12 اکتوبر کو ریاستہاۓ متحدہ
امریکہ میں کولمبس ڈے منایا جائے گا- اسوجہ سے یہ سہ روزہ ویک اینڈ ہوگا
چونکہ یہ ایک وفاقی چھٹی ہےاوریہاں کے معاشرے میں سہ روزہ ویک اینڈ کا بڑی
شدت سے انتظار ہوتا ہے -یہاں کے کافی ریاستوں میں اسکے ساتھ موسم خزاں کی
چھٹیوں کو ملا دیا جاتا ہے-کافی لوگ اس طرح کے ویک اینڈ پر سیر و تفریح کا
پروگرام بنا ڈالتے ہیں - اور کچھ نہیں تو سٹوروں میں زبردست سیل لگ جاتے
ہیں اور خریداری کا لطف اٹھایا جاتا ہے- کیونکہ آیئندہ thanksgiving اور
کرسمس کے تحائف کی بھی خریداری کرنی ہے--- یہ ساہوکاری اور کاروباری معاشرہ
ہے ہمہ وقت سٹور اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کب اور کیسے خریداروں کو نشانہ
بنایا جاءے اسی کو ٹارگٹ مارکیٹنگ کہتے ہیں-لیکن اسکا کیا جائے کہ وفاقی
حکومتی اداروں کادو ہفتوں سے شٹ ڈاؤن ہے بہت کچھ بند پڑا ہوا ہے کافی دفاتر
، قومی پارک ، مالیاتی ادارے بند پڑے ہیں - افغانستان میں فوجیوں کی لاشوں
کو روک دیا گیا ہے - اکثر ادروں کے ملازمین کو ان چھٹیوں پر تنخواہوں کی
ادائیگی نہیں ہوگی -ڈیموکریٹ حکومت اور ری پبلکن میں ٹھنی ہوئی ہے - بیان
بازی اور الزامات کا بازار گرم ہے - سستی صحت کی انشورنس مہیا کرنے کیلئے
اوباما کیئر obama care یکم اکتوبر سے چالو ہے - چالو کیا بری طرح لنگڑا
رہا ہے ابھی تک ویب سائٹ ہی پوری طرح چالو نہیں ہوا- میں ہر روز اسپر آگے
بڑھنے کی کوشش کرتی ہوں تو پیغام آتا ہے - کہ بہت زیادہ ٹریفک ہے اور ہم
معذرت خوا ہ ہیں کہ آپکی درخواست اسوقت اور آگے نہیں جاسکتے--حزب اختلاف
یعنی ریپبلکن اس ممکنہ سہولت کے سخت مخالف ہیں انکے ریڈیو اور ٹی وی چینل
اوبامہ کیئر کا خوب خوب مذاق اڑاتے ہیں--
جانے دیجئے کولمبس کی بات کرتے ہیں--
امریکہ کرسٹوفر کولمبس کا ممنون احسان ہے کہ اسنے اسے مغالطے میں دریافت
کرلیا وگرنہ ابھی تک دنیا امریکہ سے محروم رہتی اور وہ کہیں گوشہ گمنامی
میں پڑا رہتا-ذرا سوچئے اگر امریکہ اب تک دریافت نہ ہو چکا ہوتا تو کیا
ہوتا شائد دنیا کا کچھ بھلا ہی ہوجاتا- جاپان، چین ،ویٹنام، عراق،
افغانستان ،ایران ، پاکستان ، شمالی کوریا اور دیگر بے شمار ممالک سومالیہ،
لیبیا،مصر،کینیا چین کی بانسری بجاتے رہتے اور باقی دنیا میں بھی راوی چین
ہی چین لکھتا- نہ ہی یہ دنیا ایک گلوبل ولیج بنتی نہ ہمیں ان کمپیوٹروں کی
لت پڑتی - پھریہ ڈہیروں ڈھیر سائینسی ایجادات کا کیا ہوتا؟ بقول حسن نثار
کے" ہم تو اپنے پوتڑے بنانے کے قابل بھی نہیں" بہر کیف دنیا اسکے باوجود
بھی چل رہی تھی لوگ زندہ تھے کھا پی رہے تھے اور خوب لڑ جھگڑ بھی رہے تھے-
البتہ یہ ایٹمی دوڑ اور یہ ڈرون خدا کی پناہ---- امریکہ نے دنیا کا جانے
انجانے میں وہی حشر کیا جو کولمبس نے امریکہ دریافت کرنے کے بعد وہاں کے
مقامی باشندوں کا کیا --جسکی لاٹھی اسکی بھینس!
