قومی یکجہتی اور اقبال

 شاعر مشرق ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبال(1877-1938 ) اردو کے مشہور مفکر و فلسفی شاعر گذرے ہیں۔ انہوں نے اپنی اصلاحی ‘مقصدی اور پیامی شاعری کے ذریعے قومی یکجہتی‘وطن سے محبت اور حرکت و عمل کے پیغام کو عام کیا۔ اور لوگوں میں اسلامی فکر پروان چڑھانے کے کوشش کی۔ اقبال نے اپنی شہرہ آفاق شاعری کے ذریعے تصور عشق‘تصور خودی‘مرد مومن‘کامل انسان‘عورت کا مقام اور تعلیم کی روح سے متعلق نظریے پیش کئے۔اس طرح وہ اردو کے عظیم مفکر شاعر قرار پائے۔ اقبال کی شاعری کا ایک اہم پہلو قومی یکجہتی کو تصور ہے جو اُن کی شاعری میں اہمیت کا حامل ہے۔اقبال نے ایک ایسے دور میں شاعری کی تھی جب کہ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف گاندھی جی اور دیگر قومی رہنماﺅں کی قیادت میں جدو جہد آزادی کی تحریک چلائی جارہی تھی۔ اس تحریک میں اثر پیدا کرنے کے لئے اس دور کے شعرا اور ادیبوں نے بھی اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں میں آزادی کے حصول کے جذبے کو پروان چڑھایا تھا۔انگریزوں نے ہندوستان میں پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی ایسے ماحول میں ہندوستان میں قومی یکجہتی کافروغ وقت کا اہم تقاضہ تھا اور اس تقاضے کو اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے بہت حد تک پورا کیا۔

اقبال کی شاعری میں موجود قومی یکجہتی کے عناصر پر نظر ڈالنے سے قبل آئیے دیکھیں کہ قومی یکجہتی کی تعریف کیا ہے۔اور ہندوستان میں قومی یکجہتی کیوں ضروری ہے۔ ہندوستان کثرت میں وحدت والا ایک عظیم ملک ہے۔ یہاں کے پھیلے ہوئے جغرافیائی عوامل کے سبب اسے بر صغیر کہتے ہیں۔ جب کثرت میں وحدت ہوجاتی ہے تو وہیں سے قومی یکجہتی کاعمل شروع ہوجاتا ہے۔ قومی یکجہتی کی اگر تعریف کی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیںکہ”جب کسی ملک کے جغرافیائی حدود میں رہنے والے لوگ انفرادی طور پر علٰحیدہ شناخت رکھنے کے باوجود اجتماعی امور میں ہم خیال ہوجائیں اور آپسی اتحاد و اتفاق سے مل کر رہنے کا عہد کریں اور اس کا عملی نمونہ پیش کریں تو یہ قومی یکجہتی ہوگی۔ ہندوستان میں ۱۶۹۱ءمیں قومی یکجہتی سمینار ہوا تھا۔ اس سمینار میں قومی یکجہتی کی تعریف اس طرح کی گئی۔

” قومی یکجہتی ایک ایسا نفسیاتی عمل ہے جس سے اتفاق اور جذباتی ہم آہنگی کے خیالات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور ملک سے وفاداری اور مشترکہ شہریت کا عمل پیدا ہوتا ہے“۔
( بحوالہ مضمون۔قومی یکجہتی اور اردو شاعری ازڈاکٹر بانو سرتاج۔مشمولہ کتاب۔اردو شاعری اور قومی یکجہتی۔از ڈاکٹر بانو سرتاج۔ص۔۲۲۱۔الہ آباد۔ ۴۰۰۲ء)

کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی اور بقاءکے لئے قومی یکجہتی کا ہونا ضروری ہے۔ اگر لوگوں میں یکجہتی نہ ہو تو ملک کمزور ہو سکتا ہے۔ قومی یکجہتی کے ضمن میں جو عناصر اتحاد کو توڑنے کا سبب بنتے ہیں۔ ان میں فرقہ واریت ‘ذات پات کی تفریق‘علاقائی اور لسانی اختلافات اہم ہیں۔ ہندوستان میں قومی یکجہتی کو پروان چڑھانے کے لئے ایک طاقتور ذریعے Mediumکی ضرورت تھی۔ اور یہ کام اردو زبان نے کیا۔ کیونکہ اردو بہ حیثیت زبان ملک کے طول و عرض میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ ہمارے شعرا اور ادیبوں اور خود حکو مت اور عوام نے اردو کو قومی یکجہتی کو پروان چڑھانے میں استعمال کیا۔اردو ایک ہندوستانی زبان ہے۔ اور قومی یکجہتی کی علمبردار زبان ہے۔

اقبال کی شاعری میں قومی یکجہتی کی اعلی مثال ان کی نظم” ترانہءہندی“ہے۔ کسی بھی ملک کو اپنی قومی نشانی کے لئے ایک ایسے ترانے اور نغمے کی ضرورت ہوتی ہے جو سارے ملک کے لوگوں کو جذباتی طور پر ایک وحدت میں پرو دے۔ جدجہد آذادی کی تحریک میں جہاں کہیں سیاسی جلسے ہوتے تھے وہاں قومی ترانے کے طور اقبال کا یہ ترانہ گایا جاتا تھا۔ اور آزادی کے بعد بھی ہندوستان میں قومی اتحاد کے اظہار کے لئے اور وطن پرستی کے جذبے کو اُبھارنے کے لئے اقبال کے اسی ترانہ ہندی کو گایا جاتا ہے۔ترانہ کے آغاز میں ہی اقبال نے یہ کہہ کر کہ
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

کثرت میں وحدت اور نیرنگی میں یک رنگی والے اس عظیم ملک کی تعریف کردی۔ اور اسے گلستاں کہتے ہوئے دنیا کے تمام ممالک سے بہتر قرار دیا۔ جب لوگوں کو اپنا ملک اچھا لگے تو ہو اس کی حفاظت اور اس کی ترقی کے لئے آگے آئیں گے۔ترانے میں ہندوستان کی عظمت بیان کرنے کے بعد اقبال اس ملک کے لوگوں کو مذہب کے نام پر اختلاف کرنے سے روکتے ہوئے کہتے ہیں۔
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا

اقبال کی شاعری میں اگر قومی یکجہتی کا نچوڑ دیکھنا ہو تو وہ اس شعر میں مل جاتا ہے۔ یہ شعر ان کے کلام میں قومی یکجہتی کا نمائندہ شعر ہے۔انگریزوں نے ہندوستا ن میں مذہب کے نام پر ہندوﺅں اور مسلمانوں میں اختلاف پیدا کرنے کی جو سازش کی تھی۔ اسے ہمیشہ کے لئے دور کرنے کے لئے اقبال کہتے ہیں کہ تمام مذاہب ایک دوسرے کا احترام کرنا سکھاتے ہیں۔ ہم ہندو یا مسلمان نہیں بلکہ وطن عزیز ہندوستان کے شہری ہیں۔ اقبال نے یہ کہتے ہوئے کہ ہم ہندی ہیںاور ہمارا وطن ہندوستا ن ہے ان تمام فرقہ پرستوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے جو اس ملک میں مسلمانوں کی وطن پرستی کے جذبے پر شک کرتے ہیں۔ جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک کو جب بھی ضرورت پڑی مسلمانوں نے اپنا خون بہاکر اور اپنی جانیں گنوا کر اس کی حفاظت کی ہے۔ قوم پرست اور وطن پرست اقبال جذبہ حب الوطنی سے سرشار نظم” ہندوستانی بچوں کا قومی گیت“ پیش کرتے ہیں۔نظم کے پہلے بند میں اقبال کہتے ہیں۔
چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے

اس نظم میں بھی اقبال نے ہندوستان کی تعریف کرتے ہوئے لوگوں میں اپنے وطن سے محبت کے جذبے کو پروان چڑھایا۔ترانہ ہندی میں اقبال نے ہندوستان کو سارے جہاں سے اچھا قرار دیا تھا۔ اور اس نظم میں ہندوستان سارے جہاں سے کیو ں اچھا ہے اس کی مثالیں دی گئی ہیں۔یونان ترک میرِ عرب کا ذکر کرتے ہوئے اقبال نے ہندوستان کی تعریف عالمی سطح پر کردی۔ یہ نظم بچوں کے لئے لکھی گئی۔ اقبال کو یہ احساس تھا کہ بچوں میں ان کے سیکھنے کے زمانے میں ہی وطن سے محبت کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے۔ جس سے ایک وطن کی ترقی کے لئے تیا ر رہنے والا ایک بہتر معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔اقبال کی وطن سے محبت پر مبنی ایک اور نظم ”نیا شوالہ“ ہے۔ اس نظم میں اقبال کی وطن پرستی اپنی معراج کو جا پہونچتی ہے۔ اور وہ برہمن اور واعظ سے تنگ آکر وطن کو ہی عباد ت خانہ قرار دیتے ہیں۔چنانچہ اقبال کہتے ہیں
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کو مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے

انسان وطن کی ہر چیز سے محبت کرنے لگے تو وہ یہا ں رہنے والے لوگوں سے بھی بلا لحاظ مذہب و ملت ذات پات رنگ و نسل محبت کرے گا۔ لوگوں میں اختلافات ختم ہوں گے۔ اور ہندو مسلم سے اوپر اُٹھ کر لوگ انسانیت کے مذہب کو اختیار کریں گے۔ لوگوں میں محبت کے جذبے کو پروان چڑھانے پر زور دیتے ہوئے اقبال نظم کے آخر میں کہتے ہیں۔
آغیرت کے پردے اک بار پھر اُٹھادیں
بچھڑوں کو پھر ملادیں نقش دوئی مٹادیں
سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی
آ اک نیا شوالہ اس دیس میں بسا دیں
دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ
دامانِ آسماں سے اس کا کلس ملادیں
ہر صبح اُٹھ کے گائیں منتر وہ میٹھے میٹھے
سارے پجاریوں کو مے پیت کی پلادیں
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے

اس نظم میں اقبال نے ہندی الفاظ استعمال کرتے ہوئے بھی زبان کے معاملے میں قومی یکجہتی کا ثبوت دیا ہے۔ اقبال نے منتر اور پجاری جیسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے قومی یکجہتی کے اپنے پیغام کو پُر اثر بنایا۔اقبال نے اپنے کلا م میں گوتم کو بھی یاد کیا اور رام کو بھی۔ وہ رام کو امام ہند قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
ہے رام کے وجود پہ ہندوستان کو ناز
اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند

اقبال کو ہندوستان میں سر تیج بہادر ‘رابندر ناتھ ٹیگور‘مہاتما گاندھی ‘جواہر لال نہرو ‘سبھاش چندر بوس اور دوسرے مفکرین نے قدر کی نگار سے دیکھا۔

اقبال کے جذبہءقومی یکجہتی کو خراج پیش کرتے ہوئے ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اور اردو کے ایک اچھے انشا پرداز اندر کمار گجرال لکھتے ہیں:
اقبال ایک بہت بڑے انسان دوست‘محب وطن اور وسیع المشرب مفکر تھے۔ ان پر تنگ نظری کا الزام تراشنا یا تو ان کے کلام سے مطلق ناآشنائی کا نتیجہ ہے۔ یا ایسا الزام دینے والوں کی اپنی تنگ نظری کی دلیل ۔ اقبال نے ہندوستان کی عظیم فکری میراث سے فیضان حاصل کیا۔ اور اپنی تخلیقی اور فن کارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس میں اہم اضافے کئے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ ہندوستانی تمدن اور شعور کو ایک مسلسل اور تغیر پذیر ارتقائی عمل سمجھتے تھے۔اسے جمود اور کٹر پن کا اسیر کردینا انہیں قبول نہ تھا۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا حب وطن بھی کوئی الگ تھلگ اور محدود چیز نہ تھا۔بلکہ پورے عالم انسانیت سے بھر پور محبت کے جذبے کاہی ایک حصہ تھا۔ وہ پوری دنیا کو عزت وآبرو آزادی و سر بلندی اور ترقی کا گہوارہ بنانا چاہتے تھے۔ اور یہی ان کے نزدیک فطرت کا منشا بھی تھا“۔
(اندر کمار گجرال۔مضمون افکار اقبال۔مشمولہ ہما اردو ڈائجسٹ اکتوبر ۶۷۹۱ ءص ۔۸۲۔۷۲)

آزادی کے ایک عرصے بعد آج پھر اقبال کو ہندوستانی شاعر مانا جانے لگا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان اور عالمی سطح پر اقبال صدی تقاریب منائی گئیں۔ اور پیام اقبال کو عام کیا گیا۔ اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اقبال کی شاعری سے فیضیاب ہونا آنے والی قوموں کی ذمہ داری ہے۔ اقبال کا نظریہ قومی یکجہتی واضح ہے۔ کسی شاعر کا ایک گیت ہی ساری قوم میں اتحاد پیدا کرسکتا ہے۔ اور وہ گیت اقبال کا ترانہ ہندی ہے۔ اگر اقبال کے نظریہ قومی یکجہتی سے کام نہیں لیا گیا۔ اور لوگ مذہب‘زبان‘تہذیب اور کلچر کے نام پر آپس میں لڑتے رہیں۔ تو ان کی ترقی ممکن نہیں اور اقبال ہی کی زبان میں کہنا پڑے گا۔
نا سمجھو گے تو مٹ جاﺅ گے ہندوستان والو
تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں
٭٭٭٭٭
 

drmohdabrarulbaqui
About the Author: drmohdabrarulbaqui Read More Articles by drmohdabrarulbaqui: 3 Articles with 59365 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.