امن کی خواہش کسے نہیں۔پاکستان کا بچہ بچہ امن چاہتا
ہے۔کوئٹہ کے ہزارہ جنہیں روز مذہب کے نام پہ گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا
ہے۔کراچی کے حرماں نصیب جو ہر روز سیاست کے نام پہ قتل کر دئیے جاتے
ہیں۔پشاور کے وہ عیسائی جن کی پوری بستی کے ہر گھر میں ابھی تک صف ماتم
بچھی ہے۔وزیرستان کے وہ معصوم بچے اور بچیاں جو آئے روز ڈرونز کا نشانہ
بنتے ہیں۔مسجدوں میں اﷲ کے حضور سر جھکائے وہ نمازی جو مسلک کی بنیاد پہ
شہید کر دئیے جاتے ہیں۔اسرار اﷲ گنڈاپور کے لواحقین جنہوں نے تازہ تازہ
جوان خون امن کے دشمنوں کی نذر کیا ہے۔اس سے پہلے بس حملے اور قصہ خوانی
بازار کے شہداء کے لواحقین کی بھی دلی خواہش ہے کہ ہمارا ملک امن کا گہوارہ
بن جائے۔
امن صرف عمران خان اور تحریک انصاف کی خواہش نہیں۔امن اگر مذاکرات سے آسکتا
ہے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔مجھے یہ بھی یقین ہے کہ سوات
پشاوراور اسرار اﷲ گنڈاپور پہ ہونے والے حملے طالبان نے نہیں کئے بلکہ ان
حملوں میں ان کی مرضی سے ان کا نام استعمال کیا گیا ہے۔ان حملوں میں اب بگ
باس بذات خود کھل کے شامل ہے۔اس کے باوجود ہم ہیں کہ مذاکرات سے بہتری کی
امید لگائے بیٹھے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان کے کچھ گروہ واقعی
مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ ان مذاکرات کی بنیاد کیا
ہو گی۔آئین پاکستان،لیکن ہمارے دوستوں کا کہنا ہے کہ ان کی تو لڑائی ہی اس
کافرانہ نظام کے خلاف ہے۔حکومت کی رٹ ،اسے وہ بجا طور پہ جوتے کی نوک پہ
رکھتے ہیں۔جنگ بندی،وہ ہمارے بس میں ہی نہیں کہ ہم تو کب سے ہتھیار چھپا کے
بیٹھے ہیں۔ہتھیار تو امریکہ استعمال کرتا ہے۔ہماری خود مختاری،یہ کس چڑیا
کا نام ہے مجھے تو آج تک اس کی سمجھ نہیں آئی۔خود مختار وہ ہوتا ہے جو اپنا
کما کے کھائے۔کولیشن سپورٹ فنڈ پہ انحصار کر کے اپنا بجٹ بنانے والی قوم
اور خود مختاری۔ حیرت ہے-
عمران خان کے بقول وفاقی حکومت مذاکرات میں لیت ولعل سے کام لے رہی ہے۔بجا
لیکن آپ کے خلوص اور ذہانت پہ تو کسی کو شک نہیں اور پھر آپ اس درماندہ
صوبے کے حکمران بھی ہیں جو اس لڑائی کی سب سے زیادہ قیمت ادا کر رہا ہے ۔آپ
ہی کوئی حکمت عملی وضع کیجیئے اور اسے قوم کے سامنے لے آئیے تا کہ ہم سب مل
کے وفاقی حکومت کو اس پہ عمل درآمد کے لئے مجبور کر سکیں۔وفاقی حکومت اگر
طالبان کے دفتر نہیں کھولتی تو آپ ہی اپنے وزیر اعلیٰ کے دفترکی بغل میں
ایک کمرے پہ حکیم اﷲ محسود امیر تحریک طالبان پاکستان کی تختی لگا کے
دفترکا افتتاح فرما دیجئیے۔کچھ تو کیجئیے کہ ہم جنازے اٹھا اٹھا کے تھک
چکے۔آپ کی حکومت کے وزیر اور مشیر تو اب سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے جنازے
بھی نہیں پڑھتے ۔مذاکرات کا تصور بہت خوش کن ہے کہ ایک طرف آپ ہوں گے اور
دوسری طرف امیر طالبان پاکستان اور پھر آپ ان سے ہر وہ بات منوا لیں گے جو
آپ چاہیں گے۔