ہاں دنیا کا بھلا ہوتا نہ ہوتا امریکہ کا تو ہو ہی جاتا -- ہر وقت امریکہ
کو کتنی گالیاں اور بد دعائیں پڑتی ہیں ، جھنڈے جلائے جاتے ہیں ۔ صدر کے
پتلے جلائے جاتے ہیں، شرم دلائی جاتی ہے لیکن امریکہ ایسا ڈھیٹ کہ ٹھس سے
مس ہی نہیں ہوتا بلکہ پھیلتا ہی چلا جاتا ہے-پاکستان میں ہر جلوس میں نعرے
بازی ہوگی گو امریکہ گو Go America Go اس سے ایک تو وہ دوبئی چلو والا قصہ
لگتا ہے کہ جاؤ چلے جاؤ امریکہ چاہے کیسے بھی ممکن ہو ، دوسرےامریکہ میں یہ
نعرہ کھیلنے والی ٹیموں کو بڑ ھاوا دینے کے لئے کہا جاتا ہے Go Go کہ آگے
بڑھو اور سب کو مات دو- نعرے بازی کی بھی ایک آرٹ ہے--
لیکن پھر وہی امریکہ ہمارے ہر دکھ کا مداوا بھی ہے زلزلے آۓ ، سونامیاں
آئیں ، سیلاب آئے ،ہر تباہی میں امریکی امداد پیش پیش ، پھر نہ ہمیں انکی
امدادی ٹیمیں بری لگتی ہیں نہ انکے جہاز اور نہ ہی ہیلی کوپٹرجب انجیلینا
جولی ہمارے کیمپوں کے دوروں پر ہوتی ہے تو ہمیں سب کچھ بہت اچھا لگتا ہے-
ملالہ یوسف زئی کو جتنا لاڈ پیار امریکہ نے دیا کہ جان اسٹیورٹ گود لینے پر
تیار ہیں --ارے خدا کیلئے کھلی آنکھوں سے دیکھو دوسرے پاکستانی بچے بھی
اتنے ہی پیارے ہیں جتنی کہ ملالہ جنکو تم نے ڈرونوں کی مار ماری --لیکن
انکی لئے آواز اٹھانے والے مظاہرے کرنیوالے بھی یہی امریکی ہیں-- میرے ساتھ
یہی تو مشکل ہے کہ موضوع سے بھٹک جاتی ہوں اور کہاں سے کہاں جا پہنچتی
ہوں--
اسوقت امریکہ کا یہ حال ہے کہ ویزے کے لئے سب سے لمبی لائینیں اسی کی
ایمبیسی میں لگی ہوتی ہیں ہر ایک کی خواہش ہے کہ وہ امریکہ جائے ، کم از کم
ایک مرتبہ تو جائےاور جس کو ویزہ نہیں ملتا وہی سب سے زیادہ برا بھلا کہتا
ہے , ہاں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جیسے میرے والد صاحب مرحوم ایک مرتبہ میں
نے مشورہ دیا کہ آپ امریکہ گھوم آئیے ، کہنے لگے اللہ تعالی مجھ سے یہ ہرگز
نہیں پوچھے گا کہ امریکہ گئے تھے یا نہیں ؟--میں نے انکو قائل کرنے کی کافی
کوشش کی کہ دیکھئے گا "فردوس گر بر روئے زمیں است --ہمیں است ہمیں است ہمیں
است" لیکن وہ نہیں مانے ،اسی جنت کو تو بچانے کے لئے امریکہ ساری دنیا کو
تگنی کا ناچ نچاتا رہتا ہے ہے--
اور یہ سب کولمبس کا قصور ہے نہ وہ امریکہ دریافت کرتا نہ ہی امریکہ کو یہ
دن دیکھنے پڑتے-اب کولمبس نکلا تو ہندوستان کی تلاش میں تھا لیکن جا پہنچا
امریکہ ، اب نجانے اسوقت امریکہ کا کیا نام تھا؟ وہ اپنے تیئں یہی سمجھا کہ
وہ ہندوستان پہنچ گیا ہے کولمبس اطالوی نژاد ہسپانوی جھاز راں تھا اسوقت
ہندوستان سونے کی چڑیا کہلایا کرتا تھا- کولمبس کو 1492 عیسوی میں باد شاہ
فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے مالی امداد کے ساتھ اس مہم پر روانہ کیا، اور
اس سے وعدہ کیا کہ وہ کامیاب لوٹے گا تو اسکو امیرالبحر یا گورنر بنادینگے
- فرڈیننڈ اور ازابیلا مسلمانوں کے جانی دشمن جنہوں نے اسپین سے اسلامی
حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانؤں کا مکمل خاتمہ کردیا تھا- جب
مسلمان یورپ میں آئے اسوقت یورپ مکمل تاریکی میں تھا - یہ اسلام کا سنہری
دور تھا وہ اپنے ساتھ علم و دانش، علوم و فنون لائے - اسپین میں اب بھی
انکے سنہرے شاندار ماضی کے آثار نمایا ں ہیں- کولمبس پہلی مرتبہ تین جھازوں
