ہماری آج کی شخصیت انشورنس سیکٹر
کے نمایاں نام ڈاکٹر مرتضیٰ مغل ہیں۔یوں تو ڈاکٹر صاحب اقتصادی ماہر‘محقق
‘کالم نگار اور جدید طریقہ علاج آلٹرنیٹو میڈیسن کے حوالے سے بہت شہرت
رکھتے ہیں لیکن ان کا انشورنس سیکٹر کے حوالے سے شائد یہ پہلا تفصیلی تعارف
ہے جو نذر قارئین کیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے قائداعظم یونیورسٹی سے پبلک
ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر ڈگری کے بعد اس سیکٹر میں قدم رکھا اور بائیس برس کی
مسلسل محنت کے بعد وہ اس شعبہ میں ’’ٹرینڈ سیٹر‘‘ کے طور پر جانے جاتے
ہیں۔’’تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد 1990ء میں اسلام آباد کی ایک مقامی
انشورنس کمپنی میں ڈپٹی منیجر کے طور پر اپنا کیئریئر شروع کیا۔ میں نے دن
رات محنت کی۔ کہتے ہیں کہ صلاحیت اپنا تعارف خود کروا لیتی ہے ۔جلد ہی مجھے
غیر ملکی انشورنس کمپنی اے آئی جی میں خدمات دینے کا موقع مل گیا۔ مجھے اس
معروف اور معتبر کمپنی میں ریجنل ہیڈ کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔یوں مجھے
سٹینڈرڈ اینڈ پوزر اور موڈیز کی طرف سے ٹرپل اے (AAA) ریٹڈ والی دنیا کی
ٹاپ انشورنس کمپنی میں کام کرنے کا موقع مل گیا۔ میں نے ناردن ریجن کا بیمہ
بارہ سو فیصد سے بڑھا کر ایک ریکارڈ قائم کیا۔ٹریول پاک کے نام سے شینجین
ممالک کیلئے منفرد ٹریول انشورنس کا اجراء بھی میری ٹیم کا کمال تھا۔ دس
سال اس ادارے میں کام کرنے کے بعد مجھے یونائیٹڈ انشورنس کمپنی میں کنٹری
منیجر کے عہدہ کی پیشکش ہوئی۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم اور ٹیم ورک کے ذریعے
آج یو آئی سی ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کاسالانہ بیمہ کرنے والی بڑی کمپنیوں
میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔اسی کمپنی نے ترقی کی اور یونائیٹڈ انٹرنیشنل
گروپ قائم ہوا۔آج اس یو آئی جی گروپ میں اپنا بینک‘یونائیٹڈ ٹریکر کمپنی
تواسّل ایل ایل سی ابوظہبی اور سعودی پاک انشورنس شامل ہیں۔ اور یہ گروپ
روز بروز ترقی کر رہا ہے ۔گروپ کے چیئرمین میاں شاہد ملک کے ممتاز کاروباری
ہیں۔ وہ ایک مردم شناس شخصیت ہیں۔ انہوں نے مجھے گروپ کنٹری ہیڈ کی ذمہ
داریاں سونپ رکھی ہیں جو میرے لئے ایک اعزاز ہے‘‘۔
کامیابی کے اسرار سے پردہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا کہ’’
کاروبار میں رسک لینا پڑتا ہے۔رسک کا فیصلہ آپ خود کریں‘ملازمین رفقاء کو
اس کا ذمہ دار نہ ٹھہرائیں۔ اگرکامیابی ہوگئی تو کریڈٹ سب کو دیں اگر نقصان
ہو تو مسکرا کر ذمہ داری قبول کر لیں اورنئی منصوبہ بندی کریں۔زندگی اتنی
مختصر ہے کہ اس میں کسی ایک نقصان پر غم زدہ ہو کر بیٹھا نہیں جاسکتا۔ رونے
دھونے سے کاروبار کبھی نہیں پھیلتا ۔یہ تو کوہ کنی ہے ‘آپ نے مسلسل مشقت
کرتے رہنا ہے ۔ رقابتیں بھی آڑے آتی ہیں۔حاسد بھی میدان میں کود پڑتے ہیں
اور بعض اوقات کھلی دشمنی پر اتر آتے ہیں لیکن کسی سے ٹکرانے کی ضرورت ہی
