اُردو کی نثری اصناف میں ناول‘افسانہ‘ڈرامہ اور انشائیہ کی طرح خاکہ نگاری
بھی ادب کی ایک جداگانہ اور منفرد صنف ہے۔خاکہ کے لغوی معنی میں” ڈھانچہ
بنانا یا مسودہ تیار کرنا ہے“ ۔ ادبی نقطہ نظر سے خاکہ” شخصیت کی ہو
بہوعکاسی کا نام ہے ۔ نہ صرف اس میں ظاہری تصویر کشی کی جاتی ہے بلکہ باطن
کا بھی احاطہ کیا جاتا ہے ۔خاکہ کے لئے انگریزی اصطلاح(Sketch)رائج ہے۔فن
مصوری میں اس سے ملتی جلتی ایک اصطلاح(Portraite)بھی ہے۔ جس میں کسی شخص کی
ہو بہو تصویر بنائی جاتی ہے۔ڈاکٹر صابرہ سعید نے اپنی کتاب ”اُردو میں خاکہ
نگاری “ میں مختلف ماہرین کے حوالے سے خاکے کی تعریف کے تعین کی کوشش کی
ہے۔
” نثار احمد فاروقی کے بموجب” خاکہ کسی شخصیت کا معروضی مطالعہ ہے“۔آمنہ
صدیقی کہتی ہیں کہ” سوانح نگاری کی بہت سی صورتیں ہیں۔ان میں سے ایک شخصی
خاکہ ہے۔ یہ در اصل مضمون نگاری کی ایک قسم ہے۔ جس میں کسی شخصیت کے ان
نقوش کو اجاگر کیا جاتا ہے جن کے امتزاج سے کسی کردار کی تشکیل ہوتی ہے“۔
محمد حسین لکھتے ہیں”نوک قلم کی تصویر کشی خاکہ نگاری ہے۔“شمیم احمد کرہانی
لکھتے ہیں کہ” خاکہ نگاری ادب کی ایک صنف ہے جس میں شخصیتوں کی تصویریں اس
طرح براہ راست کھینچی جاتی ہیں کہ ان کے ظاہر اور باطن دونوں قاری کے ذہن
نشین ہوجاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پڑھنے والے نے نہ صرف قلمی
چہرہ دیکھا ہے بلکہ خود شخصیت کو دیکھا بھالا ہو۔“
( بہ حوالہ ۔اردو میں خاکہ نگاری۔صابرہ سعید۔ ص۲۶۔۴۶)
خاکہ نگاری کی صحیح تعریف کے تعین میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بقول محمد
حسین آزاد :
”خاکہ ایک ایسی تصویر ہے جو کسی بت تراش یا مصور یا فوٹوگرافر کا عمل نہیں
اس تصویر کا خالق قلم کار ہوتا ہے ۔ خاکہ کسی فرد واحد کی گم سم تصویر نہیں
۔ یہ ہنستی بولتی تصویر ہے جو ہمارے احساسات کوبر انگیختہ کرنے کی قوت
رکھتی ہے ۔
( بہ حوالہ ۔صابرہ سعید ‘ اُردو میں خاکہ نگاری ۳۶)
رشید احمد صدیقی کے قول کے مطابق :
”خاکہ نگاری کی بڑی اور اولین شرط میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ معمولی کو غیر
معمولی بنادے بڑے کو کتنا بھی بڑا دکھانا آسان ہوگا بہ نسبت اس کے کہ چھوٹے
کو بڑا دکھایا جائے فن اور فن کار کی یہ معراج ہوگی ‘
(برائے چراغ حصہ دوم سید ابوالحسن علی ندوی ۵۸۱)
ان تعریفات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ خاکہ نگاری ایک ایسی صنف ہے
جس میں کسی ایک شخص کے حقیقی خدوخال قاری کے سامنے آجائیں ۔ خاکہ نگاری میں
ایک جیتی جاگتی حقیقی شخصیت کی دلکش اور دلچسپ پیرائے میں تصویر کشی کا نام
ہے ۔ خاکہ نگار واقعات ومشاہدات کے ساتھ ساتھ اپنے تاثرات وقیاسات کو بھی
شامل کرتا ہے ۔ ایک کامیاب خاکہ نگار کی نگاہ دقیق اس مقام کو پالیتی ہے جس
