کیا وزیراعظم بننے کی اہلیت کسی میں ہے؟

پنڈت جواہر لال نہرو کی زندگی میں ہی (بلکہ ان کی موت سے چند سال قبل) یہ سوال نہ صرف بار بار اٹھتا تھا بلکہ اس کی بڑی اہمیت تھی کہ ’’نہرو کے بعد کون؟‘‘ حالانکہ اس زمانے میں برسراقتدار کانگریس پارٹی میں مرارجی دیسائی، لال بہادر شاستری، گلزاری لال نندہ، یشونت راؤ چوہان اور اندرا گاندھی جیسے قدآور قائدین موجود تھے۔ جئے پرکاش نارائن (سیاست میں نہ تھے) راجگول چاری، اچاریہ کرپلانی اور کئی قابل اور تجربہ کار قائدین حزب اختلاف میں تھے۔ لیکن کسی کو نہرو جیسا کوئی نظر نہ آتا تھا۔ آج یہ سوال کسی شخصیت سے منسوب نہیں ہے بلکہ اب تو سوال یہ ہے کہ ’’کیا کوئی وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لائق بھی ہے؟ یوں تو بی جے پی نے نریندر مودی کو اس عہدے کے لئے اپنا امیدوار نامزد کردیا ہے جبکہ راہول گاندھی کا کانگریس کا امیدوار ہونا تقریباً طئے ہے۔ تاہم راہول ہوں یا مودی دونوں ہی اس عہدے کے لئے قطعی موزوں اور اہل نظر نہیں آتے ہیں۔ مودی خود اپنے بارے میں یا ان کے بارے میں سنگھ پریوار کیسے ہی بلندو بانگ دعوے کیوں نہ کرے مودی کی اہلیت صرف یہ ہے کہ وہ آر ایس ایس کے پسندیدہ ہیں۔ مہاتما گاندھی کی قاتل، ہندوتوا کی علمبردار، مسلم دشمن اور فاشسٹ آر ایس ایس کے معیاد پر مودی پورے اترتے ہیں۔ دوسری طرف راہول گاندھی کی قابلیت، اہلیت اور خصوصی اہمیت صرف یہ ہے کہ وہ سونیا گاندھی اور راجیو گاندھی کے بیٹے ہیں ورنہ اور کوئی بات ایسی ان میں نظر نہیں آتی ہے جو ان کو وزیر اعظم بنائے جانے کا اہل سمجھا جائے!

ان دونوں بڑے اور اہم امیدواروں کے علاوہ مایاوتی ، ملائم سنگھ ، ممتابنرجی اور نتیش کمار بھی منموہن سنگھ کے جانشین بننے کے آرزو مند ہیں تو دوسری طرف خود بی جے پی میں اڈوانی اور سشماسوراج نے امید کا دامن ابھی نہیں چھوڑا ہے۔ بی جے پی میں ہی مخالف مودی عناصر وزیر اعلیٰ مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان کا بھی نام لیتے ہیں۔ اگر پرنب مکرجی کو صدر جمہوریہ نہ بنایا جاتا تو وہ درحقیقت اس عہدے کے انتہائی موزوں امیدوار ہوتے! (شائد اسی لئے ان کو صدر جمہوریہ بنادیا گیا ہے) یاد ہوگا کہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد، پرنب مکرجی وزارت عظمیٰ کے لئے راجیو گاندھی سے زیادہ مستحق اور موزوں مانے جانے تھے۔ کانگریس میں چدمبرم اور ڈگ وجئے سنگھ کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ راہول کی خاطر خاموش ہیں این سی پی کے شرد پوار کی وزیر اعظم بنے کی خواہش کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ چندروز پہلے تک مانا جاتا تھا کہ راہول گاندھی وزیر اعظم بننے کے موڈ میں نہیں ہیں نیز ان کا کسی ذمہ داری کو تاحال نہیں نبھانا ان کے حق میں نہیں جاتاہے۔ اگر کوئی بات راہول کی امیدواری میں حائل ہوتو ایک خیال یہ بھی ہے کہ منموہن سنگھ کا نام تیسری معیاد کے لئے تجویز کیا جائے تو منموہن سنگھ انکار نہیں کریں گے۔

