اشتہار بڑا دلچسپ تھا، میں رکشے کے قریب ہوکر غور سے
پڑھنے لگا۔۔۔لکھا تھا ’’چھوٹے قد، کینسر، ہپاٹائٹس، گرتے بالوں، بے اولادی،
موٹاپے، جوڑوں کے درد، امراضِ مخصوصہ، کالی کھانسی، گردن توڑ بخار، جسمانی
کمزوری، پٹھوں کے کھنچاؤ ،دل کے امراض اور کسی بھی بیماری میں مبتلا افراد
پریشان نہ ہوں ، ہر مرض کا شافی علاج موجود ہے۔۔۔ فراز دواخانہ ۔۔۔میں نے
کچھ دیر غور کیا، مجھے لگا جیسے ساری بیماریاں مجھ میں موجود ہیں، اگلے ہی
دن میں حکیم صاحب کے دواخانے میں موجود تھا۔ میرا خیال تھا کہ حکیم صاحب
بیہودہ سے لباس میں ملبوس کوئی روایتی سے حکیم ہوں گے ، لیکن میری حیرت کی
انتہا نہ رہی جب واقعی میرا خیال درست ثابت ہوا۔ انتظار گاہ میں مریضوں کا
رش لگا ہوا تھا، ایک طرف ایک بڑا سا اشتہار لگا ہوا تھا جس پر لکھا
تھا’’بڑا آپریشن کرانے پر چھوٹا آپریشن فری‘‘۔۔۔دوسری لائن میں ایک عجیب و
غریب انعام کی ترغیب دی گئی تھی، لکھا تھا ’’چار دفعہ ریگولر حکیم صاحب سے
علاج کرانے پر انعامی کوپن حاصل کریں جس پر آپ کا 70 سی سی موٹر سائیکل بھی
نکل سکتا ہے‘‘ ساتھ ہی کچھ خوش نصیبوں کی تصویریں بھی دی ہوئی تھیں جن کا
موٹر سائیکل نکل چکا تھا۔
دو گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد میری باری آگئی، حکیم صاحب پر نظر پڑتے ہی
میں اورحکیم صاحب دونوں اچھل پڑے۔میں نے اپنی آنکھیں ملیں، بازو پر چٹکی
کاٹی، زور زور سے سر کو جھٹکے دیے ، لیکن حقیقت نہیں بدلی۔۔۔میرے سامنے
میرا دوست فراز بھٹی بیٹھا ہوا تھا جسے ہم پیار سے فراڈ بھٹی بھی کہتے
تھے۔اس سے پہلے کہ میرے منہ سے کچھ نکلتا، اس نے ایک چھلانگ لگائی، جلدی سے
دروازہ بند کیا اور میرے قریب آکرگھگھیایا’’خدا کے لیے کسی کو پتا نہ چلے
کہ میں کون ہوں‘‘۔ میں نے غصے سے اس کی طرف دیکھا ’’اوکے، نہیں بتاتا لیکن
یہ سب کیا ہے، تم کب سے حکیم ہوگئے؟ ‘‘۔اُس نے ایک گہری سانس لی اور اپنی
کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا ’’تمہیں تو پتا ہے چھ سال سے مجھے معدے کی پرابلم
تھی، اتنے حکیموں کے چکر لگائے کہ معدہ تو ٹھیک نہیں ہوا البتہ مجھے حکمت
آگئی، اب دوسال سے یہ دواخانہ کھولے بیٹھا ہوں‘‘۔ میں نے گھورا’’تو کیا اب
تمہارا معدہ ٹھیک ہوگیا ہے؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا’’ہاں! اصل میں معدہ اس لیے
خراب تھا کیونکہ اچھی خوراک نہیں مل رہی تھی، یقین کرو جب سے دواخانہ کھولا
ہے، روز بیس ہزار کی دیہاڑی لگا کر اٹھتا ہوں، معدہ بھی ٹھیک ہوگیا ہے اور
معاشی حالات بھی‘‘۔میں نے حیرت سے پوچھا’’اگر تمہیں حکمت نہیں آتی تو لوگوں
کو ٹھیک کیسے کرلیتے ہو؟‘‘۔ اس نے ایک اور قہقہہ لگایا’’ابے لوگ بڑے وہمی
ہوتے ہیں، اول تو پانچ ہزار کی دوائی خریدتے ہی اس خوف سے ٹھیک ہوجاتے ہیں
کہ اگر ٹھیک نہ ہوئے تو مزید دوائی خریدنا پڑے گی۔۔۔اور بالفرض ٹھیک نہ بھی
ہوں تو میرے پاس اپنی دوائی کی بجائے مریض کو غلط ثابت کرنے کے ایک سو ایک
طریقے ہیں، مریض لاکھ کوشش کرلے لیکن اس سے دوائی کھانے میں کوئی چھوٹی
موٹی کوتاہی ہوہی جاتی ہے، یہی کوتاہی میرے کام آتی ہے اور مریض کو یقین
ہوجاتا ہے کہ حکیم صاحب کا کوئی قصور نہیں، غلطی خود اس کی ہے۔۔۔!!!‘‘
’’فراڈ بھٹی ‘‘۔۔۔آج ایک کامیاب حکیم ہے، اس کی کامیابی کی وجہ مریضوں کی
صحت یابی نہیں بلکہ کیبل پر گھٹیا ترین اشتہارات کی بھرمار ہے، اس کے
دواخانے کے اشتہارات میں ہر مشہور بندہ اس کی تعریفیں کرتا نظر آتاہے، فراڈ
بھٹی کی خواہش ہے کہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام میں سے اُس کا ٹارگٹ صرف
ایک کروڑ عوام کو اپنے دواخانے تک لانا ہے تاکہ اس کے بعد وہ امریکہ شفٹ
ہوجائے اور وہاں کسی اچھے سے ڈاکٹر سے اپنے جوڑوں کے درد کا علاج کرائے۔
آج کل ایسے ہی حکیموں اور دواخانوں کی بھرمار ہوچکی ہے، ہومیوپیتھک اور
حکمت کی ڈگریاں فریم کروائے ایسے حکیم اور ڈاکٹر ہر مرض کا شافی علاج کرنے
کے دعویدار ہیں۔کیبل پر اِن کے مضحکہ خیز اشتہارات معصوم لوگوں کو دھڑا دھڑ
اِن کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ مجھے بڑی حیرت تھی کہ بڑے بڑے ٹی وی سٹارز بھی
دھڑلے سے آکر کہہ رہے تھے کہ فلاں حکیم صاحب کے علاج سے اب میں بالکل ٹھیک
ہوچکا ہوں۔میں نے آٹھ دس ایکٹرز کو فون کر کے اصل صورتحال پوچھی تو پتا چلا
کہ حکیم صاحب ایکٹروں کواس کام کا بھاری معاوضہ ادا کررہے ہیں، ایک معروف
ایکٹر کہنے لگے کہ ’’حکیم صاحب بہت بڑا ڈرامہ ہیں لہٰذا ہم سے بھی ڈرامہ ہی
کرواتے ہیں‘‘۔
اِس قسم کے حکیم صاحبان نے ریڈیو پر بھی پورے پورے پروگرام خرید رکھے ہیں
جس میں یہ جعلی خط پڑھتے ہیں اورسننے والوں کو’’طبی مشورے‘‘ دیتے ہوئے
دواخانے کا ایک چکر لگانے کی ترغیب دیتے ہیں، ایسے حکیموں کے علاج سے بہت
زیادہ فائدہ ہوتاہے۔۔۔لیکن صرف حکیموں کو۔۔۔میٹرک پڑھے ہومیوپیتھک ڈاکٹروں
نے بھی کیبل کے ساتھ ساتھ رکشوں اور ویگنوں کے پیچھے اشتہارات لگا کر
خوشخبریاں سنانا شروع کررکھی ہیں کہ اب کوئی مرض لاعلاج نہیں۔سادہ لوح
لوگوں کو مذہبی طور پر بلیک میل کرنے کے لیے کئی ایک نے اپنے دواخانوں کے
نام کے ساتھ سعودیہ، اسلامی اور مدینہ وغیرہ کے الفاظ شامل کر لیے ہیں۔ ان
کے چیلے سرکاری ہسپتالوں میں پھرتے ہیں اور مریضوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ
اگر وہ بہتر علاج کروانا چاہتے ہیں تو ہسپتال کا چکر چھوڑیں اورفلاں
دواخانے کا رخ کریں۔
ایسے معالجوں نے ذاتی دوائیاں بھی ایجاد کر رکھی ہیں جن کے نام سن کر ہی
ہنسی آتی ہے ، السعودیہ کا دم چھلا لگانے والے ایک حکیم صاحب کے دواخانے کی
دوائیوں کے نام ملاحظہ فرمائیں ’’شربتِ رگڑا۔۔۔شربتِ طاقتِ سانڈ۔۔۔ معجونِ
کھانسی روک۔۔۔سفوفِ ٹیکنیکل۔۔۔ شربتِ شوگر جڑ سے اکھاڑ۔۔۔معجونِ دمہ
ختم۔۔۔سفوفِ امیزنگ پاور۔۔۔شربتِ پیار محبت!!! دلچسپ بات یہ ہے کہ سپیشلسٹ
ڈاکٹر کی فیس زیادہ سے زیادہ دو ہزار تک ہوتی ہے لیکن اِس قسم کے اشتہاری
معالج مشورے کے کوئی پیسے نہیں لیتے تاہم مشورے کے ساتھ دوائی کا کورس لینا
ضروری ہے جس کی قیمت بیس ہزار تک ہے۔لاہور کے ایک حکیم صاحب کے بارے میں تو
مشہور ہے کہ اگر مریض آکر یہ کہے کہ آ پ کی دوائی سے آرام نہیں آیا تو
نہایت عزت سے اُسے دھکے مار کر باہر نکال دیتے ہیں۔
ہم سب علاج کی بجائے جادوئی علاج چاہتے ہیں، اسی بات کا فائدہ ایسے معالج
اٹھاتے ہیں ، یہ بھی ایک قسم کے عامل بابے ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک
رات کے عمل سے محبوب آپ کے قدموں میں۔ سٹیرائیڈز استعمال کرانے والے یہ
معالج مریض کو وقتی آرام دلا کراپنی دھاک بٹھا دیتے ہیں اور اس کے بعد مریض
ساری زندگی اپنے اندر زہر پالتا رہتا ہے۔ ان حکیموں کا دعویٰ ہے کہ یہ جس
مرض کا علاج کرتے ہیں وہ زندگی بھر دوبارہ کبھی نہیں ہوتا حالانکہ حقیقت تو
یہ ہے کہ مرض واپس آئے نہ آئے بہرحال مریض کبھی واپس نہیں آتا۔قاسمی صاحب
ایسے ہی ایک حکیم صاحب کے بارے میں بتاتے ہیں کہ موصوف قبض کا ایسا علاج
کرتے تھے کہ اس کے بعد مریض ساری زندگی قبض کے لیے ترس جاتا تھا۔
|