صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم جس طرح رسول اﷲ عزوجل و
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا ادب و احترام کرتے تھے ،اس کا اظہار
سینکڑوں طریقہ سے ہوتا تھا، جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمکی خدمت
میں حاضر ہوتے تو دربار نبوت کے ادب و عظمت کے لحاظ سے خاص طورپر کپڑے زیب
تن کر لیتے۔ ایک صحابیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ
جمعت علیَّ ثیابی حین امْسَیْتُ فاتیتُ رسولَ اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ
وسلم
شام ہوئی تو میں نے تمام کپڑے پہن لئے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ
وسلمکی خدمت میں حاضر ہوئی۔
(سنن ابی داود،کتاب الطلاق،باب فی عدۃ الحامل،الحدیث:۲۳۰۶،ج۲، ص۴۲۷)
بغیر طہارت کے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا اور
آپ سے مصافحہ کرنا گوارا نہ کرتے، مدینہ کے کسی راستہ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ والہ وسلم سے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا سامنا ہوگیا، ان کو
نہانے کی ضرورت تھی، گوارا نہ ہوا کہ اس حالت میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
والہ وسلم کے سامنے آئیں، اس لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو دیکھا
تو کترا گئے اور غسل کرکے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
والہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا: ابو ہریرہ !رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہاں تھے،
بولے مجھے غسل کی حاجت تھی، اس لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وبارک
وسلمکے پاس بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔
(سنن ابی داود،کتاب الطھارۃ، باب فی الجنب یصافح، الحدیث:۲۳۱،ج۱، ص۱۱۰)
آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے سامنے بیٹھتے تو فرطِ ادب سے تصویر بن
جاتے، احادیث میں اسی حالت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے، کانما علیٰ
رءُ وسھم الطیر یعنی صحابہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے سامنے اس
طرح بیٹھتے تھے گویا ان کے سروں پر چڑیا بیٹھی ہوتی ہیں۔
(سنن ابی داود، کتاب الطب، باب فی الرجل یتداوی، الحدیث:۳۸۵۵،ج۴، ص۵)
گھر میں بچے پیدا ہوتے تو ادب سے ا ن کا نا م محمد نہ رکھتے ،ایک دفعہ ایک
صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر میں بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے محمد نام
رکھا۔ لیکن ان کی قوم نے کہا ہم نہ یہ نام رکھنے دیں گے نہ اس کنیت سے تم
کو پکاریں گے تم اس کے متعلق خود رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ
وسلم سے مشورہ کرلو۔ وہ بچے کو لیکر آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ بیان کیا ، تو ارشاد ہوا کہ میرے نام پر نام
رکھو لیکن میری کنیت نہ اختیار کرو۔
(صحیح مسلم ، کتاب الاٰداب ، باب النھی عن التکنی بابی القاسم.....الخ،
الحدیث:۲۱۳۳،ص۱۱۷۸)
اگر راستے میں کبھی ساتھ ہوجاتا تو ادب کی وجہ سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
والہ وسلم کے ساتھ سواری پر سوار ہونا پسند نہ کرتے۔ ایک بار حضرت عقبہ بن
عامر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا خچر ہانک رہے
تھے، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: سوار کیوں نہیں ہولیتے۔
لیکن انہوں نے اس کو بڑی بات سمجھا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے
خچر پر سوار ہوں۔ تاہم امتثالا للامر(تعمیل حکم کے لیے)تھوڑی دور تک سوار
ہولئے۔ (سنن النسائی، کتاب الاستعاذۃ، ج۸،ص۲۵۳)
فرطِ ادب سے کسی بات میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم پر تقدم یا
مسابقت گوارانہ کرتے۔ آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم غزوہ تبوک کے سفر
میں قضائے حاجت کے لئے صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے الگ ہوگئے، نماز فجر کا
وقت آگیا تو صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم
کے آنے سے پیشتر ہی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی امامت میں
نماز شروع کردی۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم پہنچے تو ایک رکعت نماز
ہوچکی تھی، اس لئے آپ دوسری رکعت میں شریک ہوئے۔ نماز ہوچکی تو تمام صحابہ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے اس کو بے ادبی بلکہ گناہ خیال کیا اور سب کے سب کثرت
کے ساتھ تسبیح کرنے لگے، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلمنماز سے فارغ
ہوئے تو فرمایا کہ تم نے اچھا کیا۔