نہیں۔اﷲ تعالیٰ نے رزق کے نو حصے کاروبار میں رکھے ہیں‘اگر ایک آدھ حصہ
نہیں ملے گا توہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ باقی آٹھ حصوں کیلئے
تگ و دو کرنی چاہیے‘کوئی نہ کوئی حصہ ضرور مل جائے گا‘‘۔
’’دولت کو بینکوں میں بیکار جمع رکھنا انسانی ترقی کی ضد ہے۔ اس سے سرمائے
کی گردش رک جاتی ہے۔سرکولیشن رکنے کا مطلب ایسے ہی ہے جیسے انسانی جسم میں
خون کی گردش رک جائے۔میرا یقین ہے کہ جو لوگ اپنے سرمایہ کو گردش میں لا کر
کاروباری سرگرمیوں کے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہیں وہ معاشرے کے
محسنوں میں شمار ہوتے ہیں۔اﷲ کی ذات ان پر خاص مہربانیاں فرماتی ہے۔اور
پردہ غیب سے مدد ملتی ہے۔اﷲ کی ذات رب العالمین ہے اور اس نے اپنی ربوبیت
کا عمل اپنے انسانوں کے ذریعے ہی مکمل کروانا ہے‘‘
ڈاکٹرمرتضیٰ مغل کے نزدیک کاروبار ایک عبادت ہے۔ اس کے ذریعے دوسرے انسانوں
کی پرورش ہوتی ہے وہ دولت مندوں کو کاروبار کی طرف راغب کرتے رہتے ہیں
‘انہیں کاروباری مشکلات اور پاکستان کے حالات کا مکمل ادراک ہے لیکن وہ ہر
حال میں بزنس کو ترجیح دیتے ہیں‘
’’پاکستان میں کاروبار کرنا انتہائی مشکل ہے لیکن اگر کوئی ادارہ یا شخص
عہد کر لے اور یکسوئی کے ساتھ مسلسل اور انتھک محنت کرے تو مشکلات پر قابو
پایا جاسکتا ہے۔اگر نیک نیتی کیساتھ کاروباری تقاضے نبھائے جائیں تو
پاکستان کے اندر اتنا پوٹیینشل ہے کہ یہاں بہت کم وقت میں ترقی کی منازل طے
کی جاسکتی ہیں۔‘‘
پاکستان کا ہمسایہ ملک بھارت ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت ہے۔چین اب دنیا کی
دوسری بڑی اقتصادی قوت کے طور پر اپنی پہچان بنا رہاہے۔وہ پاکستان کاآزمودہ
دوست ملک ہے ۔ اگر ایک ہمسایہ اورایک دوست ملک اقتصادی طور پر آسمانوں کو
چھو رہے ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کو اس اقتصادی ترقی کا فائدہ نہ
پہنچے۔پاکستان کو ایسا جغرافیہ ملا ہے کہ اس خطے میں ترقی اور خوشحالی کی
ہر راہ یہاں سے گزر کر جاتی ہے ۔میرا تجزیہ ہے کہ آئندہ دس برس میں پاکستان
کے اندر ترقی کی شرح پھر سے چھ سات فیصد تک پہنچ جائے گی۔سرمایہ کاروں کا
اعتماد بحال ہوگا اور پاکستان کے اندر کاروبار کا پہیہ تیزی کیساتھ گھومے
گا۔ حکومت نے نجی شعبے کو بجلی پیدا کرنے کی اجازت دے کر انڈسٹری پر بہت
بڑا احسان کیا ہے۔اب ہر شوگر مل‘اور کیمیکل ملیں اپنے لئے ہی نہیں اپنے
اردگرد کے علاقوں کے لئے بھی بجلی پیدا کرسکیں گی اور یوں صنعت کیلئے
توانائی کا بحران بڑی حد تک کم ہوجائے گا۔چین بھی پاکستان کے اندر سرمایہ
کاری بڑھائے گاکیونکہ پاکستان میں کم وقت میں فوری منافع مل جاتا
ہے۔انشورنس انڈسٹری بھی پھلے پھولے گی۔ انشورنس کے سیکٹر میں اصل سرمایہ
کاری اعتماد ہے۔ بلکہ اعتماد ہی شاید واحد سرمایہ ہے۔اگر حکومتی سرپرستی ہو
اور انشورنس کے اصول و ضوابط صارفین دوست ہوں اور ان پر پابندی کروائی جائے
تو پھریہ سیکٹرعوامی خوشحالی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔پاکستان میں بحری
جہاز سے لیکر موبائل فون تک سب پراڈکٹس اور سروسز کو انشورنس نیٹ ورک میں
