امریکی تاریخ کے سایہ ادوارمیں اب تک 17 مرتبہ ایسا ہو
چکا ہے کہ ملازمین کو کچھ عرصہ کیلئے اپنی تنخواہوں اور ملازمتوں سے ہاتھ
دھونا پڑے۔یکم اکتوبر2013 بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب امریکہ شٹ ڈاؤن ہوگیا۔
وہ امریکہ جو سب کو شٹ ڈاؤن کرنے کی طاقت کا ببانگ دہل اظہار کرتا تھا سب
کو شٹ اپ کہنے کا دعوی کرتا تھا آج امریکہ میں اقتصادی،مالی،سماجی اور
سیاسی شٹ اپ ہوچکا ہے۔امریکی عوام بالخصوص ملازمین خوف اور بے یقینی کا
شکار ہیں۔ ایک چوکیدار سے لے کر فوج میں موجود جنرل کے رینک کے عہدیداران
اس صورت حال کو بڑی وحشت ناک قرار دے رہے ہیں۔ گدھے اور ہاتھی کی سیاسی
لڑائی میں غریب ملازمین دولتیاں اور سونڈ کے ہتھوڑے کسی پل چین سے بیٹھنے
نہیں دے رہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا حالات قابو سے باہر ہوتے جارہے
تھے۔ لوگ گھروں کو چھوڑ کر سڑکوں کا رخ کرچکے تھے۔بہت سے امریکی شہری
اوبامہ اور ان کے ہیلتھ کیئر کے بل کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے ان کے
مطابق سرکاری ملازمین کو اس صورت حال نے مالیاتی یرغمال بنالیا ہے۔ ایک
سرکاری خاتون کے مطابق’’انہوں نے حقائق سے مکمل طور پر روگردانی کرلی ہے وہ
یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کے فیصلے کا عام شہریوں پر کیا اثر پڑے گا۔ہم
لوگوں پر ۔ ہم جو نچلے طبقے کے لوگ ہیں‘‘ دوسری خاتون کا کہنا تھا کہ’’ان
کو تو تنخواہ کسی نہ کسی طرح مل رہی ہے لیکن ہمیں نہیں مل رہی جبکہ اس
مسئلے کے ذمہ دار وہ خود ہیں ہم نہیں۔ میں سمجھتی ہوں بہ سب غیر منصفانہ
ہے‘‘ماہر اقتصادیات جیکب کرکیگارڈکو اس بات کا قوی خدشہ تھا کہ صورت حال
مزید ابتر ہوگی ۔ ایک بین الاقوامی نیوز ایجنسی کے مطابق اگر مالی مسائل کی
وجہ سے شٹ ڈاؤن جاری رہا تو جنگی معاملات اور آپریشنز کے علاوہ فوج کے
مختلف شعبوں کے معاملات و معمولات متاثر ہونے کا شدید خدشہ ہے۔ سول
ڈیپارٹمنٹ کی معاونت ختم ہونے سے فوجی شعبے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اس شٹ
ڈاؤن سے جو اثرات فوج کو برداشت کرنا پڑیں گے اس کا ادراک فوری طور پر نہیں
ہوگا البتہ بعد ازاں شٹ ڈاؤن کے نقصانات سامنے آئیں گے۔ چک ہیگل کا کہنا
تھا کہ ’’امریکہ کی ساکھ عالمی سطح پر شدید متاثر ہوگی اور امدادی و اتحادی
مزید مایوسی کا شکار ہونگے‘‘۔
امریکہ کی مذکورہ بالا پیدا شدہ صورت کا نوے فیصد ذمہ دار اوبامہ
حکومت(گدھے) اور دس فیصدری پیبلکن(ہاتھی) کوٹھہرایا جارہا ہے۔عوام اور
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اوبامہ کو جوش کی بجائے ہوش سے کام لینا چاہئے
تھا ۔بالکل ٹھیک فرماتی ہیں امریکی عوام۔کیونکہ جوش کی وجہ سے مت ماری جاتی
ہے۔جوش و دھونس تو دوسرے ممالک کے صدور اور وزرا اعظم پر چل سکتا ہے جیسے
