مل ہی جائیگی اسے اس کی سزا

 ’’ قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں ‘‘اورقانون سب کے لئے برابر ہے ،اس کی مثال ابھی دیکھنے میں آئی، لیکن کیا سچ میں قانون کے ہاتھ اتنے لمبے ہوتے ہیں کے وہ ہر گنہگار کے گناہوں کی سزا اسے دیتا ہے یہ کہنا ابھی پوری طرح صحیح نہیں ہوگا ۔کیونکہ کئی ایسے مجرم ہیں جو آج بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں ،ہزاروں لوگوں کا قتل کر اس ملک کے سب سے اونچے عہدے پر پہنچنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ۔رانچی کی ایک سی بی آئی عدالت نے بہار کے سابق وزیراعلیٰ اور سابق مرکزی وزیر ریل لالو پرساد یادو کے خلاف مویشیوں کے چارے میں بدعنوانی کے معاملے میں فردِ جرم عائد کی ۔مویشیوں کے لیے چارہ میں ہوئی بد عنوانی کا معاملہ 1996 کا ہے اور فردِ جرم میں سابق وزیر اعلی جگن ناتھ مشرا کے علاوہ لالو پرساد یادو کی جماعت آر جے ڈی کے رکن پارلیمان جگدیش شرما اور سابق رکن اسمبلی آر کے رانا کے نام بھی شامل ہیں۔سی بی آئی کے خصوصی جج وی کے شری واستو کی عدالت میں بانکا اور بھاگلپور کے سرکاری خزانوں سے فرضی طور پر چھیالیس لاکھ روپے نکالنے سے متعلق فرد جرم عائد کی گئی ۔چارہ سکینڈل 1996 میں پہلی بار سامنے آیا ، مویشیوں کے پالنے سے متعلق محکمہ سے غیر قانونی طور پر 9.50 کروڑ روپے نکالے گئے تھے۔اس وقت ریاست بہار کے وزیراعلی لا لو پرساد یادو تھے ،اور کانگریس کے سینئر رہنما جگن ناتھ مشرا اپوزیشن پارٹی کے رہنما ۔چارہ گھوٹالہ کا معاملہ سامنے آنے کے بعد ملک بھر میں زبردست سیاسی بحث چھڑ گئی اور پھر اس کی تفتیش مرکزی تفتیشی ادارہ سی بی آئی کے سپرد کی گئی ۔اسی مسئلے پر لالو پرساد یادو کو کئی بار گرفتار کیا گیا اور انہیں جیل کی ہوا کھانی پڑی ،اس وجہ سے انہیں بہار کے وزیر اعلیٰ کی کرسی سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔

اگر داغی نیتاؤ کا انتخاب میں حصہ نہ لینے والا سپریم کورٹ کا فیصلہ عمل میں آتا ہے تو اس کا سب سے پہلاشکار لالو یادو ہی بنیں گے ۔اور شاید انکا کیرئیر ہی ختم ہوجائے ،کیونکہ اگر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ان کا جرم ثابت ہوجاتا ہے تو انہیں 3-6 سال تک کی سزا ہو سکتی ہے ۔اور سپریم کورٹ کے حکم نامہ کے مطابق ایسا کوئی بھی لیڈر جس پر کسی قسم کا الزام ثابت ہوچکا ہے اور اسے سزا وار قرار دیا جاچکا ہے تو وہ کسی بھی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا چاہے وہ لوک سبھا الیکشن ہو یا راج سبھا الیکشن ،
گزشتہ 17 سال سے لالو پرساد کو سزا دلانے کی کوشش کرنے والے لوگ ان دنوں اچانک خاموش ہو گئے ہیں۔چارہ گھوٹالے کی جانچ کی درخواست داخل کرنے والی جماعت بڑامتوازن رد عمل دے رہی ہے۔ ’’یہ عدالتی عمل کا ایک پڑا و ہے ‘‘اس پر سیاسی ردعمل کی ضرورت نہیں ۔ اپنے ہر رد عمل میں تمام پارٹیاں اس بات کا پورا خیال رکھ رہی ہیں کہ ان کے کسی بیان سے لالو پرساد کے حق میں ہمدردی کا ماحول نہ بن جائے ۔گھوٹالے کی جانچ کی مانگ والی پٹیشن کی پیروی کرنے والے سینئر وکیل پی کے شاہی ان دنوں ریاستی حکومت میں وزیر ہیں،انہوں نے عدالت کے فیصلے پر منہ ہی نہیں کھولا،جبکہ لالو پرساد کی پارٹی کے رہنماؤ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ایک سیاسی سازش کا نتیجہ ہے ۔ اس معاملے پر بی جے پی کا رخ ایکدم بدلا ہوا ہے ،وہ اب چارہ گھوٹالہ معاملہ کو نیا اینگل دے رہی ہے۔نریندر مودی اور روی شنکر پرساد مطالبہ کر رہے ہیں کہ لالو کے بعد وزیر اعلی نتیش کمار اور جے ڈی یو ایم پی شیوانند تیواری کو تفتیش کے دائرے میں لا کر مقدمہ شروع کیا جانا چاہئے۔ اس معاملے میں ردعمل نہ دینے کی اہم وجہ یہ ہے کہ چارہ گھوٹالہ تمام پارٹیوں کی ملی جلی سازشوں کو نتیجہ تھا۔ اتفاق سے عدالت نے جن افراد کو قصوروار قرار دیا ہے ، اس میں ہر بڑی پارٹی کا کوئی نہ کوئی لیڈر ضرور شامل ہے ، لالو پرساد اور ودیا ساگر نشاد ،راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر ہیں تودھروبھگت بی جے پی سے وابستہ ہیں،سابق وزیر اعلی ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا اور ڈاکٹر جگدیش شرما جے ڈی یو خیمے سے آتے ہیں ،وہیں ڈاکٹر مشرا کے جس سفارشی خط کو سزا کی بنیاد بنایا گیا ہے، وہ اس وقت کاہے جب ڈاکٹر مشرا کانگریس میں تھے۔اس لئے کانگریس بھی خاموشی میں ہی اپنی عافیت سمجھ رہی ہے۔یوں بھی لالو پرساد یادو بہار کے ایک مشہور و محبوب لیڈر ہیں ،اور انہوں نے تقریباً 15 سال بہار میں حکومت کی ہے یہ اور بات کے ان میں 5 سال بہار کی وزیر اعلیٰ ان کی بیوی رابڑی دیوی رہیں ۔لالو پرساد یادو ایک اعلیٰ سیاسی ذہن رکھتے ہیں اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ جے پی آندولن کے بعد انہوں نے جو مقبولیت اور مرتبہ حاصل کیا وہ ان کی سیاسی سمجھ کی عکاسی کرتا ہے ۔ انہوں نے بہار میں لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا پر پابندی عائد کر اقلیتوں کے درمیان جس طرح اپنی مقبولیت میں اضافہ کیااس کی وجہ سے انہوں نے MY (مسلم اور یادو )ووٹ کی بنیاد پر بہار میں اتنے عرصہ تک حکومت کی ۔یہ صحیح ہے کہ لالو یادو نے غلطی کی جس کی سزا انہیں مل رہی ہے یا ملے گی ،لیکن کیاصرف لالو یادو کی سزا کے بعد یہ سمجھ لینا کہ یہاں ہر گنہگار کو اس کے کئے کی سزا ملتی ہے صحیح ہوگا ؟لالو یادو نے تو صرف چارہ گھوٹالہ کیا لیکن جس نے انسانوں کو چارہ کے طور پر استعمال کیا اسے اس کے کئے کی سزا کب ملے گی ۔چارہ گھوٹالہ 9.50 کروڑ کا تھا ،تو انہیں 5 سال کی سزاور 25 لاکھ جرمانہ ا کااعلان کیاگیا لیکن جس نے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں تباہ کردی ،جس کی وجہ سے سیکڑوں گھر راکھ کی ڈھیر میں تبدیل ہوگئے ،جس نے ہندوستان کے سیکولر ذہن میں فرقہ پرستی کا زہر بھرا اسے سزا کب تک ؟سوال تو ذہن میں اٹھتے ہی رہتے ہیں ،ہندوستان کی عدلیہ پر ،یہاں کی سیاسی جماعتوں کے دوہرے رویہ پر ،یہاں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی ذہنیت پر کہ یہ آواز کیوں نہیں بلند کرتے ،کب تک سیکڑوں لوگوں کے قتل کا ملزم اس طرح کھلا گھومتا رہیگا ،اوراس پر یہ کہ وہ اس ملک کاوزیر اعظم بننے کی دوڑ میں بھی شامل ہوجائیگا،اور اپنی کوششوں سے ملک کے دیگر حصوں میں بھی شر پسندی کی آگ کو بھڑکاتا رہیگااور اپنی سازشوں سے ملک کی بڑی ریاستوں کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک ڈالے گا ،آخر کب تک معصوم لوگوں کے صبر کا امتحان لیا جائیگا؟سب جانتے ہیں کہ بی جے پی ایک فرقہ پرست ذہنیت والی جماعت ہے لیکن کم از کم وہ ایک صاف شبہہ کے لیڈر کا نام وزیر اعظم کے عہدے کے لئے رکھے گی ایسی امید کی جارہی تھی،کیونکہ ایک بار بی جے پی ایسا کر چکی ہے جس کی وجہ سے اسے زیر اقتدار آنے کا موقع حاصل ہوا تھا ۔ لیکن ایک ایسا انسان جسے اس کی پارٹی کے لوگ بھی پسند نہیں کرتے اسے اس پارٹی نے وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار نامزد کیا ،حیرت ہوتی ہے بی جے پی کی سوچ پر ،لیکن جہاں ہٹلر موجود ہو وہاں کس کی چلتی ہے ۔صرف فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعہ خود کو ہندوستان کا سب سے مقبول لیڈر کہلانے والا شاید اپنی زمینی حقیقت سے انجان ہے ۔ملک کی ہر دوسری آنکھ میں مجرم کی شبہہ رکھنے والا شخص خود کو سب سے مقبول لیڈر کہتا ہے تو ایسے خوش فہمی کے شکار شخص کو ہم کہہ بھی کیا سکتے ہیں ۔ہاں بھروسہ کیا جاسکتا ہے ہندوستان کی عدلیہ پر جہاں گنہگار کے گناہوں کی سزا ملتی ہے ،امید کی جاسکتی ہے ان سیکولر ذہنیت والے لوگوں سے جو اس ملک میں امن و اتحاد چاہتے ہیں ،کہ یہ اس ملک کی وراثت ان ہاتھوں کے سپرد نہیں کرینگے جو خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔اور کامل یقین اس ذات پر جو ہرگنہگار کے کئے کی سزا اسے ضرور دیتا ہے ۔جو صبر کا سلہ دیتا ہے جو ظالموں کو کبھی معاف نہیں کرتا ۔ہمیشہ بہتری کی امید کرنی چاہئے ،اور کوشش بھی ۔ہمیں پورا یقین ہے ایک دن گنہگاروں کو ان کے کئے کی سزا ضرور ملے گی ۔ہم ایسی امید کرتے ہیں اور امید پر دنیا قائم ہے ۔

Misbah Fatima
About the Author: Misbah Fatima Read More Articles by Misbah Fatima: 14 Articles with 12289 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.