سعادت حسن منٹو ذاتی یاداشتوں پر مبنی اوراق

ابو الحسن نغمی کی کتاب

مجھے کیا خبر تھی کہ ایک روز میں جناب ابو الحسن نغمی سے رابطے میں آجاؤں گا۔یہ انٹرنیٹ بھی عجب ایجاد ہے، درمیان میں حائل فاصلے ایسے مٹتے ہیں گویا تھے ہی نہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب نغمی صاحب کی خودنوشت ’یہ لاہور ہے‘ تازہ تازہ پڑھی تھی۔نصف صدی سے زائد کا قصہ ہے جب انتظار حسین کی اپنے احباب کے ہمراہ محمد حسن عسکری سے پہلی ملاقات ہوئی ، تعارف ہونے پر انتظار حسین نے عسکری سے پوچھا: آپ محمد حسن عسکری ہیں‘‘۔۔جواب ملا’ جی‘۔انتظار حسین کے دوستوں میں ایک صاحب نے کہ سعید بور کہلاتے تھے ،استعجاب کے عالم میں پہلے انتظار حسین کی جانب دیکھا اور پھر عسکری سے پوچھ بیٹھے: ’’ حرامجادی والے عسکری‘‘ ؟
کچھ اسی طرح میں نے بھی نغمی صاحب سے پوچھا تھا کہ آپ وہی ہیں نا۔۔۔’یہ لاہور ہے‘ والے نغمی صاحب ؟

عمر کے ساتھ ساتھ انسان کے خد و خال ضرور تبدیل ہوجاتے ہیں لیکن عموما اس کی آوازویسی ہی رہتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہونے والے موہنی حمید کے پروگرام کے ’بھائی جان ‘کی آواز آج بھی ویسی ہی ہے جیسی ان دنوں میں رہی ہوگی۔ آج بھی جب میری ان سے گفتگو ہوتی ہے، ان کی آواز کا اثر دیر گئے تک رہتا ہے۔ گھن گھرج والی، گہری عمیق آواز، تہذیب اور شائستگی کے رچاؤ کی حامل،خالصتا ریڈیو کی آواز۔لاہور سے نقل مکانی کے بعد ابوالحسن نغمی وائس آف امریکا ،واشنگٹن سے انٹرنیشنل براڈکاسٹر کی حیثیت سے وابستہ رہے ۔ خالد حسن مرحوم نے ان پر انگریزی میں مضمون لکھا تھا ، اس کا عنوان تھا ’ایک لاہوری امریکہ میں‘ ، خالد حسن کہتے ہیں کہ لاہور نے ۱۹۷۲ میں ابو الحسن نغمی کو شہر بدر کیا لیکن لاہور خود کو ابو الحسن نغمی کے اندر سے نہ نکال سکا۔

جب میں نے ’یہ لاہور ہے ‘ کے پس ورق نغمی صاحب کی تصویر پہلی مرتبہ دیکھی تو وہ تمام لوگ یاد آئے جو اپنے بڑھاپے کے خوشگوار ہونے کی دعا کیا کرتے تھے ۔اس خوشگوار بڑھاپے میں انھوں نے واشنگٹن میں اپنی رفیقہ ٔ حیات یاسمین نغمی کے تعاون سے اردو کے عالمی ادارے ’’انجمن ادب اردو‘‘ کا سنگ بنیاد رکھا جس کا انگریزی نام ’’سوسائٹی آف اردو لٹریچر ‘‘ ہے ۔ متذکرہ انجمن کے ذریعے نغمی صاحب د یار غیر میں اردو زبان و ادب کی قندیل کو روشن رکھے ہوئے ہیں۔

ایک روز یونہی تنہا بیٹھے غم جاناں کا حساب کرتے کرتے جناب ابو الحسن نغمی کو خیال آیا کہ زندگی کے سفر میں وہ بہت دور نکل آئے ہیں اور کیوں نہ اس شخص کی جلتی بجھتی یادوں کو صفحہ قرطاس پر یکجا کیا جائے جو آج بھی ان کے ذہن و قلب میں بمثل چراغ روشن ہے ۔ دنیا جسے سعادت حسن منٹو کے نام سے جانتی ہے۔خدا سلامت رکھے ان کی پرانی ڈائریوں کو جو منٹو سے متعلق ان کی یادوں کو محفوظ کرنے کا سبب بنیں۔ کیا عجب اتفاق ہے کہ آج جب ادب کا ایک طالب علم یہ بے ربط سی تحریر سپرد قلم کررہا ہے ، سعادت حسن منٹو کی پیدائش کو سو برس مکمل ہوچکے ہیں۔۱۸ جنوری ۱۹۵۵ کو منٹو کے انتقال کے روز تک، ابو الحسن نغمی کو منٹو کی زندگی کے آخری تین برسوں میں ان کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا تھا۔ زیر تذکرہ کتاب انہی دنوں کی روداد ہے۔ان دنوں کی روداد جن کے بارے میں ۱۹۸۴ میں عصت چغتائی نے ابو الحسن نغمی سے کہا تھا ’’ اﷲ ! وہی تین برس تو ان کی زندگی کے انتہائی دکھ بھرے دن تھے‘‘۔۔۔ اس سے قبل اے حمید ہمیں اپنے مضامین کے ذریعے منٹو کے آخری ایام کی جھلک دکھا چکے ہیں ، اسی طرح ۱۹۵۵ میں اسد اﷲ غالب نے ’منٹو میرا دوست‘ کے عنوان سے ایک ’متنازعہ‘ کتاب لکھی تھی ۔ لیکن زیر نظر کتاب کی اشاعت کے بعد مجھے یقین ہے کہ سنجیدہ ادب کا قاری قیام پاکستان کے بعد کے زمانے کے سعادت حسن منٹو کی زندگی کے اتار چڑھاؤ کو ایک نئے زاویے سے دیکھے گا۔