اس خوش کن نظارے کو دیکھنے کے لئے دنیا کی نظریں آپ کی طرف ہیں لیکن اس سے
پہلے اس علاقے کی تاریخ دیکھ لیں۔آپ کو وقت نہیں ملتا تو کسی بابو سے کہیں
کہ وہ آپ کے لئے کوئی سمری بنا دے۔ادھر قانون نہیں" ٹوپک زما قانون "چلتا
ہے اور بد قسمتی سے"ٹوپک"اس وقت آپ کے حریفوں کے پاس ہے۔دوسرا قانون ہے
پیسہ اور اس معاملے میں آپ کا اور آپ کے دوستوں کا آقاو مولیٰ ایک ہی ہے۔جو
ریاست کو دیتا ہے وہی آپ کے دوستوں پہ بھی نظر کرم رکھتا ہے بلکہ اس معاملے
میں بھی آپ کے دوست آپ سے زیادہ بااثر ہیں کہ انہیں آپ کے ازلی اور ابدی
دونوں دشمنوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔
خان صاحب ! کون کافر آپ کو بزدل سمجھتا ہے۔ آپ کے خلوص میں بھی کوئی شک
نہیں لیکن آپ کو جن سے وفا کی امید ہے وہ نہیں جانتے وفا کیا ہے۔ آپ کی
کابینہ نے طالبان سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پہ امن کی اپیل کی ہے ۔تیار
رہیں آپ کی اس اپیل کا جواب بس آتا ہی ہو گا۔جس طرح اسرار اﷲ گنڈا پور کی
شہادت کے بعد کے پی کے کابینہ کے اجلاس میں ان کی کرسی پہ گلدستہ رکھا گیا
ہے اسی طرح کا ایک گلدستہ اور تیار رکھیں جو کابینہ کے اگلے اجلاس میں اس
کرسی پہ رکھا جائے گا جو اس اپیل کے جواب سے خالی ہو گی۔ انسانی ہمدردی کی
توقع انسانوں سے کی جا سکتی ہے درندے صرف اپنے دانتوں پہ انحصار کرتے
ہیں۔جنگل میں طاقت کا قانون چلتا ہے اور بس۔آپ ان میں انسان تلاش کریں اور
جس شدت سے آپ متلاشی ہیں ممکن ہے کوئی بھیڑیا ہی انسان بننے پہ راضی ہو
جائے لیکن خدا را جلدی کریں یہ نہ ہو کہ کے پی کے کی کابینہ کے اجلاس میں
ساری کرسیوں پہ گلدستے دھریں ہوں اور آپ کے محبوب وزیر اعلیٰ ان گل دستوں
کی خوشبو ہی سے چل بسیں کہ ان کی صحت کے بارے میں تو اب عالمی سطح پہ تشویش
پائی جاتی ہے۔
خان صاحب ! اس قوم کو بہت دنوں بعد آپ کی صورت ایک مخلص لیڈر میسر آیا
ہے۔اسے مایوس نہ کریں۔زمینی اور تاریخی حقائق کی روشنی میں اپنے ساتھیوں سے
مشاورت کے بعد ہی کچھ بولیں کہ آپ کے لفظوں کی ابھی پاکستان میں قدر باقی
ہے۔اب تو آپ کی چہیتی سپریم کورٹ نے بھی آپ کو وہی مشورہ دے دیا ہے جو ہم
ایک مدت سے آپ کی خدمت میں پیش کر کے آپ کے لاڈلوں کی بری بھلی سن رہے
ہیں۔عام آدمی کا پاؤں پھسل جائے تو وہ اکیلاشکار ہوتا ہے لیکن آپ جیساچاہا
جانے والا قائد پھسل جائے تو اس کے ساتھ پوری قوم کی ہڈی پسلی ایک ہو جاتی
ہے۔ خدارا رحم کریں کسی نتیجے پہ پہنچ جائیں ۔بوتل سے نکلے جن کو دوبارہ
بوتل میں بند کرنا تو شاید ممکن ہو لیکن وہی جن دیو بن جائے تو پھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کا جن بھی بس کچھ ہی دنوں میں دیو بنا چاہتا ہے۔امریکی
افغانستان سے نکلے تو اس کے بعد امارت اسلامی پاکستان پہ امیرالمومنین حکیم
اﷲ محسود براجمان ہوں گے۔ہماری تو اس وقت بھی موج ہو گی کہ ہم تو اس ملک
میں کب سے نفاذ اسلام کی راہ تک رہے ہیں آپ کا کیا ہو گا جناب عالی؟ |