کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
“زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے“ اس کہاوت کی سچائی تب سمجھ آتی ہے جب انسان عملی
طور پہ تجربات اور آزمائشی دور سے گزرتا ہے۔ دنیا میں پہلا قدم رکھتے ہی اسے
تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ “انسان دنیا میں سب پہلے رونا
سیکھتا ہے“ بلکہ اس کا دنیا میں پہلا قدم ہی روتے سے شروع ہوتا ہے ۔ پھر جب
تھوڑا سا بڑا ہوتا ہے تو اسے تھوڑی بڑی آزمائشوں سے گزرنا ہوتا ہے۔ اسکول کا ہر
سال اس کی آزمائش پہ ختم ہوتا ہے۔ جب جوان ہوتا ہے تو کئی طرح کی آزمائشیں اس
کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑی ہوتی ہیں کبھی بے روزگاری کا غم تو کبھی غم یار
کبھی شیطان کے بہلاوے تو کبھی دوستوں کی بے وفائیاں۔ کبھی حادثات تو کبھی کیا۔
جب شادی کے بندھن میں بندھتا ہے تو پھر اور آزمائش ہوتی ہے کبھی بیوی کی بے
وفائی تو کبھی بچوں کی طرف سے غم پھر جب بوڑھا ہوتا ہے تو بڑھاپے کا غم اور
پریشانی تنہائی کا احساس ماضی کی یاد اور موت کا احساس اسے گھائل کر دیتا ہے۔
پھر موت اور اس کے بعد بڑی آزمائش۔۔۔۔۔۔ ہر انسان کی کہانی کا انجام یہی ہے ہاں
کچھ لوگوں کی کہانی کا اختتام اچھا ہوتا ہے اور کچھ کا برا ہوتا ہے ۔ آج ہم
زندہ ہین سانس لے رہے ہیں اللہ کے دیا سب کچھ ہے ہمارے پاس ۔ سردیوں میں گرم
کپڑے اور سونے کے لیے گرم کمبل گرمیوں میں اور بہت کچھ اچھے قسم کے کھانے پھل
فروٹ بے انتہا نعمتیں کیا کچھ نہیں ہوتا ہے ہمارے پاس لیکن ہم میں سے اکثر یہ
بھول جاتے ہیں کہ زندگی کا مقصد کیا ہے اور یہ سب کچھ ہماری آزمائش کا حصہ ہے
وہ لوگ بہت خوش قسمت ہیں جو اس بات کو سمجھ جاتے ہیں اور مقصد حیات کو پانے کی
دھن میں وہ سرکردہ رہتے ہیں وہ ان نعمتوں میں خود کو گم نہیں کرتے اور نہ ہی
خود کو بھولتے ہیں بلکہ ان کی تلاش کچھ اور ہوتی ہے اور اسی تلاش میں وہ بالآخر
اپنی سعی میں کامیاب ہوجاتے ہیں |