سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن نے رائے دہندوں کے لئے ایک
نئے امیدوار کی نشان دہی کی ہے جو ہر انتخاب میں ہر حلقہ میں تمام
امیدواروں کا مقابلہ کرے گا اور اس امیدوار کا بے شک طبعی وجود نہ ہوگا
لیکن اگر رائے دہندوں کی اکثریت اس کا ساتھ دے تو یہ تن تنہا اس حلقے کے
باقی سارے امیدواروں کو شکست دے سکتا ہے اور یہ امیدوار ہے ’’کوئی نہیں‘‘
یعنی اس حلقہ کے تمام امیدواروں میں کوئی بھی رائے دہندہ کے ووٹ کا مستحق
نہیں ہے یا مقابلہ کرنے والے تمام امیدواروں میں سے کسی کو بھی رائے دہندہ
اپنا ووٹ دینا نہیں چاہتا ہے۔ یہ ملک کی جمہوری تاریخ میں ایک تاریخی اقدام
ہے۔ انتخاب لڑنے والوں کی تعداد 2یا 2سے کتنی ہی زیادہ ہو اب ان سب کو
مسترد کیا جاسکتا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے 27 ستمبر دئے گئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ رائے دہندوں کو
منفی ووٹ دینے کا حق ہے اور الیکشن کمیشن کو ہدایت دی کہ وہ تمام الکٹرانک
ووٹنگ مشینوں میں ایک بٹن ’’ان میں سے کوئی نہیں ‘‘Nota: None of the
above(نوٹا اس کا مخفف یا شارٹ فارم ہے) کیلئے اضافہ کرے اس فیصلے کے چند
دن بعد ہی پانچ ریاستوں میں ریاستی اسمبلیوں کے لئے انتخابات کے پروگرام کا
اعلان کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ ان انتخابات میں عدالت
عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے رائے دہندوں کو حق دیا جائے گا کہ
وہ ان میں سے کوئی نہیں کا بٹن دباکر تمام امیدواروں کو مسترد کرسکتے ہیں۔
تمام امیدواروں کو مسترد کرنے کا حق رائے دہندوں کو 1961 ء کے انتخابی
قوانین کی رو سے رائے دہندہ فارم (17A) کے ذریعہ اپنا ووٹ استعمال نہ کرنے
کے حق کا استعمال کرسکتا ہے۔ لیکن اس طریقہ کار میں رازداری نہیں برتی
جاسکتی ہے۔ کوئی بھی ایسے رائے دہندے کو نشانہ بناسکتا ہے اس لئے یہ طریقہ
قابل عمل نہیں مانا جاتا ہے لیکن ان میں سے کوئی نہیں یا Nota None of the
Abvoe (نوٹا) کے ذریعہ رائے دہندہ کا’’حق خفیہ رائے دہی‘‘ برقرار رہتا ہے
اس کا شمارہ اپنے ووٹ کا استعمال کرنے والوں میں ہوگا۔ تاحال یہ طریقہ کار
فرانس، بلجیم برازیل، یونان، بوکرین، بنگلہ دیش، فن لینڈ، اسپین، کولمبیا،
امریکہ اور سوئیڈن وغیرہ میں مروج ہے۔
’’نوٹا‘‘ کا فوری فائدہ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کی ریاستوں
میں محسوس کیا جاسکتا ہے جہاں رائے دہندوں کے آگے اپنی پسند یا انتخاب کے
اظہار کا حق بے حد محدود ہے۔ فرقہ پرست، فاشسٹ اور ہندتوا کی علمبردار بی
جے پی ایک طرف ہے تو دوسری طرف ملک میں مہنگائی، معاشی بدحالی اور کرپشن کی
ذمہ دار کانگریس ہے۔ عوام جائیں تو کہاں جائیں؟ کریں تو کیا کریں؟ وزارت
عظمیٰ کے لئے نریند رمودی کو اپنا امیدوار بناکر بی جے پی نے اپنے اور
مسلمانوں کے درمیان ناقابل عبور خلیج حائل کرلی ہے۔ مسلمانوں کے لئے
کانگریس کا کچھ کرنا تو دور رہا (مثلاً سچر کمیٹی رگھوناتھ مشرا کمیشن کی
سفارشات پر عمل درآمد، ملازمتوں میں تحفظ وغیرہ) الٹا دہشت گردی میں
مسلمانوں کو ملوث اور مورد الزام قرار دیا گیا۔ بے قصور مسلمانوں کو بلاوجہ
گرفتار کرنے، ہراساں کرنے کا سلسلہ مرکزی وزیر داخلہ شنڈے کا ریاستی وزرائے
اعلیٰ کو ہدایات کے باوجود جاری ہے۔ ان حالات میں کانگریس کو ووٹ دینا
احمقانہ فراغ دلی یا سادہ لوحی ہوگی۔ ہاں بی جے پی یا شیوسینا کا کانگریس
سے مقابلہ ہوتو تب بات دوسری ہوگی لیکن اب ہم کانگریس اور بی جے پی دونوں
ہی کو مسترد کرکے نوٹا کے ذریعہ دونوں سے اپنی ناراضگی بھی ظاہر کرسکتے ہیں۔
نوٹا کا استعمال کس حدتک رائے دہندے بھر پور انداز میں کریں گے؟ یہ سوال بے
حد اہم ہے کیونکہ اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ’’نوٹ برائے ووٹ‘‘ کا بہت
زیادہ چلن ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں ووٹ دیتے وقت مذہب، مسلک، ذات اور
برادری کا بھی لحاظ خاص طور پر رکھا جاتا ہے۔ ان باتوں کا جب لحاظ رکھا
جائے گا تو نوٹا پس پردہ چلا جائے گا۔ اس کے علاوہ رائے دہندوں میں اتنا
شعر بہر حال نہیں ہے۔ اس لئے تمام امیدواروں کی کمزوریاں ’’نوٹوں، مذہب،
مسلک، ذات اور برادری‘‘کی کشش کو ماند نہیں کرسکتی ہے۔ اس کے باوجود ایسا
بھی نہیں ہے کہ نوٹا کا استعمال ہی نہ ہو اور یہ بے اثر ثابت ہو۔
نوٹا کی افادیت سے تو انکار تو ممکن ہیں ہے لیکن اس کے استعمال سے برآمد
ہونے والے نتائج کے تعلق سے فی الحال کچھ سوالات کھڑے ہوتے ہیں اور ان شکوک
و شبہات کو دور کرنے کاکام الیکشن کمیشن کو کرنا ہے۔،
اگر فرض کرلیا جائے (گوکہ ایسا بظاہر ممکن نہیں ہے) کہ نوٹا کو تمام
امیدواروں سے بڑھ کر ووٹ مل جائیں تو ظاہر ہے کہ تمام امیدوار مسترد ہوکر
شکست خوردہ کہلائیں گے اس حلقے میں ظاہر ہے کہ دوبارہ انتخاب ہوگا کیا اس
صورت میں و ہ امیدوار جو مسترد شدہ ہے اسی حلقہ سے دوبارہ انتخاب لڑسکے گا؟
شکست خوردہ امیدوار اور مسترد شدہ امیدوار میں بلاشبہ فرق ہے۔ اس لئے غالباً
اس حلقہ سے جہاں سے وہ مسترد ہوا ہے کم از کم فوراً دوبارہ انتخاب نہیں
لڑسکے گا۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن ہی فیصلہ کرسکتا ہے ؟ تاہم سمجھا جاتا
ہے کہ مسترد شدہ امیدوار کے لئے کسی مدت کا تعین کیا جائے گا جس کے دوران
وہ مسترد ہونے کی وجہ سے اسی حلقے سے انتخاب نہیں لڑسکے گا۔
نوٹا کی وجہ سے چند فائدے فوراً محسوس کئے جائیں گے۔ ایک تو وہ رائے دہندے
جو محض اس وجہ سے رائے دہی میں حصہ نہیں لیتے ہیں کہ وہ کسی بھی امیدوار کو
ووٹ دئیے جانے کے لائق نہیں سمجھتے ہیں وہ اپنا ووٹ دینے میں ضرور خاصی
حدتک دلچسپی لیں گے۔ ایک دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ جب اپنے ووٹ کا خود
استعمال نہ کریں تو کوئی دوسرا ان کی طرف سے ان کے ووٹ کا استعمال ناجائز
طور پر کرتا ہے۔ جب زیادہ لوگ اپنا ووٹ دیں گے تو تلبیس شخص کے واقعات بہ
کم ہوجائیں گے۔ ووٹس کے ناجائز استعمال کی وجہ سے جیتنے کی صلاحیت رکھنے
والے امیدوار ہار جاتے ہیں۔
ایک دوسرا اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ اس طرح ہر پارٹی اپنا ٹکٹ سوچ سمجھ کر
معقول و اہل اور لائق امیدوار کو دے گی۔ داغدار، جرائم پیشہ اور نااہل
امیدوار کم ہی نظر آئیں گے۔ اس طرح جمہوری نظام میں شفافیت آجائے گی۔ آج کل
تو یہ حال ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے کسی خاص شرط یا معیار کی
ضرورت نہیں ہے۔ سزا یافتہ افراد کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا مسئلہ تو
اب پیدا ہو اہے ورنہ جیل سے بھی انتخابات لڑے جاتے تھے۔
ہندوستان میں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، ہریانہ، پنجاب، ہماچل
پردیش اور مہاراشٹرا ایسی اہم ریاستیں ہیں جہاں بی جے پی اور کانگریس میں
یا ان کے حلیفوں سے راست مقابلہ ہوتا ہے۔ ایسی تمام ریاستوں میں ان دونوں
یا ان کے حلیفوں کو ناپسند کرنے والے مسلمان ہی نہیں تمام سیکولر ووٹرس کو
’’ان میں سے کوئی نہیں ہے ‘‘ سے خاصہ فائدہ ہوگا وہ لوگ جو رائے دہی کا
مقاطعہ کرنے کی بھی سوچ رہے ہیں ان کو اب عالم مایوسی و بیزاری میں مقاطعہ
نہیں کرنا پڑے گا اور وہ ناپسندیدہ امیدواروں کو مسترد کرگے اپنی پسندیدگی
کا عملا اظہار کرسکیں گے۔
اس سلسلہ میں مسلمانوں کے لحاظ سے یہ نکتہ اہم ہے کہ وہ اپنے ووٹ بینک
کااگر صحیح طریقہ سے استعمال کریں تو ان کی ’’بادشاہ گری‘‘ کا مان رہ سکتا
ہے ۔ کانگریس اور بی جے پی کے حخلاف نوٹا کا استعمال کرنے سے یہ عین ممکن
ہے کہ بی جے پی اور کانگریس کی جگہ کوئی تیسرا امیدوار ہی کامیاب ہوجائے ۔
دونوں پارٹیوں کو عوام کی ناپسندیدگی کا علم ہوگا۔
ہمارا انتخابی نظام مزید اصلاحات کا متقاضی ہے۔ جس میں اہم متناسب نمائندگی
ہے۔ تناسب نمائندگی سے مراد کسی پارٹی کو ریاست بھر میں حاصل ووٹس کے فیصد
کے تناسب سے اتنی ہی نشستیں دی جائیں نیز ووٹ کا استعمال اگر لازمی قرار
دیا جائے تو اس سے نوٹا کا فائدہ بھر پور انداز میں اٹھایا جاسکتا ہے۔ اگر
صرف چند حلقوں میں بھی اگر نوٹا کو اکثریت ملے اور وہاں دوبارہ انتخاب
کروانا پڑے تو امیدوار بہت سوچ سمجھ کر منتخب کئے جائیں گے۔ نریندر مودی
اور سنگھ پریوار کے دعووں کی حقیقت بھی معلوم ہوجائے گی کہ مسلمان بی جے پی
کو ووٹ دینے لگے ہیں۔ نوٹا کے اثرات فوری ظاہر ہوں نہ ہوں لیکن اس کے اثرات
دیرپا ہوں گے۔ |