تحریر و تحقیق : محمد اسلم لودھی0300-9409732 توثیق :
مفتی محمد سلیمان قادری نعیمی 0300-4725962 استفادہ کتاب : آداب سنت از
علامہ عالم فقری
مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے کے باوجود ہم عملی طور پراپنی زندگیوں کو نبی
کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں اور سانچوں میں اس لیے نہیں ڈھالتے کہ ہمارے
پاس اتنی فرصت نہیں کہ ہم آداب سنت کے طریقوں کو پڑھ سکیں اگر علمائے کرام
اپنے وعظوں میں بیان کرنے کی جستجو کرتے ہیں تو ہمارے پاس سننے کی فرصت
نہیں ہوتی اور دنیا جہان کے کام ہمیں یاد آجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ساٹھ ستر
سال دنیا میں رہنے اور خود کو فخر یہ انداز میں مسلمان کہلوانے کے باوجود
ہم نبی کریم ﷺ کی سنت کے ان طریقوں پر عمل کرنے سے عاجز رہتے ہیں جن پر عمل
پیرا ہوکر جنت کی ضمانت مل سکتی ہے ۔ ہم کامیابیوں کو حاصل کرنے کی ہر ممکن
جستجو تو کرتے ہیں لیکن جب موذن ہمیں حی علی الفلاح کہہ کر پکارتا ہے کہ
مسلمانوں کامیابی کی طرف آؤ تو مسجدوں کی چند قدموں کی مسافت ہم پر بھاری
ہوجاتی ہے اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہم دنیا اور آخرت میں
کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کرنے کی خواہش تو بہت رکھتے ہیں لیکن ان آداب
سنت پر عمل کرنے کی ہمیں توفیق نہیں ہوتی ۔ بہرکیف میں نے کوشش کی ہے کہ اس
مضمون میں آداب سنت کے حوالے سے اہم ترین باتوں کا مختصرطور پر تذکرہ کردوں
۔ہوسکتا ہے کوئی مسلمان بھائی اسے پڑھ کے اپنے زندگی کے طور طریقوں کو درست
کرنے میں کامیاب ہوجائے کیونکہ دیپ سے دیپ جلتا ہے ایک انسان اگر اپنے
اعمال ٹھیک کرلے تو اسے دیکھ کر کتنے ہی انسان اور ٹھیک ہوجاتے ہیں یوں حد
سے گزرا ہوا معاشرہ اسلامی روپ دھار سکتا ہے ۔
سلام کرنے میں پہل کرنا
بنیادی طور پر ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو سلام کرنا اس پر سلامتی ٗ امن
اور خوشی نچھاور کرنے کے مترادف ہے جس سے اخوت اور باہمی محبت پیدا ہوتی ہے
۔قرآن پاک میں ایک مقام پر اﷲ تعالی فرماتا ہے کہ "جب تم کو کوئی دعا دے تو
جواب میں تم بھی اس سے بہتر دعا دو انہیں لفظوں سے دعا دو بے شک خدا ہر چیز
کا حساب لینے والا ہے۔" پھر فرمایا جب اپنے گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے
گھروالوں کوسلامتی بھیجو کرو یہ خدا کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے
۔نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں جو لوگ آپس میں ملتے وقت یا گھروں میں داخل ہوتے
وقت بلند آواز میں سلام کہتے ہیں وہ درحقیقت اﷲ کی سلامتی اور پناہ میں
آجاتے ہیں ۔
سچ بولنابھی عبادت ہے
گفتگو کرنا اﷲ تعالی کی انمول نعمتوں میں سے ایک ہے جو اﷲ تعالی نے ہر زندہ
انسان کو عطا کررکھی ہے گفتگو انسانی شخصیت کا آئینہ ہے جس سے انسانی وقار
