مغرب سمیت دنیا کے بعض دوسرے حصو ں میں اسلام فوبیا کی
صورت حال گزشتہ چند سالوں کے درمیان کافی شدت اختیار کرچکی ہے۔اسلام اور
مسلمانوں سے نفرت و عداوت کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔یہ بلاشبہ افسوس ناک
واقعہ ہے اورا سلام اور مسلمانوں کے حق میں اس کے نقصانات واضح طور پر نظر
آرہے ہیں۔تاہم ہمارے لیے غور خوض کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ کیا اسباب
ہیں جن سے اسلام سے خوف کھانے اورمسلمانوں کو عفریت کی حیثیت سے دیکھنے
والی نفسیات کو تقویت حاصل ہورہی ہے؟ کیا ان اسباب میں بعض وہ اسباب بھی
شامل ہیں جو خود مسلمانوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں؟ اگر غیر جانب داری اور
خود احتسابی کے جذبے کے ساتھ جائز ہ لینے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ
مسلمانوں کی مذہبی سیاسی فکروعمل کی بعض کمزوریاں بھی اس کا ایک بڑا سبب بن
رہی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مسلم سیاسی فکر کا وہ حصہ جو اجتہاد وقیاس پر مبنی
ہے موجودہ دور میں اس کی معنویت باقی نہیں رہی اس پر از سر نو غور وفکر کی
ضرورت ہے۔لیکن ایک بڑے طبقے کی طرف سے اس کی حقانیت پر بے جا اصرارسے مسائل
پیدا ہورہے ہیں۔حالاں کہ اصولی طور پر اجتہادی مسائل میں ہمیشہ غور وفکر کی
ضرورت رہتی ہے۔ان نظریات میں سے ایک جہاد کا روایتی نظریہ ہے جس کے تحت
مسلم اہل فکرو عمل کے ایک طبقے نے ہر قسم کی تشدد پسندی کو موجودہ دور میں
جواز فراہم کردیاہے،جس کی وجہ سے اسلام اور اسلامی شریعت کو موجودہ دور کے
سر پر لٹکتی ہوئی خطرے کی تلوار تصور کیا جا نے لگا ہے۔
ہمارے لیے اس صورت حال پر غور کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایک داعی قوم کی
حیثیت سے دنیا میں دعوت کے امکانات کی بقا اور توسیع ہمارے فرائض میں شامل
ہے۔ یہ نہایت حوصلہ افز ا امرہے کہ پچھلی چند دہائیوں میں اسلام یورپ اور
امریکا میں اپنی مضبوط جگہ بنا نے میں کامیاب رہاہے۔ متعدد اعداد وشمار کے
مطابق اس وقت اسلام ہی وہاں کاسب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ امریکا
میں سات ملین اور یورپ میں بیس ملین مسلمان آباد ہیں جن میں سے ایک بڑی
تعداد وہاں کی شہریت اختیار کرچکی ہے۔ایسے میں اگر اسلام فوبیا کی صورت حال
اسی طرح سنگین سے سنگین تر شکل اختیار کرتی رہی تو بلاشبہ اسلام اور
مسلمانوں کے حق میں اس کے زبردست نقصانات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔اسی لیے
وہاں کے مسلمانوں کا حکمت پسند اوردوررس فکر رکھنے والا طبقہ انتہائی
سنجیدگی کے ساتھ اس صورت حال سے عہدہ برآہونے کی کوشش کر رہا ہے اوراس کے
مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔چنانچہ فرانس میں مسلمانوں کی سنجیدہ کوششوں سے
حکومتی سطح پر اس بات کو تسلیم کرلیا گیا کہ ملک میں اسلام فوبیا کی صورت
حال واقعتا تشویش ناک ہے جس سے نمٹنا ضروری ہے۔اسی طرح لاہائی، ہالینڈ کے
ایک میوزیم میں ماـضی کی بعض اہم مسلم شخصیات کو محض مفروضاتی سطح پر ہم
جنس کی حیثیت سے پینٹ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔لیکن مسلمانوں کی متعلقہ
اتھارٹی کے ساتھ سنجیدہ گفت وشنید کے نتیجے میں ایسی پینٹنگز کو ہٹا لیا
گیا۔اسی طرح ڈنمارک میں پیغمبراسلام کے اہانت آمیز خاکے کی ایک نئے سلسلے
کواشاعت سے روک دیا گیا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغرب میں ایسے سنجیدہ
اورمستقیم الفطرت لوگوں کی کمی نہیں ہے ،جو مسلمانوں کے ساتھ خوش گوار
تعلقات کے قیام میں مضبوطی کے ساتھ یقین رکھتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ ہمیں
مغرب کی حکومتوں اور وہاں کے عوام میں فرق کرنا چاہیے۔حکومتوں نے اپنے
سیاسی مقاصد اور مفاد کے تحت عوام کو گمراہ کرنے اور گم راہ رکھنے کی کوشش
کی ہے۔اس لیے عوام کو حکومت کے ساتھ بریکٹ نہیں کیا جاسکتا۔اسلام فوبیا کے
تناظر میں مسلمانوں میں پائے جانے والے جہاد کے تصور کوسامنے رکھنا چاہیے۔
سب سے پہلی چیز خود یہی جہاد کا تصور ہے۔جہاد ایک جامع لفظ ہے۔ اسکی تین
