آنٹی روزی میری بے حد پسندیدہ اور پیاری آنٹی ہیں ۔ یہ
آنٹی اکثر واک کے لئے جاتے ہوئے میرے ساتھ ہی ہوتی ہیں۔ جب ساتھ ہوتی ہیں
تو باتیں بھی ہوتی ہیں۔اب باتیں ہوتی ہیں تو آپ ان کے خیالات اور حوالات سے
بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔ آخر کومستفید کرنے کے لئے ان کے پاس خیالات کے
ذخائر ہیں۔ ان ذخائر سے علم کے موتی ٹریک پر چلتے چلتے مجھے بھی سونپتی
رہتی ہیں۔یہ رہتی تو اکثر اپنے خول میں بند ہیں مگر اس بند سے باہر آتے آتے
کبھی کبھار بڑے پتے کی بات کر جاتی ہیں۔ اس پتے کی بات میں اکثر ایسی باتیں
کرتی ہیں کہ ان کے نارمل ہونے میں شک ہونے لگتا ہے۔ اس شک میں اکثر یقین
بھی شامل ہو جاتا ہے۔ یہ تو یقین کے ساتھ ایسی ایسی باتیں کر جاتی ہیں کہ
بس۔۔۔۔
ایک دن جب سورج ڈھلنے کو تھا نیلا آسمان مغرب کی جانب ہلکا گلابی اور
نارنجی ہو رہا تھا پرندے سست روی سے غول بنائے گھونسلوں کی طرف جارہے تھے
ہوا بہت دھیرے دھیرے چل رہی تھی ٹریک کے ساتھ ساتھ لگائے گئے سرو کے پودے
سر جھکائے کھڑے خاموش جبکہ چنبیلی کے پھولوں کے غنچے سب کچھ اداس اور سست
رفتار لگ رہا تھا جیسے آس پاس کا ماحول اور ٹریک پر چلتے لمبے، پتلے، موٹے
پیارے لوگ بھی چل چل کر تھک سے گئے تھے تو جیسے سب کچھ بہت اچھا مگر خاموش
لگ رہا تھا۔
آنٹی کو چلتے چلتے خیال آیا تو ایک دم سے واک کے لئے ہلانے والے ہاتھ روک
کر آگے بڑھتے پاو ں زمین پر جما کر نظر آسمان کی طرف کر کے کہنے لگیں کہ
پتہ ہے شام کے وقت ماحول میں ایک عجیب سی اداسی اور تسکین کیوں محسوس ہوتی
ہے دل کی دھڑکن مدھم اور دماغ سست اور پورا جسم تسلی سے کسی کونے میں
بیٹھنے کسی سے بات نہ کرنے لوگوں سے ہٹ جانے اپنے آپ کے ساتھ وقت گزارنے کا
کیوں چاہتا ہے؟ کبھی سوچا۔۔۔۔۔۔؟
خیر آنٹی کا دل رکھنے کو ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا دماغ ان کی
عنقریب پیش آنے والی خشک فلاسفی کی طرف کر کے اپنے ہاتھ اور پاوں ساکت کر
کے ان کی منطق سننے کے لئے اپنے کان کو منایا کہ آخر کو اب آنٹی کے نارمل
ہونے یا نہ ہونے کا شک ہوگا یا۔۔۔۔ یقین۔۔۔۔۔ خیر آنٹی نے اپنی فریم لیس
گلاسز سے ابرو چڑھا کر ہاتھ باندھ کر آسمان کی طرف دیکھنے کا سلسلہ جاری
رکھا پھر میرے "جی آنٹی جی" کہنے پر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں میں نے
آنکھیں جھکا لیں تو آنٹی نے آنکھیں دوبارہ آسمان کی جانب اُٹھا لیں جب میں
نے چند سیکنڈ بعد نظر سے نظر ملا لی پھر آنٹی کی دوبارہ وہی بے خیالی
۔۔۔آخر کو آہی گئی ان کی آواز جلالی اور فرمانے لگیں-
"اختتام کی طرف پہنچنا، اپنے اصل کی طرف جانا، اپنے ٹھکانے کو پہنچنا، کسی
کام کا تکمیل تک پہنچنا، ختم شد۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ہر چیز کا ایک اینڈ ہے اور اگر
انسان بھی اپنے اینڈ کو ذہن میں رکھ کر تیاری کرے تو ہی سکون اور اطمینان
سے اسکا "دی اینڈ " ممکن ہے"
یہ کلہ کر پھر چڑھی ابرو نیچے اتاری اور ٹریک پر جوگرز گھسیٹنے لگیں اور
مجھے پھر آنٹی مشکوک لگنے لگیں اور میں نے ان کے مخالف واپسی کے لئے قدم
اٹھا لئے۔۔۔۔ |