اور شخصی حیثیت کا اظہار ہوتاہے ۔حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ سے روایت ہے رسول
اﷲ ﷺ نے فرمایا تم پر سچائی لازم ہے کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے کر جاتی
ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی
کامتلاشی رہتا ہے یہاں تک کہ اﷲ تعالی کے نزدیک وہ صدیق لکھ لیا جاتا ہے
جھوٹ سے پرہیز کیاکرو کیونکہ جھوٹ بدی کی طرف لے جاتا ہے بدی جہنم میں لے
جاتی ہے آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک اﷲ تعالی کے نزدیک کذاب لکھ
لیاجاتا ہے ۔ مختصر اور نرم انداز سے گفتگو کرنا ٗغلیظ باتوں سے بچنا بھی
سنت نبوی ہے ۔
کھانے کا سنت طریقہ
نبی کریم ﷺ کھانے سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھو کر کلی بھی کر لیاکرتے تھے
اگر با وضو ہوکر کھایا تو بہت بہتر ہے ۔چٹائی پر کھانا اور بسم اﷲ الر حمن
الرحیم پڑھ کے دائیں ہاتھ سے نوالہ منہ میں ڈالنا اور الحمد اﷲ کہہ کر
کھانا ختم کرنا ٗ بھوک رکھ کر کھانا نبی کریم ﷺ کی سنت ہے اگر بھول جائے تو
جب بھی یاد آئے بس اﷲ اولہ و اخرہ پڑھ لینا چاہیئے ۔کھانے سے پہلے پانی
پینا بہت فائدے مند ہے نوالہ چھوٹا اور چبا کے کھانا انسانی صحت کے لیے بے
حد مفید ہے کھانے کے بعد دانتوں میں بچی ہوئی خوراک کو کسی چیز کے ساتھ
نکالیں پھر ہاتھ دھوئیں اور ہاتھوں کو سر اور چہرے پر پھیر لیں ۔ٹیک لگانے
کی ممانعت اور جوتے اتارنے کا حکم بھی ہے ۔بزرگوں کے نزیدک کھا نے سے پہلے
ہاتھ دھونے سے اﷲ تعالی غربت دور کرتا ہے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونے سے
عقل میں اضافہ کرتا ہے ۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تمام عمر
نہ تو میز پر رکھ کر کھانا کھایا اور نہ ہی میدے کابنا ہوا نان کھایا حضور
ﷺ نے سادگی پسند فرمائی اور فقر اختیار فرمایا ( ترمذی)
(2)
نبی کریم ﷺ کی مرغوب غذائیں
نبی کریم ﷺ کی پسندیدہ غذاؤں میں گندم اور جو کی روٹی ٗ چاول ٗ بکرے ٗخرگوش
ٗ مچھلی کا گوشت ٗ گھی ٗمکھن ٗ پنیر ٗ حریرہ ٗ روغن زیتون ٗکدو ٗقدید ٗ
ثرید ٗ سرکہ ٗکھجورٗ شہد ٗ کھیرا ٗخربوزہ ٗ تربوز ٗ انجیر ٗانگور و کشمش ٗ
پیلو ٗ چقندر ٗ کھنبی ٗمیتھی وغیرہ شامل ہیں ۔
پانی پینے کی آداب
نبی کریم ﷺ کی ہر بات میں انسانی بہتری کاراز اور احکامات خداوندی کی تعمیل
ہے ۔حضرت حفصہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ داہنا ہاتھ کھانے پینے اور لباس
کے لیے استعمال فرماتے جبکہ دیگر امور کے لیے بایاں ہاتھ استعمال کرتے ۔آپ
ﷺ پانی بیٹھ کر ٗ بسم اﷲ الرحمن الرحیم پڑھ کے ٗ تین بار سانس لے کر ٗ مٹی
یا لکڑی کے پیالے اور گلاس میں پینا پسند فرماتے تھے جبکہ برتن کے اندر
سانس لینے ٗ پھونک مارنے ٗ مشکیزے سے منہ لگانے اور سونے چاندی کے برتن میں
پانی پینے کوناپسند فرماتے تھے ۔پانی پینے کے بعد دعا مانگنا الحمد ﷲ الذی
اطمعمنا و سقانا وجعلنا من المسلمین O ترجمہ :اس خدا کا شکر ہے جس نے
کھلایا پلایا اور مسلمان بنایا ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں جو مشروب
استعمال کیے ان میں سادہ پانی ( آب زمزم سرفہرست ہے) جبکہ دودھ ٗ شربت ٗ
لسی ٗ ستو ٗمیٹھی اور ٹھنڈی اشیاء بھی آپ کے استعمال میں رہیں ۔
سونے کی آداب
نیند اﷲ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے سونے سے جسم کو راحت ملتی ہے نقاہت
اور تھکان دور ہوتی ہے نیند انسان کو تازہ دم بنا دیتی ہے دن بھر کی محنت
اور مشقت کو راحت میں بدل دیتی ہے نیند کے بارے میں اﷲ تعالی کا فرمان عالی
شان ہے -:وہی تو ہے جس نے رات کو تمہارے لیے پردہ اور نیند کو آرام بنایا
دن کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت ٹھہرایا ( سپارہ 19سورہ فرقان 47) نبی کریم ﷺ
نماز عشا کے بعد وضو کی حالت میں سونے کے لیے اپنے بستر پر تشریف لے جاتے
بستر مبارک کو جھاڑتے ٗ جوتے اتار کر بستر مبارک پر لیٹتے ٗ اﷲ کا ذکر کرتے
ٗ قرآن پاک کی چند سورتیں پڑھتے پھر محوخواب ہوجاتے ۔ رات پچھلے پہر جاگتے
تو اٹھ کر وضو فرماتے اور نماز تہجد ادا فرماتے اگر نیند کا غلبہ محسوس
ہوتا تو کچھ دیر کے لیے سو جاتے لیکن اذان فجر ہوتے ہی پھر نیند سے بیدار
ہوجاتے۔ آپ دائیں رخسار کے نیچے ہاتھ رکھ کر چہرہ مبارک ایک طرف کرکے پہلو
کی جانب آرام فرماتے جب دل چاہتا تو کروٹ بد ل لیتے ۔ حضرت براء بن عادب ؓ
فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ بستر پر تشریف لاتے تو دائیں پہلو پر آرام فرماہوتے
پھر یہ کلمات پڑھتے اے اﷲ میں نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کیا اپنا چہرہ تیری
طرف متوجہ کیا اپنا معاملہ تیرے سپرد کیا ۔ رغبت اور خوف دونوں صورتوں میں
تیرا سہارا چاہیے ۔تیرے عذاب سے تیرے دامن رحمت ہی میں پناہ مل سکتی ہے میں
تیری اتاری ہوئی مقدس کتاب اور تیرے بھیجے ہوئے تمام رسولوں پر ایمان لایا
اور تینوں قل پڑھتے( کیونکہ تینوں قل پڑھنے سے انسان شیطان کے غلبے سے
محفوظ ہوجاتا ہے)۔ باوضو ہوکر سونا نبی کریم ﷺ کو بہت پسند تھا کیونکہ اس
طرح اگلی صبح بیدار ہونے تک فرشتے نیکیاں لکھتے رہتے ہیں اگر باوضو ہوکر
سوتے ہوئے موت آگئی تو اس کی بخشش لازم ہے ۔پیٹ کے بل سونے ٗ ٹانگ پر ٹانگ
رکھ کر لیٹنے کو آپ نے ناپسند فرمایا ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا اگر اچھا خواب
دیکھے تو اس کا ذکر ایسے شخص کے سامنے کرسکتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے جب
شیطانی خواب دیکھے تو کسی سے ذکر نہ کرے بلکہ اﷲ کی پناہ مانگے اور دعا کرے
کہ اﷲ مجھے شیطانی اثرات اور وسوسوں سے محفوظ رکھ اور تین مرتبہ بائیں جانب
چہرہ کرکے دھتکار دے ۔حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے
فرمایا اچھا خواب اﷲ کی طرف سے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہوتاہے ۔
مسلمان کا اچھا خواب برحق ہے اس کی تعبیر سچ ہوتی ہے حضور ﷺ نے فرمایا نبوت
سے بشارتوں کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہا لوگ عرض گزار ہوئے کہ بشارتیں کیا
ہیں ؟ فرمایا کہ اچھے خواب (بخاری)نبی کریم ﷺ نے اچھے خوابوں کو نبوت کا
46واں حصہ قرار دیا ہے ۔
انسانی لباس
لباس قدرت کا بہترین عطیہ ہے جس سے انسان اپنا جسم ڈھانپتا ہے جسم کو
ڈھانپنا انسانی فطرت میں شامل ہے کیونکہ موسمی اثرات سے جسم کو بچانے کے
لیے لباس ہی کام آتا ہے ۔اﷲ تعالی نے ستر پوشی انسانی فطرت میں عطا کی ہے
جب حضرت آدم علیہ السلام اور حضر ت حوا علیہ السلام جنت میں رہتے تھے تو ان
کے جسم پر لباس تھا خدا کے حکم کی پابندی نہ کرنے کی بنا پر ان کا وہ لباس
اتر گیا انہیں برہنگی کا فورا احساس ہوا وہ درختوں کے پتوں سے اپنے آپ کو
چھپانے لگے ۔اﷲ تعالی فرماتا ہے اے نبی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ
تمہار ا ستر ڈھانپے اور تمہارے بدن کو زینت دے جو پرہیزگاری کا لباس ہے وہی
سب سے اچھا ہے یہ خدا کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں ۔(سپارہ 8 اعراف
26)
نبی کریم ﷺ جب لباس زیب تن فرماتے تو کرتہ یا قمیص پہلے دائیں آستین میں
بازو ڈالتے پھر بائیں آستین میں بازو ڈالتے ۔ پھر قمیص کو اپنے گلہ مبارک
میں پہن لیتے ۔اگر ہر مسلمان اسی طریقے سے کرتہ ٗ شیروانی ٗ کوٹ یا بنیان
پہنے تو نہ صرف نبی کریم ﷺ کی سنت پوری ہوگی بلکہ ثواب الگ ملے گا اسی طرح
جب شلوار یا پاجامہ پہنتے تو پہلے دائیں پائنچہ میں پیر ڈالتے پھر بائیں
پائنچہ میں ۔ قمیص اور شلوار اتارتے وقت الٹا عمل دہراتے ۔حضرت ابوہریرہ ؓ
سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا لباس پہنتے وقت نیز وضو کرتے
وقت دائیں جانب سے ابتداکرو ( ترمذی شریف ) لباس پہننے سے پہلے کپڑا جھاڑ
لینا ٗ شلوار یاتہ بند کو ٹخنوں کے اوپر رکھنا ٗ ٹخنوں کے نیچے نہ لٹکانا ٗ
جانداروں کی تصویریں لباس پر نہ بنوانا ٗ مردوں کے لیے ریشمی لباس نہ پہننا
ٗغیر قوم کی مشابہت نہ کرنا آپ ﷺ کو پسند تھا کیونکہ تہبند کو ٹخنوں سے
نیچے لٹکانا تکبر اور غرور کی علامت تصور کیاجاتا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے
روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا اﷲ تعالی قیامت کے دن اس شخص کی طرف
نہیں دیکھے گا جو تکبرسے اپنا تہہ بند گھسٹتا ہے ۔(بخاری شریف )
نیا کپڑا پہنتے وقت اﷲ کی تعریف کرنی چاہیئے اور شکر اداکرنا چاہیئے ۔ حضرت
ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ جب کوئی نیا کپڑا ٗ عمامہ ٗ
قمیص یا چادر پہنتے تو اس طرح دعا پڑھتے ۔ اے اﷲ سب تعریفیں تیرے لیے ہیں
جیسے تو نے مجھے یہ پہنایا میں تجھ سے اس کی بھلائی مانگتا ہوں اور اس کی
