وطن عزیز اس وقت شدید اور گوناں گوں قسم کے
مسائل سے دوچار ہے، عوام الناس کے لئے ہر دن پہلے سے برا اور ہر رات پہلے
سے زیادہ مصائب و پریشانیاں لے کر اتر رہی ہے۔ خلق خدا نے مشرفی آمریت کے
دور میں آنے والے وقتوں کے بڑے سہانے سپنے دیکھے تھے، جمہوریت، حقوق، شخصی
آزادیوں کے خواب بنے تھے، انہیں کیا معلوم تھا کہ آنے والی حکومت آمریت سے
دو قدم آگے نکلنے کی کوششیں کرے گی، انہیں کیا پتہ تھا کہ نام نہاد
”جمہوری“ حکومت کے صدر زرداری اور وزیر داخلہ رحمان ملک جیسے لوگ ہوں گے،
لوگ تو سمجھ رہے تھے کہ عدلیہ کی بحالی کے بعد ان کے دکھ درد کم ہوں گے،
مسائل خاتمے کی طرف رواں دواں ہوں گے جبکہ ان کے لئے آسانیاں اور سہولیات
میسر ہونا شروع ہوجائیں گی، لیکن شائد بلکہ یقیناً وہ غلط تھے، عوام ہمیشہ
کی طرح پھر دھوکہ کھا گئے ہر بار کی طرح راہبر ہی راہزن نکلا۔ سپریم کورٹ
نے اپنی بحالی کا پہلا حق ادا کردیا، کاربن ٹیکس کے نفاذ کو معطل کردیا
جبکہ دوسری طرف حکومت نے بھی اپنی وفاداری کا حق ادا کیا، کس کے ساتھ؟ غریب
عوام کے ساتھ؟ نہیں بلکہ اپنے مائی باپ، امریکہ اور اس کے چیلے آئی ایم ایف
کے ساتھ! آفرین ہے شوکت ترین پر اور مشیر خزانہ پر، آفرین ہے ساری اتحادی
جماعتوں اور ان کے قائدین پر، وہ سب اندر سے ایک ہیں اور اب آہستہ آہستہ
”باہر“ سے بھی ایک ہونا شروع ہوگئے ہیں، جیسے کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ گزر
جانے پر میاں بیوی کی شکلیں ملنا شروع ہوجاتی ہیں اسی طرح یوں لگتا ہے کہ
زرداری نواز بھائی بھائی.... عوام کی دیکھو شامت آئی۔
حکومت کا تازہ ترین کارنامہ ایس ایم ایس اور ای میلز کی بنیاد پر عوام
الناس کو زندہ رہنے، سوچنے اور کہنے کی سزا دینے کی بابت قانون سازی کرنا
ہے۔ صدارتی ”واہ“ آرڈیننس فیکٹری سے کچھ ہی دنوں میں نیا آرڈیننس داغا جائے
گا اور قانون سازی مکمل! پہلے جلسوں اور احتجاجوں میں حکومت کے خلاف تقاریر
کرنے پر مقدمات قائم کئے جاتے تھے، اپوزیشن کی جانب سے مخالفانہ بیانات پر
پکڑ دھکڑ ہوتی تھی لیکن وہ وقت آمریت کا تھا، صحیح کہتے ہیں کہ جمہوریت
بہترین انتقام ہے، انتقام کے لئے” تیر“ اور” تلوار“ تو تیز کرنی ہی پڑتی ہے
جبکہ کچھ ”شوقین“ قسم کے لوگ اپنے مخالفین کو بھوکے ”شیر“ کے آگے بھی ڈال
دیتے ہیں، چنانچہ اب عوام سے ”جمہوری“ طریقے سے انتقام لیا جائے گا۔ جتنے
مظالم پاکستان کے عوام برداشت کررہے ہیں، جتنی تکالیف اور مصائب کا وہ
سامنا کررہے ہیں، جس طرح کہیں بھی ان کی شنوائی نہیں ہوتی، انہیں واحد خوشی
”اچھے اچھے “ ایس ایم ایس اور ای میلز فارورڈ (Forward) کر کے ملتی تھی کہ
چلو کچھ اور نہیں تو یوں ہی سہی، کہا جاتا ہے کہ کسی کی سوچ پر پہرا نہیں
بٹھایا جاسکتا۔ ایک زمانہ تھا جب ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے میں جاں بحق
ہونے کے بعد ایک لطیفہ زبان زد عام تھا کہ ضیاء الحق جب اوپر پہنچا تو بھٹو
نے کہا کہ ”آخر کار تم بھی میرے پیچھے آ ہی گئے“، ضیاء نے جواب دیا”لیکن
یہاں بھی فوج لے کر آیا ہوں“ اسی طرح کے اور بھی بہت سے لطائف تھے جو اس
وقت کی پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کی زبان پر ہوتے تھے، مشرف دور
میں غیر جمہوری قسم کے آرڈیننس اور رائے عامہ کو روکنے کے قوانین بنائے
