اے جذبہ دل گر میں چاہوں

ــــــــ ’’اینایا․․․․ دعا کرو میں سلیکٹ ہو جاؤں․․․․․ابو جی نے تو بہت مخالفت کی ہے مگر ․․․․․․․․‘‘
’’مگر․․․․․․کیا ٹھیک ہی تو کیا ہے تایا جی نے ․․․․․․․میں بالکل دعا نہیں کروں گی․․․․․میری طرف سے بھی وہی مخالفت ہے آپ کے لیے۔‘‘
نبیل اختر بٹ نے․․․․․اپنی منگیتر اینایا کی طرف ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے دیکھا۔
’’مگر کیوں․․․․․․․․تم خود ہی تو کہتی تھیں․․․․کہ مجھے فوجی اچھے لگتے ہیں․․․․․․ساری عمر تم اپنے ابو اور بھائی کو فوجی وردی میں دیکھتی آئی ہو اور اپنے شوہر کو بھی دیکھنا چاہتی ہوتمہیں تو کریز تھا․․․․․․․․فوج کا․․․․․․․پھر اب کیا ہوا۔‘‘
’’اب․․․․․․․․اب وقت بہت بدل گیا ہے․․․․․․․اب ویسے حالات بھی نہیں رہے اور ویسے․․․․․․․دل بھی نہیں رہے․․․․․․اور رہی بات مخالفت کی تو آپ بھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ تایا جی مخالفت کیوں کر رہے ہیں․․․․․․․․آپ کا جو مقصد ہے فوج․․․․․جوائن کرنے کا وہ․․․․․․․․․‘‘
’’اینایا پلیز․․․․․․․․․․․․․مجھے اب لیکچر دینا مت شروع کر دینا پلیز․․․․․․․ابھی تم نے خود کہا ہے وقت بدل گیا ہے․․․․․تو پھر یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ وقت کے ساتھ ہمیں نہیں بدلنا چاہیے․․․․․․․․․بولو․․․․․․․․ہم کیوں لگی بندھی․․․․․دو وقت کی روٹی کے لیے مشقت بھی کریں اور عوام کے جوتے بھی کھائیں․․․․․․جب یہ سب کرنا ہی ہے تو پھر ․․․․․․․․ویسا ہی کرو جیساسب کر رہے ہیں․․․․․․․․‘‘
نبیل نے تیزی سے اینایا کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’یہیں سے فرق ہے ․․․․․․․جو․․․دلوں میں․․اس ملک․․․․اس قوم․․․․‘‘
’’جہنم میں جائے یہ ملک یہ قوم․․․․خدا کے لیے اینایا اب مجھے یہ حب الوطنی کے لیکچر دینا مت شروع کر دینا ․․․․․․․سب مفاد کی جنگ ہے․․․․․․جس میں کسی کی کوئی تخصیص نہیں ہے جس کو جہاں جیسا مفاد نظر آتا ہے وہ ویسا ہی کرتا ہے․․․․․․․میں بھی ویسا ہی کروں گا۔‘‘
وہ کچھ دیر ماتھے پر بل ڈالے اسے دیکھتی رہی پھر خاموشی سے اٹھ کر چلی گئی ،نبیل نے اسے آواز نہیں دی وہ اسے روکنا نہیں چاہتا تھا اور اپنے آپ کو روکنا اب اسے اپنے بس میں نہیں لگتا تھا۔
---------- ٭٭٭ ----------- ٭٭٭ ------------
’’دے آئے امتحان․․․․․ہو گئی تسلی تمہاری۔‘‘
گھر میں داخل ہوتے ہی نبیل کے کانوں میں اپنے ابو کی آواز آئی۔
’’ابو جی پلیز․․․․․․․․اب آپ․․․․․․․پھر سے مجھے بولنا نا شروع نہ ہوجائیے گا۔‘‘
’’بولوں نا تو کیا کروں․․․کیا دیا ہے فوج نے ہمیں آج تک جو آج تم بھی ․․․․․دل میں عزم لیے کھڑے ہو․․․․․․بولو․․․تمہارے دادا نے فوج کی دل وجان سے خدمت کی وہ صوبیدار کی حیثیت سے کام کرتے رہے․․․․انہیں بہت شوق تھا آگے جانے کا․․․․․․ان کے اسی شوق کا نتیجہ میرا فوج میں شمولیت تھا۔وہ اپنے ارمان دل میں رکھے شہید ہوگئے․․․․․․کیا کیا فوج نے ایک عدد میڈل چند روپے تھما کر فرض پورا سمجھاان کے بعد ہم کیسے جئے یہ ہم ہی جانتے ہیں۔وہ زندہ ہوتے تو مجھے فوج میں کیپٹن بنے دیکھ کر بہت بہت خوش ہوتے․․․․․․میں بھی گم تھا اپنی افسری میں․․․․․․․کیا ہوا جنگ میں ٹانگیں چلی گئی․․․․․․ایک عدد میڈل․․․چند روپے اور سرٹیفیکیٹ دے کر فوج نے مجھے اپنے قابل نہیں سمجھا․․․․ارے․․دماغ تو تھا نا میرے پاس․․․․․․مگر کسی نے نہیں سنا مجھے․․․․کیا کروں میں اس میڈل کا ،اس شیلڈ کا،ان ڈھیر سارے سرٹیفیکٹس کا؟بولو․․․․․․چاٹوں انہیں․․․․یا سر پر سجاؤں․․․․جب بھوک پیٹ پر گھونسے مارتی ہے تو یہ تمغے یہ میڈل کسی کام نہیں آتے،نا ہی لوگوں کی تالیاں اور نا ہی ان کی سراہتی تقریریں․․․․․پھر تم․․․․․․․․․‘‘
’’یہی تو میں کہہ رہا ہوں․․․․میں فوج میں جا کر ہر اس ناانصافی کی تلافی کروں کا جو آپ لوگوں کے ساتھ ہوئی․․․․․․․سچ بہت کڑوا لگے گاآپ کو ابو․․․․․کیونکہ آپ حب الوطن اور ایمان دار ہیں مگر آج․․․․․فوج مرتی نہیں ہے کٹتی بھی نہیں ہے․․․․․آج بازی کچھ اور ہی طرف چل رہی ہے،جن خدشات کے پیش نظر آپ مجھے فوج میں جانے سے روک رہے ہیں ان کا فی زمانہ فوج میں نامو نشان بھی نہیں ہے․․․․․․بہت معذرت․․․․․‘‘
ویل چئیر پر بیٹھے ریٹائیرڈ کیپٹن اختر حمید بٹ نے خالی نظروں سے اپنے سامنے کھڑے چھ فٹ کے بیٹے نبیل کو دیکھا،ان کا دل آنے والے وقت سے ہول گیا،انہوں نے اپنی نظروں کا زاویہ بدلا اور نبیل خاموشی سے اندر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
اس نے وہی کیا جو اس نے سوچا․․․․․․وہ فوج میں آگیاپھر اس نے بہت تیز رفتاری سے ایک کے بعد ایک پھر دوسری منزلیں طے کرتا گیا۔جیسے وہ کسی محاظ پر ہو جیسے وہ کسی جنگ پر آیا ہو۔وہ اپنے باپ دادا کی ہر نصیحت ہر قول بھول بیٹھا تھا اس نے ہر وہ کام کیا جو فوج میں رہتے ہوئے اپنی بقاء کے لیے ضروری سمجھا،ہر وہ طریقہ اختیار کیا جس سے اس کی منزلیں ہموار ہوتی جائیں۔وہ جتنا بدعنوان ہوتا جا رہا تھا اتنا ہی ترقی کی راہیں عبور کر کے عزت اور احترام کے قابل ٹھہرایا جا رہا تھا۔اس کے باپ کا دل اسے دیکھ کر کڑھتا تھا۔اولاد کو اسی لیے آزمائش کہا جاتا ہے۔ان کا دل یہ سوچ سوچ کر جلتا تھا کہ یہ نا تو ان کے خون میں شامل تھا اور نا ہی ان کی تربیت میں پھر ان سے کہاں غلطی ہوئی۔وہ ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہوگیا تھا۔اس کے آگے اس کا باپ بے بسی کا خاموش مجسمہ بن چکا تھا۔وہ سارا دن اپنے گزرے وقت کو یاد کرتے یا پھر شیلف میں سجے اپنے تمغوں سے مٹی صاف کرتے گزارتے۔
’’یہ کیا کر رہیں آپ․․․․․․․․․؟‘‘
نبیل نے اپنے سینئر افسر کو دیو قامت ٹیبل پر بچھے نقشے میں کچھ ردوبدل کرتے دیکھ کر پوچھا۔
اس نے نبیل کو کوئی جوب دیناپسند نہیں کیا۔
کارگل کی جنگ میں وہ اور کے ساتھ اس کا سینئر افیسرعرفان ہاشمی کمانڈ کر رہے تھے۔
ــــنہیں سر․․․․․آپ ٹھیک نہیں کر رہے․․․․․․اس طرح تو آپ کھلا راستہ دے رہیں․․․حریفوں کو․․․․․․میں کبھی بھی ایسا نہیں ہونے دوں گا۔‘‘
نبیل نے عرفان کواپنے ماتحتوں کو مختلف مقامات پر تعینات کا حکم دیتے ہوئے سن کر کہا۔
’’حریف․․․․․․ہا ہا․․․․․تو میں کون ہوں․․․․․․․․؟‘‘
نبیل کے دماغ پرجیسے گھونسہ پڑا ہو۔
’’میں یہ کبھی بھی نہیں ہونے دوں گا چاہے کچھ بھی ہوجائے․․․․․․․․․․صوبیدار رشید․․․․․․سارے․․․سپاہیوں کو بلاؤ یہاں۔‘‘
نبیل نے سرغ چہرے کے ساتھ عرفان کو بولنے کے بعد رشید سے کہا۔
’’بڑی محبت جاگ رہی ہے․․․․․وطن کی․․․․․․جیسے میں تمہارے بارے میں جانتا نہیں ہوں․․․․․کہ تم کیا ہو؟اور فوج میں رہ کر کیا کچھ کرتے آرہے ہو․․․․․صرف اس وردی اور اس پر لگے ستارے کا فائدہ اٹھا کر۔‘‘
نبیل کو ایسا لگا جیسے اس کے منہ پر کسی نے تمانچہ کھینچ کے مارا ہو۔جب حقیقت کو کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔
قسم اس وقت کی،قسم اس وقت کی،
جب وقت ہم کو آزماتا ہے
’’اﷲ اکبر،اﷲ اکبر۔‘‘
دور سے سپاہیوں کی آواز اس کے کانوں میں آئی۔
قسم اس وقت کی، قسم اس وقت کی
جب وقت ہم کو آزماتا ہے
جوانوں کی زباں پر نعرہ تکبیر آتا ہے۔
’’چلو چلو․․․․․․․․جاؤ تم لوگ․․․․․․․․بے غیرت قوم ہو․․․․․․جاؤ․․․․تم لوگ اپنا کام جاری رکھو․․․․اور ہمیں اپنا کام کرنے دو۔‘‘
’’بے غیرت․․․․․․․․․․․․․ہاں ہم بے غیرت ہیں․․․․․․․․․مگر ہم ابھی اتنے بھی گئے گزرے نہیں اور نا ہی اتنے اندھے اور اتنے مجبور ہوئے ہیں کہ اپنی زمین بیچ دیں․․کوئی انسان کتنے ہی گناہ کیوں نا کر لے․․․․․․․اپنی روح کو کتنا ہی آلودہ․اور ٹکرے ٹکرے کر لے مگر وہ کبھی جسم کا کوئی حصہ اپنے ہاتھوں سے کاٹ کر نہیں پھینکتا․․․․․․․روح کی تکلیف وہ دیکھ نہیں سکتا مگر جسم کی تکلیف وہ سہنے کی ہمت نہیں رکھتا۔‘‘
اب بحث و تکرار کا وقت نکل چکا تھا انہیں گولیوں کی آوازیں بہت قریب سے آرہی تھیں۔
نبیل نے باہر نکل کر سپاہیوں کو چیخ چیخ کر بلانا شروع کر دیا عرفان نے نبیل کو زور کا دھکہ دیا ۔نبیل اپنا توازن برقرارا نہیں رکھ سکا اور پہاڑی ٹیلے سے لڑکھتا ہوا نیچے جا گرا۔اس کے دونوں طرف سے گولیوں کی بونچھار ہورہی تھی۔اسے ایک گولی سینے میں لگی ور ایک اس کے بازو کو ذخمی کرتی ہوئی گزر گئی۔اس نے اپنے اسلحہ کو اٹھا نا چاہا ٹیلے کے اوپر کھڑے عرفان پر اس کی نظرپڑی جس نے بندوق کا رخ نبیل کی طرف کیا ہوا تھا۔
زور دار گولیاں کی زد میں آکر ایک جھٹکے سے عرفان بھی لڑکھتا ہوانبیل کے پاس جا گرا۔نبیل نے ہمت کرتے ہوئے اس کو گلے سے پکڑ لیا،عرفان نے جیب سے ریوالورر نکالا ،دو تین گولیاں نبیل کے پیٹ میں پیوست ہو گئیں۔
وطن باقی رہے یہ زندگی تو آنی جانی ہے
-------- ٭٭٭ --------- ٭٭٭ -----------
’’ستارہ جرأت برگیڈر نبیل اختر بٹ․․․جنہوں نے گارگل کے محاظ پر جواں مردی سے لڑتے ہوئے دشمن کے عزائم کو ناکام بنایا․․․․․․․ان کی اہلیہ اور ان کے والدصاحب سے درخواست ہے کہ وہ․․․․․۔‘‘
’’ماما․․․․․․․میں سب کو مار دوں گا سب کو․․․․․․میں بھی فوجی بنوں گا․․․․․اور پتا ہے جنہوں نے پاپا کو مارا ہے نا ان کو بھی ماروں گا․․․․․․․․سب کو مار دوں گا․․․․․ماما میری مس کہتی ہیں کہ ہم سب ملک کے سپاہی ہیں ہمیں اس ملک کو بچانا ہے․․․․․میں فوج میں جا کر اس ملک کو بچاؤ گا۔‘‘
ننھا ہابیل․․․اپنے ہاتھ میں فوجی ٹینک کا کھلونا لیے ٹی وی پر چلنے والے چھ ستمبر کے پروگرام میں اپنی ماما اور دادا کو شیلڈ پکڑے ہوئے دیکھ کر کہہ رہا تھا۔
اختر صاحب اپنی ویل چئیر کو چلاتے ہوئے ․․․․․․․․اس شیلف کی طرف لائے جس میں ایک شیلڈ کا مزید اضافہ ہو چکا تھا۔جس کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آئے جس سے اپنے بیٹے کے لیے ہر شکایت دھل گئی ۔آج انہیں اپنی تربیت پر فخر محسوس ہوا۔
آج انہیں اپنی رگوں میں دوڑتے ہوئے خون پر فخر محسوس ہوا۔
اے جذبہ دل گر میں چاہوں․․․․․․․․
ہر چیز مقابل آجائے․․․․․․․․․․․․
ٹی وی پر چلنے والا نغمہ ان کی آنکھوں کو مزید نمناک کر رہا تھا۔

Aliya Touseef
About the Author: Aliya Touseef Read More Articles by Aliya Touseef: 3 Articles with 3038 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.