بھلائی جس کے لیے بنایاگیا میں اس کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اس کی
برائی سے جس کے لیے بنایاگیا ۔ ( ترمذی ابوداؤد )یہ دعا پڑھنے والے کے تمام
گناہ معاف ہوجائیں گے ۔آپ ﷺ کو سفید اور سبز رنگ سب سے زیادہ پسند تھے جبکہ
آپ ﷺ نے سرخ اور شوخ رنگ کے کپڑوں کی ممانعت فرمائی ۔لباس کو پاک اور صاف
رکھنا بھی نبی کریم ﷺ کی سنت ہے ۔
داڑھی رکھنا بھی سنت نبی کریم ﷺ ہے
داڑھی نبی کریم ﷺ کی محبوب سنت ہے ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ نبی کریم
ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے داڑھی رکھے ۔ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا مشرکوں کی مخالفت کرو یعنی داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں
پست کرو (بخاری شریف )ایک اور جگہ فرمایا کہ اﷲ تعالی کے کچھ فرشتے ایسے
ہیں جو ہر وقت یہ پڑھتے رہتے ہیں کہ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھی
اور عورتوں کو بالوں سے زینت عطا فرمائی ( کیمیائے سعادت )تمام انبیائے
کرام نے داڑھی رکھی۔ سنت کے مطابق داڑھی کی مقدار ایک مشت ہے اس سے زائد
کتروانا حضورﷺ کی سنت ہے جبکہ مونچھیں کتروانا بھی سنت ہے حضرت ابن عباس ؓ
نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ اپنی مبارک مونچھوں کو کترالیتے اور اﷲ کے خلیل
حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ایسا ہی کیاکرتے تھے ۔ ( ترمذی شریف )داڑھی
کو تیل اور خوشبو لگانا ٗ کنگھی کرنا بھی سنت ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ
حضرت لوط علیہ السلام داڑھی رکھتے تھے لیکن آپ کی امت اس لیے داڑھیاں منڈوا
لیتے تھے تاکہ ا ن کا شمار نوخیز لڑکوں میں ہی رہے حضرت لوط علیہ السلام کے
منع کرنے کے باوجود جب وہ بدکردار لوگ داڑھیاں رکھنے پر آمادہ نہ ہوئے تو
اﷲ تعالی نے ان کی بداعمالیوں کی سزا پتھروں کی بارش کی صورت میں دی
۔علمائے کرام کے نزدیک داڑھی منڈوانے سے مردوں کی مشابہت عورتوں سے زیادہ
ملتی ہے ابو داؤد کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اﷲ تعالی ان
مردوں پر لعنت کرتا ہے جو عورتوں کے ساتھ مشابہت کرتے ہیں اور ان عورتوں پر
اﷲ تعالی لعنت کرتا ہے جو مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتی ہیں ۔ایک
ایرانی سفیر جب دربار مدینہ میں ایرانی بادشاہ کا پیغام لے کر حاضر ہوا تو
آپ ﷺ نے اسے دیکھ کر اپنا چہرہ مبارک دوسری جانب کرلیا کیونکہ اس کے چہرے
پر مونچھیں تھیں لیکن داڑھی نہیں تھی ۔اس کے برعکس مرد ہو یا عورت اس کے
لیے زیر ناف بالوں کی صفائی بہت ضروری ہے حضرت انس ؓ نے فرمایا ہمارے لیے
وقت مقرر کردیاگیا ہے کہ مونچھیں پست کرنے ٗناخن کاٹنے ٗ بغلوں کے بال
اکھاڑنے ٗ اور زیر ناف بالوں چالیس دن سے پہلے صاف کرنا ۔ نبی کریم ﷺ نے
سات سے پندرہ دن کے بعد بھی یہ عمل فرمایا ہے ۔
خوشبو و سرمہ لگانا
اس کے باوجود کہ نبی کریم ﷺ کے جسم اطہر کو اﷲ تعالی نے معطر بنایا تھا آپ
کے پسینے سے بھی خوشبو آتی تھی پھر بھی خوشبو لگانا آپ ﷺ کو بے حد پسند تھا
آپ ﷺ کے استعمال میں زیادہ تر مشک ٗ عنبر اور کستوری کی خوشبو تھی جو دماغ
کو فرحت اور تقویت پہنچاتی ہے ۔حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مردوں کی خوشبو وہ ہے جس سے خوشبو معلوم ہو لیکن
رنگدار نہ ہو اور عورتوں کی خوشبو وہ ہے جس کا رنگ معلوم ہو لیکن خوشبو نہ
پھیلے ( نسائی شریف ) حضرت ابو موسی اشعری ؓ سے مروی ہے کہ آنحضور ﷺ نے
ارشاد فرمایا جو عورت خوشبو لگائے پھر وہ لوگوں کے پاس اس غرض سے جائے تاکہ
وہ اس کی خوشبو سونگیں تو وہ عورت زانیہ ہے ۔ ( نسائی شریف ) اسی طرح سرمہ
لگانا بھی آپ ﷺ کی سنت ہے ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ سونے
سے پہلے ہر آنکھ میں اثمد سرمہ تین تین سلائیاں لگاتے اور فرماتے سرمہ
بینائی کو روشن کرتا ہے ۔( ترمذی شریف )اسی طرح بالوں میں تیل لگانا اور
کنگھی کرنا بھی آپ ﷺ کے معمولات میں شامل تھا۔
آداب چھینک و جمائی لینا
چھینک اورجمائی بے اختیاری چیز ہے ہر چھوٹے بڑے کو اس سے واسطہ پڑتاہے ۔
شریعت اسلامیہ میں چھینک اور جمائی کے چند آداب مقرر ہیں جنہیں چھینکتے وقت
مدنظر رکھنا ثواب کا باعث ہے چھینک اﷲ تعالی کی طرف سے ایک نعمت ہے کیونکہ
اس سے دماغ سے غیر ضروری مواد خارج ہوتا ہے جس سے فہم و ادراک کی قوت کا
تزکیہ ہوجاتا ہے ۔اس کے برعکس جمائی کا فعل نفس کے بھاری پن اور حواس کی
کدورت کی وجہ سے ہوتا ہے یہ چیز غفلت اور سستی پیدا کرتی ہے اسے شیطانی عمل
کا اثر قرار دیاجاتا ہے ۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے
فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو الحمد اﷲ کہے اور اس کے قریب
بیٹھنے والا بھائی یا ساتھی اس سے یرحمک اﷲ کہے ۔جب وہ اس سے سنے تو کہے
چھینکے والا کہ یھدیکم اﷲ ویصلح بالکم کہے ۔حضرت برا ء بن عازب ؓ نے فرمایا
کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم فرمایا اور سات کاموں سے منع کیاہے
۔ ہمیں بیمار کی عیادت کرنے ٗ جنازے کے ساتھ جانے ٗ چھینکنے والے کا جواب
دینے ٗدعوت قبول کرنے ٗ سلام کا جواب دینے ٗ مظلوم کی مدد کرنے اور قسم
پوری کرنے کا حکم فرمایا ہے اور سونے کی انگوٹھی یا سونے کاچھلا ٗنیز ریشم
دیباج ٗ سندس اور میاثر کے کپڑے پہننے سے منع فرمایا ۔( بخاری) حضرت
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب چھینکتے تو اپنے پرنور چہرے کو دس
اقدس یا کپڑے سے چھپالیتے اور اس میں آواز پست رکھتے ۔(ترمذی شریف) حضرت
ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو
جمائی آئے تو منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے روکے کیونکہ شیطان اندر داخل ہوتا ہے
۔ ( مسلم )
