!صحافت اب بوڑھی ہو چکی ہے

صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جس میں جھوٹ اور اندازوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ جب تحقیق ، تحریر اور تدبیر ملتے ہیں تو خبر کا وجود بنتا ہے جسکا خالق ایک صحافی ہوتا ہے۔لیکن اب صورت حال کچھ اور ہے ۔ اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسکی بصارتوں اور سماعتوں نے جواب دینا شروع کر دیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ بچاری کے بچے بھی اب اندھے ، گونگے اور بہرے پیدا ہونے لگے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب صحافی کو لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے کیونکہ وہ سچ لکھتا تھا، سچ ڈھونڈتا تھا، سچ بولتا تھا، سچ سوچتا تھا اور سچ سنتا تھا۔ اب زمانہ تیز ہو گیا ہے۔ اور اس زمانے کا صحافی بھی اس تیز زمانے کی تیز گام پر بیٹھ گیا ہے اور وہ باہر کی دنیا کا ہر وہ نظارہ لکھ رہا ہے جو اسکی آنکھوں سے گزر رہا ہے۔اب خود ہی سوچ لیجئے کہ تیز چلتی گاڑی سے نظر آنے والا نظارہ کیسا ہوگا؟
تیرے معیار پر بات کرنا میری اوقات تو نا ہے
دیکھ کر تیرے بچے لفظ ہلے یہ کوئی بات تو ناہے

دل چھلنی ہو جاتا ہے اور دل کرتا ہے کہ دھاڑیں مار کے روؤں جب بھی ٹیلی ویژن آن کرتا ہوں اور کوئی بھی نیوز چینل دیکھتا ہوں ۔ ہم تک خبر ایسے پہنچتی ہے جیسے کوئی شخص جو کہ پہلی دفعہ لاہور کی میٹرو بس میں بیٹھا اور وہ کال پر اپنی بیوی کو بتا رہا ہو کہ اب کون سا اسٹیشن آ گیا ہے؟ اب کون اتر رہا ہے ؟ ٹکٹ کیسے لی؟ لفٹ پر کیسے چڑھا وغیرہ وغیرہ۔ اور اس نے جتنے بھی اسٹیشن اور علاقے بتائے وہ سب غلط ہوں کیونکہ اسے باہر کونسا صاف نظر آ رہا ہوتا ہے وہ تو اپنی بیو ی کو خوش کرنے کے لیے اور اسے مصروف رکھنے کے لئیے بتاتا رہتا ہے۔ در حقیقت ہمارے سننے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے۔ ہمیں جو دکھایا جاتا ہے ہم اس پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں، ہمیں جو سنایا جاتا ہے ہم اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال کر اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ اسکی ایک دو زبردست مثالیں میں آپکے سامنے رکھتا ہوں۔ ایک دن ایس ایم ایس آیا ’’ شیزان کی بوتل کا مالک مرزائی ہے لہذا اگر آپ مسلمان ہیں تو فورا ً اس بوتل کا بائیکاٹ کر دیں یہ میسج آگے سات لوگوں کو بھیجیں آپ ہر نقصان سے محفوظ رہیں گے ایک شخص نے اسکو مذاق سمجھا اور نظر انداز کر دیا دوسرے دن اسکا ایکسیڈنٹ ہو گیا ۔ نوٹ ہم نے یہ میسج آج کے دن میں ہی ایک لاکھ لوگوں تک پہنچانا ہے اس نیک مقصد میں ہمارا ساتھ دیں اپنا نمبر شمار لکھ کر آگے بھیج دیں‘‘ اور سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جب میں نے نمبر ز دیکھے تو اس وقت تک کوئی چالیس ہزار لوگ اسے فارورڈ کر چکے تھے۔ یعنی چالیس ہزار لوگوں نے اس حقیقت کو مان لیا کہ اگر ایسا نا کیا تو کوئی بھی حادثہ ہو سکتا ہے ۔

ملالہ کا واقعہ ستمبر ۲۰۲۱ء میں پیش آیا اور میڈیا نے اس کو جس قدر طول دیا اور کھینچا کہ ایسا احساس ہونے لگا کہ یہ اس دنیا کی پہلی یا آخری خبر ہے اور اس کے بعد تمام صحافی برادری کو کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔ خیر حیران کن بات یہ ہے کہ تمام صحافی برادری نے اس معملے پر اپنی صحافت کے اس قدر تجربات کیے کہ یہ معملا اب معمہ بن گیا ہے۔ آج میں نے ڈان نیوز کے صحافی کی تیار کردہ رپورٹ جو کہ سوشل میڈیا پر ایک بڑی سنسنی خیز خبر کے طور پر چل رہی تھی تو میں نے اسکو پڑھنے کی جسارت کی اور اس رپورٹ میں وہی پایا جو میرا خیال تھا اسکے پڑھنے سے پہلے۔ یہ ایک ذمے دار ادارہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس کالم کو پبلش کرنے سے پہلے لازماً پرکھا گیا ہوگا۔ ندیم پراچہ صاحب اسکے لکھنے والے ہیں جس کا عنوان ہے ملالہ: حقیقی کہانی (ثبوت کے ساتھ)۔ اور یہ کہانی ڈان نیوز کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہے۔ روپورٹ کے مطابق ملالہ یکم اکتوبر ۱۹۹۲ء کو ہنگرین میں پیدا ہوتی ہے جسکا نام جین ہے ، ۴ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو اسکے والدین کوCIA بھرتی کرتی ہے ، تربیت دیتی ہے اور ایک سال بعد ۷اکتوبر ۲۰۰۳ء کو یہ پاکستان آتے ہیں اور سوات میں چلے جاتے ہیں این جی اوز کے طور پر اور ایک عام درجے کے سی آئی اے کے ایجنٹ سے ملتے ہیں اور اسے عیسائی بناتے ہیں اسکی تمام فیملی کو بھی عیسائی بنا دیتے ہیں پھر جاتے ہوئے اپنی بیٹی جین کو تحفہ میں دے جاتے ہیں ۔ اب یہاں پر میں ندیم پراچہ صاحب کے سامنے کچھ سوال رکھنا چاہتا ہوں۔
1۔ جب ملالہ یا جین کے والدین پاکستان میں آئے تھے تو کیا انکا کوئی ریکارڈ نہیں ہے کسی بھی ائیرپورٹ پر اگر ہے تو اپنے اسکی کاپی کیوں نہیں دی؟
2 ۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی انٹیلی جنس اتنی کمزور ہے کہ ایک جوڑاجس نے صرف ایک سال کی تربیت لی ہو اور پاکستان کے ایجنٹ کو عیسائی بنانے میں کامیاب ہو گئے ہوں؟
3 ۔ کیا ایک 6سال کی بچی کو اسکے والدین کسی کو تحفہ کر دیں وہ بھی دیار غیر میں ایسا ممکن ہے؟ اور کیا ایک کمسن بچی یہ برداشت کر سکتی ہے؟

اس رپورٹ میں اور بھی دلچسپ باتیں ہیں مثلاً سوات کے میڈیکل ڈاکٹر امتیاز علی خانزائی جو دعوا کرتے ہیں کہ ملالہ ایک دفعہ ان کے کلینک پر آئی تھی اس کے کان میں درد تھا تو میں نے اسکے کان سے میل نکالی اور اپنے پاس محفوظ رکھ لی اور پھر بعد کو اسکا DNAکیا۔ اور DNA کے بعد پتہ چلا کہ ملالہ تو ادھر کی ہے ہی نہیں یہ تو غالباً پورلینڈ کی ہے ۔ اب میں پھر سوال کروں گا محترم صحافی سے۔۔
1۔ کیا کان سے نکلنے والی میل سے DNA ممکن ہے؟
2۔ کیا DNA سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کس ملک کا ہے؟
3۔ کیا ڈاکٹر صاحب کے پاس DNAٹیسٹ کے لیے لیب ہے؟

۳۰اکتوبر ۲۰۰۷ ء کو ملالہ انٹرنیٹ پر بلاگ لکھنا شروع کردیتی ہے ۔ ملالہ تشہیرکرتی ہے پاک آرمی سے کہ سوات میں آپ اپنا اسلحہ پھینکو اور بائبل اٹھاؤ۔ ۴ سال تک ملالہ یہی پیغام پھیلاتی رہتی ہے اور پھر ۲۱اکتوبر ۲۰۱۱ء کو پاک آرمی اس سے درخواست کرتی ہے کہ وہ اپنی تبلیغ سے بعض آئے۔پھر یکم اکتوبر ۲۰۱۲ء کو CIA نیویارک میں رہنے والے ایک اٹالین امریکن روبرٹ کو بھرتی کرتی ہے جو کہ پشتو بولنا جانتا ہے۔ اور اسے تربیت دے کے سوات کے لیے روانہ کر دیاجاتا ہے۔ پھر ۷ اکتوبر ۲۰۲۱ء CIA ملالہ پر فرضی حملہ کا منصوبہ ISI سے شئیر کرتی ہے اور ISI بھی اس پر راضی ہو جاتی ہے۔ ۱۱ اکتوبر ۲۰۱۲ء کو روبرٹ ازبک ہومیوپیتھک بن کر سوات میں آ جاتا ہے۔ سوال۔۔
1 ۔ کیا ۱۰ سال کی عمر میں ایک بچی اس قابل ہو جاتی ہے کہ وہ بلاگ لکھنا شروع کر دے اور وہ بھی پاک آرمی کے خلاف؟
2۔ کیا پاک آرمی اس بچی کے بلاگ سے اتنا ڈر گئی تھی کہ اسے درخواست کرنی پڑی کہ وہ یہ بند کرے؟
3۔ صرف دس دن میں روبرٹ نے تربیت حاصل کر لی تھی اور اسنے پشتو کہا سے سیکھی؟

اس روپورٹ میں اور بھی ایسی کئی من گھڑت باتیں ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نہیں ہے۔ حتی کہ جو تصاویر لگائی گئی ہیں وہ بھی سب جھوٹی ہیں۔ اس قسم کی خبریں اور روپورٹ یہ صحافت کے منہ پر تماچا ہے۔ ایک شخص اپنے آفس کے ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر جو بھی لکھ دے اسے صحافت کہیں گے کیا؟ نہیں کبھی نہیں۔میر ی تمام زی شعور صحافی برادری سے التجا ہے کہ خدارا صحافت کو کمزور اور بوڑھا ہونے سے بچا لیں کیونکہ اگر یہ کمزور ہو گئی تو پورا معاشرہ کمزور ہو جائے گا۔ سچ صحافت کا گلا ہے اگر اسے دبا دیا تو صحافت دم توڑ دے گی۔ اور ویسے بھی لگتا ہے کہ صحافت اب بہت بوڑھی ہو چکی ہے!
 
Saddam Taj
About the Author: Saddam Taj Read More Articles by Saddam Taj: 9 Articles with 7718 views I am nothing.... View More