یقینا قارئین پاکستان پر برطانیہ کی یلغار کے الفاظ سے
متعجب ہونگے کہ برطانیہ کی فوجیں تو پاکستان پر حملہ آور نہیں ہوئیں تو
یلغار کیسی؟ برطانیہ کا اپنا مخصوص طریقہ کار ہے۔ اگر مسلمان برطانیہ کی
مکاریوں کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے تو برصغیر کا نقشہ آج بگڑا ہوا نہ ہوتا
اور نہ ہی مسلمانانِ عالم کی آج ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کی مسجدیں ہوتیں۔ میں تو
سمجھتا ہوں کہ بظاہر تو بیت اﷲ شریف کو مسلمانانِ عالم نے قبلہ بنایا ہوا
ہے مگر اندر ہی اندر بات کچھ برطانیہ اور امریکہ کی ہے۔ پوری دنیا میں
مکاریوں اور چالبازیوں میں برطانیہ مشہور ہے۔ یہ اس اونٹ کا استاد ہے کہ جس
نے سردی سے بچنے کے لیئے عربی سے کہا کہ میں سر اندر کرلوں اور پھر کیا؟
اونٹ خیمے میں اور خیمے کا مالک باہر سردی کی شدت میں۔ استاد نے اسے یہ
نہیں بتایا کہ عربی کا قصہ پاک کرنے کے لیئے اسے اپنے سینے کے نیچے دے دو۔
برطانیہ والے جی حضوریئے اور انتہائی خیر خواہ بن کر آئیں گے۔ اور دیکھتے
ہی دیکھتے آقاؤں اور بادشاہوں کو غلام بنا لیں گے۔ انکی خود سری اس وقت
دیکھیں تو جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کبھی آکر مغل شہنشاہ
کے چرنوں میں بیٹھ کر تجارت کے اجازت ناموں کے لیئے عاجزی اور لجاجت کرتے
تھے اور پھر اپنی مکاری اور عیاری سے خونخوار بھیڑیئے کا روپ دھار کر کہ
مسلمانوں کو تہ تیغ کیا، سولی پر لٹکائے ، حکمرانوں اور شریفوں، عالموں اور
مشائخ کو پھانسیاں دیں۔ اپنے عارضی اقتدار میں انہوں نے مسلمانوں کی تہذیب
و ثقافت کو تبدیل کرنے پر زور دیا جس میں انہیں کافی حد تک کامیابی ہوئی۔
مسلمان اپنے پیارے نبی ﷺ کے اسوہ حسنہ سے برگشہ ہوگئے۔ اﷲ کا کلام پڑھنا
بھول گئے ۔ دوسرا کام جو انگریز نے کیا وہ تھا سونے کی چڑیاسے دولت کا حصول
۔ اس میں بھی برطانیہ کامیاب ہوا۔ نوابوں اور خود ساختہ حکمرانوں سے انکی
حفاظت کے کھاتے میں بڑی بڑی رقمیں، سونا اور چاندی لیا۔ دوسری طرف انکی
حفاظت کے لیئے برطانوی فوجیوں کے جملہ اخراجات اور بھاری تنخواہوں کی مد
میں بھی خوب مال حاصل کیا۔ برصغیر انکے باپ کی جاگیر تو تھی نہیں ۔ پرایا
مال اونے پونے بیچنے میں انہوں نے سیل لگائی۔ اپنے کتوں کی رکھوالی کرنے
والوں کو زمینیں دے کرنواب بنادیا۔اور کہیں کشمیر جیسے جنت نظیر مسلمانوں
کے اکثریت علاقے پچھتر لاکھ میں فروخت کر دیئے ۔حاصل بحث یہ کہ بھوکا ننگا
برطانیہ امیر کبیر ہوگیا۔ تیسرا مقصد بھی حاصل کرلیا کہ مسلمانوں کی قیمتی
اساس علم تھا اس کے ذخیرے بھی برطانیہ کی لائبریریوں میں سج گئے۔ سپین میں
مسلمانوں کے مدارس میں دولت علم تو حاصل کرہی چکے تھے۔ اسلامی نظام کی خوشہ
چینی کرتے ہوئے عوام کی خوش حالی اور انکے حقوق کا تحفظ کرلیا۔ اپنی خوئے
بد اور اعمال رذیلہ مسلمانوں کو ودیعت کرگئے۔ یہاں یہ بھی عرض کروں کہ
سرکاری اور غیر سرکاری کی اصطلاح مسلمانوں کی تاریخ میں پہلے کبھی نہ تھی۔
جب گورے حکمران ہوئے اور ہم محکوم ہوئے تو وہ سرکاراور ہم مسلمان غلام بنے۔
اسی کانام نظام حکومت تھااور ہے۔ کلیدی عہدے سرکار کے پاس تھے اور خدمتی
کام کالے لوگوں کے سپرد تھے۔ جانے سے قبل سرکار کے منصب کو سنبھالنے کے
لیئے منصوبہ بندکی گئی۔ سرکاری نظام تعلیم اور سرکاری تہذیب و ثقافت سے
آراستہ سرکار کے جان نشین تیار تھے۔ انہوں نے سرکار کی وفاداری کا حلف
اٹھایا اور گوروں کی جگہ کالی سرکار نے کرسی اقتدار سنبھالی۔ تو وفاداری
انتہا درجہ نبھاتے چلے آرہے ہیں۔ نظام تعلیم کو گوری سرکارکے پنجہ استبداد
میں محفوظ رکھا، عوام کی اور پاکستان کے آئین میں تسلیم شدہ اردو زبان کو
لونڈی بناکر رکھا، جہاں کہیں جنرل ضیاء الحق جیسے لوگوں نے اسلامیا ت اور
مطالعہ پاکستان لازمی کیا یا قومی زبان اردوکو اس کا غصب شدہ مقام دلانے کی
کوشش کی تو صادق اور میر جعفر نے گوری سرکار کو اپنی وفاداری سے مایوس نہ
کیا۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں کافی ساری مذہبی جماعتیں، خانوادے،
خانقاہوں کے سجادہ نشین ہیں لگتا ہے سبھی دوست دشمن کی پہچان سے عاری ہیں۔
حیرت ہے کہ قرآن پاک کے معلمین جبہ دستار سے مزین آئے دن برطانیہ کی زیارت
کرنے کیوں جاتے ہیں؟ دال میں بہت کچھ کالاہے۔
دہشت گردی اور فرقہ واریت کے لیئے جی بھر کام کرتے ہیں مگروہ فکرو عمل کہاں
ہے کہ جس سے ملت کا وقار قائم ہو اور مسلمان من حیث القوم آج کی دنیا میں
غالب قوت بن کر سامنے آئے ۔ علامہ اقبال آقائے کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے
حضور عرض کرتے ہیں کہ ۔۔ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں ۔ وفا کی جس
میں ہو بو، وہ کلی نہیں ملتی۔ اب جو پاکستان میں اہل علم و عمل حضرات
پاکستان میں اسلامی نظام تعلیم کے نفاذ کی جدوجہد میں مصروف ہیں تو گورے
پھر سے اپنی چالبازیوں کے جال بچھانے میں مصروف عمل ہوگئے ہیں۔ ہر ہفتے
برطانیہ سے کوئی نہ کوئی مکار پاکستان آجاتا ہے اور ہمارے پنجاب کے خادم
اعلیٰ پر اسکی نگاہ انتخاب پڑتی ہے۔ستر تعلیمی ادارے برٹش کونسل کے حوالے
کیئے گئے جن کے اساتذہ کی مخصوص تربیت گورے گوریاں کرکے صلیبی مقاصد کے
لیئے قدم آگے بڑھائیں گے۔ عوام کوبرطانیہ کے دیئے دکھوں کو بھلانے اور لالی
پاپ منہ میں دینے کو سعیدہ وارثی مل گئی ۔ گورے مسلمانوں کے ساتھ آئیندہ جو
کچھ کرنے والے ہیں اس منزل تک پہنچنے کے لیئے وہ محفوظ راستے استعمال کررہے
ہیں۔ ہمارے ازلی دشمن اتنے مہربان جو ہورہے ہیں۔آخر کوئی سوچے تو کہ صلیب
کے پجاری کلمہ توحید پڑھنے والوں پر اتنے ہی مہربان ہیں تو کلمہ طیبہ پڑھ
لیں ۔ ہمارا میڈیا بھی بڑا بھولا ہے برطانیہ میں ایک مسلمان کو وزیر خزانہ
بنا دیاگیا ہے۔ بھلے بھلے ہوگئی۔ برطانیہ کا وزیروہ بھی مسلمان ۔انہیں یہ
معلوم ہونا چاہیئے حکومت برطانیہ نے اس وزیر خزانہ بنایا ہے ۔ وہ پاکستان