مقام تک عام خاکہ نویسوں کی نگاہ نہیں پہنچتی ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایک
اچھا خاکہ دریافت ہوتا ہے ۔ خاکہ نگاری کسی شخصیت کی بھر پور نمائندگی او
راس کو اس کے اصلی رنگ میں دیکھنے کی کامیاب کوشش ہے ۔
خاکہ نگاری کی روایت انگریزی سے اُردو میں آئی ہے ۔ انگریزی میں ملٹن مرے
لٹن اسٹریچی اور انتھونی شیلی کوپر خاکہ نگار کی حیثیت سے بہت شہرت رکھتے
ہیں ۔اُردو میں خاکہ نگاری کی تاریخ بہت قدیم نہیں ہے ۔صحیح معنوں میں اس
کا آغاز بیسویں صدی میں ہوا ۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ جس طرح
ناول اور افسانے نے مختصرافسا نے کا روپ اختیار کرلیا اسی طرح طویل سوانح
نگاری نے خاکہ نگاری کا لبادہ پہن لیا ۔ اُردو میں خاکہ نگاری کا سرمایہ
اپنی کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے قابل لحاظ ہے ۔صنف خاکہ نگاری ادب کی
جدید صنفوں میں شمار کی جاتی ہے ۔ اُردو میں خاکہ نگاری کے ابتدائی نقوش
محمد حسین آزاد کی شاہکار تصنیف ”آب حیات“ میں ملتے ہیں ۔ آب حیات کے شخصی
خاکوں کے تعلق سے صابرہ سعید ر قمطراز ہیں ۔
شخصی خاکہ کے لحاظ سے آب حیات کو دیکھیں تو اس میں میر‘انشا‘ مصحفی ‘ذوق
اور غالب کے کرداروں میں جا بجا خاکے کی جھلکیاں ملتی ہیں خصوصیت سے ذوق پر
ان کا مضمون شخصی خاکے کے بہت قریب ہے “
(اُردو میں خاکہ نگاری صابرہ سعید ۔ص۔۶۵۱)
نثار احمد فاروقی بھی اس خیال کے موید نظر آتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں ۔
”خاکوں کی باضابطہ ابتداءدراصل محمد حسین آزاد سے ہوتی ہے اور شعراءکے
بہترین قلمی عکس سب سے پہلے ان کی شہرہ آفاق تصنیف ”آب حیا ت“ ہی میں ملتے
ہیں ( دیدودریافت ‘ نثار احمد فاروقی ص ۔ ۵۲ )
”آب حیات“ میں آزاد نے خاکہ لکھنے کی پہلی بار شعوری کو شش کی ہے ۔ کتاب کے
دیباچے میں اس بات کا اظہار یوں کیا ہے ” خیالات مذکورہ بالا نے مجھ پر
واجب کیا کہ جو حالات ان بزرگوں کے معلوم ہیں یا مختلف تذکروں میں متفرق
مذکورہ ہیں انھیں جمع کرکے ایک جگہ لکھوں اور جہاں تک ممکن ہو اس طرح لکھوں
کہ ان کی زندگی کی بولتی چالتی ‘ پھرتی چلتی تصویر یں سامنے آن کھڑی ہوں “
(اُردو نثر کا فنی ارتقاءڈاکٹر فرمان فتح پوری ص ۳۶۳)
”آب حیات” میں ذوق کا خاکہ اہمیت کا حامل ہے ۔ ذوق کی تصویر ملاحظہ ہو:
”رنگ سانولا چیچک کے داغ بہت تھے کہتے تھے نو دفعہ چچک نکلی تھی ‘ مگر کالی
رنگت اور وہ داغ کچھ ایسے مناسب واقع ہوئے تھے کہ چمکتے تھے اور بھلے معلوم
ہوتے تھے ‘ آنکھیں روشن او رنگاہیں تیز تھیں‘ چہرے کا نقشہ کھڑا اور بدن
میں پھرتی پائی جاتی تھی‘ بہت تیز چلتے تھے او راکثر سفید کپڑے پہنتے تھے
وہ ان کو نہایت زیب دیتے تھے ۔ آواز بلند جوش آئیند جب مشاعرہ پڑھتے تھے تو
