کوئی فرق نہیں مابین پیا

 کہتے ہیں کہ کسی گاؤں میں جو کہ دیہات کو شہر سے ملانے والی سڑک پر واقع تھا ۔ اور یہ گاؤں شہر کو جانے والی بڑی سڑک سے سات کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ یہ گاؤں جدید سہولیات سے محروم تھا۔ اس میں لوگ محنت مزدوری کرکے اور بھیڑبکریاں پال کر اپنا گزر بسر کیاکرتے تھے۔اس گاؤں کے اکثر افراد کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔ اس گاؤں میں کریانہ کی ایک دکان تھی جس میں گھریلو استعمال کی عام چیزیں مل جا یا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ وہاں کوئی دکان نہیں تھی۔ گاؤں کے تمام گھرانے اس دکان سے خریداری کیا کرتے تھے۔ جس کی یہ دکان تھی ۔ وہ دکاندار ہر ہفتہ سائیکل پر شہر جاتا جو کہ بڑی سڑک پر جاکر کسی دکان میں کھڑی کرکے لاری پر بیٹھ کر شہر جاتا جو کہ وہاں سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ پھر وہ بس پر سامان لے آتا ۔ بڑی سڑک پر اترنے کے بعد گدھا ریڑھی پر گھر اپنی دکان پر لے جاتا۔ اس کے چار بچے تھے۔ اس کا ایک بیٹا تیسری کلاس میں پڑھتا تھا۔ وہ باربار اپنے باپ سے کہتا کہ ابو جی مجھے بھی شہر لے جاؤ۔ ابوجی میں نے آپ کے ساتھ شہر جانا ہے۔ ابو جی میں نے شہر دیکھنا ہے۔ دکاندار کہتا کہ کبھی لے جاؤں گا ابھی نہیں۔ ایک دن جب وہ دکاندار شہر جانے لگا کہ تو اس کے اس بیٹے نے سائیکل کے پہیے کو ایک رسی سے باندھ دیا اور کہا کہ جب تک مجھے ساتھ نہیں لے جاؤ گے میں یہ رسی نہیں کھولنے دوں گا۔ اس دکاندار نے جب یہ دیکھا کہ یہ بچہ اب ساتھ جائے بغیر نہیں رہے گا ۔ اس نے کہا کہ چلو تیاری کرو ۔ تھوڑی دیر میں شہر چلیں گے۔ وہ خوشی خوشی ماں کے پاس گیا۔ اس کی ماں نے اس کو نہلایا۔ صاف ستھرے کپڑے پہنائے۔ باپ بیٹا کو روانہ کرتے وقت اس نے بچہ سے کہا کہ شہر میں جو دیکھنا اس کو یاد رکھنا ۔واپس آکر ہمیں بتانا کہ وہاں تم نے کیا دیکھا اور کیا کھایا۔ اس کے بعد دونوں باپ بیٹا سائیکل پربیٹھ کر شہر کی طرف چل پڑے۔ وہ گاؤں کو بڑی سڑک سے ملانے والی چھوٹی سڑک پر جارہے تھے۔ اس پر بھی معمولی ٹریفک رواں دواں تھی۔ کچھ ہی دیر میں وہ بڑی سڑک پر آگئے۔ وہاں دس بارہ دکانیں تھیں۔ گاؤں کے اس دکاندار نے ان دکانوں میں سے ایک دکان کے سامنے اپنی سائیکل کھڑی کی۔ پھر وہ بس کے انتظار میں سڑک کے کنارے کھڑا ہوگیا۔ آدھے گھنٹہ کے بعد بس آگئی ۔ وہ بس میں سوار ہوگیا۔ بچہ کو اپنی گود میں لیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد شہر آگیا وہ بس سے اتر گئے۔ بس تو اپنے سفر پر روانہ ہوگئی۔ بس شہر سے باہر رکی تھی۔ شہر میں جانے کے لیے وہ تانگے پر بیٹھا اور شہر کے بازار میں پہنچ گیا۔ اس نے اپنی دکان کے لیے خریداری کی۔ بچہ کو سیر کرائی۔ شہر میں اس نے بازار بھی دیکھے۔ شہر کی ٹریفک رواں دواں دیکھی۔ شہر میں سڑکیں اور گلیاں بھی دیکھیں۔ اور بھی بہت کچھ دیکھا۔ جوس پیا ۔ پھر وہ گھر واپس جانے کے لیے تیاری کرنے لگے۔ شہر میں ایک گدھا ریڑھی سے رابطہ کیا۔ اپنا خریدا ہوا سامان اس ریڑھی پر لادا۔ پھر وہ بڑی سڑک پر آگئے۔ سامان ریڑھی سے اتار لیا۔ پھر وہ واپسی کے لیے بس کا انتظار کرنے لگے۔ کوئی پندرہ سے بیس منٹ کے بعد بس آگئی۔ اس نے اپنا سامان بس کی چھت پر رکھوایا اور خود بس کے اندر بیٹھ گیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد ا س کا بس سٹاپ آگیا۔ وہ بس سے اتر گئے۔ اس نے اپنا سامان ایک گدھا ریڑھی پر لادا۔ اس کے بعد دونوں باپ بیٹاسائیکل پر بیٹھ کر اپنے گاؤں آگئے۔بچہ تو دوڑ کر اپنے گھر چلاگیا۔وہ دکاندارگدھا ریڑھی کے انتظارمیں گاؤں کے باہر ہی سڑک پر کھڑا ہوگیا۔ اب شام بھی ہوچکی تھی۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد گدھاریڑھی بھی آگئی۔وہ اس کو اپنی دکان تک لے آیا۔اس سے اپنا سامان اتارا۔ اس کو دکان میں بٹھایا۔ گھر سے کھانا تیار کرکے لایا۔ ساتھ ہی گاؤں کے پھل دودھ کی لسی بھی لے آیا۔دونوں نے مل کر کھانا کھایا۔ اس نے ریڑھی والے کو سامان لانے کا کرایہ دے کر دعاؤں کے ساتھ رخصت کردیا۔ پھر رات ہوگئی۔وہ گھر آگیا۔ اس کا وہ بچہ بھی بیٹھا تھا جو اس کے ساتھ شہر گیاتھا۔اس کے علاوہ باقی تمام بچے اور ان کی ماں بھی بیٹھی تھی۔ اس دکاندار نے اپنے دوسرے بچوں سے پوچھا تمہارا بھائی آج شہر گیا تھا۔ اس سے شہر جانے کا حال احوال پوچھا ہے یا نہیں۔بچے سکول کا کام کررہے تھے۔ان میں سے ایک بچے نے کہا کہ ہم پہلے سکول کاکام کرلیں پھر اس سے پوچھیں گے ۔ وہ کہاں گیا تھا اور کیا کرتارہاتھا۔ ایک گھنٹہ کے بعد سب بچوں نے اپنااپناسکول کاکام کرلیا وہ اپنی چار پائیوں پر آگئے۔اب ان میں سے ایک بھائی نے کہا آج تو شہر دیکھ کر آئے ہو۔ آج تو شہر کی سیر کرکے آئے ہو۔ ہم تو کبھی شہر نہیں گئے۔ ہم نے آج تک شہر نہیں دیکھا۔ معلوم نہیں بابا ہمیں کب شہر لے جائیں گے۔ اب ہمیں بتاؤ تو سہی کہ تم نے وہاں جا کر کیا دیکھا۔ کیا کھایا۔ کیسے گئے تھے کیسے واپس آئے۔ وہ بچہ لگتا ہے کہ بچپن سے ہی ادیب تھا۔ اگرادیب نہیں تھا تو اس میں صحافیوں کی خوبیاں ضرور موجود تھیں۔ اس نے نہ صرف اپنی ماں اور اپنے بھائیوں کو شہر جانے کی روداد سنائی بلکہ اس نے شہر اور دیہات کااس طرح موازنہ پیش کیا۔ کہ ہمیں اس کے محقق ہونے پر بھی یقین آنے لگا ہے۔ آئیے اس نے کیاکہا آپ بھی پڑھ لیں پھر فیصلہ کریں کہ ہمارا گمان کہاں تک درست ہے۔ اس بچے نے بتایا کہ وہ گھرسے سائیکل پر گئے تھے۔ گھر کے ساتھ والے روڈپر گئے تھے تو گاڑیاں آجارہی تھیں۔ ہم سائیکل پر بڑی سڑک پر گئے تو وہاں چند دکانیں تھیں۔ بابا نے وہاں ایک دکان میں سائیکل کھڑی کی۔ اور ہم سڑک کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ کچھ دیر کھڑے رہے۔ پھر ایک بس آگئی۔ اس بس میں ہم سوار ہوگئے۔ بس میں کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک کرسی پر باپ بیٹا بیٹھ گئے۔ بس کچھ دور ہی گئی تھی کہ ایک آدمی آیا اس کو بابا نے کچھ پیسے دیئے ۔ میں نے بابا سے پوچھا کہ اس کو پیسے کیوں دیئے تو بابا نے جواب دیا کہ اس کو کرایہ دیا ہے۔ ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں۔ اور جلدی پہنچا دیتے ہیں۔ اس کا کرایہ لیتے ہیں۔ اس کرایہ سے یہ بس میں تیل ڈلواتے ہیں۔ اپنے گھر کے اخراجات بھی کرتے ہیں۔ بس چلتی رہی۔ راستے میں رک جاتی۔کئی لوگ چڑھ آتے کئی لوگ اتر جاتے۔ پھر ایک جگہ بس کھڑی ہوگئی۔ بابا نے کہا کہ اترو شہر آگیا ہے۔ وہاں سے ہم تانگے میں بیٹھ کر شہر گئے۔ شہر میں جا کر جو کچھ دیکھا وہ آپ کو بتاتا ہوں۔ اس پر بابا نے کہا کہ اب رات بہت ہوگئی ہے۔ اب سو جاؤ صبح کو اٹھنا ہے ۔ فجر کی نماز ادا کرنی ہے۔ سکول بھی جانا ہے۔ اس لیے اب سو جاؤ جو باتیں رہ گئی ہیں وہ کل رات کرلینا ۔ اس کے ساتھ ہی سب بچے سو گئے۔ دوسرے دن وہ اٹھے۔ فجر کی نماز ادا کی۔ ناشتہ کیا۔ سکول گئے۔ سکول سے واپس آئے۔ کچھ دیر کھیلے ۔ پھر روزانہ کی طرح اپنی اپنی کتابیں لے کر اپنا اپنا ذمیہ کام کیا۔ اتنے میں رات ہوچکی تھی۔ سب بچوں کو جس وقت کا انتظار تھا۔ وہ وقت آگیا۔ سب بچوں نے اپنا اپنا ذمیہ کام کرلیا تھا۔ اپنی اپنی چارپائیوں پر آگئے۔ان میں سے ایک بھائی نے کہا کہ ہاں بھائی۔ رات کو ہمیں شہر جانے کے بارے میں بتا رہے تھے۔ اس بچے نے پوچھا کہ کل میں نے آخری بات کیا کی تھی۔ یہ سن کر وہ سوچ میں پڑگئے۔ ایک بچے نے کہا تم کہہ رہے تھے کہ ہم ٹانگے پر شہر گئے۔ اس پر اس بچے نے کہا کہ وہاں جاکر ہم نے آئس کریم کھائی۔ جوس پیا۔ گلیوں او ر بازار وں میں پھرتے رہے۔ اس نے کہا کہ ایسے تمہیں سمجھ نہیں آئے گی کہ میں نے وہاں کیا دیکھا۔ وہاں جو دیکھا وہ ہم یہاں بھی دیکھتے ہیں۔ ہمارے گھر کے ساتھ بھی تو سڑک ہے۔ جو کچھ یہاں سے گزرتاہے بڑی سڑک پر بھی وہی کچھ گزرتا ہے ۔ اس سے کئی چیزیں زیادہ گزرتی ہیں۔ یہاں سے بس نہیں گزرتی۔ بس سڑک پر بس چلتی ہے۔ اس نے کہا کہ شہر سے بس اڈے تک تانگے چل رہے تھے۔ یہ تو تم نے دیکھے ہیں۔ یہاں تانگوں کو گھوڑا کھینچتا ہے۔ وہاں بھی تانگے کو گھوڑا ہی کھینچتا ہے۔ یہاں تانگے کے بڑے بڑے پہیے ہوتے ہیں۔ وہاں بھی تانگے کے بڑے بڑے پہیے ہوتے ہیں۔ یہاں بھی گدھا گاڑیاں چلتی ہیں۔ سامان لے جاتی ہیں۔ لے آتی ہیں۔ وہاں بھی گدھاگاڑیاں ہیں۔ سامان لے جاتی ہیں لے آتی ہیں۔ یہاں بھی ان کے دوپہیے ہوتے ہیں۔ وہاں بھی ان کے دو ہی پہیے ہوتے ہیں۔ یہاں بھی بجلی کے بڑے بڑے کھمبے ہیں ۔ وہاں بھی بجلی کے بڑے بڑے کھمبے ہیں۔ یہاں ان کھمبوں کے اوپر تاریں لگی ہوئی ہیں۔ وہاں بھی ان کھمبوں پر تاریں لگی ہوئی ہیں۔ وہاں ان کھمبوں پر تاریں یہاں سے زیادہ لگی ہوئی تھیں۔ یہاں موٹر سائیکل کے دو پہیے ہوتے ہیں۔ اس پر تین تین آدمی بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہاں بھی موٹر سائیکل کے دوہی پہیے ہوتے ہیں اور تین تین آدمی بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہاں کار کے چار پہیے ہوتے ہیں ۔ وہاں بھی کار کے چار ہی پہیے ہوتے ہیں۔ یہاں دو تین دکانین ہیں۔ وہاں بہت سی دکانیں ہیں۔ ایک ساتھ دوسری دکان ملی ہوئی ہے۔ وہاں ہر چیزکی الگ الگ دکان ہے۔ بابا نے بھی اپنی دکان کیلئے بہت سی دکانوں سے سامان خریدا۔ یہاں دودھ والا دودھ لینے اور دینے آتا ہے۔ وہاں بھی دودھ والا پھر رہا تھا۔ یہاں بھینسیں ہیں وہاں بھی ایک گلی میں سے جا رہی تھیں۔ یہاں درخت ہیں وہاں بھی درخت ہیں۔ یہاں زیادہ درخت ہیں وہاں کم درخت ہیں۔ یہاں گلیاں نہیں ہیں۔ وہاں گلیاں ہیں۔ یہاں ایک سڑک ہے۔وہاں زیادہ سڑکیں ہیں۔ یہاں ہم گھر میں اپنی دہی کھاتے ہیں۔ وہاں بھی ہوٹلوں پر دہی بیچی جارہی تھی۔ یہاں ہم چائے پیتے ہیں۔ وہاں ہوٹلوں پر چائے لوگ پی رہے تھے۔ یہاں ہم بیمار ہوجائیں تو ڈاکٹرکے پاس جاتے ہیں۔ وہاں بھی ڈاکٹروں نے دکانیں بنائی ہوئی تھیں۔ ہم اپنی دکان سے مٹھائی اٹھا کر کھاتے ہیں۔ وہاں شہر میں مٹھائی کی بڑی بڑی دکانیں تھیں۔ اس بچے نے اور بھی بہت کچھ بتایا اور بہت سی چیزوں کا موازنہ کرکے بتایا۔ تاہم ہم اسی پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ کہ اور بھی باتیں ہیں جو اس تحریر میں لکھنی ہیں۔ آپ نے بچے کے شہر جانے کی کہانی پڑھ لی پھر اس کا اپنے بھائیوں کو شہر کے بارے میں بتانا اور اس کا شہر اوردیہات کا موازنہ کرنا بھی پڑھ لیا۔ دیہات سے شہر لوگ اپنی سہولت کیلئے جاتے ہیں۔ جو چیزیں ان کو دیہات میں نہیں ملتیں وہ شہر سے لے آتے ہیں۔ ایک دکان سے چیز نہ ملے تو کسی اور دکان پر چلے جاتے ہیں۔ ایک دکاندار کا ان کے ساتھ برتاؤ اچھا نہ ہوتو وہ اس کو چھوڑ کر کسی اور دکان پر چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے ملک میں انتخابات ہوتے ہیں۔ ہم ووٹ ڈالتے ہیں۔ اپنی پسند کے امیدوار یا پسند کی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ یہ ووٹ دیتے وقت بھی ہم اپنی سہولت کو سامنے رکھتے ہیں۔ جس امیدوار یا جس پارٹی کے بارے میں ہمارا گمان ہوتا ہے کہ یہ ہمیں سہولتیں دے گی۔ جیسا کہ اس الیکشن میں عوام نے دیگر پارٹیوں سے مسلم لیگ نوازکو زیادہ ووٹ دیئے۔ صرف یہ سوچ کر کہ یہ اقتدار میں آنے کے بعد لوڈشیڈنگ کم کردے گی۔مہنگائی نہیں کرے گی۔ عوام کو ریلیف دے گی۔ بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھائے گی۔ عوام کے ساتھ جو سلوک پیپلزپارٹی کی حکومت نے کیا تھا ۔ اب وہ سلوک یہ پارٹی عوام کے ساتھ نہیں کرے گی۔ اس پارٹی نے اپنے سے پہلے اقتدار میں رہنے والی دو سیاسی پارٹیوں کے ساتھ انتخابات میں عوام کا سلوک دیکھ لیا ہے۔ اب یہ وہ غلطیاں نہیں کرے گی جو سابقہ حکومتیں کرتی رہی ہیں۔ یہ عوام پر بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ لوڈشیڈنگ ختم کردیں گے۔ عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے موثر لائحہ عمل اختیار کریں گے۔ ہر الیکشن کے بعدعوام یہ امید لگالیتی ہے کہ یہ جو حکومت بنی ہے۔ یہ ہمارے مسائل حل کرے گی۔مگر ہر مرتبہ عوام کی یہ امیدیں خام خیالی ثابت ہوتی ہیں۔ عوام کے لئے مشرف دور، زرداری دور اور موجودہ دورِ حکومت میں کوئی فرق نہیں۔ مشرف دور ِ حکومت میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی۔ یہی لوڈشیڈنگ زرداری کے دور ِ حکومت میں بھی جاری رہی۔اب نواز شریف کی حکومت نے بھی اس کو جاری رکھا ہوا ہے۔ مشرف کے دورِ حکومت میں بجلی کی قیمتیں تین سے چارماہ بعد بڑھائی جاتی تھیں۔ زرداری کی حکومت نے اس کار خیر کو جاری رکھنے کی سعادت حاصل کی۔ اس حکومت کے دور میں بجلی کی قیمتیں ہر ماہ بعد بڑھائی جانے لگیں۔ اب نواز شریف کی حکومت نے بھی اس کو جاری رکھا ہوا ہے۔ مشرف کے دور میں بجلی کی قیمتیں پیسوں کے حساب سے فی یونٹ قیمتیں بڑھائی جاتی تھیں۔ اکثر ایک روپے کے لگ بھگ بجلی کی قیمتیں بڑھائی جاتی تھیں۔ زرداری کے دور میں دو روپے سے پانچ روپے تک بجلی کی قیمتیں بڑھائی جاتی رہی ہیں۔ اب موجودہ حکومت نے اس سے بھی زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ بجلی کا شارٹ فال مشرف کے دور میں تھا ۔ زرداری کے دور میں اس میں اضافہ ہوگیا۔ اب اس حکومت میں اور اضافہ ہوگیا۔ مشرف کی حکومت کے دور میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہر پندرہ دن بعد بڑھائی جاتی تھیں۔ زرداری کی حکومت نے اس اچھے کام کو جاری رکھا۔ اس نے یہ تبدیلی کی کہ پہلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہر پندرہ دن بعد بڑھائی جاتی تھیں۔ اب اس نے ایک ماہ بعد قیمتیں بڑھانا شروع کردیں۔ اب نواز شریف کی حکومت نے بھی وہی سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ مشرف کی حکومت کے دور میں پٹرلیم مصنوعات کی قیمتں پیسوں کے حساب سے بڑھائی جاتی تھیں۔ یہ قیمتیں ایک روپے فی یونٹ کے لگ بھگ بڑھائی جاتی رہی ہیں۔ زرداری کی حکومت نے اس کار خیر میں حصہ ڈالنا ضروری سمجھا کہ مشرف حکومت نے اتنا چھا کام کیا تو ہم کیوں نہ کریں۔ اس کی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دوروپے سے چار روپے تک فی لٹر قیمتیں بڑھائی ۔ اور یہ سلسلہ ہر ماہ چلتا رہا۔ اب موجودہ حکومت نے بھی اس کو جاری رکھا ہوا ہے۔ مشرف کے دور میں پٹرولیم مصنوعات پر فی لٹر چھبیس روپے سرکاری ٹیکس تھا۔ زرادی کے دو ر میں چھتیس روپے ہوگیا۔ اب یہ پینتالیس روپے ہوچکا ہے۔ مشرف نے امریکہ کے ساتھ خوب وفاداری کی۔ زرداری نے بھی اس میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ اور موجودہ حکومت بھی اس سے محروم نہیں رہے گی۔ مشرف کی حکومت عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لے لے کر حکومت اور ملک چلائے جاتے رہے۔ زرداری کی حکومت نے بھی یہی راستہ اپنایا۔ جو قرض مشرف کی حکومت نے لیا تھا۔ زرداری کی حکومت نے اس سے بڑھ کر لیا ہوا ہے۔ اب موجودہ حکومت جس تناسب سے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لے رہی ہے ۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ جس طرح زراری کی حکومت نے مشرف کی حکومت کا ریکارڈ توڑا۔ اسی طرح نواز شریف کی حکومت بھی زرداری کے پاس یہ ریکارڈ نہیں رہنے دے گی۔یہ اپنا نیا ریکارڈ قائم کرے گی۔ مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشرف کا ساتھ دیا۔ زرداری نے بھی اس کو جاری رکھا۔ اب نواز شریف نے بھی اس سے الگ ہونے کا اعلان نہیں کیا۔ مشرف کے دور میں ملک میں دہشت گردی کا راج رہا۔ زرداری کی حکومت کے دور میں بھی دہشت گردی نے اپنا تسلط جاری رکھا۔ اب نواز شریف کی حکومت کے دور میں بھی حالات قوم کے سامنے ہیں۔ کچھ لوگ سچ ہی کہتے ہیں کہ یہ سیاستدان اندر سے ایک ہوتے ہیں۔ان میں اختلاف ہوتا تو زرداری مشرف کی پالیسیوں کو جاری نہ رکھتے۔ نواز شریف کو زرداری سے اختلاف ہوتا تو وہ بھی اس کی پالیسیوں کو جاری نہ رکھتے۔ کس کس شعبہ کی بات کریں۔ کیا کیا بات کریں ۔ یہ کہہ کر آپ سے اجازت چاہتے ہیں۔ کہ کوئی فرق نہیں مابین پیا۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 302380 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.