کے وزیر خزانہ کی طرح نہیں کہ اپنی پارٹی والوں اور اپنی ذات کیلیئے خزانے
کی ایسی تیسی کردے۔ وہ برطانیہ ہے۔ وزیر ایک اکاؤنٹنٹ سے زیادہ حیثیت نہیں
رکھتا۔ شکاری نے کیا خوبصورت جال پھیلایا۔ میرے ایک دوست اور برطانیہ کے
واقف حال نے بتایا کہ برطانیہ کے نوجوانوں نے مسلمانوں کے کونسلر اور وزراء
ہونے پر شدید مخالفت کی تو انکے بڑے بزرگوں نے انہیں اپنی حکمت عملی سے
آگاہ کیا کہ موجودہ کٹر مسلمانوں کی کھیپ چالیس سال میں ختم ہوجائے گی اور
بعد میں آنے والی کھیپ تمہاری اپنی ہوگی۔ اگر نام مسلمانوں کے ہوں تو کوئی
حرج نہیں کام تو تمہارے ہوں گے ۔ اسی امید پر برطانیہ کے بزرجمہروں نے
بلاتعطل پاکستان بالخصوص پنجاب کے دورے شروع کردیئے۔ میاں شہباز شریف کے
بارے تو گوروں کی نگاہ انتخاب کی داد دینی چاہیئے کہ گوری سرکار کے لیئے دل
و جان ودیدہ فرش راہ ہیں۔ انجام سے بالکل بے خبر ہیں کہ جس اژدہا نے پہلے
مسلمانوں کو ڈسا آج پھر اسے موقع دیا جارہاہے۔ اب قوم سوچے کہ اس فرنگی
اژدہا کو موقع دینا چاہیئے یا نہیں۔ ایک لڑکی گل مکئی المعروف ملالہ ( ملال
اگر مذکر ہے تو اسکی موئنث ملالہ بنتی ہے) ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات اس
چودہ سالہ لڑکی نے جو کارنامہ امریکہ اور برطانیہ کے لیئے سرانجام دیا آج
تک کسی صلیبیہ نے اتنا بڑا کارنامہ نہیں دکھایا ۔ صلیبی اسے مزید مزین کرنے
اور اسکی آرائش میں دن رات لگے ہوئے ہیں۔ جب اٹلی کے صلیبیوں نے لیبیا پر
چڑھائی کی اور مسلمانوں کا قتل عام کیا تو طرابلس کی لڑائی میں ایک مسلمان
لڑکی فاطمہ بنت عبداﷲ کی جاں نثاری اور مجاہدین اسلام کی خدمت کرتے ہوئے
جام شہادت نوش کرنے والی معصومہ پر حضرت اقبال نے نوحہ لکھا ۔ ایک وہ لڑکی
تھی جس نے مجاہدین اسلام اور صلیبیوں کے خلاف لڑنے والوں کی خدمت کرتے ہوئے
جام شہادت نوش کیا۔ حضرت علامہ فرماتے ہیں فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہے ۔
اور ایک یہ کہ جس نے صلیبیوں کے خلاف لڑنے والوں کی خبریں صلیبیوں تک
پہنچائیں کی ان خدمات کے صلہ میں برطانیہ نے اسکی خاصی پالش کی ہے اور اسکی
تربیت پر فرنگی پوری توجہ دے رہے ہیں تاکہ غلام احمد قادیانی خبیث کے بعد
کسی زبردست فتنہ کی محرک بن جائے۔ بس اسکا کارنامہ صرف یہی ہے کہ اس نے ایک
ڈائری اتحادیوں کے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف لکھی تو آج برطانیہ نے اسکی
چودہ سالہ سوانح عمری بھی لکھ ڈالی ۔ جس میں اس لڑکی کی روشن خیالی نے اپنے
ماں باپ کو بھی نہیں بخشا اور انکی داستان ہیر رانجھا بھی لکھ کر اپنی
اصلیت بھی ظاہر کردی۔ میں پاکستانی میڈیا سے گذارش کروں گا کہ آپ لوگوں کو
بھی اﷲ کے حضور جوابدہ ہونا ہے۔ جان بوجھ کر صلیبیوں کی اس داشتہ کی تشہیر
نہ کریں۔ اﷲ ہمارے خادم اعلیٰ کو فرنگیوں کی چالوں کو سمجھنے کی توفیق دے۔
وما توفیقی الا با ﷲ۔ |