محفل گونج اٹھتی تھی ان کے پڑھنے کی طرز ان کے کلام کی تاثیر کو زیادہ پر
درد بنادیتی تھی اپنی غزل آپ پڑھتے تھے کسی اور سے نہ پڑھواتے تھے (محمد
حسین آزاد ‘ آب حیات ۔ص ۶۷۴)
محمد حسین آزاد نے شخصیت کی عکاسی کرتے وقت فقروں کے ایجاز و اختصار ‘ دلکش
اسلوب بیان اور موزوںاور بر محل الفاظ سے ایک سماں باندھ دیا ہے ۔ انہوں نے
سوانحی رجحان اپنایا ہے لیکن اس کے باوجود آب حیات کو اُردو خاکہ نگاری میں
اولیت کا شرف حاصل ہے ۔
1927ءمیں مرزا فرحت اللہ بیگ کی تصنیف ”نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ
میر ی زبانی“ منظر عام پر آئی فرحت اللہ بیگ نے اپنے استاد کے حالات
وواقعات کو یکجا کیا اور اس دوران انہوں نے جو انداز اپنایا وہ خاکے کا
تھا۔ وہ لکھتے ہیں ۔
”جہاں مولوی صاحب کی خوبیاں دکھاؤں گا وہاں ان کی کمزوریوں کو بھی ظاہر
کروں گا تاکہ مرحوم کی اصلی جیتی جاگتی تصویر کھینچ جائے اور یہ چند صفحات
ایسی سوانح عمری میں نہ بن جائیں جو کسی کے خوش کرنے یا جلانے کے لیے لکھی
گئی ہو (نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی صفحہ ۴)
اس تصنیف کے بعد فرحت اللہ بیگ کو ایک کو کامیاب اولین خاکہ نگار تسلیم کیا
گیا ۔ مرزا نے نذیر احمد کی پوری تصویر الفاظ کے ذریعہ اتاردی ہے ۔ مولوی
صاحب کی جسمانی‘ ذہنی اور اخلاقی تصویر کشی کامیاب اندازسے کی ہے ۔ ان کی
شخصیت کی خوبیوں او رخامیوں کو بھی اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔”دہلی
کا یاد گار مشاعرہ “ بھی خاکوں کے باب میں مرزا فرحت اللہ کی یادگار تصنیف
ہے ۔ انہوں نے ایک مشاعرے کے شعراءکا کامیاب خاکہ کھینچا ہے ۔مومن خاںمومن
کے شعر پڑھنے کی عادت اور انداز پر گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں
۔
”انہوں نے شمع کو ذرا آگے رکھا ‘ ذرا سنبھل کر بیٹھے باتوں باتوں میں
انگلیوں سے کنگھی کی ٹوپی کو کچھ تر چھا کیا ‘ آستینوں کی چنٹ کو صاف کیا
او ربڑی درد انگیز آواز میں دلپزیر ترنم کے ساتھ غزل پڑھی شاعری کاجادو تھا
تمام لوگ اک عالم محویت میں بیٹھے تھے وہ خو د بھی اپنے کلام کا مزہ لے رہے
تھے جس شعر میں ان کو زیادہ لطف آتا تھا اس کو پڑھتے وقت ان کی انگلیاں
زیادہ تیزی سے بالوں میں چلنے لگتی تھیں۔ بہت خوشی ہو تو زلفوں کو انگلیوں
میں بل دے کر مروڑنے لگتے ۔ کسی نے تعریف کی تو گردن جھکاکر ذرامسکرادیتے ‘
پڑھنے کا طرز بھی سب سے جدا تھا ہاتھ بہت کم ہلاتے تھے اور ہلاتے بھی کیسے
ہاتھوں کو بالوں سے فرصت کب تھی ہاں آواز کے زیرو بم اور آنکھوں کے اشاروں
سے جادو کرجاتے تھے غزل ختم ہوئی تو تمام شعراءنے تعریف کی مسکرائے اور
کہاں آپ لوگوں کی یہی عنایت ہوتو ہماری ساری محنت کا صلہ ہے “۔ (مرزا فرحت
اللہ بیگ ‘ دہلی کا آخری مشاعرہ۔ ص۔ ۴۷۱)