منٹو پر یہ کتاب لکھ کر جناب ابو الحسن نغمی نے اس عظیم افسانہ نگار کی یادوں کو ہمارے ذہنوں میں ایک مرتبہ پھر تازہ کردیا ہے جو قیام پاکستان کے بعد معتوب ٹھہرایا گیا تھا، برصغیر پاک و ہند میں جس کے پانچ افسانوں پر فحاشی کے مقدمے چلے۔ ابو الحسن نغمی کی یہ مختصر سی کتاب ان یادوں کا احاطہ کرتی ہے جو منٹو کے تعلق سے یقننا لاہور میں مقیم کئی مشاہیر ادب کے ذہنوں میں محفوظ ہوں گی اور جو انہیں صفحہ قرطاس پر منتقل نہ کرکے ادب کے قاری کے ساتھ ظلم روا رکھے ہوئے ہیں۔


مکتبہ فرینکلن کے تحت کیے گئے تراجم ہوں، بچوں کے لیے لکھے ناول ہوں،مضامین و افسانے ہوں یا پھر یاداشتوں پر مبنی دو عدد کتابیں، ابو الحسن نغمی کی تحریر کا ایک خاص اسلوب ہے
جو قاری کو اپنے ہمراہ لے کر چلتا ہے لیکن زیر نظر کتاب کو انہوں نے کسی اور ہی ڈھنگ سے لکھا ہے۔ سعادت حسن منٹو کے آخری دنوں کی جھلک دکھانے والوں نے عموما ان میں
موجود چند ایسی بشری کمزوریوں کو پیش کیا ہے جن کے سامنے منٹو نے بظاہر ہتھیار ڈال دیے تھے۔ لیکن ابو الحسن نغمی نے ایسی تمام باتوں سے پہلو بچاتے ہوئے ایک ایسے شخص کے آخری ایام کی تصویر کشی کی ہے جو ایک عادی شرابی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک وفا شعار بیوی کا شوہر اور تین پیاری بچیوں کا باپ بھی تھا۔اپنی طلب پوری کرنے کے لیے لوگوں سے پیسے مانگنے والا ، دہشت پسند، فحش نگار، سنکی سعادت حسن منٹو جس نے ابو الحسن نغمی سے اتنے برس کے تعلق کے دوران صرف ایک مرتبہ پانچ روپے مانگے تھے ۔جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہ اپنے شناساؤں کو شراب کا عادی بنانے کی کوشش اس لیے کرتا ہے کہ وہ اس میں مبتلا ہونے کے بعد اس کی ضرورت پور ی کرسکیں لیکن اسی منٹو نے نوجوان ابو الحسن نغمی سے ایسا کو ئی تقاضہ نہیں کیا۔ تکیہ کلام کے طور پر فحش الفاظ کا فراوانی سے استعمال کر نے والے بزرگ ادیبوں و شاعروں کے برخلاف، ابو الحسن نغمی نے منٹو کی زبان سے اپنی ان گنت ملاقاتوں کے دوران کوئی فحش کلمہ نہ سنا۔ ابو الحسن نغمی اس افسوسناک موقعوں کے بھی گواہ ہیں جب منٹو کے دوست ِ بلا نوش شاد امرتسری نے ایک سے زائد مرتبہ لاہور کے ریگل چوک پر کالج کے طلبہ اور دیگر راہگیروں کو جمع کرکے سعادت حسن منٹو سے بھیک منگوائی۔ کیا عجب ستم ظریفی ہے کہ اسی لاہور شہر میں اب سے چند ماہ قبل دھوم دھام سے زر کثیر صرف کرکے منٹو کی صد سالہ تقریبات کا انعقاد کیا تھا۔

