حضرت مولانا یوسف کاندھلویؒ اپنی
تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ
ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اﷲ ؐ ہمارے ساتھ بیٹھنے والوں میں سے کون سب سے
بہترین ہے ؟آپ ؐ نے فرمایا جس کے دیکھنے سے تمہیں اﷲ یاد آئے اور جس کی
گفتگو سے تمہارے علم میں اضافہ ہو اور جس کے عمل سے تمہیں آخرت یاد آئے ۔حضرت
قرہ ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضورؐ مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو آپ ؐ کے صحابہ ؓ
آپ ؐ کے پاس کئی حلقے بنا کر بیٹھ جاتے ( اور آپس میں سیکھنے سکھانے لگ
جاتے اور جب ضرورت پڑتی تو حضور ؐ سے پوچھ لیتے )
حضرت بو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں میں مہاجرین کی ایک جماعت میں ان کے ساتھ
بیٹھا ہوا تھا اور ہمارے پاس کپڑے بہت کم تھے جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کی
اوتھ میں بیٹھے ہوئے تھے ہمارے ایک قاری قرآن پڑھ رہے تھے اور ہم سب اﷲ کی
کتاب سن رہے تھے حضور ؐ نے فرمایا تمام تعریفیں اس اﷲ کے لیے ہیں جس نے
میری امت میں ایسے لوگ بھی بنائے ہیں کہ مجھے اپنے آپ کو ان کے پاس بٹھائے
رکھنے کا حکم دیا گیا ہے حضور ؐ کے تشریف لانے پر گول حلقہ بن گیا اور سب
نے چہرے حضورؐ کی طرف کر لیے لیکن آپ ؐ نے میرے علاوہ اور کسی کو نہیں
پہچانا اور پھر حضور ؐ نے فرمایا اے فقراء مہاجرین تمہیں خوشخبری ہو کہ
تمہیں قیامت کے دن پورا نور حاصل ہوگا اور تم مالداروں سے آدھا دن پہلے جنت
میں داخل ہو جاؤ گے اور یہ آدھا دن پانچ سو برس کا ہو گا ۔
قارئین عام محاورہ مشہور ہے کہ صاحب عزت ہی کسی دوسرے کی عزت کرتا ہے اور
صاحب شرف ہی دوسروں کو بہتر القابات سے یاد کرتے ہیں آج کا کالم کچھ ایسی
ہی گزارشات پر مبنی ہے جو ادب ،شرف ،احترام آدمیت اور دیگر باتوں کے ارد
گرد گھوم رہی ہیں آزادکشمیر کے یوم تاسیس کے موقع پر آج ہمیں ایک مرتبہ پھر
شاعر انقلاب کا یہ شعر یاد آرہاہے ۔
جب کوئی دیس مناتا ہے دن اپنی آزادی کا
دل کا درد سلگ اٹھتا ہے ،یاد آئے کشمیر بہت
قارئین 24اکتوبر کو یوم تاسیس رسمی طو ر پر منایا جاتا ہے اور ایک انقلابی
موقعے کو یقین جانیے ایک ’’ رسم یا Ritual‘‘کا درجہ دے دیا گیا ہے دن منانے
والوں کو علم نہیں کہ یہ دن کتنی فضلیت والا ہے اور اس کے تقاضے کیا کیا
ہیں شہداء کی روحوں سے کیے جانے والے وعدے کیا تھے اور شہدا کشمیر کا کونسا
قرض ہمارے سروں پر موجود ہے جس کا چکانا حکمرانوں اور کشمیری قوم کی ذمہ
داریوں میں شامل ہے ۔بقول علامہ اقبال ؒ
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
قارئین آج کا کالم تحریر کرتے ہوئے ہم انتہائی دکھی بھی ہیں ہمارے ایک
انتہائی عزیز اور پیارے دوست چوہدری ندیم احمد سہار جو ہمارے کالم آپ تک
پہنچانے کا سبب اور ذریعہ تھے اور یہ کالم ڈرافٹ کر کے پوری دنیا تک
پہنچایا کرتے تھے وہ جواں عمری ہی میں اس جہان فانی کو چھوڑ کر خالق حقیقی
سے جا ملے ۔ہمارے اس پیارے دوست کی عمر صرف 22سال تھی دو سال قبل اس نوجوان
کی شادی ہوئی تھی اور ان کا ایک بیٹا تھا اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اﷲ انہیں
اپنی جوار رحمت میں جگہ دے او ر اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ۔
قارئین آئیے اب چلتے ہیں آج کے ’’ بے ادب موضوع ‘‘ کی جانب ۔جب سے آزاد