لایا جانا چاہیے۔ انشورنس اور سرمایہ کاری کاایک دوسرے پر براہ راست انحصار
ہے۔انشورنس کمپنیاں اگر قابل عمل کسٹمر فرینڈلی پراڈکٹس متعارف کروائیں تو
صارفین دلچسپی لیں گے اور مزید سرمایہ کاری کریں گے۔سرمایہ کار کو تو اس کے
سرمائے کا تحفظ چاہیے‘ اسے اپنی پراپرٹی‘اپنی جان اور اپنے مال کا کوئی نہ
کوئی تحفظ چاہیے۔‘‘
’’گو کہ بعض مذہبی حلقوں کی طرف سے بیمہ کاری(انشورنس) کے حوالے سے
اختلافات سامنے آتے رہتے ہیں لیکن ا ب یہ اختلافات ایسے نہیں رہے کہ
انشورنس انڈسٹری کے لئے کوئی بڑی رکاوٹ ہوں۔تشریح کا معاملہ ہے اور علماء و
فقہا نے جہاں اختلاف کیا ہے وہاں اس کے حق میں بھی دلائل دیئے ہیں۔ اب تو
اسلامی انشورنس یعنی تکافل کے حق میں پوری پوری کتابیں بھی لکھی جارہی
ہیں۔پاکستان میں بینکاری نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔حالانکہ بینک بزنس کے
حوالے سے بھی بعض مذہبی حلقوں میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔ اصل معاملہ
انشورنس سیکٹر سے وابستہ کارکنوں کی تربیت کا ہے۔اگر پیشہ وارانہ فرائض کی
ادائیگی میں ایمانداری کے ساتھ کلیم کی ادائیگیاں ہوں اور کمپنی حق دار کا
بروقت حق ادا کردے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس سیکٹر میں ترقی نہ ہو۔ یہی بیمہ
کمپنیاں ہیں اور انشورنس ایجنٹ ہیں جنہیں باہر کے ممالک میں بھرپو ر احترا
م ملتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہوسکتا ہے ۔ہماری کمپنی نے صارف دوست پراڈکٹس
متعارف کروانے میں پہل کی ہے اور خدا کا فضل ہے کہ اب یہ کلچر باقی کمپنیوں
میں بھی چل پڑا ہے۔ آج کے مہنگائی کے دور میں تو انڈے دینے والی مرغی کی
انشورنس کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔مال مویشی ہیں ‘ فصلیں ہیں‘ پھر سب سے
بڑھ کر دہشتگردی کے خطرات ہیں۔پاکستان موسمی اعتبار سے ایسے خطے میں واقع
ہے جہاں سیلاب‘زلزلے اور قدرتی اور انسانوں کی پیدا کردہ تباہیاں آتی رہتی
ہیں ۔ یہ انشورنس کمپنیاں ہی ہوتی ہیں جو اس طرح کے دھچکے برداشت کرنے کا
ذریعہ بنتی ہیں۔ انشورنس کمپنی بہت سے صارفین سے بیمہ کی جو چھوٹی چھوٹی
رقوم حاصل کرتی ہے اسے ’’پول‘‘ کرکے کلیم ادا کیے جاتے ہیں۔اور یوں صارف کو
مکمل نقصان سے بچایا جاتا ہے ۔ہر انشورنس کمپنی ری انشورنس حاصل کرتی ہے
تاکہ صارفین اپنے کلیم سے محروم نہ رہیں۔اور یوں مالی اور جانی نقصانات کا
ازالے کی گارنٹی ملتی ہے۔انہی خدمات کے بدلے کمپنی اپنے ملازمین کو
تنخواہیں اور مراعات دیتی ہے اور خود بھی منافع کماتی ہے۔سماجی بھلائی اور
معاشرتی فلاح و بہبود کیلئے بھی انشورنس لازمی ہے‘‘۔کاروباری اخلاقیات کے
حوالے سے ڈاکٹر مرتضیٰ مغل کا کہنا ہے کہ’’آپ کے ملازم آپ کے حصہ دار ہوتے
ہیں۔انہیں کماتے ہوئے دیکھ کر دکھ نہیں خوشی ہونی چاہیے۔ انہیں ڈرانا نہیں
بلکہ ان کے اندر آگے بڑھنے کا شوق پیدا کرنا چاہیے۔ ان کے کیریئر میں کمپنی
کے قوانین اور سروسز رولز کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ |