کھپے کے بعد ٹھپے

پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سال زرداری کے نعرے پاکستان کھپے کے سائے میں پورے کرلیے اور پوری قوم کو لوڈ شیڈنگ ،مہنگائی ،بے روزگاری اور خود کش دھماکوں میں کھپا دیا لوٹ مار کا بازار گرم رہا ایک وزیر اعظم کو عدالت نے چلتا کیا تو بدنام ترین راجہ رینٹل کو وزیر اعظم بنا کر ثابت کردیا کہ ملک وقوم کو چوروں اور لٹیروں کی قیادت ہی میسر ہوگی اور اس وقت جو جہاں برسراقتدار تھا وہ وہیں کھل کھلا کر ڈاکے مار رہاتھا اور حکمران ایک دوسرے کے خلاف عوام کو دن رات بھڑکانے اور بیوقوف بنانے میں مصروف تھے ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور مختلف القابات سے نوازا جارہا تھا اس وقت کوئی علی بابا چالیس چور تھا تو کوئی خادم اعلی بن کر حاکم اعلی بنا ہوا تھا ایک طرف سیاسی ٹھگ تھے جو اپنی اپنی دوکانداریاں سجا کر بیٹھے ہوئے تھے اور دوسری طرف عوام تھی جو دن رات غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہوتی جارہی تھی آئے روز خود کشیوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بجلی کے اندھیرے دیہاتوں سے نکل کر شہروں میں بھی پھیل چکے تھے انڈسٹری بند ہونے پر مزدور وں نے سڑکوں پر لوٹ مار شروع کردی پہلے تو رات کو لوٹ مار ہوتی تھے مگر مسٹر کھپے کی حکومت نے دن میں بھی لوٹ مار کے راستے ہموار کردیے انٹرنیشنل سطح پر پاکستان کی عزت خاک میں ملنا شروع ہوگئی بیرون ملک دوروں کے دوران اس دور کے وزیروں کی توہین آمیز انداز میں تلاشی لی جاتی رہی اور پاکستان کی عوام غلاموں جیسی زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئے کوئی دن ایسا نہ گذرتا جب کراچی سمیت ملک کے کسی نہ کسی حصہ میں ٹارگٹ کلنگ نہ ہو تی یا خود کش دھماکہ نہ ہوایک طرف عوام دہشت گردی کے ہاتھوں مررہی تھی تو دوسری طرف لوگوں کے مالی حالات انہیں خود کشیوں پر مجبور کررہے تھے بڑی مشکل اورعوام کی بہت سی قربانیوں کے بعد جمہوریت کے پانچ سال مکمل ہوئے اور الیکشن کے بعد مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت بن گئی خیبر پختونخواہ میں سونامی خان برسراقتدار ہوگیا، سندھ میں ایک بار پھر مسٹر کھپے کی حکومت بن گئی اور بلوچستان میں مخلوط حکومت بن گئی عوام نے بھی کلمہ شکر ادا کیا پیپلز پارٹی کی کرپٹ حکومت سے جان چھوٹ گئی اب ملک میں دودھ کی نہریں بہیں گی بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ سے ہر طرف انڈسٹری کا پہیہ چلے گا اور بے روزگاری ختم ہوگی اور سب سے بڑھ کر علی بابا چالیس چوروں کا احتساب ہوگا اور انہیں بیچ چوراہوں میں پھانسی چڑھتے ہم اپنی انکھوں سے دیکھیں گے مگر یہ کیا ہوا ابھی تو حکومت کو آئے ہوئے جمعہ جمعہ 8دن ہی ہوئے تھے کہ ہر طرف سے شور بلند ہونا شروع گیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہارنے والوں کو زبردستی جتوایا گیا نہ صرف جتوایاگیا بلکہ انہیں وزارت کی کرسی پر بھی بٹھا دیا گیا الیکشن کمیشن نے کچھ حلقوں کے ووٹ انگوٹھوں کی مدد سے چیک کیے تو پتہ چلا کہ وہاں پر جعلی ٹھپے لگائے گئے ایک طرف عمران خان شور کررہا تھا تو دوسری طرف آصف علی زرداری نے بھی کہہ دیا کہ جو ہوا اسکا علم تھا مگر ملکی سلامتی کے لیے برداشت کیا دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے اور پھر الیکشن کمیشن کی طرف سے جعلی ٹھپوں کی تصدیق ہونے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی جعلی ٹھپوں کی بدولت اسمبلی میں پہنچنے والوں کی بھی اکثریت ہوگئی ہے کھپے کے بعد ٹھپے کی حکومت نے بھی عوام کا پہلے سے بری طرح استحصال شروع کردیا بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کے بعد عوام کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے پیپلز پارٹی کے پچھلے پانچ سالہ دور میں جینا مشکل تھا تو مرنا آسان تھا اب جینا مشکل سے مشکل ہوچکا ہے اور مرنا اس سے بھی مشکل ہو گیا ہے کیونکہ مرنے کے بعد کے جو اخراجات ہوتے تھے وہ کوئی اور ترس کھا کرپورے کردیتا تھا اب تو ترس کھانے والا بھی قابل رحم ہوچکا ہے کفن دفن اور قبر کے اخراجات ادا کرنے کے لیے بھی لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں اس لیے مرنا بھی مہنگا ہو چکا ہے موجودہ حکومت اور اسکے چہیتے افسران کی عوام دشمن پالیسیوں کو دیکھ کر آجکل ایک لطیفہ بڑا ہی عام ہوچکا ہے کہ کسی شہر میں ایک ڈاکو رہتا تھا وہ آئے روز کسی نہ کسی راہ گذر پر ناکہ لگا کر لوگوں کو لوٹتا تھا عوام اسکی لوٹ مار سے بہت تنگ تھے ایک دن اس ڈاکو کا انتقال ہوگیا لوگوں نے ڈاکو کے مرنے پر شکر ادا کیا مگر چند دنوں بعد اس ڈاکو کے بیٹے نے اپنے والد کے کام کو سنبھال لیالوٹ مار کے دوران ڈاکو کے بیٹے کو شک ہوا کہ لوگ کچھ نہ کچھ چھپا کر اپنے ساتھ لازمی لے جاتے ہیں اس نے ناکہ بندی کے دوران لوگوں کو لوٹنے کے ساتھ ساتھ انکے کپڑے بھی اتارنے شروع کردیے ڈاکو کے بیٹے کی اس حرکت کے بعد لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اس ڈاکو سے تو اسکا باپ بہتر تھا جو صرف لوٹتا تھا مگر کپڑے نہیں اتارتا تھا،یہ تو ایک لطیفہ تھا کیونکہ حکومتوں کا کام ڈاکے مارنا اورعوام کے کپڑے اتارنا نہیں ہوتا بلکہ انکی زندگیوں میں آسانیاں فراہم کرنا ہوتا ہے اور جن کے ووٹوں سے یہ حکمرانی کے تخت پر پہنچے اسی عوام کو تعلیم اور صحت کی بنیادی ضروریات فراہم کرنا انکی ذمہ داری ہے مگر اقتدار کے ایوانوں میں لوٹ مار کی جو دوڑ لگی ہوئی ہے لگتا ہے کہ ہر حکمران اپنے سے پہلے کا ریکارڈ توڑنے کی کوشش کررہا ہے ۔

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 513653 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.