کے بیڑے میں جزیرہ بہاماس کے پاس اترا ان سب علاقوں میں قبائیلی اطوار تھے
یہاں کے لوگ نسبتا پر امن تھے- کولمبس کو یہاں عیسائیت پھیلانے کے اور اپنی
نو آبادیا ں بسانے کی کافی گنجائش نظر ائی اور اسکے بعد اسنے مزید تین سفر
کئے اور کافی جہازوں کی معئیت میں ہر قسم کے آبادکاروں کو لایا جنمیں کسان
، تاجر ، کاریگر اور صناع شامل تھےاور یوں اپنی نو آبادیا ں بسا کر یہاں کا
وائس رائے بن بیٹھا البتہ اسکے ظلم و ستم کی اتنی داستانیں بادشاہ کو
پہنچیں کہ بالاخر بادشاہ نے اسکو پابہ جولاں داخل زنداں کیا جھاں 54 سال کی
عمر میں وہ دار فانی سے کوچ کرگیا-
اس سارے قصے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کولمبس کا ذیادہ عمل دخل اور
حاکمئیت جزائر غرب الہند اور کیوبا میں رہا اور وہ مرکزی امریکہ میں جو اب
ریاستہائے متحدہ امریکہ کہلاتا ہے - اسمیں کبھی داخل ہی نہی ہوا لیکن پھر
بھی امریکہ والے اسکو اپنا سمجھتے ہیں اور اسکی اس دریافت پر فخر کرتے ہیں
کیونکہ اسکے آنے کے بعد ہی یوروپی آباد کاروں کو امریکہ اپنے خوابوں کی
منزل کی صورت میں نظر آیا اور شمالی امریکہ یوروپی سفید فام تارکین وطن کا
نیا ملک بن گیا --جبکہ لاطینی امریکہ میں ہسپانوی نو آبادیا ں بنیں-
اسی خراج تحسین کی خوشی میں نیویارک میں بہت بڑا کولمبس کا مجسمہ ایستادہ
ہے اور وہ کولمبس اسکوائیر کہلاتا ہے-البتہ اس مجسمے پر دل جلے ریڈ انڈئینز
Red Indians نے خوب سنگ باری بھی کی ہے اب کولمبس نہیں تو اسکا مجسمہ ہی
سہی - سی این این پر دکھا رہے تھے کہ اب 550 سال کے بعد ایک کولمبس
اپارٹمنٹ بھی بن گیا ہے جس سے مین ہٹن کا بڑا خوبصورت نظارہ دکھائی دیتا
ہے-شائد کولمبس کی روح اسمیں آکر قیام کرے--
ریڈ انڈئینز کو ہم لال ہندوستانی کہتے ہیں اسلئے کہ انکے سامنے اسطرح کہنا
ایک نسلی گالی کہلاتا ہے جسے یہاں racial slur کہتے ہیں جیسے کسی سیاہ فام
کو نیگرو یا نیگر کہنا اسکی توہین ہے اور وہ قا نونی چارہ جوئی کر سکتا ہے-
کیا کہنے امریکہ کے قوانین اور قانونی چارہ جوئی کے ؟ لال ہندوستانی نام
بھی کولمبس نے دیا ورنہ تو انکے بڑے بڑے قبائیل تھے جنکے کافی اچھے اچھے
نام ہیں - چروکی ، اپاچی،نواؤ navajo اب اپاچی، ہیلی کاپٹر ہوگیا چروکی
مشہور جیپ اور اسی طرح کے بیشمار نام - امریکن انکو عزت سے اب native بلاتے
ہیں جبکہ کینیڈئین فرسٹ نیشن چلئے اسطرح ہی سہی کچھ عزت تو دی گئی ورنہ تو
غالب, حملہ آور یوروپیئن اقوام نے مار مار کر ایک چوتھائی بہی رہنے نہ
دیا--اور اب جو انکا حال ہے کہ عموما ایک نمائیشی حیثیئت ہے خوب نشے میں
دھت رہتے ہیں جگر کے امراض کثرت شراب نوشی سے عام ہیں ، فربہی کی بیماری
بہت عام ہے جسکی وجہ سے انمیں ذیابیطس بھی کافی پایا جاتا ہے -مختلف مواقع
پر اپنے پروں والے لباس پہن کر ڈانس کرینگے - انکی زمینوں پر جوۓ کی اجازت
ہے اس بناء پر بڑے بڑے کسینو بناۓ گئے ہیں -ایک مرتبہ البقرقی سے فلائٹ پر
ساتھ بیٹھا ہواریڈ انڈین مجھے بھی اپنی قبیلے ہی کوئی سمجھا کیونکہ وہ ہم
سے شکلوں میں ملتے جلتے ہیں -سرخ ہندوستانیوں کا ذکر پھر کبھی تفصیل سے
کرونگی -
اسوقت مجھے مال جاناہے جہاں کولمبس ڈے کی زبردست سیل لگی ہوئی ہے-----
|