اتر پردیش ڈرامہ اور مسلمانوں کی سیاسی حصہ داری کا سوال

شرد پوار نے کہا کہ کوئی بھی پارٹی سیاست میں اچھوت نہیں ہوتی ۔ اس کا سیدھا مطلب لیا جائے تو بے ضمیر سیاسی معاشرے کا کوئی مذہب ، کوئی اصول ، کوئی نظریہ نہیں ہوتا ۔ ہندوستانی سیاست میں اس کی سب سے بد ترین مثال ملائم سنگھ یادو رہے ہیں ۔ موقع پرست سیاست کے باوجود جس طرح انہوں نے اتر پردیش اور مرکزی سیاست کو متاثر کیا ، اس کا جواب نہیں ۔ ملائم کے لمبے سیاسی سفر کا جائزہ لیں تو اسرائیل اور آر ایس ایس سے انکی قربت کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے ۔ اسی کا دوسراپہلو ہے کہ ملائم سنگھ یادو جذباتی سطح پر ہر بار مسلمانوں کی ہمدردیاں سمیٹنے میں کامیاب رہے ہیں۔ عام مسلمانوں کا نفسیاتی تجزیہ کیجئے تو آزادی کے بعد کے اس بے رحم سچ کا انکشاف مشکل نہیں ہے کہ مسلمانوں نے ہر بار خود کو غیر محفوظ پارٹیوں اور غیر محفوظ لوگوں کے درمیان میں محسوس کیا ہے اور جب بھی کوئی پارٹی ان سے ہمدردی کے دو بول بولتی ہے تو عام مسلمانوں کے لیے اس پارٹی میں ایک پناہ گاہ نظر آجاتی ہے مسلمانوں کے اس رُخ کو کانگریس نے پہچانا اور شروع سے ہی مسلمانوں کو اپنا ووٹ بینک بنا کر ہمدردی کے کارڈ کھیلتی رہی۔ المیہ یہ ہے کہ اسی طرز پر دوسری صوبائی پارٹیاں بھی مسلمانوں کے ساتھ یہی سلوک روا رکھنے میں کامیاب رہیں۔ اور اسی کا نتیجہ تھا کہ ہندوستان کا مسلمان کبھی پاور اور سیاسی حصہ داری میں شامل نہ ہو کر حاشیہ پر رہا ۔ اور اس کی مکمل شناخت پر آزادی کے ۶۷ برسوں میں سوالیہ نشان لگا رہا ۔

اتر پردیش کی اکھلیش سرکار حکومت کے بعد سے ہی اس شش و پنج میں تھی کہ پارٹی کو آگے بڑھانے کے لئے ہمیشہ مسلمانوں کی سر پرستی انہیں حاصل نہیں رہے گی ۔ غور کرنے کی بات ہے کہ حکومت میں آنے کے فوراً بعد ہی شیو پال سنگھ نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا ۔ یہ سمجھا جانا مشکل نہیں ہے کہ ملائم کی اسرائیل کے ساتھ نزدیکیاں رہی ہیں اور ایسے دورے وہ پہلے بھی کر چکے ہیں ۔ سماج وادی پر شیو پال کی اہمیت سے ہر کوئی واقف ہے ۔ یہ وہی شیو پال سنگھ یادو ہیں جنہوں نے اعظم خاں کی بغاوت کے جواب میں کہا تھا کہ وہ چاہیں تو پارٹی چھوڑ کر جا سکتے ہیں ۔ یہ بھی ایک بڑا پیغام تھا ، جسے سمجھا نہیں جا سکا ۔ در اصل پیغام یہ تھا کہ مسلمان اگر چاہیں تو پارٹی چھوڑ کر جا سکتے ہیں ۔ یوپی میں قیادت کے بعد ہی ملائم اور آر ایس ایس کی نزدیکیاں بھی کئی بار سامنے آئیں ۔ یہاں یہ بھی غور طلب ہے کہ جب ایل کے اڈوانی رتھ یاتراؤ کے ذریعہ مری ہوئی بھاجپا میں جان ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے ، ملائم چاہتے تو اس رتھ کو اتر پردیش میں روکا جا سکتا تھا ۔ مگر ملائم ایسا نہیں چاہتے تھے ۔ اس لیے رتھ کو روکنے والا بھی بہار میں ملا ۔ یعنی بہار کا شیر لالو پرساد یادو۔ اس کے بعد کی تار یخیں گواہ ہیں کہ کتنے ہی ایسے موقع تھے جب ملائم سنگھ نے شاطر انہ سیاست کا داؤں کھیلا ۔ کبھی آر ایس ایس کے سپریمو سے ملاقات ، کبھی اڈوانی کی تعریف ، کبھی کلیان سنگھ کو گلے لگانا اور کبھی یہ کہنا کہ آر ایس ایس فرقہ پرست طاقت نہیں ہے ۔ اب اس حیرانی کا اندازہ لگائیے کہ ان سب کے باوجود اتر پردیش کا عام مسلمان اس دورُخے اسرائیل ایجنٹ اور آر ایس ایس کے اشاروں پر کام کرنے والے ملائم کاچہرہ کیوں نہیں سمجھ پایا تو اس کا جواب مشکل نہیں ہے ۔ ایسے بیانات کے بعد مسلمانوں کو لبھانے والی کوششیں اپنا کام کرجاتی تھیں ۔ مسلمانوں کا دس سے پندرہ فیصد ووٹ کانگریس اور بی۔ ایس ۔پی میں تقسیم ہوتا رہا ہے ۔مسلمانوں میں مسیحا والی امیج کو قائم کر سماج وادی مسلمانوں کے مکمل ووٹ کو اپنے حصہ میں کر لیتی تھی ۔ اتر پردیش کے مسلمان بی ایس پی کی قیادت سے خوش نہیں ہیں۔ ویسے بھی وہ یہ جانتے ہیں کہ بی ایس پی ہندو دلتوں کی پارٹی ہے ۔ اور بی ایس پی نے مسلمان دلتوں کا بھی کبھی بھلا نہیں کیا ۔ بی ایس پی بر سر اقتدار آتی ہے تو ہندو دلتوں کو ہی خوش کیا جاتا ہے ۔ مسلمان دلتوں کی مایاوتی کے راج میں سنوائی کبھی نہیں ہوتی ۔ اس لیے اتر پردیش کے عام مسلمانوں کے پاس سماجوادی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ۔ لیکن اب اتر پردیش کا ماحول بدلا ہے ۔ مظفر نگر دنگوں کے بعد ملائم کا اور اکھلیش سرکار کا جو نیا چہرہ سامنے آیا ہے ، اس نے شطرنج کی بساط پلٹ دی۔ مسلمان سماج وادی پارٹی کے چہرے کو پہچان کر اب صوبائی سطح پر تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی مسلمانوں کی پارٹی پیس پارٹی کی طرف رُخ کر رہے ہیں ۔ مگر اسی کا دوسرا پہلو ہے کہ در اصل ملائم جو سیاست کی بساط بچھا نا چاہتے تھے ، اُس میں وہ پوری طرح ایک فاتح کی حیثیت سے نظر آتے ہیں ۔

ملائم سنگھ یادو اس حقیقت سے واقف تھے کہ صرف مسلمانوں کی بدولت اتر پردیش پر حکومت کرنا آسان نہیں ۔ملائم یہ بھی جانتے تھے کہ اتر پردیش میں دو ہی پارٹیاں ہیں ۔بی ایس پی اور سماج وادی ۔ کانگریس اور بھاجپا ابھی ان صوبائی پارٹیوں سے کافی دور ہے ۔ لیکن ملائم اس سچ سے بھی واقف تھے کہ عام مسلمانوں کو ہمیشہ خوش کر کے ، ووٹ حاصل کرنا آسان نہیں ۔ اور اس سے بڑا اکثریتی طبقہ اُن سے نا خوش رہتا ہے اس لیے اگر اتر پردیش کی اکثریت ان کے ساتھ ہو جاتی ہے تو پھر اتر پردیش میں بھاجپا کو روکنے میں ، اس کے اثر کو زائل کرنے میں وہ کامیاب ہو جائیں گے۔ اسی سیاست کا حصہ تھا کہ اتر پردیش میں زبردست کامیابی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے سرکار اکھلیش کو سونپ دی اور مرکزی قیادت کے خواب کے ساتھ ہندو کارڈ کو کھل کرکھیلنے کا ارادہ بھی ظاہر کر دیا ۔ اکھلیش کی حکومت کے دو سال کے وقفہ میں سو سے زیادہ فسادات ہوئے ۔ ظاہر ہے ان فسادات میں بے گناہ مسلمانوں کی ہلاکت سامنے آئی ۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مظفر نگر کا فساد ۸۴ کوسی پریکرما کے بعد شروع ہوا ۔ اور ۸۴ کوسی پریکرما سے قبل اکھلیش سنگھ اور وشو ہندو پریشد کے سکریٹری اشوک سنگھل سے ان کی ملاقات بھی گھنٹوں چلی تھی ۔ سوال یہ ، اس ملاقات میں کیا باتیں ہوئی ہونگیں؟وہ ان فرقہ وارانہ دنگوں سے صاف ہو جاتا ہے ۔یہاں صرف دنگوں کی سیاست سے بڑے ووٹ بینک پر قبضہ آسان نہیں تھا۔ملائم جانتے ہیں کہ بھاجپا اگر ۲ سے ۱۸۵ کے اسکور پر پہنچی تو اس میں رام مندر معاملہ کا بہت بڑا ہاتھ تھا ۔ اس سے قبل سیاست میں وہ کلیان سنگھ کو گلے لگا کر اور اڈوانی کی تعریف کر کے اکثریتی فرقہ کو یہ پیغام دے چکے تھے کہ انکی منشاء اور سیاست کو سمجھ لیا جائے ۔لیکن بار بار مسلم کارڈ کھیلنے سے اکثریتی فرقہ تک کنفیوژن بر قرار تھا ۔ اس لئے فرقہ وارانہ دنگوں کے ساتھ رام مندر کا کارڈ پوری ہوشیاری، سوجھ بوجھ اور سیاسی دانشمندی کے ساتھ کھیلا گیا ۔ اس خط کا لیک ہونا بھی سیاست کا حصہ تھا جیسے لیک ہونے کے بعد چھپائی کی غلطی کہہ کر معافی مانگنا بھی اسی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے ۔ سوم ناتھ کے طرز پر عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کا پیغام دے کر ملائم نے اکثریتی فرقہ کو اپنا پیغام دے دیا ہے کہ مجھے مسلمانوں کی ضرورت نہیں ۔ ضرور ت آپ کی ہے ۔ آپ کا ساتھ ہو تو بابری مسجد شہادت کو لے کر آئینی جنگ بھلے چلتی رہے ، ہم مندر تعمیر کی فضا بنا دیں گے ۔ در اصل اردو اخبارات اور دیگر اخبارات میں ملائم کے خلاف جو خبریں شائع کی جارہی تھیں ، ملائم کو اس سے نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہو رہا تھا ۔ مسلمانوں کا عام رویہ ملائم کے لئے جتنا نگیٹیو ہو رہا تھا ، اتناہی اکثریتی ووٹ کے لئے ان کا راستہ کھل رہا تھا ۔ ملائم کی شاطرانہ سیاست کا یہ وہ پہلو ہے جسے اترپردیش اور ہندوستان کے عام مسلمان سمجھ نہیں پائے ۔

اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ کانگریس ہو یا سماج وادی پارٹی ، ہرسیکولر چہرے کے پیچھے ایک بد نما چہرہ بھی چھپا ہے ۔

آزادی کے ۶۷ برسوں بعد اب مسلمانوں کو اپنے ہونے کے احساس ، شناخت اور وجود کی جنگ کا خطرہ اب بھی بنا ہوا ہے ۔ اور یہ خطرہ تب تک بنا رے گا جب تک وہ پاور میں نہیں آئیں گیا۔۔۔ یعنی ان کی اپنی سیاسی حصہ داری نہیں ہوگی ۔ یہ ایک اہم سوال ہے اور اس سوال میں ہی مسلمانوں کی اصل طاقت ، شناخت اور مضبوطی پوشیدہ ہے ۔ اب تک مسلمان دوسری سیاسی پارٹیوں کے لئے ووٹ بینک کا کردار ادا کرتے رہے لیکن قیادت سنبھالنے کے بعد ان پارٹیوں نے مسلمانوں کو حاشیہ پر ہی رکھا ۔ ہندوستان کی ۲۰ سے ۳۰ کروڑ مسلم آبادی اگر ٹھان لے تو سیاست میں کوئی بھی ہلچل اور کرشمہ ہو سکتا ہے ۔ لیکن اب تک مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی صرف دوسروں کو فتح دلانے کا کام کر رہی تھی ۔ اور یہ پارٹیاں مسلمانوں کو اس لیے کمزور کرتی رہیں کہ ان کی اسی کمزوری سے انتخاب میں فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اب متحد اور ایک جٹ ہونے کا وقت آیا ہے۔ انتخاب نزدیک ہے ۔ مسلمان اپنی سیاسی حصہ داری کا اعلان تیز کریں ۔ جو سیاسی مسلم رہنما اخبار کی شہ سرخیوں میں جگہ بنا رہے ہیں ، وہ بھی یہ معاملہ اٹھائیں کہ یہ وقت مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کا نہیں ،پہلے مسلمانوں کی سیاسی حصہ داری طے ہو ۔۔سیاسی حصہ داری کا مطلب دو چار مسلم چہروں کو ٹکٹ دینا یا وزیر بنانا نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی مکمل مسلم آبادی کو پاور سے جوڑنا ہے ۔۔۔۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا سیاسی پارٹیاں یہ کر سکتی ہیں ؟ اگر نہیں تو دوسرا راستہ کیا ہے ؟

Mosharaf Alam Zauqui
About the Author: Mosharaf Alam Zauqui Read More Articles by Mosharaf Alam Zauqui: 20 Articles with 22551 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.