نریندر مودی اور راہول گاندھی کے علاوہ مندرجہ بالا دیگر امیدواروں کے لئے مواقع بہت کم ہیں۔ بی جے پی میں تو نریندر مودی کے علاوہ کسی اور کی امیدواری ناممکن ہے۔ ہاں کانگریس میں راہول کے علاوہ کسی اور کی امیدواری کے مواقع کسی حدتک ضرور ہیں۔ شردپوار کی امیدواری کے لئے ضروری ہے کہ ان کی پارٹی غیر معمولی کامیابی حاصل کرتے ہوئے زیادہ نشستیں حاصل کرلے اور کانگریس کا موقف بہت زیادہ مضبوط نہ ہو۔ اب رہ گئے علاقائی جماعتوں کے امیدوار ملائم سنگھ ،ممتابنرجی، مایاوتی، نتیش کمار یا کوئی اور تو اس کیلئے ضروری ہے کہ بی جے پی اور کانگریس کی قیادت والے محاذ این ڈی اے اور یو پی اے دونوں ہی کا موقف کمزور ہو اور تمام علاقائی جماعتوں خاص طور پر ترنمول کانگریس کی ممتابنرجی نتیش کمار کی جنتادل (یو) ، مایاوتی ملائم سنگھ میں کسی ایک کی پارٹی کو زیادہ نشستیں ملیں۔ اس کے علاوہ دیگر علاقائی جماعتوں کو اتنی نشستیں مل جائیں کہ تیسرا محاذ قائم ہوکر حکومت بناسکے ورنہ کسی بھی علاقائی جماعت کے قائد کے لئے وزیر اعظم بننے کے مواقع بہت کم ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں سے کوئی کسی طرح بھی وزیر اعظم بننے کا نہ اہل ہے اور نہ ہی موزوں ہے یہ سب بے شک ریاستی سطح پر کامیاب رہے ہیں تاہم قومی منظر نامہ میں نہ یہ کبھی نمایاں رہے ہے اور نہ ہی اس کی کوئی توقع ہے۔ ہاں ایک اور امکان یہ بھی ہے کہ این ڈی اور یو پی اے کو حکومت بنانے کے لئے اگر بہار ، بنگال اور یو پی کی کسی ایسی علاقائی کی جماعت کی مدد کی ضرورت ہو جس کے پاس زیادہ نشستیں ہوں تو محض اقتدار کی خاطر کانگریس یا بی جے پی وزیر اعظم کا عہدہ خود کسی علاقائی جماعت کے قائد کو دے سکتی ہے۔ اب وہ نتیش کمار ہوں یا مایاوتی یا ملائم سنگھ یا ممتابنرجی ہوں سیکولر ازم کے ان دعویداروں میں ممتابنرجی مایاوتی اور نتیش کمار تو پہلے بھی این ڈی اے میں رہے ہیں اس لئے ان کے تعلق سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ بی جے پی کا ساتھ دے سکتے ہیں تو دوسری طرف ملائم سنگھ کے بارے میں بھی اندیشہ ہے کہ وہ بھی وزارت عظمیٰ کی خاطر اپنا سیکولرازم قربان کرسکتے ہیں ہاں اگر لالو پرساد یادو الیکشن لڑسکیں اور ان کی حمایت سے اقتدار کی خواہش مند جماعت کی ضرورت پوری کرکے وزارت عظمیٰ حاصل کرسکے تو لالو پرسادیادو کانگریس کا ساتھ تو دیں گے لیکن بی جے پی کا ساتھ وہ ہرگز نہیں دیں گے۔ تاہم ’’اگر و مگر‘‘ یا ''I F & But'' پر منحصر ان مفروضوں کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں ہے۔

کانگریس میں راہول کے علاوہ سب سے زیادہ مواقع ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ہی حاصل ہیں۔ چدمبرم اور ڈگ وجے سنگھ یا کسی بھی کانگریسی کا ملک بھر کے کانگریسیوں یا ان کے حلیفوں کی تائید حاصل ہونا ممکن نہیں ہے۔ چدمبرم کی بہ حیثیت وزیر مالیات کارکردگی اوسط سے بھی کم رہی ہے نہ ہی وہ وزیر داخلہ کی حیثیت سے کامیاب رہے ہیں۔ چدمبرم اور ڈگ وجے سنگھ کے نام تو محض خانہ پری کے لئے بھی لئے جارہے ہیں۔ کانگریس کا امیدوار توراہول کو ہی بنایا جائے گا (نہرو شاہی بلکہ اندرا شاہی کو برقرار رکھنے کے لئے)۔

کچھ عرصہ پہلے تک ایک خیال یہ تھا کہ خود راجیو گاندھی ذمہ دار یوں سے بچنا چاہتے ہیں اسی لئے حکومت میں کوئی عہدہ انہوں نے قبول نہیں کیا تھا ورنہ جس وزارت کا وہ قلم دان چاہے ان کو پیش کردیا جاتا ۔ ایک خیال یہ تھا کہ ان کو اپنی قابلیت ، صلاحیت کے ساتھ اپنی کمزوریوں کا پتہ تھا وہ خود کو پہچانتے تھے لیکن اب لگتا ہے کہ ان میں تبدیلی آگئی ہے بلکہ وہ اب اپنے چچا سنجے گاندھی کی راہ پر چل پڑے ہیں جن کے کے آگے حکومت کا بینہ بلکہ ان کی وزیر اعظم والدہ اندرا گاندھی کی بھی حقیقت نہ تھی۔ 1976ء کی بدنام زمانہ ایمرجنسی کے دوران سنجے گاندھی کہا کرتے تھے ’’اگر فیصلہ چاہتے ہو تو میرے پاس آؤ صرف بحث کرنا ہے تو میڈم کے پاس جاؤ‘‘ سنجے گاندھی کے نقش قدم چلتے ہوئے داغدار وزیروں کے بارے میں کابینہ کے کئے ہوئے فیصلہ کو نہ صرف ’’احمقانہ‘‘ کہا بلکہ اس کو پھاڑکر پھینک دئیے جانے کے قابل سمجھا بلکہ کابینہ کے فیصلہ کے بدل دئے جانے پر حکومت کو مجبور کردیا۔ یہ تیور بتاکر انہوں نے اپنے عزائم کااظہار کردیا ہے۔ خود کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کا اہل نہ تصور کرنے کی حقیقت پسندی ترک کرکے اب وہ شائد اپنے چمچوں اور خوشامدی ٹولے کی باتوں پر یقین کرکے خود کو وزارت عظمیٰ کا سب سے زیادہ حق دار سمجھنے لگے ہیں۔ داغدار وزرا کے بارے میں حکومت کے آر ڈیننس کی مخالفت کا صحیح اقدام نہ صرف غلط طریقے سے بلکہ خاصے نا شائستہ انداز میں کیا۔ اسی سے ان میں سیاسی شعور اور بالغ نظری کی کمی کااظہار ہوتا ہے۔ تجربہ راہول کو ہے نہیں۔ یو پی اور بہار کی ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں ان کی نگرانی بلکہ محنت بے ثمر رہی ہے یعنی تنظیمی کاموں میں ان کی کارکردگی پست رہی ہے۔ اپنے باپ راجیو گاندھی کی طرح ان کو حکومت کے امور کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ مجموعی طور پر ان کو وزیر اعظم کے عہدے کا اہل قرار دینا ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔

یہ ملک کی بڑی بدقسمتی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے قابل افراد کی شدید کمی ہے ملک کی سب سے بڑی اور قدیم سیاسی جماعت جس نے آزادی کے بعد 56-57 سال حکومت کی ہے اس میں وزیر اعظم بنائے جانے کے مستحق امیدوار عنقاء ہیں۔ دوسری قومی یا سیاسی جماعتوں کا بھی یہی حال ہے۔

