وزیراعلیٰ پنجاب جناب محترم قبلہ
بڑے حکیم میاں محمد شہباز شریف صاحب کل ایک ٹی وی چینل پر شمائلہ رانا کی
چوری پکڑے جانے کے واقعے پر میڈیا کے سامنے بڑے دل گرفتہ انداز سے ارشاد
فرماتے پائے گئے کہ یقین نہیں آرہا کہ شمائلہ رانا کسی ایسے واقعے میں ملوث
پائی گئیں ہیں وہ تو اسمبلی میں نعتیں پڑھا کرتی تھیں۔
جناب من اب آپ ہی دیکھ لیں کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں بازی
گر دھوکہ کھلا (شاعر سے معذرت کے ساتھ)۔ نعتیں پڑھنے کے حوالے سے تو ن لیگ
کے احسن اقبال صاحب کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ بھی ایک فوجی آمر ضیاﺀ
الحق مرحوم کے سامنے نعتیں پڑھا کرتے تھے۔ اور جب مشرف کا ڈنڈہ چل رہا تھا
ملک میں تو احسن اقبال صاحب ایک یونیورسٹی میں بڑے شریفانہ انداز سے شعبہ
تعلیم سے وابستہ ہو گئے تھے اور شرافت تو ان پر ختم ہی ہو گئی تھی اور اب
جو ان کے تیور مشرف کے خلاف نظر آتے ہیں کاش وہ مشرف کے دور میں نظر آگئے
ہوتے تو ہم جانتے کہ جمہوری چیمپئین ہونے کے دعوے داروں کی کیا شان تھی۔
شہباز شریف صاحب کو زرا اس بات پر اچھی طرح غور و فکر کرلینی چاہیے کہ جب
ان کی ایسی رکن اسمبلی جو اسمبلی میں نعتیں پڑھا کرتیں تھیں ان کا یہ
کریکٹر اور کردار ہو سکتا ہے تو جو نعتیں وغیرہ نہیں پڑھتے اسمبلیوں میں
مگر تعلق رکھتے ہیں ن لیگ سے تو ان کا کریکٹر اور کردار کیسا ثابت ہو سکتا
ہے۔
تو بھیا ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی اگر اراکین اسمبلی کو ٹکٹ دینے
کا یہی معیار ہے کہ وہ نعتیں بہت اچھی پڑھتی یا پڑھتے ہیں اسلیے ان کو ٹکٹ
دیا گیا تھا تو پھر تو ن لیگ کو چاہیے تھا کہ باقاعدہ مشہور و معروف حمدیہ
اور نعتیہ کلام پڑھنے والے محترم حضرات کو تکلیف دیتے۔ ایسوں کو تکلیف دی
گئی کہ جو ایک طرف تو اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں (معیار ن لیگ جانے)،
ایکسرسائز کرنے ہیلتھ کلب جاتی ہیں (مشرف کی انلائٹنٹ ماڈریشن کا چلتا
پھرتا کردار) اور کریڈٹ کارڈ چوری کرکے دھڑلے سے شاپنگ کرکے وہاں بتاتی ہیں
کہ میں رکن صوبائی اسمبلی ہوں (ن لیگ کی دھاک بھی بٹھا گئیں)۔
پاکستان کے میڈیا کو آزاد ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا۔ اگر ہمارے دوستوں
اور مہربانوں کو برا نا لگے تو عرض ہے کہ میڈیا مشرف کے آمرانہ دور میں
آزاد ہوا چلیں یہ کہہ لیں کہ میڈیا کو مشرف نے آزادی نہیں دی بلکہ میڈیا نے
اپنی آزادی چھین کر لی ہے بقول حامد میر صاحب۔
مگر اب جمہوریت کے چیمپئین اور جمہوریت کی مالا جپنے والے جمہوری لیڈران کو
بڑا کھل رہا ہے میڈیا کا بے باک اور بغیر لگا لپٹے حقائق کو عوام کے سامنے
کھول دینا اور ظاہر ہے میڈیا کے سامنے کوئی واقعہ یا خبر آتی ہے تو میڈیا
اس بات کا تو انتظار نہیں کرے گا کہ اس واقعے کی عدالتی تحقیقات اور ملزمان
کے مجرمان ثابت ہونے تک خاموش بیٹھا رہے چنانچہ میڈیا ایکٹیوازم کے سبب
میڈیا ایک خبر کو لے کر سب سے --------- ٹائپ کی چیز کرنے پر تلے بیٹھے ہیں
تو جمہوری اداروں اور خصوصاً جمہوری سیاسی پارٹیوں کو بھی کھلے دل سے حقائق
کو تسلیم کر لینا چاہیے۔
بڑے افسوس سے سنا اور پڑھا گیا کہ حکومت وقت نے حکومت کے معاملات اور
حکومتی اعلیٰ ترین عہدے داران کے خلاف کی جانے والی ای میل میسجز اور ایس
ایم ایس میسجز پر ناصرف پابندی لگادی ہے بلکہ گرفتاری اور کچھ سالوں کی سزا
بھی دی جاسکتی ہے۔ اب ہم جیسے غریبوں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اگر حکومت
کے کچھ اقدامات جو ہمیں اچھے نا لگیں ان پر اور ان کے زمہ داران پر اگر
تنقید کریں تو کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔
ادھر ن لیگ کے لیڈران نے نہایت برہمی اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے
کہ میڈیا پر ن لیگ اور اس کی قیادت کا ٹرائل ہو رہا ہے۔ ارے بھائی یہ ٹرائل
نہیں بلکہ ابھی تو ٹرائی اور ٹریلر ہے اصل فلم تو عوام کو پانچ سال میں
پوری نظر اور سمجھ آجائے گی۔ |