قربانی: عظمت و فضیلت اور اھمیّت

ماہِ ذوالحج سال بھرکے بعدجب آتاہے توجذبۂ تسلیم ورضاء اورجذبۂ ایثاروقربانی بھی ہمراہ لاتا ہے۔قمری سال کے اس آخری مہینے کامقدس چاند جونہی طلوع ہوتاہے،تسلیم ورضاکی لازوال داستان کی یادبھی ساتھ لاتا ہے۔ اس ماہ کی دس،گیارہ اوربارہ تاریخ کودنیابھرکے کروڑوں صاحب نصاب مسلمان اسوۂ ابراہیمی کی یادتازہ کرنے کیلئے قربانی کرتے ہیں۔

عیدقربان!مسلمانوں کاعظیم مذہبی تہوارہے جوہرسال 12-11-10 ذوالحجہ کوانتہائی عقیدت ومحبت، خوشی ومسرت،ذوق وشوق،جوش وخروش اورجذبۂ ایثارو قربانی کے منایاجاتاہے۔اس دن اﷲ تعالیٰ کی راہ میں اپناتن،من ،دہن قربان کرنے کے عہدکی تجدیدہوتی ہے اوریہی مسلمانوں کی عید ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اوران کے عظیم فرزندحضرت اسماعیل علیہ السلام کا مقدس ذکر قیامت تک فضاؤں اور ہواؤں میں گونجتا رہے گا۔قرآن وحدیث کے صحیفوں میں محفوظ رہے گااور آسمان کی رفعتوں اور زمین کی وسعتوں میں ہرسال یونہی تازہ اورزندہ ہوتارہے گا۔

قربانی کامعنی ومفہوم
قرآن مجیداوراحادیث مبارکہ میں متعددمقامات پرقربانی کاذکرآیاہے۔ قربانی کالفظ ’’قرب‘‘سے لیاگیاہے۔عربی زبان میں قربان!اس چیزکوکہتے ہیں جس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ کاقرب حاصل کیا جائے۔جبکہ اصطلاحِ شریعت (Tarm-e-Islamic) میں اس سے مراد (ذبح حیوانٍ مخصوصٍ بنیۃ القربۃ فی وقت مخصوصٍ)’’مخصوص جانورکو ذوالحجہ کی دس، گیارہ اوربارہ تاریخ کوتقربِ الٰہی اوراجروثواب کی نیت سے ذبح کرنا قربانی کہلاتا ہے یعنی ہروہ چیزجواﷲ تعالیٰ کے قرب اوررضاکاذریعے بنے،اسے قربانی کہتے ہیں،چاہے وہ ذبیحہ کی شکل میں ہویاصدقہ وخیرات کی صورت میں ہو۔

قربانی کی دوقسمیں ہیں۔ ایک وہ قربانی ہے جو حجاج کرام، حج کے موقع پرمکہ مکرمہ (مِنیٰ)میں کرتے ہیں اوراسے’’ھدی‘‘کہاجاتا ہے…… اور دوسری قسم وہ ہے جو تمام صاحب نصاب مسلمان دنیا کے گوشے گوشے میں کرتے ہیں،اسے عام طورپر ’’اضحیہ‘‘کہاجاتا ہے۔ پہلی قسم کی قربانی مکہ مکرمہ کے ساتھ خاص ہے جو حرمِ پاک سے باہر نہیں ہو سکتی، جبکہ دوسری قسم کی قربانی تمام روئے زمین پرہرجگہ ہوسکتی ہے ۔

قربانی کاوجوب
قرآن مجیدکی متعددآیاتِ مقدسہ میں اﷲ تعالیٰ نے صاحبانِ ایمان کوقربانی کرنے کاحکم فرمایاہے۔ جس میں قربانی کے وجوب،قربانی کی اہمیت اورقربانی کی عظمت و فضیلت کوواضح طورپربیان کیاگیا ہے۔چنانچہ سورۃ الکوثرمیں ارشادِباری تعالیٰ ہے:
﴿ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْo ﴾
ترجمہ: ’’(اے حبیبﷺ!)پس آپ اپنے رب کیلئے نماز پڑھتے رہیں اورقربانی کیجئے‘‘۔(سورۃ الکوثر:آیت نمبر2)
اسی طرح ایک اورمقام پراﷲ تعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ:
﴿ قُلْ اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَo ﴾
ترجمہ: ’’(اے محبوبﷺ!)آپ کہئے کہ بے شک میری نمازاورمیری قربانی(اورحج ودیگرجملہ عبادات)اور میراجینا اورمیرامرناسب اﷲ تعالیٰ ہی کیلئے ہے جوتمام جہانوں کارب ہے‘‘۔(سورۃ الانعام:آیت162)

قربانی! دین اسلام کے عظیم شعائرمیں سے ایک ہے اوراس کے عبادت ہونے پرپوری امت مسلمہ کااتفاق ہے اور اوراس کی فرضیت (وجوب) قرآن وحدیث اوراجماعِ امت سے ثابت ہے۔

قربانی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔قربانی تمام امتوں پراورتمام روئے زمین پر ہوتی آرہی ہے۔چنانچہ قرآن مجیدمیں اﷲ تعالیٰ کاارشاداس کی واضح نشاندھی فرمارہا ہے۔ارشادخداوندی ہے :
﴿ وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِّیْذَکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَارَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ۔﴾
ترجمہ: ’’اورہم نے ہرامت کیلئے ایک قربانی مقرر فرمائی ہے تاکہ وہ (ذبح کے وقت)اﷲ تعالیٰ کانام ان بے زبان جانوروں پر ذکرکریں جو اﷲ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائے ہیں‘‘۔
(سورۃ الحج:آیت34)

اس آیت مبارک سے واضح طورپریہ ثابت ہوتاہے کہ قربانی ہرامت میں اور ہر جگہ قائم رہی ہے کیونکہ سابقہ اُمتیں بھی مکۂ مکرمہ سمیت تمام روئے زمین پر آباد تھیں اورقربانی بھی ہرامت کیلئے مقرر تھی۔اس سے معلوم ہواکہ قربانی بھی تمام روئے زمین پرہردورمیں ہوتی آرہی ہے۔

آقائے نامدارحضورسیدعالمﷺنے بھی مکۂ مکرمہ(حج کے موقع پر)اور مدینہ منورہ میں دونوں جگہ فریضہ قربانی ادافرمایا ہے۔چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ:’’رسول اﷲﷺمدینہ طیبہ میں تقریباًدس سال تک اقامت پذیر رہے اورآپﷺ(ہرسال)قربانی کرتے رہے ہیں‘‘۔(جامع ترمذی، مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب قربانی کے دن آنحضرت ﷺ کے قریب وہ اونٹ لائے گئے جو پانچ یا چھ کی تعداد میں تھے تو اونٹوں نے (ایک دوسرے پرسبقت کرکے) آپ ﷺ کے نزدیک آنا شروع کیا تا کہ آپ ﷺجسے چاہیں پہلے اسی کو ذبح کریں۔ راوی کہتے ہیں کہ جب یہ جانور پہلو پر گرگئے (یعنی وہ ذبح کر دیے گئے) تو آنحضرت ﷺ نے آہستہ سے کچھ فرمایا جسے میں نہ سمجھ سکا۔ چنانچہ میں نے (اس شخص سے جو میرے پاس تھا) پوچھا کہ آپ ﷺ نے کیافرمایا ہے؟ اس نے کہاکہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا ہے کہ ’’ جو شخص چاہے (ہدی کے) ان جانوروں میں سے (گوشت) کاٹ کرلے جائے‘‘۔( مظاہر حق جدید، ج ۲ص۷۲۸، مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)

قربانی کی فضیلت واہمیت
قربانی کا وجوب احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔قربانی کی فضیلت واہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشادفرمایا کہ:
ترجمہ: ’’جس شخص کے پاس مالی استطاعت(یعنی صاحبِ نصاب) ہواور قربانی نہ کرے تووہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے‘‘۔(ابن ماجہ/مسندامام احمد)

ابن آدم کا پسندیدہ ترین عمل
جہاں تک قربانی کی مقبولیت اوراجروثواب کاتعلق ہے توخلوصِ نیت کے ساتھ فربہ (صحت مند)اوربیش قیمت جانورکی قربانی اس کااہم ذریعہ ہے۔چنانچہ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہابیان کرتی ہیں کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا کہ:
ماعمل ابن اٰدم من عمل یوم النحر احب الی اﷲ من اھراق الدم وانہ لیاتی یوم القیٰمۃ بقرونھا واشعارھا واظلافھا وان الدم لیقع من اﷲ بمکان قبل ان یقع بالارض فطیبوبھا نفساً۔
ترجمہ: ’’قربانی کے دن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اولادِآدم کاکوئی بھی عمل خون بہانے (یعنی قربانی کرنے)سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے۔بلاشبہ قیامت کے دن قربانی کا جانور(زندہ ہوکر)اپنے سینگوں،بالوں اورکھروں سمیت آئے گااور بے شک اس کاخون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اﷲ تعالیٰ کے ہاں مقام مقبولیت حاصل کرلیتاہے،پس تم اپنی قربانیاں خوش دلی سے کیاکرو‘‘۔(جامع ترمذی،سنن ابن ماجہ،مشکوٰۃ المصابیح)

ہربال کے بدلے ایک نیکی
عن زید ابن ارقم قال قا ل اصحاب رسول اﷲ ﷺ یارسول اﷲ! ماھذہ الاضاحی؟ قال سنۃ ابیکم ابراھیم علیہ السلام؟ قالوا فمالنافیھا یا رسول اﷲﷺ ؟ قال بکل شعرۃ حسنۃ۔ قالوا فالصوف یارسول اﷲﷺ؟ قال بکل شعرۃٍ من الصوف حسنۃ۔
ترجمہ: حضرت زیدبن ارقم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے رسول پاکﷺسے پوچھاکہ یارسول اﷲﷺ!یہ قربانیاں کیاہیں؟آپﷺ نے ارشاد فرمایاکہ: قربانی تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا:’’یارسول اﷲﷺ!اس میں ہمارے لئے کیااجرو ثواب ہے‘‘؟۔حضوراکرم ﷺ نے فرمایاکہ:’’قربانی کے جانورکے ہر بال اوراون کے بدلے میں ایک نیکی ملتی ہے‘‘۔
(سنن ابن ماجہ،مسندامام احمد،مشکوٰۃ المصابیح)

اس حدیث پاک کی روشنی میں قربانی کی عظمت وفضیلت اور اجروثواب کا اندازہ کیجئے کہ جانوروں کے جسم پربے حدوبے حساب بلکہان گنت بال ہوتے ہیں اور اس حدیث پاک کے مطابق جانورکے ایک ایک بال کے بدلے میں ایک ایک عظیم نیکی ملتی ہے،لہٰذاقربانی کرنے والے خوش نصیب انسان کے نامۂ اعمال میں بے حدو بے حساب اجروثواب اور لاتعدادنیکیاں لکھی جاتی ہیں۔

علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمۃ یہاں ایک بڑالطیف نکتہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’اس حدیث میں اہل علم کے لئے ایک بڑاہی لطیف اورلذیذنکتہ یہ ہے کہ ’’شعرۃ‘‘اور’’حسنۃ‘‘دونوں ہی نکرہ ہیں مگر ’’شعرۃ‘‘کی تنوین تنکیر’’تحقیر‘‘کے لئے اور ’’حسنۃ‘‘ کی تنوین تنکیر’’تعظیم‘‘ کے لئے ہے، جس کا مطلب یہ ہواکہ قربانی کے جانور کے چھوٹے چھوٹے اورحقیر سے حقیربال کے بدلے بھی بڑی سے بڑی اور عظیم سے عظیم تر نیکی ملتی ہے‘‘۔(حقانی تقریریں:صفحہ278)
O حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا، اے فاطمہ! کھڑی ہواپنی قربانی پر اور(قربانی کے وقت جانورکے پاس) حاضر رہو، کیونکہ قربانی (کے جانور)کے خون کے ہرقطرہ کے بدلے میں تمھارے سارے پچھلے گناہوں کو بخش دیاجائے گا۔ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہانے عرض کیا، یارسول اﷲ ﷺ!کیا یہ اجروثواب ہم اہل بیت (خاندانِ نبوت)کے لیے مخصوص ہے یا ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لیے یہ اجر ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ’’ ہمارے اورتمام مسلمانوں کے لئے یہی اجروثواب ہے‘‘۔(مجمع الزوائد:جلد4صفحہ17)
O حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺنے ارشادفرمایاکہ ’’اے لوگو! قربانی کیا کرواورقربانی(کے جانور)کے خون میں ثواب کی نیت کرو، کیونکہ قربانی(کے جانور) کا خون ہرچندکہ زمین پر گرتا ہے لیکن وہ اﷲ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوتا ہے‘‘۔(مجمع الزوائد:جلد4صفحہ17)
O حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺنے ارشادفرمایاکہ ’’جس شخص نے اجروثواب کی نیت سے اورخوش دلی کے ساتھ قربانی کی،وہ قربانی اس کے لئے آگ سے حجاب(رکاوٹ)ہوجائے گی‘‘۔(مجمع الزوائد:جلد4صفحہ17)

حدیث ِنبویﷺکے مطابق قربانی کے جانورکے خون کے ہرقطرے کے ساتھ اس کے گناہوں کی مغفرت ہوجاتی ہے اورقیامت کے دن وہ قربانی اس کیلئے آگ ِجہنم سے حجاب ہوجائے گی۔چنانچہحدیث پاک میں حضورنبی کریمﷺنے فرمایاکہ:
ترجمہ: ’’بے شک قربانی(کے جانور) کے خون کے پہلے قطرے کے ساتھ تمھارے ہرپچھلے گناہ کی مغفرت کردی جاتی ہے اورسنو قربانی کاجانورقیامت کے دن اپنے گوشت اورخون کے ساتھ لایاجائے گااورستردرجے بڑھاکر تمھارے میزانِ عمل میں(شامل کرکے)وزن کیاجائے گا‘‘۔(کنزالعمال،الترغیب والترہیب)

فلسفہ وروحِ قربانی
قربانی کے ایام(۱۰۔۱۱۔۱۲ذوالحجہ)میں اﷲ تعالیٰ کے قرب اور اجروثواب کی نیت سے مخصوص جانور کو ذبح کرنے کا نام قربانی ہے۔سنت ابراہیمی کو تازہ کرنے کے لئے کروڑوں فرزندانِ اسلام ہرسال قربانی کرتے ہیں اورکروڑوں جانوراﷲ تعالیٰ کے نام پر ذبح ہوتے ہیں۔جانورکی قربانی دراصل ہم سب کوراہ حق میں اپنی جان بھی قربان کرنے کا درس دیتی ہے اور یہی قربانی کی اصل روح اور فلسفہ ہے۔

قربانی!قربِ خداوندی کااہم ترین ذریعہ ہے اوراﷲ تعالیٰ کاقرب حاصل کرنے کیلئے نہایت ضروری ہے کہ تمام نیک اعمال چاہے وہ فرضی ہوں یانفلی ریاء کاری اوردکھاوے سے بالکل پاک ہوں اوراس سے اپنی عزت و شہرت مقصودنہ ہوبلکہ صرف اورصرف اﷲ تعالیٰ کی رضا مقصودومطلوب ہو۔نیت خالص ہوتوکم قیمت والے جانورکی قربانی بھی شرف قبولیت حاصل کرلیتی ہے اورنیت خالص نہ ہوتوبیش قیمت جانورکی قربانی بھی رائیگاں اورضائع چلی جاتی ہے۔

قربانی بہ ظاہرایک جانورکواﷲ تعالیٰ کے نام پرذبح کرنے کانام ہے،لیکن درحقیقت قربانی کامقصدمحض جانوروں کوذبح کردیناہی نہیں بلکہ قربانی کی روح اورفلسفہ یہ ہے کہ بندۂ مومن ایک خاص جذبۂ اخلاص وایثار، ایمان داری ونیکوکاری،وفاداری اورجذبۂ تقویٰ وپرہیزگاری ہی کے تحت قربانی کاعظیم فریضہ سرانجام دے۔چنانچہ قرآن پاک کتنے واضح اور دلنشین اندازمیں قربانی کامقصدومفہوم اورفلسفہ وروح بیان فرمارہا ہے۔ارشادِخداوندقدوس ہے:
﴿ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہُ لُحُوْمُھَا وَلَادِمَاؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْویٰ مِنْکُمْ۔ ﴾
ترجمہ: ’’اﷲ تعالیٰ تک تمہاری ان (قربانیوں کے جانوروں)کاگوشت اورخون ہرگزنہیں پہنچتابلکہ اس کے حضورتوصرف تمہاراتقویٰ ہی شرف یاب(قبول) ہوتاہے‘‘۔
(سورۃ الحج:آیت نمبر37)

جذبہ اخلاص وتقویٰ…… درس قربانی
اس آیت مبارک میں صاحبان ایمان کویہ عظیم سبق دیاگیاہے کہ اﷲ تعالیٰ کوتمہاری قربانی کے جانوروں کے گوشت اورخون کی قطعاًضرورت نہیں ہے۔ ہاں البتہ اس کی بارگاہ میں تمہارا اخلاص اورتقویٰ ہی شرف ِقبولیت پائے گااور تمھارے دل میں جتناخلوص اورتقویٰ زیادہ ہوگا،اتناہی قربانی کی مقبولیت اوراس کا اجروثواب بھی زیادہ ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ ہرعمل خیرکی طرح قربانی میں بھی اخلاص نیت کاجذبہ بہت ضروری ہے، کیونکہ درحقیقت وہی قربانی اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول اور ماجور ہوگی، جس میں یہ جذبۂ اخلاص کارفرماہوکہ وہ صرف اورصرف اﷲ تعالیٰ کی رضا اور حصولِ اجروثواب کے لئے کی گئی ہے۔

اسلام ہمیں سال میں ایک مرتبہ اپنے مال اورجانوروں کی قربانی کاحکم دیتا ہے تاکہ ہم اپنے اندر عزم وہمت اورجرأت واستقامت اوراﷲ تعالیٰ کی راہ میں مال ودولت خرچ کرنے اورایثارو قربانی کا جذبہ پیداکریں۔اس کے علاوہ اسلام کاہرفرد چونکہ فطرتاًسپاہی اورمجاہدہوتاہے تواسلام ہمیں قربانی کے ذریعے یہ درس دیتاہے کہ جس طرح آج تم اﷲ کیلئے اپنامال پیش کررہے ہو،کل اسی طرح تم نے دین حق کی تبلیغ واشاعت اورسربلندی کیلئے اپناخون بھی پیش کرناہے اوراگرآج تم اﷲ تعالیٰ کی راہ میں اپنے محبوب کا خون بہانے میں کامیاب ہوجاتے ہو تو کل تم اﷲ کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہو اور تم دارین کی سعادتیں پانے میں کامیاب ہوجاؤگے۔

قربانی کے فضائل وفوائد
قربانی کرکے انسان نہ صرف اطاعت خداوندی بجالاتا ہے بلکہ اﷲ کے محبوب انبیاء کرام کی سنت پر بھی عمل پیرا ہوتاہے اورقربانی کرنے کے بعدجب اس کا ایک تہائی گوشت غریبوں،ناداروں ،یتیموں اورمسکینوں میں تقسیم کیاجاتا ہے تو اس میں صدقہ وخیرات کاپہلو بھی کارفرماہوتا ہے، اس طرح اﷲ تعالیٰ کی مزیدرضاوخوشنودی حاصل ہوتی ہے۔اس کے علاوہ ایک تہائی گوشت اپنے عزیزوں،رشتہ داروں اور احباب میں تقسیم کیاجاتا ہے،اس طرح رشتہ داروں کے حقوق کی پاسداری ہوتی ہے، یوں بیک وقت حقوق اﷲ اور حقوق العبادکی تکمیل ہوتی ہے، گویا کہ عید قربان کا اصل مقصدحقوق اﷲ وحقوق العبادکی ادائیگی اورجذبہ ایثاروقربانی پیدا کرنا ہے۔
٭قربانی کرنے سے اﷲ تعالیٰ کی رضااوراس کاقرب حاصل ہوتاہے۔
٭قربانی کے جانورکے ہرہربال کے بدلے میں ایک ایک عظیم نیکی ملتی ہے۔
٭قربانی کے جانورکے خون کے ہرقطرے کے بدلے میں اﷲ تعالیٰ قربانی کرنے والے کاایک گناہ بخش دیتاہے۔
٭قربانی کے دن اﷲ تعالیٰ کو مسلمان کاکوئی عمل قربانی کرنے سے زیادہ پسندنہیں ہے۔
٭قربانی کاجانورقیامت کے دن اپنے گوشت اورخون کے ساتھ لایاجائے گا اوراس کوستردرجے بڑھاکرمیزان عمل میں وزن کیاجائے گا۔
٭قربانی کے جانورکے خون کے پہلے قطرہ کے ساتھ قربانی کرنے والے کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔
٭قربانی کرنے سے فقراء اورمساکین کومفت گوشت مل جاتاہے،جس سے ان کوبھی عید کی خوشیاں نصیب ہوتی ہیں۔
٭قربانی کے جانوروں اورکھالوں سے ملک وقوم کوقیمتی زرمبادلہ حاصل ہوتاہے،جس سے کاروبار، معیشت اور نقل وحمل میں تیزی آجاتی ہے۔

خلاصہ کلام
خلاصہ کلام یہ ہے کہ عیدالاضحی ہرسال ہمیں یہ یاددلاتی ہے کہ قربانی محض جانور کو ذبح کرنے،اس کا گوشت تقسیم کرنے اورکھانے کھلانے سے عیداورقربانی کا مقصد پورانہیں ہوجاتابلکہ یہ مقصددلوں میں ایک دوسرے کیلئے خلوص ومحبت،ہمدردی اور جذبہ ایثار وقربانی پیدا کرنے سے مکمل ہوتا ہے۔

قربانی کے ذریعے سنت ِحضرت ابراہیم علیہ السلام کوزندہ اوراسوۂ حضرت اسماعیل علیہ السلام کوتازہ کیاجاتاہے۔قمری سال کاآغازمحرم سے اوراختتام ماہِ ذوالحجہ پرہوتاہے۔دس محرم کو امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ اوردس ذوالحجہ کوحضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی ہے۔ معلوم ہواکہ اسلام ابتداء سے لے کرانتہاء تک قربانیوں اوراﷲ تعالیٰ کی راہ میں اپناتن من دھن قربان کرنے کانام ہے۔
غریب وسادہ ، رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ، ابتداء ہے اسماعیل

ذبح کے وقت تکبیراوردعاء
قربانی کرنے سے پہلے جانورکوپانی اورچارادے دیں۔چھری اچھی طرح تیزکرکے اورجانورکو بائیں پہلوپرلٹاکراسے قبلہ رخ کرلیں۔اپنا دایاں پاؤں اس کے پہلوپررکھ کرتیزچھری سے جلد ذبح کردیں۔ذبح سے پہلے یہ دعاء پڑھ لیں۔

دعائے قربانی
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰٰٰٰوتِ وَالْاََرْضَ حَنِیْفاًوَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo اِنَّ صَلَا تِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَo لاَشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَامِنَ الْمُسْلِمِیْنَo اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ۔

پھربلندآوازسے ’’بِسْمِ اللِّٰہ،اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘پڑھ کرذبح کردیں اور ذبح میں کم ازکم چاریاتین رگیں ضرور کٹنی چاہئیں۔
جانورذبح ہوجانے کے بعدیہ دعاء پڑھیں:
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَاتَقَبَلّْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامَ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍصَلَّی اﷲُعَلَیْہِ وَسَلَّمَ0

ضروری وضاحت
اگرذبح کرنے والایادعاء پڑھنے والاکوئی اورہوتوپھر’’مِنِّیْ‘‘کی جگہ مِنْ فلاں(اس شخص یااشخاص کانام) کہے۔اگرگائے یااونٹ وغیرہ ہوتوتمام شرکاءِ قربانی کا نام لینا ضروری ہیں۔
تکبیراتِ تشریق

9؍ذوالحجہ کی نمازِفجرسے13؍ذوالحجہ کی نمازِعصرتک ہرباجماعت نمازکے بعد ایک مرتبہ بلندآواز سے یہ تکبیرات پڑھناواجب ہے اورتین مرتبہ پڑھناافضل ومستحب ہے۔عیدگاہ آتے جاتے بھی بہ آوازِبلندیہ تکبیرات پڑھنی چاہئیں۔
اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَااِلٰہَ اِلَّااَللّٰہُ واَللّٰہُ اَکْبَرْ ،اَللّٰہُ اَکْبَرْ وَللّٰہِ الْحَمْدُ0

دعاء ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کوقربانی کاعظیم فریضہ انجام دینے اور اس کی روح اور فلسفہ پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔(آمین ثم آمین بجاہ سیدالانبیاء والمرسلین)

Moulana Nasir Khan Chishti
About the Author: Moulana Nasir Khan Chishti Read More Articles by Moulana Nasir Khan Chishti: 58 Articles with 180899 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.