بی جے پی نے آر ایس ایس کے حکم پر نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنایا ہے نریندر مودی اپنی مسلم دشمنی اور گجرات میں 2002ء کے مسلم کش فسادات کی وجہ سے دنیا بھر میں بدنام ہیں۔ ان کی شقی القلبی ، بے حسی اور ظالمانہ فطرت کے تناظر میں سپریم کورٹ نے ان کو روم کے ’’نیرو‘‘ (جس نے شہر کو آگ لگواکر عوام کی مصیبت و پریشانی کا لطف اٹھایا تھا) سے تشبیہ دی تھی۔ عوام نے ان کو مختلف خطاب دئیے ہیں مثلاً گجرات کا قصائی اور لاشوں یا موت کا سوداگر‘‘ مودی نے 2002ء کے فسادات کے سلسلے میں اظہار ندامت او رمعذرت تک کبھی نہیں کی اور خود کو بے ضمیر ثابت کیا۔ گیارہ سال بعد متاثرین کی خاطر خواہ بازآبادکاری نہ کرنے والے مودی نے مسلمانوں کے سلسلے میں عدالت عظمیٰ کے احکام کو من و عن پورا نہیں کیا۔ مودی نے گجرات میں ’’ترقی اور فلاح و بہبود‘‘ کا بڑا پروپگنڈہ کیا ہے۔ مودی کی ساری طاقت اور ان کی شخصیت کا سحر‘‘ سرمایہ داروں کی تائید و حمایت کا مرہون منت ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے 100سرفہرست سرمایہ داروں میں سے نصف سے زیادہ سرمایہ دار مودی کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں۔ مودی نے کوڑیوں کے مول سرمایہ داروں کو زمین دی، ناقابل یقین قیمت پر پانی، بجلی اور دیگر سہولیات فراہم کیں۔ ٹیکسوں میں چھوٹ دے کر کارپوریٹ شعبہ کی مودی نے حمایت حاصل کی۔ سرمایہ داروں نے نہ صرف ملکی ذرائع ابلاغ کو خرید رکھاہے اور مودی کے جس طرح سے چرچے میڈیا پر ہیں وہ خود اشتہار نظر آتے ہیں۔ ملکی سرمایہ داروں اور بیرون ہند سنگھ پریوار کے فینانسروں نے مودی کی پبلی سٹی، تشہیر اور لابنگ Lobbyingکیلئے امریکہ کی ایک یہودی مشاورتی فرم اے پی سی و رلڈ وائیڈ APCO Worldwide کی خدمات لاکھوں ڈالر کے عوض حاصل کی ہیں۔ اس فرم کی CEO سی ای او اور مؤسس مارگیری کراؤ س Margery Kraus نے بتایا کہ ممتاز سفارت کار اور ہند کے سابق سفیر برائے امریکہ للت مان سنگھ اور ہندوستان میں فرم کے ایم ڈی سوکنتی گھوش مودی کو وزیر اعظم بنانے کے لئے شب و روز مصروف ہیں یہ اس فرم کے حربوں اور پروپگنڈے ہی کا اثر ہے کہ یہ غلط تاثر پیدا ہورہا ہے کہ مودی کی کامیابی (اﷲ نہ کرے) کے مواقع زیادہ ہیں دوسری طرف مودی خود کو زیر اعظم سمنجھ رہے ہیں گجرات کی ترقی کے تارے میں ان کے جھوٹے دعووں کی وجہ سے لوگ ان کو ’’پھینکو‘‘ (دروغ گو) کہہ رہے ہیں۔ 2004ء میں واجپائی اور 2009ء میں اڈوانی وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے ۔ این ڈی اے میں کئی جماعتیں تھیں اس کے باوجود وہ دونوں وزیر اعظم نہ بن سکے تو اڈوانی اور واجپائی کے مقابلہ میں مودی کا کوئی مقام نہیں ہے۔ این ڈی اے بھی کمزور ہے صرف تین جماعتیں رہ گئی ہیں ان حالات مودی کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔

ملک کی یہ صورتحال افسوس ناک ہے کہ ملک کا وزیر اعظم بننے کا اہل امیدوار کوئی نہیں ہے گزشتہ چار پارلیمانی انتخابات میں یہ طئے رہتا تھا وزیر اعظم کانگریس کا ہوگا یا بی جے پی کا لیکن اس بار یہ بھی یقینی نہیں ہے کہ مودی اور راہول جیت سکیں گے۔ اہل افراد کی کمی یا ’’قحط الرجال‘‘ اس وجہ سے بھی ہے کہ ہر بڑی سیاسی جماعت میں آمریت یا موروثیت کا دخل ہے۔ جمہوریت میں خاندانوں کی اجارہ داری چل رہی ہے۔ مقابلہ بالکل نہیں ہے بی جے پی آر ایس ایس کا راج یا اس کی آمریت ہے۔ پنڈت نہرو کی اور اندرا گاندھی کی اولادیں۔ کانگریس کو کنٹرول کررہی ہیں۔ علاقائی جماعتوں میں بھی یہی رجحان ہے۔ یہ ساری باتیں نہ صرف ملک بلکہ جمہوریت کی دشمن ہیں۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 184845 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.