چلنے پھرنے کے آداب
چلنے کا سب سے پہلا اور بنیادی اصول یہ ہے کہ خاکساری اور عاجزی سے دبے
پاؤں چلا جائے نہ زیادہ تیز اور نہ ہی سست بلکہ درمیانی چال چلنا سنت نبوی
ﷺ کے مطابق ہے دبے پاؤں چلنے والوں کو اﷲ پسند فرماتاہے ۔قرآن پاک میں ہے
کہ خداکے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں جب جاہل لوگ ان سے
جاہلانہ گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں ۔زمین پر اکڑ کر ( تن کر) چلنا
ناپسندیدہ عمل ہے ۔ نبی کریم ﷺ بڑے ادب اور وقار کے ساتھ چلتے اپنی نگاہوں
کو راستے پر رکھتے ادھر ادھر بہت کم دیکھتے ۔حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں
میں نے حضرت محمد ﷺ سے زیادہ خوبصورت اور بہتر کسی کو نہیں دیکھا گویا سورج
کی سی شعاعیں سرکارمدینہ ﷺ کے روئے انور سے پھوٹ رہی ہیں میں نے سرکار
مدینہ سے تیز رفتار بھی کبھی نہیں دیکھا گویا زمین آپ ﷺ کے لیے سمٹی جارہی
ہے ہم اپنی طرف سے پوری طاقت صر ف کر ڈالتے مگر نبی کریم ﷺ رفتار میں کوئی
تکلف نہ فرماتے ۔اسلام میں اکڑ کر چلنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اکڑ کر
چلنا غرور اور تکبر کی علامت ہے جو اﷲ اور اس کے پیارے رسول ﷺ کو پسند نہیں
۔
گھر سے باہر نکلنے کی دعا
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ جب گھر سے باہر جانے کے لیے
نکلتے تو آپ ﷺ آسمان کی جانب چہرہ مبارک کرکے یہ دعاپڑھتے ۔
ترجمہ ۔ خدا ہی کے نام سے میں نے گھر سے باہر قدم رکھا اور اسی پر میرا
بھروسہ ہے اے خدا میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ ہم لغزش کھاجائیں
یا کوئی دوسرے ہمیں ڈگمگائے ۔ہم خود بھٹک جائیں یا کوئی اور ہمیں بھٹکا دے
۔ ہم خود کسی پر ظلم کر بیٹھیں یا کوئی اور ہم پر زیادتی کرے ۔ ہم
خودنادانی پر اتر آئیں یا کوئی دوسرا ہمارے ساتھ جہالت کا برتاؤ کرے ۔ایک
اور دعا بھی ہے جو آپ ﷺ پڑھتے ۔ بسم اﷲ توکلت علی اﷲ لاحول ولا قو ۃ الا
باﷲ۔ ترجمہ میں اﷲ کانام لے کر اس کے بھروسے سے نکلا ہوں اس کے سوا نہ تو
کوئی گناہ سے پھیرنے اور نہ نیک عمل کرنے کی کسی میں طاقت ہے ۔ ( ترمذی )
بازار میں پڑھنے کی دعا
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص بازار میں داخل
ہوتے ہوئے یہ دعا پڑھے تو اﷲ تعالی اس کے حساب میں دس لاکھ نیکیاں درج فرما
دے گا۔ دس لاکھ خطائیں معاف کردے گا اور دس لاکھ درجات بلندفرمادے گا ۔
لاالہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحی و یمیت وھو حی لا
یموت بیدہ الخیر وھو علی کل شی قدیر O ترجمہ ۔خدا کے سوا کوئی معبود نہیں
وہ ایک ہے اس کاکوئی شریک نہیں ٗ اقتدار اسی کا ہے وہی شکرو تعریف کا مستحق
ہے وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اس کے لیے
موت نہیں ۔ ساری بھلائی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے او روہ ہر چیز پر قادر ہے