(سنن ابی داود،کتاب الطھارۃ، باب المسح علی الخفین، الحدیث:۱۴۹، ج۱،ص۸۳)
ایک بار آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کوئی نزاع چکانے کے لئے قبیلہ
بنو عمر و بن عوف میں تشریف لے گئے۔ نماز کا وقت آگیا تو موذن حضرت ابوبکر
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں آیا کہ نماز پڑھا دیجئے۔ وہ نماز پڑھا رہے
تھے کہ سرکارصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم آکر شریک جماعت ہوگئے ۔ لوگوں
نے تصفیق کی(بائیں ہاتھ کی پشت پر دائیں ہاتھ کی انگلیاں اس طرح مارنا کہ
آواز پیداہو،تصفیق کہلاتا ہے۔) حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اگرچہ کسی
طرف متوجہ نہ ہوتے تھے، تاہم جب لوگوں نے متصل تصفیق کی، تو مڑکر دیکھا کہ
رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
والہ وبارک وسلمنے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر قائم رہو۔ انہوں نے پہلے تو خد
ا کا شکر کیا کہ آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کی امامت کو پسند
فرمایا،پھر پیچھے ہٹ آئے اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلمنے آگے بڑھ
کر نماز پڑھائی ، نماز سے فارغ ہوکر فرمایاکہ جب میں نے حکم دیا تو تم کیوں
اپنی جگہ سے ہٹ آئے ؟ بولے کہ ابن ابی قحافہ کا یہ منہ نہ تھا کہ رسول اﷲ
عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے آگے نماز پڑھائے۔
(سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ،باب التصفیق فی الصلاۃ، الحدیث:۹۴۰، ج۱،ص۳۵۴)
ایک بار آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم پیدل جارہے تھے، کہ اسی حالت میں
ایک صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ گدھے پر سوار آئے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ
وبارک وسلمکو پیدل دیکھا تو خود فرط ادب سے پیچھے ہٹ گئے اور آپ کو آگے
سوار کرنا چاہا، لیکن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وبارک وسلمنے فرمایا تم
آگے بیٹھنے کے زیادہ مستحق ہو، البتہ اگر تمہاری اجازت ہوتو میں آگے بیٹھ
سکتا ہوں۔
(سنن ابی داود،کتاب الجھاد،باب رب الدابۃ أحق بصدرھا، الحدیث: ۲۵۷۲،
ج۳،ص۴۰)
اگر کبھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ کھانا کھانے کا اتفاق
ہوتا تو جب تک آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وبارک وسلم کھانا شروع نہ کرتے
تمام صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم فرطِ ادب سے کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتے ۔
(سنن ابی داود،کتاب الأطعمۃ، باب التسمیۃ علی الطعام، الحدیث:۳۷۶۶،ج۳،
ص۴۸۷)
ادب کے باعث آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم سے آگے چلنا پسند نہیں کرتے۔
ایک سفر میں حضرت ابن عمررضی اﷲ عنہ ایک سرکش اونٹ پر سوار تھے جو رسول اﷲ
عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم سے آگے نکل جاتا تھا۔ حضرت عمر رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کو ڈانٹا کہ کوئی آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وبارک
وسلم سے آگے نہ بڑھنے پائے۔
(صحیح البخاری، کتاب الھبۃ، باب من أھدی لہ ھدیۃٌ وعندہٗ جلساؤہ.....الخ،
الحدیث:۲۶۱۰،ج۲،ص۱۷۹)
کسی چیز میں آپ سے مقابلہ کی جرأ ت نہ کرتے، ایک بار چند صحابہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہم جو قبیلہ اسلم سے تعلق رکھتے تھے باہم تیر اندازی میں مقابلہ
کررہے تھے، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے بنو اسمٰعیل تیر
پھینکو کیونکہ تمہارے باپ تیر انداز تھے اور میں فلاں قبیلہ کے ساتھ ہوں۔
دوسرے گروہ کے لوگ فوراً رک گئے۔ آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے پوچھا
کہ تیر کیوں نہیں پھینکتے ؟ بولے اب کیونکر مقابلہ کریں جبکہ آپ ان کے ساتھ
ہیں۔ فرمایا: تیرپھینکو میں تم سب کے ساتھ ہوں۔
(صحیح البخاری،کتاب الجھاد والسیر،باب التحریض عی الرّمی ، الحدیث:
۲۸۹۹،ج۲،ص۲۸۲)
علامہ ابن حجررحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ لوگ
اس لئے رک گئے کہ اگروہ اپنے فریق پر غالب آگئے اور رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم بھی اس کے ساتھ ہیں تو آپ بھی مغلوب ہوجائیں گے۔ اس
لئے انہوں نے ادب سے مقابلہ ہی کرنا چھوڑدیا ، اس ادب و احترام کا نتیجہ یہ
تھا کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسبت کسی قسم کا سوء ادب گوارا
نہ کرتے۔
(فتح الباری شرح صحیح البخاری،کتاب الجھاد والسیر، باب التحریض علی الرمی،
تحت الحدیث:۲۸۹۹،ج۷،ص۷۷)
جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے
|