی کا آغاز کیا جائے اور اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے ۔ یہ
مقدمہ عدلیہ کی ساکھ کا بھی امتحان ہو گا کیونکہ اس پر عدلیہ نے پورے چار
سال ضا ئع کئے تھے ۔ آصف علی زرداری چونکہ اس مقدمے میں ایک فریق تھے لیکن
صدارتی استثناء کی وجہ سے ان کے خلاف کاروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی
تھی لیکن اب جبکہ یہ استثناء ختم ہو چکا ہے تو پھراس مقدمے کا مقدر کیا ہو
گا ایک سوال کی صورت میں سب کے سامنے کھڑا ہے؟کیا یہ مقدمہ ایک دفعہ پھر
میڈیا اور اخبارات کی حد تک ہی محدود رہے گا یا اس میں متعلقہ افراد سے سے
باز پرس کر کے قانون کی با لا دستی کو یقینی بنایا جائیگا؟
مسلم لیگ (ن کی حا لت بھی قابلِ رشک نہیں ہے۔اس کی قیادت پر بھی کئی مقدمات
دائر ہیں جس میں حدیبیہ پیر مل سرِ فہرست ہے۔ میاں محمد نواز شریف کے
وزارتِ عظمی کا حلف اٹھانے کے بعد نیب کا چیرمین ان کی مرضی سے ہی تعین کیا
جانا ہے لہذ اشارے یہی ہیں کہ یہ مقدمہ ما ضی کی طرح ایک دفعہ پھر فائلوں
میں ہی دبا رہیگا۔ایک دوسرا اہم کیس جو پچھلی دو دہائیوں سے سرد کانے میں
پڑا ہوا تھا اس کا فیصلہ بھی ہو چکا ہے ۔میری مراد صغر خان کیس سے ہے۔ ا
صغر خان کیس میں اے ایس آئی اور دوسری خفیہ ایجنسیوں نے جو رقوم تقسیم کی
تھیں ان کی رو سے میاں برادران اور بہت سے دوسرے سیاستدان جو پی پی پی
مخالف کیمپ سے تعلق رکھتے ہیں ان کے بارے میں سپریم کورٹ نے ایک کمیشن قائم
کرنے کا حکم دیا تھا۔پی پی پی اپنی مفا ہمتی سیا ست، کمزور حکومت اور بہت
سے دوسرے عوامل کی وجہ سے وہ کمیشن قائم نہ کرسکی جس کی ذمہ داری اب وزیرِ
اعظم میاں محمد نواز شریف کے کندھوں پر آن پڑی ہے ۔ عدالت کی بالا دستی کا
شور ہم نے پچھلے پانچ سالوں میں بہت سنا ہے لہذا اب وقت آگیا ہے کہ عدالت
کی بالا دستی کو قائم کرنے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں اور دنیا پر ثابت
کیا جائے کہ عدالت کا ہر حکم نئی حکومت کیلئے سر آنکھوں پر ہے۔ قرآن تو بڑے
واضح انداز میں کہتا ہے کہ سچ کی بالا دستی کیلئے اپنے خلاف بھی گواہی دو
تاکہ سچ کا بول بالا ہو سکے ۔ کیا میاں محمد نواز شریف اپنے خلاف اس طرح کا
کوئی کمیشن قائم کر کے سچ کا بول بالا کریں گئے جس کا حکم سپریم کورٹ نے
اصغر خان کیس میں دے رکھا ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ میاں محمد نواز شریف
بھی پچھلی حکومت کی طرح آئیں بائیں شائیں کریں گئے اور اسی طرح کی چالاکیوں
کا مظا ہرہ کریں گئے جس طرح کی چالاکیاں پی پی پی نے اپنے دورِ حکومت میں
کی تھیں لیکن اتنا بہر حال انھیں یاد رکھنا چائیے کہ چالاکیوں کا انجام بہت
برا ہوا کرتا ہے۔کروڑوں آنکھیں دیکھ رہی ہوتی ہیں لیکن وہ کسی قسم کے ردِ
عمل کا مظاہرہ نہیں کرتیں لیکن جب اظہار کا وقت آتاہے تو پھر ایسا ٹھپہ
لگاتی ہیں کہ کئی عشروں کی محنت پر پانی پھر جاتا ہے جس کو بھی میری اس بات
میں شک و شبہ ہو تو وہ گیارہ مئی ۲۰۱۳ کے انتخا بی نتائج کا سرسری جائزہ
لے لے اس پر ساری حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائیگی ۔۔۔۔ |