ابو الحسن نغمی نے زیر تبصرہ کتاب کا انتساب صفیہ منٹو کے نام ان الفاظ میں کیا ہے ’’ اپنی لائق صد احترام بھابھی صفیہ منٹو کے نام جن کی معصوم روح یہ کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئی ہوگی ع۔۔۔چمن میں آئے گی فصل بہاراں ہم نہیں ہوں گے‘‘۔

کتاب میں سابق وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ پروفیسر ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی کے مختصر تبصرے کے علاوہ دختر منٹو، نزہت منٹو ارشد کا تعارفی مضمون ’’بھائی جان نغمی‘‘ بھی شامل ہے۔ نزہت لکھتی ہیں ’’ بھائی جان نغمی ریڈیو پاکستان کی ملازمت سے استعفی دے کر امریکا چلے گئے لیکن یہ ابا جان سے وابستہ یادوں کو اپنے ہمراہ لے گئے۔ کبھی واشنگٹن کی اردو انجمنوں کے اجلاس میں تو کبھی روزنامہ مشرق لاہور میں قسط وار ابا جان کے بارے میں مضامین لکھتے رہے۔ میری طرح ان کا حافظہ بھی بہت اچھا ہے۔ بھائی جان نغمی نے ایک اچھا شغل یہ اختیار کیا کہ تمام عمر اپنی ذاتی ڈائریاں لکھتے رہے۔منگل، ۱۸ جنوری ۱۹۵۵ کو ابا جان کا انتقال ہوا، اس دن کی ڈائری انہوں نے مجھے دکھائی تو میں اشکبار ہوگئی۔ ‘‘

کتاب کے آخر میں ابو الحسن نغمی ایک معصوم سی خواہش کا اظہار کرتے ہیں جو مجھے اس لیے بھی جذباتی کردیتی ہے کہ میں بھی اپنے محبوب مصنف جناب ابن صفی کے بارے میں یہی سوچا کرتا ہوں۔وہ کہتے ہیں کہ ’’ جب میں امریکا کی سٹرکوں پر ڈرائیونگ کرتا ہوں تو کبھی کبھی سوچتا ہوں کاش آپ (منٹو)اس وقت میرے برابر والی سیٹ پر بیٹھے ہوتے ۔میری مسرتوں کی کوئی انتہا نہ ہوتی ۔کاش میں سوجتن کر کے آپ کو اپنے ساتھ امریکا لے آتا۔ یہاں آپ کا علاج ہوتا ۔آپ اچھے ہوجاتے ۔ سال میں کئی مرتبہ اخباروں میں ایسے لوگوں کے احوال او ر تصویریں شائع ہوتی ہیں جو سو سال کی عمر میں معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔جب میں ایسی خبریں پڑھتا ہوں تو آپ مجھے بہت یا د آتے ہیں۔کیا ایسا ممکن نہ تھا کہ آپ اپنی بقیہ عمر امریکا میں گزارتے اور اب کے برس ۲۰۱۲ء میں مئی کی گیارہویں تاریخ کو امریکا میں آپ کی صد سالہ سالگرہ منائی جاتی ۔‘‘

ابو الحسن نغمی کے منٹو صاحب اس وقت انتقال کرگئے تھے جب نغمی صاحب لاہور سے باہر تھے۔ منٹو صاحب میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:’’ جب مجھے منٹو صاحب یاد آتے ہیں تو جنوری کی وہ شام بھی یاد آ تی ہے جب میں منٹو صاحب کے سالے خواجہ ظہیر الدین سے تعزیت کرکے اپنے دوست فاروق کے ساتھ لکشمی مینشنز سے نکلا تو مجھے اپنا دکھ کچھ یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں آج کسی عدالت ِ عالیہ سے اپنا مقدمہ ہا ر کر باہر نکلا ہوں۔ ‘‘

’’ سعادت حسن منٹو۔ذاتی یاداشتوں پر مبنی اوراق‘‘ لکھ کر ابو الحسن نغمی نے وہ ہارا ہوا مقدمہ دوبارہ جیت لیا ہے۔

نغمی صاحب ! آپ نے اس کتاب کا عنوان ’’ سعادت حسن منٹو۔ذاتی یاداشتوں پر مبنی اوراق‘‘ تجویز کیا ہے۔ یہ اسی نام سے شائع ہوئی ہے، اسی نام سے پہچانی جائے گی لیکن نہ جانے کیوں آپ کی خودنوشت ’یہ لاہور ہے‘ کے مطالعے کے بعد ان سطور کا راقم اس کتاب کو ’ یہ منٹو ہے‘ کے نام سے یاد رکھنا زیادہ پسند کرے گا۔


سوگ میں ہے فسانہ گوئی آج اس کاوہ بانکپن ہوا رخصت
ہر زباں پہ ہے اب یہ فسانہ کہ ’’ سعادت حسن ہوا رخصت‘‘
------------------- (حفیظ ہوشیار پوری)
۱۹۵۵ ء

Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300408 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.