مرزا فرحت اللہ بیگ کے بعد اُردو خاکہ نگاری کے فن کو آگے بڑھانے والوں میں
رشید احمد صدیقی ‘ مولوی عبدالحق ‘ خواجہ حسن نظامی ‘ آغا حیدر حسن شاہد
احمد دہلوی ‘ اشرف سبوحی‘ سردار دیوان سنگھ مفتون ‘ جوش ملیح آبادی‘ خواجہ
محمد شفیع ‘مرزا محمد بیگ ‘ مالک رام ‘ منٹو ‘ عصمت چغتائی ‘ شوکت تھانوی ‘
محمد طفیل ‘ سید اعجاز حسین کنھیا لال کپور ‘ شورش کا شمیری‘ فرحت کا کوری
‘ فکر تونسوی ‘بیگم انیس قدوائی ‘ قرہ العین حیدر ‘ انتظار حسین ‘ مجتبیٰ
حسین ‘ سید ضمیر حسن ‘ چراغ حسن حسرت‘ خواجہ غلا م السیدین ‘ سید صباح
الدین ‘ بیگم صالحہ عابد حسین ‘ مجید لاہوری ‘ علی جواد زیدی ‘ بیدی کرشن
چندر ‘ ظ۔ انصاری ‘ بلونت سنگھ وغیرہ اہم ہیں ۔ان سبھی خاکہ نگاروں پر
تبصرہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں ہے چند اہم خاکہ نگاروں کا نہایت
اختصار سے تبصرہ کیا جاتا ہے جنہوں نے اس فن کو بام عروج پر پہنچایا ۔
مولوی عبدالحق نے اُردو خاکہ نگاری کے فن کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی جانی
پہچانی شخصیتوں کے حالات اور کارنامے لکھے ۔ مولوی عبدالحق نے اپنی تصنیف
”چند ہم عصر“میں تقریباً بیس ہم عصر احباب کو منتخب کرکے ان کی سیرت کی
دھوپ چھاو ¿ں کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس سلسلہ میں انہوں نے غیر
جانبداری کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے ۔وہ بلا مرعوب بڑی سے بڑی شخصیت کی خوبی
اور خامی کو بلا تکلف پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ۔ مولانا محمد علی جوہر
اپنے وقت کے بہت بڑے سیاستداں ‘ تحریک خلافت کے روح رواں ‘ بلند پایہ
انگریزی اور اُردو زبان کے صحافی اور شعلہ بیاں خطیب ومقرر تھے ‘ لیکن جب
ان کی شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں تو ان کی سیرت کے ہر پہلو کو اس طرح واضح
کرتے ہیں ۔
”مولوی محمد علی مرحوم عجیب وغریب شخصیت لئے ہوئے ہیںوہ مختلف متضاد اور
غیر معمولی اوصاف کا مجموعہ تھے ۔ اگرانھیں ایک آتش فشاں گلیشیر سے تشبیہہ
دی جائے تو کچھ زیادہ مبالغہ نہ ہوگا ۔ ان دونوں میں عظمت وشان ہے ۔لیکن
دونوں میں خطرہ و تباہی بھی موجود ہے “وہ آزادی کا دل دادہ ا ورجبرو
استبداد کا پکا دشمن تھا ۔ اگر اس کے ہاتھ میں کبھی اقتدار آتا تو ہ بہت
بڑا جابر ہوتا وہ محبت و مروت کا پُتلا تھا اور دوستوں پر جان نثار کرنے کے
لیئے تیار رہتا تھا لیکن بعض اوقات ذراسی بات پر اس قدر آگ بگولا ہوجاتا
تھاکہ دوستی اور محبت طاق پر دھری رہ جاتی تھی ۔دوست بھی اس کے جاں نثار
اور فدائی تھے لیکن اس طرح بچتے تھے جیسے آتش پرست آگ سے بچتا ہے ۔ (چند ہم
عصر۔ ص ۲۵۱ ۔۳۵۱)
اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولوی عبدالحق کی خاکہ نگاری میں غیر
