مودی کے حربے اور مسلمان

ہندوستان میں ٹوپی، داڑھی، برقع اور حجاب مسلمان مردوں اور عورتوں کی شناخت ہیں گوکہ مسلمان مردوں کی خاص تعداد نہ داڑھی رکھتی ہے اور نہ ٹوپی استعمال کرتی ہے یاد اڑھی ہے تو سر پر ٹوپی نہیں ٹوپی ہے تو داڑھی ندارد اسی طرح مسلمان خواتین کی اکثریت بے شک برقع اور حجاب استعمال کرتے ہے لیکن عورتوں اور لڑکیوں کی قابل لحاظ تعداد برقع و حجاب کے استعمال سے گریز کرتی ہے۔ مسلمانوں کی اس شناخت کو سیاسی جماعتیں سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کررہی ہیں جس سے بظاہر مسلمانوں سے قربت، اظہار یکجہتی اور گھل مل جانا ہے لیکن ان کے غلط طریقوں سے استعمال نے مسلمانوں اور اسلام کو مذاق بنادیا ہے۔

اب تو بات داڑھی، ٹوپی، حجاب اور برقع سے آگے بڑھ کر نماز، روزے اور حج تک آگئی ہے۔

مختلف ٹی وی چینلز نے خاص طور پر ای ٹی وی اردو نے ہندوستان کے مختلف مقامات سے عازمین حج کی روانگی وغیرہ اور عازمین سے انٹرویو اور بات چیت دکھائی گئی لیکن دیکھنے والے اس وقت حیرت، غم و غصہ کا شکار ہوئے جب بعض عازمین حج نے بڑی بے شری اور بے غیرتی کے ساتھ نریندر مودی کی مبالغہ آمیز تعریف و تحسین کے ساتھ دوران حج اور مقامات مقدسہ پر ان کی کامیابی کیلئے دعائیں کرنے کے زبردست عزم کااظہار کیا جارہا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ صرف اور صرف نریندر مودی کی کامیابی کی دعا کرنے کے لئے حج کا سفر کررہا ہے۔ نریندر مودی کیلئے دعا کرنے والے تین چار عازمین حج کو ٹی وی چینلز پر کئی بار دکھایا گیا۔

یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ نریندر مودی کی پبلی سٹی اور پروپگنڈہ کرنے والی ٹیم نے بہت ہی قابل اعتراض اور شرم ناک حرکت کی ہے کہ نریندر مودی کے لئے پروپگنڈہ کرنے والے اپنی مہم کو آگے بڑھانے یا پراثر بنانے کے لئے حج جیسے مقدس سفر پر جانے والے عازمین حج کو پتہ نہیں کن ہتھکنڈوں کے ذریعہ اس اس طرح استعمال کررہے ہیں۔

یہ بات تو طئے ہے کہ کوئی بھی عازم حج اس سفر کے آغاز کے مبارک موقع پر کسی بھی سیاسی جماعت قائد کیلئے دعا کرنے کا برملا اعلان نہیں کرسکتا ہے اگر کوئی ایسا اعلان کرتا ہے تو عام طور پر یہ مانا جائے گا کہ اس قسم کا اقدام وہ کسی دباؤ؍ لالچ یا خوف کے تحت کرسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات غور طلب ہے کہ مودی کے لوگوں نے جو بھی حربہ استعمال کیا ہے وہ بڑی عیاری سے کیا ہوگا کیونکہ نریندر مودی کے لئے پروپگنڈے، لابنگ اور عوامی روابط کا کام کرنے والی امریکہ کی یہودی فرم APCO World Wide (جو عالمی شہرت کی مالک ہے) وہ مودی کے لئے ایسا کوئی حربہ استعمال نہیں کرسکتی ہے جس پر گرفت کی جاسکے لیکن عالمی شہرت کی مالک فرم عازمین حج کو استعمال کرنے میں بظاہر دھوکا کھاگئی اور اس سے مودی کی مسخ شدہ شبیہ مزید بگڑتی نظر آرہی ہے۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہے جس کا ذکر آگے کیا جائے گا۔ کیونکہ کسی عازم حج کے بارے میں مسلمان ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات رکھنے والا غیر مسلم بھی یہ یقین نہیں کرسکتا ہے کہ مقدس سفر کے آغاز سے قبل کوئی اصلی اور حقیقی عازم حج مودی کی تعریف اور مودی کی کامیابی کے لئے دعا کرنے کی پستی میں خراب سے خراب مسلمان نہیں گرسکتا ہے تو کجا ایک عازم حج! مودی کے لئے طوطے کی طرح رٹ لگانے والے کے بارے میں یہ شبہ بے بنیاد نہ ہوگا کہ وہ عازم حج تو عازم حج درحقیقت مسلمان بھی نہیں ہے! ان تمام حقائق کے باوجود ایسے تماشے دکھانے کی ایک خاص وجہ ہے۔

یہ تو ہوسکتا ہے کہ ہندوستان میں کوئی عام مسلمان کوئی بڑا مولوی، تاجر یا صحافی یا کوئی اور مودی یا اس کے ایجنٹ کے ہاتھوں بک سکتا ہے لیکن عازمین حج سے ایسا قبیح فعل انجام دیا جانا ممکن نہیں ہے لیکن مودی کی تشہیر کرنے والوں نے یہ سب جانتے ہوئے بھی محض اس لئے کیا ہے کہ مودی مخالف غیر مسلموں میں یہ تاثر پیدا کیا جائے کہ مسلمان مودی کے 2002ء کے کالے کرتوت بھلاکر مودی کو معاف کرکے مودی کے ترقی و خوشحالی کے کاموں کی وجہ سے ان کو پسند کرنے لگے ہیں اور مودی کی کامیابی کے لئے دعائیں کررہے ہیں جب مودی کا نشانہ بننے والوں نے ہی اس کو معاف کرکے اس کی تائید و حمایت پر آمادہ ہی نہیں بلکہ دعا گو بھی ہیں تو ہم (غیر مسلموں) کو بھی مودی کو معاف کردینا چاہئے یہ ایک بڑا نفسیاتی حربہ ہے لیکن یہ خالی جائے گا اس ملک کے غیر مسلم مسلمانوں کے مزاج ہی نہیں ان کی روایات اور حج کے تقدس سے واقف ہیں وہ ان حربوں کا شکار نہیں ہوں گے وہ جانتے ہیں کہ مسلمان مودی کو معاف نہیں کرے گا۔

ایک طرف سنگھ پریوار کے پاس مسلمانوں کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے وہ مسلمانوں کو خصوصی مراعات اور رعایتیں تو دور کی بات ہے ان کا حق تک دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اگر مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے مثلاً دہشت گردی کے مفروضہ، من گھڑت اور غیر حقیقی الزامات لگاکر مسلمانوں کو نشانہ بنانے سے روکنے کے لئے وزارت داخلہ نے ہدایات جاری کیں تو بی جے پی پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ مسلم دشمنی میں مسلمانوں پر انسانیت سے بعید مظالم کرکے ملک کو بدنام کردیا گیا تو دوسری طرف مسلمانوں کے ووٹ بٹورنے کے لئے نہ جانے کس کس کو ٹوپیاں پہناکر حجاب اور برقعہ اوڑھاکر دھوکا دیا جارہا ہے کہ مسلمان بی جے پی کے ساتھ ہورہے ہیں کیاان واہیات ہتھکنڈوں سے مسلمان بی جے پی سے دھوکا کھاسکتے ہیں؟ اگر بی جے پی ایسا تصور کرتی ہے تو اس کو مایوسی ہوگی۔

خود مسلمانوں کو اپنے ان علماء ، مشائخین ، مفتیان سجادگان خطیب و امام اور ذاکر صاحبان کو اپنے آپ کو اپنے ضمیر کو بیچ کر بی جے پی کی تائید کرتے نظر آئیں تو ان کی اپیل آپ مسترد کردیں ان کا مشورہ قابل اعتنانہ سمجھیں چاہئے وہ کوئی بڑے امام ہوں یا سجادے اور دیوان ہوں کیونکہ ملت اسلامیہ کے دشمنوں کی حمایت کرنے والے اپنی ہی ملت کے دشمن میں 2004ء کے انتخابات میں واجپائی کی حمایت کے لئے بنائے گئی کمیٹی کے ممبران کاجو حشر ہوا وہ قارئین کو یاد ہوگا۔ اب اگر کوئی مودی حمایت کمیٹی بن جائے تو کمیٹی کے ہر ممبر کا خواہ وہ کوئی ہو مشورہ مسترد کرنا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ مودی کے حمایتوں کی مذمت کے علاوہ ان کو مذہبی مقامات سے وابستہ رہنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے خواہ امام ہوں، ذاکر ہوں، مفتی ہوں، درگاہ کے سجادے یا دیوان ہوں۔ مودی کا منصوبہ بلکہ آر ایس ایس کا منصوبہ یہی ہے کہ سارے ہندوستان کو گجرات بنادے یہ جانتے ہوئے بھی ان کی مدد کرنا اسلام دشمنی ہے۔

ہماری طرح کروڑوں نے وہ منظر نہیں بھولا ہے جب چند زرخریدمولویوں نے دوران ملاقات مودی کو ٹوپی پہنانے کی کوشش کی تھی اور مودی نے ٹوپی پہننے سے انکار کردیا تھا۔ آج وہی مودی ان مسلمان مردوں کو خاص طور پر مدعو کررہا ہے جو داڑھی رکھتے ہوں اور ٹوپی پہنتے ہوں۔ لالچی، سادہ لوح اور قابل فروخت داڑھی ٹوپی والے مسلمان مردوں اور برقع والی خواتین کی تعداد اتنی نہیں ہوگی جتنی ٹوپی اور برقع پہن کر مسلمانوں کا بہروپ بھرنے والے بی جے پی کے غیر مسلم کارکنوں کی جئے پور اور بھوپال کی ریالیز میں نظر آتی ٹوپی داڑھی اور برقعوں سے مودی دنیا کو خاص طور پر مسلمانوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔ اب یہ مسلمان عوام، قائدین، دانشوروں ، علما ء اور صحافیوں کاکام ہے کہ وہ مودی اور ان کے کارکنوں کے پرفریب رویہ اور عیاریوں سے صرف مسلمانوں ہی کو نہیں ملک کے عوام کو آگاہ کریں۔

مسلمانوں کے ساتھ حکومت کی کسی نام نہاد کرم فرمائی پر چراغ پا ہونے والے مودی سے کبھی مسلمانوں پر ہونے والی لاتعداد زیادتیوں کا ذکر کسی نے کبھی نہیں سنا؟ اس کے باوجود صرف چند زرخرید، عہد حاضر کے میر جعفر و میر صادق اور حبیب العیدروس بن کر کوئی بڑا عالم کسی مشہور مسجد کا امام، کسی بڑی درگاہ کا دیوان، کسی مولوی، ذاکر، صحافی، ادیب یا شاعر مودی کے حق میں اپیل کرتا نظر آئے تو اس سے گجرات 2002ء یا اس کے بعد کے کالے کرتوتوں کے بارے میں سوال نہ کریں کیونکہ وہ ان کو بھلانے کا مشورہ دیں گے اس لئے ان ضمیر فروشوں سے یہ پوچھیں کہ مودی نے گزشتہ چند سال میں مسلمانوں کی خدمت تو دور رہی مسلمانوں کے حق میں کبھی ، کہیں ، کسی موقع پر کلمہ خیر بھی نکالا ہے؟ ان سے دریافت کریں کہ پارلیمانی انتخابا ت میں اگر بی جے پی 300 نشستوں پر مقابلہ کرتی ہے تو کیا 30 نہ سہی 15 مسلمانوں کو بھی ٹکٹ دے گی؟ یو پی میں جہاں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی ہے وہاں مسلمانوں کو رجھانے کے لئے امت شاہ کو بجھوایا گیا ہے یا مظفر نگر جیسے دنگے کروانے بجھوایا گیا ہے؟ مسلمانوں سے مودی کی ہمدردی مودی کی فطرت اور مزاج میں نہیں ہے۔

مودی کے خمیر میں مسلم دشمنی ہے تو کیا ٹوپیاں پہننے والے داڑھیاں رکھنے اور برقع پوش خواتین اپنے ہی دشمن ہیں جو مودی کو ووٹ دیں؟
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 186745 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.