کہ پاکستان،عراق، ایران، کوریا، برما، صومالیہ،وغیرہ ۔لیکن اپنے ملک کے
لوگوں پر دھونس دھاندلی نہیں جمائی جاسکتی ہے۔اور لگتا بھی ایسا ہی ہے کہ
واقعی اوبامہ کی ’’مت وج گئی ‘‘ہے۔ بھئی سیدھی اور سامنے کی بات ہے ہر کام
پاکستانی حکمرانوں سے حکم اور دھونس جماکر لیا جاتا ہے۔ جائز و ناجائز ،صحیح
و غلط کی تمیز کئے بغیر اور سوچے سمجھے بغیر ’’یس سر‘‘کا راگ الاپا جاتا ہے
تونجانے کیوں اس معاملے میں پیچھے رہ گئے۔ اجی اوبامہ صاحب۔ شٹ ڈاؤن کی وجہ
سے آپ نے توخوامخواہ ہی ملازمین کو چھٹی پر بھیج دیا حالانکہ اگر پاکستانی
حکمرانوں سے مشورہ لیا جاتا تو اس قسم کی صورت حال کبھی پیدا ہی نہ ہوتی ۔کیونکہ
پاکستان میں بہت سے محکمے ایسے ہیں جہاں پر ملازمین کو چار چار ماہ ، چھ چھ
ماہ کی تنخواہ نہ دینا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ملازمین بغیر تنخواہ کے تین سے
چار ماہ تو ویسے ہی گزار دیتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ اپنی تنخواہ کے حوالے
سے ڈر ڈر کرڈیمانڈکرتے ہیں۔ اور پھر ’’پاکستانی پروسس‘‘شروع ہوتاہے۔افسران
کو خوش کیا جاتا ہے۔مشاورت ہوتی ہے کہ کیسے تنخواہ نکلوائی جائے۔قومی
رضاکار سب سے ’’بی با‘‘ محکمہ ہے سال سے دو سال گزرجانا معمول کی بات
ہے۔محکمہ بلدیات، تعلیم ،صحت، ریویونیو ڈیپارٹمنٹ،ریلوے وغیرہ ایسے محکمہ
جات ہیں جہاں پر تین چار ماہ کی تنخواہ روک لینا تو معمولی بات ہے۔دوسرا یہ
کہ ہماری حکمرانوں کو بھی ہی خیال نہیں آیاکہ انہیں ان مشکل حالات میں کوئی
عمدہ مشورہ ہی دے دیں۔یہی تو گڈ بک میں آنے کا موقع تھا مگر نجانے کیوں
ہمارے حکمران لسی پی کر سو رہے۔بہرحال سترہ دنوں کے بعد ڈیڈ لائن پر شٹ
ڈاؤن ختم ہوگیا ہے ملازمین اپنے اپنے اداروں میں کام پر واپس جاچکے ہیں۔اب
نجانے کب ایسے حالات پیدا ہوں کہ گدھے اور ہاتھی کی لڑائی ہو اور لومڑ بن
کران کی لڑائی سے فائدہ اٹھایا جائے۔یار زندہ ،صحبت باقی
تمام باتوں سے قطع نظرمیڈیا کی تیز نظروں کی وجہ سے کسی بھی ملک کے خالات
چھپائے نہیں چھپ سکتے۔ اس لئے اب امریکا کا پھول کھلنے لگا ہے کہ امریکہ
مالی مشکلات کا شدید شکار ہے ورنہ ری پبلکن کو اوبامہ کا جاری کردہ بل
روکنے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ایک فیصد کے مقابلے میں ننانوے فیصد کا
جواحتجاج شروع ہوا زور و شور سے جاری رہا اور امریکی ارباب اختیار کو
شرمندہ کرتا رہا ۔وہ بھی حد تک غربت کا امارت کے خلاف اعلان جنگ تھا۔اس
دوران میں مظاہروں کو طاقت سے روکنابھی امریکی بوکھلاہٹ کا شکار تھا۔لہذا
امریکہ کو چاہئے کہ ان حالات کے پیش نظر ،دوسروں کی ٹانگیں کھینچنے کی
بجائے اپنے پاؤں مضبوط کرے اور عوام کو سہولیات باہم پہنچائے ورنہ وہ دن
دور نہیں جب اس کے عوام ہی ان کو نوچ کھائیں گے۔
|