جانبداری کا پہلو نمایاں ہے ۔مولوی عبدالحق نے محسن الملک ‘ حالی ‘ راس
مسعود‘ سر سیداحمد خاں جیسی شخصیات پر خاکے لکھ کر اس فن کو آگے بڑھایا
۔مولوی عبدالحق کا ایک خاکہ” نام دیو مالی “ بہت مشہور ہوا ۔ جس میں انہوں
نے مشہور شخصیات سے ہٹ کر ایک باغ کے مالی کو خاکے کا موضوع بنایا۔ اور اس
کے ذریعے یہ واضح کردیا کہ خاکہ نگاری کے مو ضوعات میں صرف خاص شخصیات ہی
نہیں ہوتیں بلکہ سماج کا ایک عام انسان بھی کسی خاکے کا موضوع بن سکتا ہے۔
خاکہ نگاری کے فن کو عروج پر پہنچانے والوں میں رشید احمد صدیقی کا نام سب
سے نمایاں نظر آتا ہے ۔ کیوں کہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس فن کو
باقاعدگی سے اپنایا اور اس کو مقبول عام صنف بنادیا ۔ اور اس فن کو اتنی
بلندی پر پہنچادیا کہ ادب شناس اس کی جانب متوجہ ہوئے ‘ رشید احمد صدیقی کے
خاکوں کی تین کتابیں گنج ہائے گرانمایہ (1937)ہم نفسان رفتہ (1966)ذاکر
صاحب (1962)اُردو خاکہ نگاری میں نہایت اہمیت کی حامل ہیں ۔ گنج ہا ئے گرا
نمایہ کو اُردو خاکہ نگاری میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔ جس میں مشاہیر
کی شخصیت ‘سیرت وکردار ‘ طبعیت ومزاج اور زندگی کے ہر گوشے کو الفاظ کے
پیکر میں سموکر زندہ جاوید بنادیا گیاہے ۔رشید احمد صدیقی شخصیت کے جس رخ
کا بھی انتخاب کرتے ہیں اسے مثالی بنادیتے ہیں ۔ اس پر طرہ یہ کہ اپنے
منفرد اور دلکش اسلوب بیان سے اس میں چار چاند لگادیتے ہیں ۔ مولانا محمد
علی جوہر کی تقریر وتحریر کی خوبیوں پراظہار بیان کے بجائے خود ایک اعلیٰ
ادب کا نمونہ ہے رشید صاحب لکھتے ہیں ۔
” کس بلا کے بولنے اور لکھنے والے تھے بولتے تومعلوم ہوتا بوالہول کی آواز
اہرام مصر سے ٹکرارہی ہے لکھتے تو معلوم ہوتا کرپ کے کارخانے میں توپیس ڈھل
رہی ہیں یا پھرشاہجہاں کے ذہن میں تاج کا نقشہ مرتب ہورہا ہے میں نے ان کو
اسٹیج پر آتے اور بولتے ہوئے سنا ہے اور محمد علی کو داد دینے سے پہلے انیس
کوداددی ہے “ضیغم ڈکارتا ہوا نکلا کچھار سے !اسٹیج پر محمد علی جس طرح
جھومتے بل کھاتے پہنچتے ‘ جس کڑک تڑک غریواور غلبہ سے بولتے وہ بہتوں نے
دیکھا ہوگا وہ بولنے میں تلوار اور گرز دونوں سے کام لیتے وہ حربے کا جواب
صرف اپنی تقریر سے دے سکتے تھے“۔ ( گنج ہائے گرانمایہ ص ۱۶)
رشید احمد صدیقی خاکہ لکھتے وقت شخصیت کے ہر دو پہلووں خوبیوں اور خامیوں
کو واضح کرتے ہیں۔ محمد علی جوہر کی جہاں خوبی اجاگر کی وہی خامی بھی ذکر
کی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
”محمد علی میں کمزوریاں بھی تھیں‘ لیکن ان کی کمزوریاں ایک شعرکی کمزوریاں
تھیں جن سے شعرکے لطف وبے ساختگی میں کوئی فرق نہیں آتا“ (ایضاًص ۵)
عصمت چغتائی اردو کی مشہور ناول نگار ہونے کے علاوہ ایک اچھی خاکہ نگار بھی
تھیں۔ ان کا لکھا ہوا خاکہ ”دوزخی “ بہت مشہور ہوا ۔ دوزخی ان کے بھائی
عظیم بیگ چغتائی کا خاکہ ہے بعض نے اس کو فن خاکہ نگاری کا اعلیٰ نمونہ
قراردیا ہے لیکن فرماں فتح پوری نے اپنی کتاب اُردو نثرکا فنی ارتقاءصفحہ
۷۳۱ میں اسے فن کا اعلیٰ نمونہ قرار نہیں دیا ہے ۔ اس خاکہ میں عظیم بیگ
چغتائی کی ساری کمزوریوں کو دلکش انداز میں بیان کرنے کی ایک سعی ہے ۔ عصمت
نے اس میں افسانے کا روپ رنگ دیا ہے ۔ شوکت تھانوی نے بھی شحصی خاکوں کی
روایت کو آگے بڑھایا” شیش محل اور قاعدہ بے قاعدہ“ ان کے خاکوں کے مجموعے
شائع ہوئے ۔ ان خاکوں میں ظرافت کا انداز غالب نظر آتا ہے ۔ سعادت حسن منٹو
نے بھی شخصی خاکوں کی طرف توجہ کی” گنجے فرشتے “لاوڈاسپیکر اور فلمی
شحصیتیں“ ان کے خاکوں کے مجموعے ہیں ۔ منٹو کے خاکوں کی نمایاں ترین خصوصیت
افسانے کا ساتجسس ہے ۔ اس کے علاوہ ان کا اپنا منفرداسلوب اور زاویہ نگار
بالکل مختلف ہے ۔ جس کے ذریعہ وہ انسانوں کو پر کھتے اور پہچانتے ہیں ۔
گنجے فرشتے کے دیباچہ میں لکھتے ہیں ۔
”میں ایسی دنیا پر ‘ ایسے مہذب ملک پر‘ایسے مہذب سماج پر ہزار لعنت
بھیجتاہوں جہاں یہ اصول مروج ہوکہ مرنے کے بعد ہر شخص کو کردار اور تشخص کی
لانڈری میں بھیج دیا جائے ۔ میرے اصلاح خانے میں جہاں سے وہ دھل دھلاکر آئے
اور رحمتہ اللہ کی کھونٹی پر لٹکادیا جائے ۔ میرے اصلاح خانے میں کوئی
گھنگھر وپیدا کرنے والی مشین نہیں ۔ میں بناو ¿ سنگار کرنا نہیں جانتا آغا
حشر کی بھیگی آنکھ مجھ سے سیدھی نہیں ہوسکتی ۔ اس منہ سے گالیوں کے بجائے
میں پھول نہیں جھڑا سکا ۔ میرا جی کی ذلت پر مجھ سے استری نہ ہوسکی اور میں
اپنے دوست شیام کو مجبور کرسکاہوں کہ وہ غلط عورتوں کو صاحبہ کہے ۔ اس کتاب
میں جو فرشتہ بھی آیا ہے اس کا مونڈن ہوا ہے اور یہ رسم میں نے بڑے سلیقے
سے ادا کی ہے “ ۔
(دیباچہ گنجے فرشتے)(جدید فروغ اُردو لکھنو ‘ جنوری ۳۹۹۱ ص ۳۱)
رسالہ نقوش کا شخصیات نمبر جنوری ۵۵۹۱ءمیں شائع ہوا ۔ اس میں ۲۸ بلند پایہ
ادیبوں اور شاعروں کے خاکے شامل ہیں ۔ ان خاکوں کو ترتیب دیکر شائع کرنے
میں محمد طفیل کی سعی کو خاصی دخل رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے ان کا یہ کارنامہ
اُردو خاکہ نگاری کے باب میں نہایت اہم تصور کیا جائے گا ۔
خواجہ حسن نظامی نے بھی خاکہ نگاری کے فن کو استحکام بخشا ‘ وہ اُردو کے
اولین خاکہ نگار ہیں جنہوں نے روش عام سے ہٹ کر خاکے لکھے ‘ ان کے خاکوں
میں گہرائی وگیرائی اور شوخی وظرافت موجود ہوتی ہے خواجہ حسن نظامی نے بہت
سارے خاکے لکھے ‘ خاکہ لکھتے وقت وہ تعصب اور جانبداری سے کوسوں دور نظر
آتے ہیں۔ خواجہ حسن نظامی نے بلند پایہ ادیبوںاور شاعروں کے خاکوں کے علاوہ
بعض معمولی اور کم حیثیت افراد کے خاکے بھی سپرد قلم کیئے ہیں ۔
” وہ صورتیں الہی “ مالک رام کے لکھے ہوئے خاکوں کا مجموعہ ہے یہ خاکہ
نگاری کے باب میں اہم اضافہ ہے مالک رام کے خاکوں میں انسانی سماج کے تغیر
وتبدل کو بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ بعض شخصیات کی تصویر انہوں نے بڑی
عمدگی سے کھینچی ہے ۔جگر مرادآبادی کی تصویر وہ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں ۔
”میانہ قد‘ خاصا سانولارنگ ‘ چپٹی ناک ‘ چھوٹی چھوٹی‘ نیم واہ آنکھیں اور
ان میں سرخی کی جھلک ‘ ہونٹوں پر پان کا لاکھاجما ہوا ‘ ترشی ہوئی کھچڑی
داڑھی ‘ جس میں چاول کم اور اور دال زیادہ تھی ۔ سر پر لمبے لمبے ترتیب
پٹھے جو ٹوپی سے باہر نکلنے پڑتے تھے ۔ گلے میں سیاہ رنگ کی شیروانی اور
نیچے چوڑی دار چُست پاجامہ ‘ سرپر سلیٹی رنگ کی بالوں والی اونچی دیوار کی
ٹوپی اور پاو ¿ں میں سیاہ رنگ کا پمپ پہنتے تھے ۔ طبیعت میں حد درجہ بے
چینی اور وحشت حالانکہ وہ صرف چند منٹ کے لیے رکے‘ لیکن اس دوران میں بھی
انہوں نے جو باتیں کیں کچھ عجیب اُکھڑی اُکھڑی سی یوں معلوم ہوتا تھا گویا
اپنے سائے سے بھڑکرہے ہوں یہ تھے جگر صاحب ۔“ (وہ صورتیں الہی ص ۳۷۱)
مالک رام کے خاکے قیمتی معلومات او رمستند تاریخی واقعات کا خزانہ ہیں سید
سلیمان ندوی ‘ صدر یار جنگ اور یگانہ چنگیزی پر لکھے گیے خاکے اس کی بہترین
مثال ہیں ۔اُردو خاکہ نگاری کی روایت کو آگے بڑھانے میں علی جو ادزیدی کے
خاکوں کے مجموعہ ‘ہم قبیلہ “ کو بھی اہمیت حاصل ہے شاہد احمد دہلوی کے
خاکوں کا مجموعہ گنجینہ گوہر “ 1962ءمیں شائع ہوا ‘ شاہد احمد کا انداز
نرالا اورعام بول چال کے قریب ہے ۔موجودہ دور میں پروفیسر سلیمان اطہر
جاوید اُردو خاکہ نگاری کا ایک اہم ستون ہےں۔ ان کے خاکوں کا مجموعہ ” چہرہ
چہرہ داستان “ کے نام سے شائع ہوا۔ ا ن کی خاکہ نگاری میں شخصیت ابھر کر
ہمارے سامنے آجاتی ہے ۔ ایک خاکہ میں انہوں نے عبدالماجددریابادی کی تصویر
کشی بڑے خوبصورتی سے اس طرح کی ہے:
”چند لمحے ہوئے ہوں گے چلمن کو جنبش ہوئی اور ماجد صاحب بر آمد ہوئے دراز
قد ‘ چوڑا چکلہ سینہ ‘ سرخ وسفید رنگ ‘ کسی قدر خمیدہ مگر بھرا بھرا جسم‘
کتابی چہرہ‘ ستواں ناک‘ عبادت اور ریاضت سے پرنور دراز او ربھر پور داڑھی‘
روشن آنکھیں ہر بن منہ سے شادابی ٹپکتی‘ سفید کرتا ‘سفید پاجامہ‘ میں نے
تصور میں ماجد صاحب کی جو تصویر بنائی تھی زیادہ فرق نہ نکلا گویا علم وادب
میرے سامنے مجسم ہو۔ (سلیمان اطہر جاوید ‘ چہرہ چہرہ داستان ص ۹۸)
ان خاکہ نگاروں کے علاوہ اور بھی بہت سارے خاکہ نگار ہیں جنہوں نے بہت عمدہ
خاکہ لکھے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خاکہ نگاری کے اس فن کو مزید آگے بڑھایا
جائے اور تحقیق اور تنقید میں اس صنف کو موضوع بحث بنایا جائے ۔
|