جاتے تھے، ہر طرف مشرف مخالف ایس ایم ایس اور ای میلز کا دور دورہ تھا لیکن
اس دور میں بھی ایسے کسی قانون کی بات نہیں کی گئی، اور ”سلطانی جمہور“ کے
”سنہری“ جمہوری دور کے شروع ہوتے ہی پہلے بھی رحمان ملک کی جانب سے عوام کو
دھمکی ملی تھی کہ اگر ”غیر اخلاقی“ ایس ایم ایس ختم نہ ہوئے تو اس سروس پر
ہی پابندی لگا دی جائے گی، اس وقت تو رحمان ملک مشیر داخلہ تھے جبکہ اب تو
پورے وزیر ہیں بلکہ حکومت ہی ان کے دم قدم سے چل رہی ہے....! بجٹ میں ایس
ایم ایس پر ٹیکس بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا لیکن چونکہ ساری پارلیمنٹ بھی اس
ٹیکس کے خلاف تھی اس لئے وہ فیصلہ واپس لینا پڑا، اور اب تو حد ہی ہوگئی،
حکومت کی طرف سے عوام کی سوچ، اسکے حق اظہار پر پابندی ایک ”جمہوری“ دہشت
گردی کے علاوہ کچھ نہیں۔ سوچ ایسی چیز ہے جس کا اظہار الفاظ سے کیا جاتا ہے،
ایس ایم ایس اور ای میلز بالکل خط کی طرح ہوتے ہیں، خط آدھی ملاقات گردانا
جاتا ہے، ملاقات میں دو لوگ آپس میں کیا بات کرتے ہیں، اگر وہ کسی کو نہ
بتانا چاہیں تو ان پر جبر کر کے اگلوایا نہیں جاسکتا، کسی کے خط کو اس کی
اجازت کے بغیر پڑھنا ایک نہایت ہی غیر اخلاقی حرکت ہے، اگر کوئی کسی کی
اجازت کے بغیر کسی کو ایس ایم ایس یا ای میل کرتا ہے تو اس کے لئے پہلے ہی
قانون موجود ہے۔ کبھی ایک واقعہ سنا تھا کہ ایک کرکٹ میچ میں باﺅلر بہت نپی
تلی اور اچھی باﺅلنگ کروا رہا تھا، چھ کی چھ گیندوں پر اس نے ایل بی ڈبلیو
کی اپیلیں کیں لیکن ایمپائر نے آﺅٹ نہ دیا، باﺅلر اوور ختم کر کے ایمپائر
کے پاس پہنچا اور کہا”اگر میں ساری اپیلیں رد کرنے کی وجہ سے تمہیں گالیاں
دوں تو پھر؟“ ایمپائر نے جواب دیا کہ میں میچ ریفری کو شکایت کروں گا اور
تم پر پانچ میچوں کی پابندی لگا دی جائے گی“، باﺅلر نے کہا ”اور اگر میں
صرف اپنے ذہن میں سوچوں تو؟“ ایمپائر نے جواب دیا ” پھر کچھ نہیں، سوچ پر
تو کوئی پابندی نہیں....“ باﺅلر کہنے لگا” تو پھر سمجھو میں نے سوچ لیا....“اگر
وہ ایمپائر بھی رحمان ملک جیسا ہوتا اور وہ باﺅلر بھی پاکستانی عوام جیسا
تو سوچیں کیا ہوتا، ایمپائر اسی وقت پکڑ لیتا اور باﺅلر پر پانچ میچوں کی
تو کیا شاید ساری عمر کی پابندی لگ جاتی! رحمان ملک اور ان جیسے دوسرے اعلیٰ
عہدیداروں کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جب سوچ اور اس کے بے ضرر اظہار کے
دروازے بھی بند کر دیے جائیں تو شدت پسندی پیدا ہوتی ہے، بش کے دربار میں
کسی کو سوال پوچھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بھرے
دربار میں ”منتظر الزیدی“کو بھیج دیا اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ جس شخص
کا اقتدار پوری دنیا پر سمجھا جاتا تھا اس پر کیسے ایک ناتواں اور نہتے
”مجاہد“ نے ساری دنیا کے سامنے ”جوتا باری“ کی! رحمان ملک صاحب! یہ قوم ایس
ایم ایس اور ای میلز کر کے ہی کافی حد تک مطمئین ہوجاتی تھی، اس کو ایسے ہی
رہنے دیں تو اچھا ہے، ورنہ وہ دن دور نہیں جب آپ سمیت پوری حکومت صرف اسلام
آباد کے زیر زمین بنکروں میں ہی ہوگی، ہر طرف عوام ہوں گے اور ان کے ”جوتا
میزائل“، آپ کو پہلے ہی بتا دیا ہے، پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی....! |