کب تک ایک عام پاکستانی چُپ کا روزہ برقرار رکھے گاآخر کب
تک! 48 19میں قائد اعظم ایک ریلوے پھاٹک پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اگلے جہان
چلے گئے،عوام چُپ رہے،51 19میں خان لیاقت علی خان کو ہزاروں لوگوں کی
موجودگی میں راولپنڈی کے مشہور لیاقت باغ میں گولی مارکر ختم کر دیا عوام
پھر بھی چُپ رہے ،1954 میں مولوی تمیز الدین کو سپریم کورٹ نے ردکر کے
سیاستدانوں کو عوام کے حقوق پر پہلا ڈاکہ مارنے کا باضابطہ لائسنس جاری کیا
، عوام پھر بھی چُپ رہے ،1958 میں پہلا مارشل لاء لگ گیا عوام پھربھی چُپ
رہے،1960پاکستان کے دریاؤں کا انڈس واٹرکمیشن کے تحت سودا کر دیا گیا، عوام
پھر بھی چُپ رہے، 2جنوری1962کو محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان نے ریاستی
طاقت استعمال کرتے ہوئے شکست دے دی ، عوام پھر بھی چُپ رہے ، ستمبر 1965
میں میدان میں جیتی ہوئی جنگ روس کے ٹیبلوں پر ہار گئے، عوام پھر بھی چُپ
رہے بنگالی بھائیوں کو سیاست دانوں نے پنے مفادات کے لیے ناراض کر دیا عوام
پھر بھی چُپ رہے، 1971 میں (ادھر تُم ادھر ہم )کی فلگ شگاف صدائیں بلند
ہویئں ، عوام پھر بھی چُپ رہے، نتیجے میں پاکستان کا ایک بازو کاٹ دیا گیا
، عوام پھر بھی چُپ رہے،1975 میں مُلک کے تمام بڑے ادارے بشمول تعلیمی
ادارے باحق سرکار ضبط ہو گئے ، عوام پھر بھی نہ بولے ،1977 میں ایک بار پھر
مارشل لا ء لگا دیاگیا ، عوام پھر بھی چُپ رہے ، 1979جمہوری وزیر اعظم کو
مشورہ کیس میں پھانسی لگا دی گئی ، عوام پھر بھی چُپ رہے،1984 کے ریفرنڈم
میں عوام سے سوال پوچھا گیا کہ کیا آپ مُلک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں، اگر
ہاں تو اسکا مطلب میں حکومت کرنے کا بلاشرکت غیر مجازہوں، اس صریحا زیادتی
پر بھی عوام چُپ رہے،
اسی سال میں جب عوام سے پوچھے جانے والے ریفرنڈم کے سوال پر سوچ و بچار ہو
رہی تھی ایک فوجی حکومت کے ہوتے ہوے سیاچن پر انڈیا نے قبضہ کر لیا،عوام
چُپ رہے،اسی سال پاکستان کی عوام کے ساتھ ایک اور ظلم کیا گیا پتہ
نہیں وہ کونسی قوتیں تھیں جنہوں نے کراچی جیسے پُر امن شہر سے جماعت اسلامی
کے وجود کو ختم کرنے کے لیے ایم کیو ایم کو تراشا، عوم پھر بھی چُپ رہے ،
یہ ہی نہیں 1985 کے غیر جماعتی الیکشن نے پاکستانی سیاست میں روپے کا بے
دریغ استعمال شروع کروایا عوام حسب معمول چُپ رہے اور پھر سال1988 کے
الیکشن سے پاکستان میں عملا دوجماعتی لوٹ مار کا آغاز ہوا، 1988 کے الیکشن
میں محترمہ وزیر اعظم اور بڑے میاں صاحب ضیاالحق کی عمر لگوا کر پنجاب کے
وزیر اعلی بنے ، عوام ایک بار پھر چُپ رہے،یہ نورا کشتی1999 تک ایک اور
مارشل لاء لگنے پر ختم ہوئی، مشرف نے عوام کو آتے ہی سہانے خواب دکھاے، اور
پھر وہ ہی ڈھاک کے تین پاٹ مگر کچھ سالوں کے بعد 2007 میں عوام پہلی بار
سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑی ہو گئی چیف صاحب واپس اپنے عہدے پر آے مگر اسکے
بعد عوام اجتماعی طور پر بولناایک بارپھر بھول گے،نورا کُشتی دوبارہ شروع
ہو گئی ، جو الحمد اﷲ پورے زور و شور سے جاری ہے ، یہ نورا کشتی ہی کی برکت
ہے کہ ریمنڈ ڈیوس دو پاکستانیوں کو لاہور کی سڑکوں پر مار کر پورے سرکاری
اعزاز کے ساتھ امریکہ چلا گیا،اور تازہ ترین مثال شہزیب قتل کیس ہے، قاتل
ویکٹری کے نشان بنا بنا عوام کے منہ پر جوتے مار رہے ہیں ، افسوس حسب عادت
عوام چُپ رہے شاید عوام بھول چکے ،اگر وہ یک آواز ہو کر بولیں تو مشر ف
جیسے تیس مارخان بھی اُنکے سامنے نہیں ٹھر سکتے ،مگر عوام تو ایسے ہے جیسے
بولنا ہی بھول گئی، توکیا ڈرون حملے ہوتے رہیں۔ تو کیا پاکستانی فوجی
تنصیبات پر حملے ہوتے رہیں، تو کیامسجدوں پر خودکُش حملے جاری رہیں، تو کیا،
امام بارگاہیں جلتی رہیں، تو کیاچرچ نشانہ بنتے رہیں، تو کیا پاکستان اس
لیے حاصل کیا گیا تھا خدا کا واسطہ ہے لوگو،اگر تمھارے بڑے ظلم سہتے رہے
ہیں تو کیا تُم بھی ظلم سہتے رہو گے، اگر نہیں تو پھر تم اپنے آباو اجداد
کی اس عادت سے بغاوت کرناہو گی، بغاوت خاموشی سے ! یا مہذب الفاظ میں یہ
سمجھ لیجیےکہ عوام پر بولنا فرض ہو چکا ، ورنہ خاموشی سب کچھ تباہ و برباد
کر دے گی- |