کشمیر میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی قیاد ت میں ’’ مجاور حکومت ‘‘ بر
سر اقتدار آئی تب سے لے کر اب تک یو ں دکھائی دیتا ہے کہ آزادکشمیر میں
ماضی کی تمام ادبی روایات دم توڑ چکی ہیں ،بد تمیزی ،زبان درازی ،بد سلوکی
،بد تہذیبی اور گالم گلوچ کے کلچر پر مبنی ایک ایسی حکومت دیکھنے میں آئی
ہے کہ اب دوبارہ ایسی حکومت دیکھنے کی نہ تو توقع ہے اور نہ ہی تمنا ۔یہ
ہمارا ذاتی خیال بھی ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی کے حقیقی جیالوں سمیت
آزادکشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کی مشترکہ سوچ بھی ہے اور اس متفقہ سوچ
میں آزادکشمیر کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی بیوروکریسی بھی شامل ہے
اس حوالے سے ڈھیر ساری باتیں ’’ آن دا ریکارڈ ‘‘ میڈیا پر بھی دستیاب ہیں
اور ’’ آف دا ریکارڈ ‘‘سینہ گزٹ کے ذریعہ عوام الناس تک پہنچتی رہتی ہیں
۔26جون 2011کے الیکشن کے بعد ایک عجیب وغریب فیصلے کی وجہ سے چوہدری
عبدالمجید کو اس پیرانہ سالی کے عالم میں اقتدار سنبھالنے کا موقع ملا جب
ان کی آرام کرنے کی عمر تھی ۔بقول غالب
نہ ہاتھ باگ پر ،نہ پا ہے رکاب میں
چلنے پھرنے کے لیے بھی سہاروں کے محتاج چوہدری عبدالمجید جب وزارت عظمیٰ کی
کرسی پر بیٹھے تو سب سے پہلے انہوں نے کشمیر ی قوم کی عزت اور وقار کی
دستار اٹھا کر گڑھی خدابخش اور نوڈیرو کی دہلیز پر جا رکھی اور پوری دنیا
میں آباد کشمیریوں کا سر شرم اور ندامت سے یہ کہہ کر جھکا دیا کہ وہ اپنے آ
پ کو نوڈیرو اور گڑھی خدا بخش کے مزاروں کا مجاور گردانتے ہیں اس کے بعد
انہوں نے اپنی ایک ’’ مخصوص بے شرم ٹیم ‘‘ کے ہمراہ ایسے ایسے بیانات داغنا
شروع کیے اور ایسے ایسے اقدامات اٹھانا شروع کیے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے
نظریاتی کارکنوں سے لے کر پوری آزادکشمیر کی تمام سیاسی قیادت چیخ اٹھی کہ
یہ سب کرپشن آج تک دیکھنے میں نہیں آئی جو اب کی جا رہی ہے اس حوالے سے بھی
میڈیا پر تمام ریکارڈ موجود ہے جناح ماڈل ٹاؤن کرپشن سکینڈل ،ایم ڈی اے
سکینڈل ،متاثرین منگلا ڈیم سکینڈل ،متاثرین زلزلہ سکینڈل ،ملبہ سکینڈل
،معدنیات سکینڈل ، دو دو لاکھ ملازمت سکینڈل سے لے کر وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید اور ان کی مخصوص ٹیم پر ایسے ایسے الزامات عائد کیے گئے کہ
آزادکشمیر کی صحافی برادری بھی دنگ رہ گئی ۔اس حوالے سے جب بھی میڈیا
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے سوالات پوچھنے کی جسارت کرتا تو اس پر
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید جلا ل میں آجاتے اور متعدد مواقع پر ’’ ادب آداب
کا دامن ‘‘ چھوڑ کر گالم گلوچ اور بد تمیزی پر اتر آتے ۔جبکہ سابق وزیراعظم
بیرسٹر سلطان محمود چوہدری جو پاکستان پیپلزپارٹی ہی کے سینئر راہنما ہیں
انہوں نے پارٹی قیادت اور میڈیا کے سامنے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور ان
کی مخصوص ٹیم کی کرپشن کے تمام ’’ دستاویزی ،فلمی ،قلمی اور واقعاتی ‘‘
ثبوت پیش کرد یئے اور یہ بات دہرانا جاری رکھی کہ وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید میڈیکل کالجز اور میگا پراجیکٹس کے پردے میں در حقیقت اربوں روپے
کی کرپشن کر چکے ہیں سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے اتنے یقین