قسمیں ہیں:ظاہری دشمن کے ساتھ جہاد،شیطان کے ساتھ جہاد اور نفس کے ساتھ
جہاد۔ نفس کے ساتھ جہادکی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے کہ:’’اﷲ تعالی کے معاملے
میں بھرپور جہاد کرو(جاہدو ا فی اﷲ حق جہادہ۔ الحج:178) لیکن غور کرنے کی
بات ہے کہ موجودہ زمانے میں جہاد کا تصور قتال کے ساتھ منسلک ہوکر رہ گیا
ہے۔حالا ں کہ قتال جہاد کی ایک استثنائی صورت ہے جودشمن کے ساتھ دفاع کے
آخری مرحلے میں جب کہ کوئی اورصورت باقی نہ رہ گئی ہو،اختیار کی جاتی
ہے۔جہاد کے تعلق سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ ایک دفاعی عمل ہے ،نہ کہ اقدامی
یعنی محض کفرکے استیصال یا اس کی شوکت کوتوڑنے کے لیے جہاد کا کوئی جواز
عقلاًاورشرعاً معلوم نہیں ہوتا۔قرآن میں کہا گیا ہے کہ تم ان لوگوں سے قتال
کرو جوتم سے قتال کرتے ہیں اورزیادتی نہ کرو(البقرہ:190) لیکن جہاد الطلب
یا اقدامی جہا د کا جو تصور اسلام کے دور عروج میں بعض سیاسی مصلحتوں اور
عہد وسطیٰ کے اپنے مزاج اور ماحول کے مطابق اسلامی دنیا میں پروان چڑھا ،وہ
اسلام کی سیاسی فقہ کا اٹوٹ جزو بن کررہ گیا اور اس پر سرے سے نظرثانی کی
ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ظاہرہے اگر اقدامی جہاد کے روایتی فقہ کے اس تصور
کو قبول کرلیا جائے کہ دشمن کی بغیرپیشگی جارحیت کے اسلامی حکومت کی توسیع،
کفر کی طاقت کے خاتمے اور اس کی حکومت کو اپنے زیر نگیں کرنے کے لیے کسی
بھی غیر مسلم حکومت کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے تو پھرمسلمان اور دوسری قوموں
کے درمیان خوش گوار تعلقات کا تصور بھی کیوں کر کیا جاسکتا ہے؟ اس طرح توان
غیر مسلم حکومتوں پر بھی اقبال کا وہی مصرعہ، جو انہوں نے مسلمانوں کے تعلق
سے کہا تھا، صادق آئے گا کہ :ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔اسی طرح
اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کی شہریت کا مسئلہ اور اسی طرح بہت سے و ہ
مسائل ہیں جنہوں نے موجودہ دنیا کوان اسلامی تحریکات سے، جو سیاست کواپنے
ایجنڈے میں سب سے اوپر رکھتی ہیں ،خوف زدہ کردیا ہے۔پچھلی دوتین دہائیوں کے
دوران مختلف اسلامی اورغیراسلامی ملکوں میں جو احیائیت پسند تحریکیں ابھر
کر سامنے آئیں وہ اسلامی دانش و بصیرت سے خالی تھیں۔ ان کی نفسیات در اصل
مغرب کی استعماری اور امپریل طاقتوں کے مسلم ممالک پر جارحانہ حملوں اور
قبضوں کے ردعمل کی اساس پر تیار ہوئی تھی۔انہوں نے اپنے اسلامی اکٹوزم میں
جہاد وقتال کے ذریعے دشمن سے انتقام کو اولیت دی۔اس وقت مغرب کے قلب میں
حزب التحریر اور اس کے سیاسی عقیدے کی حامل ایسی جماعتیں اور تنظیمیں موجود
ہیں جو خود وہاں بھی اسلامی حکومت و خلافت کے قیام اور شرعی قوانین کے نفاذ
کا نعرہ بلند کرتی ہیں۔ایسے میں اسلام فوبیا کے مظہر کا پیدا ہونا اور اس
کی صو رت حال میں شدت کاآنا کوئی بہت زیادہ حیرت کی با ت نہیں ہے۔صحیح بات
یہ ہے کہ مشرق و مغرب میں اسلام فوبیا کے مظہر پر قابو پانے کے لیے خود
مسلم مذ ہبی سیاسی فکر پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ جہاد کے نا م پر
پاکستان سمیت بعض دوسرے ملکوں میں جو فساد بر پا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس
کی علما و اہل فکر کی طرف سے واضح مذمت اور اسی کے ساتھ ایسے عناصر کی
حوصلہ شکنی کے اقدامات کے بغیریہ توقع کرنا مشکل ہے کہ اسلام فوبیا کی صورت
حال پر قابو پایا جاسکے گا۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام فوبیا کی نفسیات کے تحت
مسلمانوں کے خلاف ساری دنیا میں برپا دار وگیر کا ماحول اور جہاد کے عنوان
سے مختلف ممالک میں ہونے والی سرگرمیاں ،جن میں اسلامی اصولوں کو بالاے طاق
رکھ دیا گیا ہے ،یہ دونوں مظاہر ایک دوسرے سے غذا حاصل کر رہے ہیں اور ایک
دوسرے کے لیے لازم ملزوم بن کر رہ گئے ہیں۔عالمی سطح پر امن کے قیام اور
بین تہذیبی تعلقات کو مستحکم بنیادوں پر فروغ دینے کے لیے دونوں حلقوں کی
طرف سے اپنے فکری و عملی رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ |