خانہ کعبہ جو کہ پوری دنیا میں سب مسلمانوں کا قبلہ ہے ۔
اوردنیا کی پہلی مسجد، مسجد حرام کے وسط میں واقع ہے ۔مسجد حرام کی خصوصیت
یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے امن کا گہوارہ بنایا ہے اور اس میں ایک نماز
پڑھنے کا ثواب ایک لاکھ نماز پڑھنے کے برابر ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی جگہ کو باقی زمین سے ایک ہزار سال پہلے پیدا
فرمایا ۔ یہ خطہ پانی پر ایک جھاگ کی شکل میں تیر رہا تھا۔ پس اﷲ تعالیٰ نے
اس خطہ کے نیچے زمین کو بچھادیا۔ حضرت آدم علیہ السلام جب اﷲ کے حکم سے
زمین پر اترے ، تو آپ ؑ پر وحشت طاری ہوگئی اور آپؑ نے اﷲ تعالیٰ سے دعاکی۔
اﷲ تعالیٰ نے بیت المعمور کو زمین پر نازل کیا جو جنت میں یاقوت کا بنا ہوا
تھا اور اس میں سبز زبرجد کے دو دروازے تھے ایک دروازہ مشرق کی طرف اور ایک
دروازہ مغرب کی طرف لگا ہوا تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے اسے اسی جگہ رکھ دیا جہاں آج
خانہ کعبہ موجود ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو حکم دیا کہ اس
کا اسی طرح طواف کیا کرجس طرح میرے عرش کے گرد فرشتوں کو طواف کرتے ہوئے
دیکھا ہے۔ اور اس کے پاس اسی طرح نماز پڑھا کر جس طرح میرے عرش کے پاس نماز
ادا کیا کرتا تھا۔
جب حضرت آدم علیہ السلام ارضِ ہند سے مکہ مکرمہ کی طرف پیدل روانہ ہوئے تو
اﷲ تعالیٰ نے ایک فرشتہ کو مقرر کردیا تاکہ حضرت آدم علیہ السلام کی بیت اﷲ
کی طرف رہنمائی کرے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے مناسک حج ادا کیئے۔ جب حج سے
فارغ ہوئے تو فرشتوں سے ملاقات کی، فرشتوں نے کہا اے آدم ؑ اﷲ تعالیٰ آپ کو
حج کا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ ہم نے اس گھر یعنی بیت اﷲ کا آپ سے دو ہزار
سال پہلے طواف کیا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے ارض ہند سے مکہ مکرمہ کی
طرف پیدل جاکر چالیس مرتبہ حج فرمایا۔
بیت المعمور طوفان نوح تک زمین پر ہی رہا۔ پھر اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے اسے
آسمان پر اٹھا لیا اور جبرائیل علیہ السلام کوحکم دیا کہ وہ حجر اسود کو
جبل ابی قیس میں رکھ دیں تاکہ حجر اسود طوفان نوح سے محفوظ رہے۔ چنانچہ
خانہ کعبہ (بیت اﷲ ) کی جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے تک خالی رہی
۔ پھراﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ خانہ کعبہ کی
تعمیر کرو۔ اس وقت تک حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بھی پیدا ہوچکے تھے۔ حضرت
ابراہیم علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سے سوال کیا کہ وہ اس جگہ کو واضح کردے
جہاں بیت اﷲ کی تعمیر کیجائے۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت حسن رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عباس رضی
اﷲ عنہ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک بادل کے ٹکڑے کو خانہ کعبہ کی جگہ کے
تعین کے لئے بھیجا۔ جب وہ بادل کا ٹکڑا چلا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اس
کے سائے میں چلتے رہے۔ یہاں کہ جب مکہ مکرمہ آیا تو بادل کا ٹکڑا بیت اﷲ کی
جگہ ٹھہر گیا ۔ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آواز دی گئی کہ بادل کے
ٹکڑے کے سائے کے نیچے خانہ کعبہ (بیت اﷲ) کی تعمیر کرو، نہ اس میں کمی کرو
اور نہ زیادتی کرو۔
خانہ کعبہ کی جگہ کا تعین اور ظاہر ہونے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے خانہ کعبہ کی تعمیرشروع کی ۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پتھر لالاکر دیتے
تھے۔ خانہ کعبہ کی تعمیر پانچ پہاڑوں (طورِسینا، جبل زیتون جبل لبنان جو
ملک شام میں ہے، جبل جودی جو جزیرۃ کا پہاڑ ہے ، جبل حرا جو مکہ میں واقع
ہے ) کے پتھروں سے کی گئی۔ اور باقی پہاڑوں کے پتھروں سے بیت اﷲ کی دیواریں
بلند کی گئیں تھیں۔جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حجر اسود کی جگہ تک بیت
اﷲ کی تعمیر مکمل کرلی تو اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا میرے
پاس ایک بہترین اور خوبصورت پتھر لاؤ جو لوگوں کے لئے بطور علامت بر قرار
رہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام ایک پتھر لائے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے نے فرما یا اس بھی اچھا پتھر لاؤ۔ چنانچہ اسماعیل علیہ السلام پتھر کی
تلاش میں نکلے تو جبل ابو قیس سے آواز آئی کہ اے ابراہیم تیرے لئے میں نے
ایک امانت رکھی ہے ۔ پس تو اس کو لے لے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام حجراسود
کو لائے اور اسے اس کی جگہ پر رکھ دیا ۔
مسلمانوں کے نزدیک یہ پتھر بہت مقدس اور متبرک ہے ، جو مسلمان حج کرنے جاتے
ہیں ان کے لئے لازم ہے کہ طواف کرتے ہوئے ہر بار حجر اسود کو بوسہ دیں۔ اگر
ہجوم زیادہ ہو تو دور سے ہاتھ کے اشارے سے بوسہ دیا جاسکتا ہے۔
جب خانہ کعبہ کی دیواریں ہاتھ جتنی بلندی تک چن لی گئیں تو حضرت اسمٰعیل
علیہ السلام ایک پتھر لائے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
دیواریں مزید بلند کرنا شروع کیں۔ روایت ہے کہ جوں جوں دیوار اونچی ہوتی
جاتی تھی یہ پتھر آپ ہی آپ بلند ہوتا جاتا تھا۔اور جب ابراہیم علیہ السلام
اس پتھر پر سے اترنا چاہتے تھے تو نیچے ہوجاتا تھا۔اس پتھر پر حضرت ابراہیم
علیہ السلام کے قدموں کے نشانات اول اسلام سے اب تک موجود ہیں۔یہ پتھر اس
زمانے سے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت تک کعبے کی دیوار کے ساتھ
چپکا رہا ۔ پھراس پتھرکو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خانہ کعبہ سے
کچھ دور کردیا تاکہ طواف کے وقت رکاوٹ نہ بنے۔ جسے مقام ابراہیم کہا جاتا
ہے۔
عرصہ دراز تک خانہ کعبہ(بیت اﷲ)اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر
پر برقرار رہا ۔ پھر قریش نے اس کی نئی تعمیر کی یہ وہ زمانہ تھا جب نبی
کریم ﷺ کی عمر پچیس برس کی تھی ، مکہ میں شدید بارش کے باعث سیلابی ریلے سے
خانہ کعبہ کی بنیادوں اور دیوارں کو نقصان پہنچا ۔ جب خانہ کعبہ تعمیر ہوا
، اور خانہ کعبہ کی دیواریں قد آدم تک کو پہنچ گئیں تو حجر اسودکو نصب کرنے
کا مسئلہ پیدا ہوا۔ ہر قبیلے کی یہ خواہش تھی کہ حجر اسود کو وہ نصب کرنے
کی سعادت اسے ہی نصیب ہو۔حتیٰ کہ یہ معاملہ لڑائی جھگڑے تک جا پہنچا ۔ آخر
یہ طے پایا کہ صبح سویرے جو سب سے پہلے یہاں داخل ہوگا وہ حجر اسود نصب کرے
گا، اس پر تمام قبائل میں اتفاق ہوگیا۔ دوسرے دن سب سے پہلے داخل ہونے والے
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم تھے ۔ آپ اہل مکہ میں صادق اور امین مشہور تھے۔
قریش نے جب نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو انھیں بے حد اطمینان ہوا ۔ آپ ﷺ نے حجر
اسود کوایک چادر پر رکھا اور تمام قبائل کے سرداروں کو حکم دیا کہ وہ چادر
کے کونے پکڑ کر اسے اٹھائیں۔ چنانچہ سب نے مل چادر کو اٹھایا اور جب چادر
اس مقام پر پہنچی ، جہاں حجرِاسود رکھا جانا تھا تو حضور ﷺ نے اپنے مبارک
ہاتھوں سے اسے دیوار کعبہ میں نصب کردیا۔ اس طرح ایک بہت بڑا جھگڑا ختم
ہوگیا۔
حجر اسود خانہ کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے ۔ قریب سے دیکھیں تو یہ
کئی ٹکڑوں میں نظر آتا ہے ، حضر اسود کے بارے میں حضرت عباس ؓ کی ایک روایت
کے مطابق حجر اسود جنت کا پتھر ہے جس وقت یہ پتھر آیا تھا اس وقت یہ دوددھ
سے زیادہ سفید تھا لیکن بنی آدم کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا ۔
حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ نے اپنے زمانے میں کعبہ کی تعمیراس طریقے پر
کروائی جیسا کہ حضور ﷺ کی خواہش تھی۔ جس کے بارے میں انھیں انکی خالہ حضرت
عائشہ رضی اﷲ عنہا نے بتایا تھا۔ حجاج بن یوسف نے تہتر ہجری میں عبد اﷲ بن
زبیر رضی اﷲ عنہ کو شہید کرڈالا اور خلیفہ وقت عبدالملک بن مروان کوتعمیر
کعبہ کے بارے میں ایک خط لکھا ۔ اس نے خیال ظاہر کیا کہ یہ تعمیر عبد اﷲ بن
زبیر نے اپنی طرف سے کی ہے۔چنانچہ خلیفہ عبد الملک نے حجاج بن یوسف کو خانہ
کعبہ کی تعمیر پہلی حالت پر لوٹانے کا حکم کردیا ۔ جب خلیفہ عبد الملک بن
مروان کومعلوم کہ عبداﷲ بن زبیرؓخانہ کعبہ کی تعمیر کے بارے میں حضرت عائشہ
رضی اﷲ عنہا نے بتایا تھا اور یہ تعمیر حضورﷺ کی خواہش کے مطابق ہوئی تھی۔
تو اسے خانہ کعبہ کو دوبارہ تعمیر کرنے والے اپنے حکم نامے پر بے حد افسوس
ہوا ،کہ کاش میں اس کو اسی حالت پر چھوڑ دیتاتو بہتر ہوتا۔
پھر جب مہدی بن منصور کا زمانہ خلافت آیا تو اس نے حضرت امام مالک بن انس
رحمتہ اﷲ علیہ سے مشورہ کیا کہ کعبۃ اﷲ کو حضرت عبداﷲ بن زبیر ؓ کی
تعمیرکردہ صورت پر لوٹادیا جائے تو کیسا ہے؟ حضرت امام مالک بن انس نے
فرمایا مجھے ڈر ہے کہ ملوک (خلفاء) اس کو کھیل بنالیں گے یعنی جب کوئی
بادشاہ آئے گا تو اپنے خیال کے مطابق اس کو بنائے گا ۔ لہٰذا امام نے اس کو
اسی حالت پر برقرار رہنے دیا۔
(ماخوذ: حیوۃ الحیوان جلد دوم۔ قصص النبیاء۔ صحیح مسلم )
تاہم مختلف ادوار میں خانہ کعبہ کے صحن اور اطراف میں تعمیر و توسیع کا کام
ہوتا رہا ہے ۔لیکن سب سے بڑی توسیع سعودی دورِحکومت میں ہوئی ،جس میں مسجد
حرام کو دور جدید کے معیار کے مطابق بنایا گیا اور ائیر کنڈیشنز اور برقی
سیڑھیاں بھی نصب کی گئی ہیں اس وقت مسجد حرام کی تین منزلیں ہیں ۔جس میں
لاکھوں نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اﷲ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حج کی
سعادت نصیب فرمائے ۔ |