اور اعتماد کے ساتھ یہ بات دہرائی کہ آخر کار پوری دنیا کو یہ ماننا پڑا کہ
’’ دال میں کچھ تو کالا ہے‘‘ یہ الگ بات کہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور
ان کے ساتھی اس بات پر مصر ہیں کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور ان کی
مخصوص ٹیم کی پکائی جانے والی ’’ تمام کی تمام دال کالی ‘‘ ہے ۔اس حوالے سے
راقم بھی اپنے قلمی مجاہدوں کے ساتھ مل کر حقیقت تلاش کرنے کی کوشش کرتا
رہا راقم نے ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’
لائیو ٹاک ود جنید انصاری ‘‘ میں استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ مل
کر درجنوں انٹرویوز میں حقیقت دریافت کرنے کی کوشش کی ۔ریڈیو آزادکشمیر کے
سٹیشن ڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل ایک انتہائی ادبی اور علمی شخصیت ہیں
انہوں نے ہمیشہ ہماری راہنمائی کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہم اپنے ٹاک
شو کو کبھی بھی متنازعہ یا کسی ایک سیاسی پارٹی کا ’’ بھونپو یا لاؤڈ
سپیکر‘‘ نہ بننے دیں اور تمام سیاسی قیادت کو اختلاف رائے رکھتے ہوئے ادب
آداب کے ساتھ گفتگو کرنے کا موقع فراہم کریں اس سلسلے میں ہم نے آزادکشمیر
کی تمام بڑی سیاسی قیادت سابق صدر و وزیراعظم سالار جمہوریت سردار سکندر
حیات خان،سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان ،سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان
محمود چوہدری ،سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان ،سابق صدر راجہ ذولقرنین
خان،موجودہ صدر سردار یعقوب خان ،موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید ،ڈپٹی
اپوزیشن لیڈر چوہدری طارق فاروق ،سابق سپیکر شاہ غلام قادر ،سابق وزیر
خواجہ فاروق ،وفاقی شخصیات مرکزی چیئرمین پاکستان مسلم لیگ ن راجہ ظفر الحق
،مرکزی ترجمان پاکستان مسلم لیگ ن صدیق الفاروق ،وفاقی وزراء احسن اقبال
،جنرل عبدالقادر بلوچ سے لے کر دیگر سینکڑوں شخصیات کے انٹرویوز
کیے۔آزادکشمیر کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے اپوزیشن جماعتیں انتہائی ذمہ
داری اور سنجیدگی کے ساتھ یہ موقف دہراتی رہیں کہ وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید اور ان کی ایک مخصوص ٹیم کے اراکین ’’ مالیاتی ،قانونی ،اخلاقی
کرپشن ‘‘ میں نہ صرف بہت بُری طرح ملوث ہیں بلکہ دروغ بر گردن راوی ’’ حصہ
بقدر جثہ‘‘ اوپر تک لکشمی پہنچانے کے کام میں بھی شب و روز مصروف رہتے ہیں
یہ تمام الزامات اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے عائد کیے جاتے رہے ہم نے
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید ،ان کے صاحبزادے چوہدری قاسم مجید ،وزراء چوہدری
پرویز اشرف و دیگر کو پورا موقع دیا کہ وہ ہمارے ٹاک شو میں شرکت کر کے ان
تمام الزامات کے جوابات دیں ۔ہم نے کہیں پر بھی اپنی ذاتی رائے کو ان کے
خلاف استعمال ہونے کا موقع نہ دیاکیونکہ ہم انتہائی دیانتداری کے ساتھ
سمجھتے ہیں کہ صحافی برادری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام معاملات کو اصل
رنگ میں رپورٹ کرے اور اس میں اپنی طرف سے ’’ رنگ سازی اور رنگ ریزی ‘‘کا
فریضہ انجام دے کر ’’ اپنا حصہ ‘‘ وصول کرنے کی کوشش نہ کرے ۔ہمارے اس
صحافتی سفر میں ہم استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان اور ہمارے مہربان سٹیشن
ڈائریکٹر ریڈیو آزادکشمیر چوہدری محمد شکیل کے انتہائی مشکو رہیں کہ انہوں
نے ہماری راہنمائی بھی کی اور جہاں پر ہمیں نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا
وہاں پر ہماری حفاظت ہمیں بتائے بغیر پوری طرح کرنے کی کوشش کی ۔
قارئین گزشتہ روز وزیراعظم آزادکشمیر تحریک عدم اعتماد کی ناکامی اور
لاکھوں متاثرین منگلا ڈیم کو 1242فٹ میں ڈبونے کے بعد پہلی مرتبہ اپنے
آبائی ضلع میرپور کے تفصیلی دورے کے دوران آزادکشمیر کے سب سے بڑے پریس کلب
کشمیر پریس کلب میرپور تشریف لائے ۔پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے
وزیربلدیات محمد مطلوب انقلابی کے ہمراہ انقلابی قسم کی تقریر کرنے کی کوشش
بھی کی اور بلند بانگ دعوے بھی کیے ۔جب ہمارے صحافی بھائیوں نے سوالات کرنا
شروع کیے تو وزیراعظم کا صبر جواب دینے لگا اور ان کا موڈ انتہائی خراب ہو
گیا ۔موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کشمیر پریس کلب کے صدر سید عابد حسین
شاہ ،جنرل سیکرٹری سجاد جرال اور دیگر سینئر صحافیوں نے پریس کانفرنس کو
مختصر کرتے ہوئے ’’ چائے کے کپ‘‘پر وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے ساتھ غیر
رسمی محفل رکھ لی ۔اسے ہماری خوش قسمتی سمجھیے یا بد قسمتی کہ ہم بھی اس
محفل کے ’’ کھڑے شرکاء ‘‘ میں شامل تھے ۔یہ علیحدہ بات کہ ان کھڑے شرکاء
میں سے راقم وہ واحد شریک تھا جو وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی ’’ کھری
کھری ‘‘ سننے کا سزاوار ٹھہرا ۔راقم نے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے صرف
ایک سوال کیاکہ عزت مآب وزیراعظم صاحب آپ نے میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز
سمیت آزادکشمیر میں میگا پراجیکٹس کا ایک جال بچھایا ہے اور اب یو دکھائی
دے رہا ہے کہ وطن عزیز مالیاتی بحران کا شکا ر ہے جس کی وجہ سے یہ کہا جا
رہا ہے کہ یہ میگا پراجیکٹس بھی خدانخواستہ بحران کی زد میں آسکتے ہیں آپ
اس حوالے سے کیا کہتے ہیں اس پر وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی آنکھوں میں
خون اتر آیا اور انہوں نے ادب آداب کے تمام تقاضے پیروں تلے روندتے ہوئے
’’تقریبا گالیاں ‘‘دینا شروع کر دیں۔وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کہنے لگے کہ
راقم عظیم دت کی زبان بول رہا ہے اور راقم کا تعلق اس خاندان کے ساتھ ہے جو
منگلا ڈیم بنانے کے خلاف تھا اور راقم احسان فراموش ہونے کے ساتھ ساتھ ایک
ایسی زبان رکھتا ہے جو ’’ بواسیری کیفیت ‘‘ رکھتی ہے ۔راقم نے پہلے تو
وزیراعظم کی ان تمام باتوں کا شائستگی کے ساتھ جواب دینے کی کوشش کی کہ
حضور آپ کے ان اپنے میڈیکل کالجز اور میگا پراجیکٹس کے سربراہان مالیاتی
بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات پر شکایات کر رہے ہیں اور ہمارا
سوال ہمارے کسی ذہنی ابال یا ’’ بواسیری ذہن و زبان ‘‘ کا نتیجہ نہیں ہے
لیکن وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کا پارہ چڑھتا چلا گیا سینئر صحافیوں الطاف
حمید راؤ ،رانا شبیر حسین راجوروی ،سید قمر حیات شاہ ،حافظ محمد مقصود
،سردار عابد حسین،راجہ حبیب اﷲ خان ،ارشد بٹ سمیت تمام شرکائے محفل صحافی
برادری کی شان میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی طرف سے نچھاور کیے جانے
