2060: ملالہ کا پاکستان

معاشرتی علوم کی کلاس کا ایک منظر

پیارے بچوں، آج کی سبق کا عنوان ہے، “ملالہ کی جدوجہد”۔ معاشرتی علوم کے استاد نے چھٹی جماعت کے طلبہ کو کلاس کے آغاز میں بتایا۔

“اچھا تو آپ ملالہ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟” استاد نے طلبہ سے مخاطب ہو کر سوال پوچھا۔

“سر، ملالہ نے لڑکیوں کی تعلیم کے حق کے لئے جدوجہد کی۔ اس وقت ملالہ کو طالبان نے اسکول جانے کی وجہ سے گولی ماری، لیکن ملالہ بچ گئی اور پھر اس نے دن رات ایک کرکے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے مہم شروع کی۔” افضال نے ایک ہی سانس میں تفصیل بتاتے ہوئے داد طلب نظروں سے استاد کی طرف دیکھا۔ استاد نے اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور شاباشی دی۔

“اس کے علاوہ کسی کو کچھ معلوم ہے ہماری اس لیڈر کے بارے میں؟” استاد نے پھر اپنا سوال دہرایا۔

“سر، ملالہ پاکستان کی وزیر اعظم رہی ہیں۔” اسد نے کھڑے ہوکر استاد کی معلومات میں اضافہ کیا۔

“ٹھیک ہے، آپ لوگ ملالہ کے نام سے واقف ہیں۔ اب اس کی خدمات اور کارناموں کے بارے میں تفصیل سے پڑھتے ہیں۔

ملالہ یوسفزئی پاکستان کی ایک معروف اور مشہور انسانی حقوق کی کارکن تھیں۔ ان کو زمانۂ طالبعملی میں ہی لڑکیوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی بناء پر طالبان نے گولی مار دی۔ لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ گئیں اور اس کے بعد انہوں نے اور بھی تندہی سے لڑکیوں کے حق کے لئے آواز بلند کی۔

اس وقت پاکستان پر انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور جہادی ذہن رکھنے والے قدامت پسندوں کی سوچ رکھنے والے لوگوں کا غلبہ تھا۔ یہ لوگ اگرچہ حکومت میں نہیں تھے، لیکن معاشرے میں ان کی سوچ کافی حد تک سرایت کرچکی تھی۔ یہ لوگ پاکستان کو پتھر کے دور کے قوانین اور رسوم و رواج کی طرف لے جانے کے لئے کوشاں تھے۔

ان حالات کی وجہ سے ملالہ کو پاکستان میں لڑکیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن بھلا ہو ہمارے مغربی دوست ممالک کا، جنہوں نے میڈیا کے ذریعے ملالہ کی مہم کو پذیرائی بخشی اور کئی سال تک ملالہ یورپ میں مقیم رہنے کے بعد واپس پاکستان آئیں۔

پاکستان آکر انہوں نے الیکشن میں حصہ لیا اور بھاری اکثریت سے انتخاب جیتنے کے بعد ملک کی دوسری خاتون وزیراعظم بن گئیں۔ انہوں نے حکومت میں آنے کے بعد سب سے پہلے لڑکیوں کی تعلیم کو لازمی قرار دیا۔”

“سر، اس سے پہلے لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کرسکتی تھیں؟” آصف نے استاد سے سوال کیا۔

” ملالہ کی حکومت سے پہلے پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اور کچھ جگہوں پر جب لڑکیوں کے اسکول بنے تو وہاں پر طالبان نے پابندی لگائی تھی۔ اسی لیے تو ملالہ کو گولی ماری گئی۔ لیکن ملالہ کی حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہر لڑکی تعلیم حاصل کرے تاکہ ملک ترقی کرے۔

اس کے علاوہ دقیانوسی خیالات رکھنے والے لوگوں کی بنائی ہوئی قوانین کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے 2050ء میں دو تہائی اکثریت سے ختم کردیا۔ 1500 سال پہلے کے معاشرے کی قوانین کو اس جدید دور میں لاگو کرنے کے حامی اس اقدام پر بہت سیخ پا ہوگئے اور ملالہ کی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کردئیے، لیکن حکومت نے ایسے شرپسندوں سے آہنی ہاتھوں نمٹنے کا ارادہ کیا تھا اور ان کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنا دیا۔

ان قوانین کی جگہ ترقی یافتہ دور سے مطابقت رکھنے والے قوانین پاس کئے گئے۔ سب سے پہلے پردے پر پابندی لگادی گئی۔ کیونکہ اس کی وجہ سے لڑکیوں کو پسماندہ رکھا جارہا تھا۔ اس کے بعد نصاب سے جہاد سے متعلق تمام آیات نکال دی گئی۔ انتہا پسندوں نے اپنے نظریات نصاب میں شامل کرکے پوری قوم کو دہشت گرد بنانے کی بھر پور کوشش کی تھی، جس کو ملالہ نے ناکام بنادیا۔

اس کے بعد تمام سرکاری اداروں کے ملازمین پر داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ کیونکہ اس سے پاکستان کا امیج ایک قدامت پسند ملک کے طور پر ہوتا ہے۔ اس لئے ملک کے وسیع تر مفاد میں داڑھی رکھنے پر پابندی لگادی گئی۔

اس کے بعد بھی ملالہ اور تعلیم کے دشمن اپنے پروپیگنڈے سے باز نہیں آئے اور انہوں نے سرے سے اس بات کا انکار ہی کردیا کہ ملالہ پر کبھی حملہ ہوا تھا۔ یہ سازشی نظریات والے لوگ تھے، جن کا مقصد لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنا تھا۔ اس لئے پاکستانی پارلیمنٹ نے وسیع تر قومی مفاد میں ایک قانون پاس کیا جس کی رو سے جو شخص ملالہ پر حملے کے واقعے سے انکار کرے گا، اس کو پانچ سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا اور اس فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔

اس کے علاوہ بھی ملالہ نے پاکستان میں خواتین کی ترقی کے لئے بہت منصوبے شروع کئے۔ انہی خدمات کی بناء پر پاکستانی پارلیمنٹ اب ملالہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک قرارداد پر غور کررہی ہے۔ اس قرارداد کی چیدہ چیدہ نکات مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ پاکستان کا نام تبدیل کرکے ملالستان رکھا جائے، کیونکہ پاکستان کے نام سے انتہا پسندی کی بو آتی ہے۔

2۔ ملالہ کی خدمات کے اعتراف کے طور پر پاکستانی کرنسی سے قائد اعظم کی تصویر ہٹا کر ملالہ کی تصویر شامل کی جائے۔

3۔ تمام سرکاری اداروں میں ملالہ کی تصاویر آویزاں کی جائیں۔

4. دینی مدرسوں اورعربی زبان کی تعلیم پر پابندی لگادی جائے کیونکہ جن لوگوں نے ملالہ کو گولی ماری تھی، وہ مدرسے میں پڑھتے رہے تھے۔

5۔ اسلامی نام رکھنے پر پابندی لگادی جائے۔ اب سارے نام پشتو، اردو اور دیگر علاقائی زبانوں کے ہونے چاہیئے۔

6۔ اردو میں عربی زبان کافی حد تک سرایت کرچکی ہے۔ اس لئے ماہرین کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو عربی الفاظ کا متبادل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ عربی رسم الخط کا متبادل بھی بناکر پیش کرے۔

امید ہے کہ ملالہ کی خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے قومی اسمبلی اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرے گی۔”

“تو پیارے بچوں، یہ تھا آج کا معاشرتی علوم کا سبق۔ کل اس سبق سے متعلق ٹیسٹ لیا جائے گا۔ سارے بچے ہوم ورک کر کے آئیں۔” استاد نے کلاس کے اختتام پر طلبہ کو بتایا۔
Haroon Azam
About the Author: Haroon Azam Read More Articles by Haroon Azam: 5 Articles with 4619 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.