والے پھول چنتے رہے اور بعض آوازیں محفل سے یہ بھی ابھریں کہ ’’ انصاری
صاحب تکرار نہ کریں ‘‘۔
قارئین یہاں ہم آپ کو بتاتے جائیں کہ ہمارا تعلق اس مرد حر کے خاندان سے ہے
جسے دنیا عبدالخالق انصاری کے نام سے یاد کرتی ہے اور چوہدری عبدالمجید
سمیت ان جیسے کتنے لوگ عبدالخالق انصاری کے جوتوں کی خاک پر قربان کیے
جاسکتے ہیں عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ نہ تو پاکستان دشمن تھے اور نہ ہی
کرپشن کی وہ کہانیاں ان کے ساتھ وابستہ رہیں جن کرپشن کے قصوں میں وزیراعظم
چوہدری عبدالمجید اور ان کے حواری ’’ مرکزی فلمی ٹیم ‘‘ کا کردار ادا کر
رہے ہیں رہی بات گالیوں کی تو جناب اتنا عرض کرتے چلیں کہ جس کے پاس جو کچھ
ہوتا ہے وہ وہی کچھ دیتا ہے ۔خوشبوؤں کے سوداگروں سے خوشبو آتی ہے اور بد
بوؤں کے ٹھیکیدار غلاظت ہی کی تجارت کرتے ہیں ۔یہاں ہم صحافی برادری کی
نمائندگی کرتے ہوئے حکمران طبقے کو مخاطب ہوتے ہوئے کہتے چلیں کہ جناب ’’
عزت نفس سب سے قیمتی اثاثہ ہوتی ہے ‘‘ اور عزت نفس پر جان بھی قربان کی جا
سکتی ہے ۔ہمیں امید ہے کہ صحافی برادری اپنی اس عزت نفس کی حفاظت کرنا
جانتی ہے ہمیں اس بات پر ذرا بھی ندامت نہیں کہ ہمارا تعلق بانی نظریہ خود
مختار کشمیر و بانی صدر جموں کشمیر محاذ رائے کشمیر عبدالخالق انصاری کے
خاندان سے ہے ہم عزت اور غیرت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں اور موت بھی عزت اور
غیرت کے ساتھ قبول کرنا چاہتے ہیں مجاور بن کر بے غیرتی ،بے توقیری اور بے
حمیتی کی زندگی کا ایک پل بھی ہمیں قبول نہیں ۔یہاں وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید سے ہم سوال کرتے ہیں کہ ان کی اپنی پارٹی کے سینئر راہنما اور
سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی طرف سے عائد کیے جانے والے
مالیاتی کرپشن کے الزامات کا جواب کیا ہے ۔کیا کسی قسم کا اخلاقی جواز اب
بھی باقی ہے کہ وہ آزادکشمیر کے بیس کیمپ میں زما م اقتدار سنبھالے رکھیں
۔۔۔۔؟
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
سردار جی نے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے راہگیر سے پوچھا
’’یہ تو بتاؤ ہم کس چیز پر بیٹھے ہیں ‘‘
راہگیر نے پریشان ہو کر جواب دیا
’’ سردار جی آپ گھوڑے پر بیٹھے ہیں کیا آپ کو نظر نہیں آرہا ‘‘
سردار جی نے ہنس کر کہا
’’ او نظر تو آرہا ہے لیکن کنفرم کرنے میں کوئی حرج نہیں ‘‘۔
قارئین وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور ان کے ساتھیوں کی حالت بھی آج کل کچھ
ایسی ہی دکھائی دے رہی ہے کہ وہ بھی ہر بات کنفرم کرتے پھر رہے ہیں ۔ہم
تمام سینئر و جونیئر صحافیوں صدر آل جموں کشمیر نیوز پیپر سوسائٹی عامر
محبوب ، سید قمر حیات شاہ ،سابق جنرل سیکرٹری کشمیر پریس کلب خالد چوہدری
،راجہ حبیب اﷲ خان ،سید عابد حسین شاہ ،حافظ محمد مقصود ،الطاف حمید راؤ
،محمد بلال رفیق ،شاہد صادق اور دیگر دوستوں کے مشکور ہیں کہ جنہوں نے
صحافی برادری کی جانب سے بھی وزیراعظم کی صحافت کے متعلق ’’ زبان درازی ‘‘
کا نوٹس لیا ہے ۔یقین جانیے راقم سمیت دیگر صحافی برادری نہ تو زبان دراز
ہے اور نہ ہی سیاسی مقاصد کی حامل ۔صحافی برادری و اقعات رپورٹ کرتی ہے
امید ہے کہ کرپشن کے واقعات بند کیے جائیں گے نہ کہ ان کی رپورٹنگ اور
سوالوں کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کی جائے گی ۔رہے نام اﷲ کا ۔ |