۔(ترمذی)
نکاح کرنا سنت رسول ہے
نکاح صرف مرد اور عورت کا سماجی بندھن نہیں اور نہ ہی ذاتی معاملہ ہے بلکہ
یہ معاشرہ کے و جود اور بقا کے لیے ایک بنیادی ستون ہے اس لیے اسلام میں اس
کی بے پناہ اہمیت اور فضیلت ہے ۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر شریعت محمد
ی ﷺتک کوئی شریعت ایسی نہیں گزری جو نکاح سے خالی ہواس کی اہمیت کو قرآن
پاک میں بھی اﷲ تعالی نے اپنے کلام میں بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے ۔
مومنو مشرک عورتوں سے جب تک وہ ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرنا کیونکہ مشرک
عورت خواہ تم کو کیسی ہی بھلی لگے اس سے مومن لونڈی بہتر ہے اور اسی طرح
مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں مومن عورتوں کو ان کی زوجیت میں نہ دینا
کیونکہ مشرک مرد سے خواہ وہ تم کو کیسا ہی بھلا لگے مومن غلام بہترہے ۔
(سپارہ 2 البقرہ 221)حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا
تین آدمیوں کی مدد کرنا اﷲ تعالی کے ذمے ہے مکاتب جو کتابت اداکرنے کا
ارادہ رکھتا ہے نکاح کا خواہش مند جو عفت کو بچانا چاہے اور اﷲ کی راہ میں
جہاد کرنے والا ۔(ترمذی ٗ نسائی ٗ ابن ماجہ )ایک اور حدیث میں حضرت انس ؓ
سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جب کسی بندے نے نکاح کرلیا تو نصف دین اس
کے لیے مکمل ہوگیا اور باقی نصب دین کے لیے اﷲ کا تقوی اختیار کرے ۔ (
بیہقی شعب الایمان )
اسلامی نام رکھنے کی رسم
نا م انسانی شخصیت کا آئینہ ہے اس کا بہترہونا ضروری ہے اسلام نے جہاں
تہذیب و اخلاق کے لیے اچھی راہ اختیار کی وہاں اسلام نے اس امر پر بھی زور
دیا کہ اپنا نام بھی ایسا رکھو جس میں اسلام کے عقائد اور اصولوں کی خلاف
ورزی نہ ہو بلکہ ایسا نام ہو جس سے اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کی راہ
نکلتی ہو۔اچھے ناموں سے مراد وہ نام ہیں جن سے اﷲ کی عظمت ٗ برتری اور
پاکیزگی کا اظہار ہوتا ہو ۔حضرت ابو دردا ء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے
فرمایا تم قیامت کے روز اپنے اپنے باپ کے نام سے پکارے جاؤگے لہذااپنے اچھے
نام رکھا کرو ۔ ( ابو داؤد )عبداﷲ اور عبدالرحمن اﷲ تعالی کو بہت پسند ہیں
کیونکہ ان ناموں میں اﷲ تعالی کی بندگی اور اطاعت کا اظہار ہوتا ہے ۔ایک
اور حدیث میں ہے حضرت امامہ ؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا جس کے گھر
لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت کی وجہ سے تبرکاً اس کا نام محمد رکھے تو وہ
یعنی نام رکھنے والا اور اس کا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے ۔ ( ابن
عساکر)ایک اور حدیث میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا
کہ قیامت کے روز دو اشخاص اﷲ کے حضور کھڑے کیے جائیں گے حکم ہوگا کہ انہیں
جنت میں لے جاؤ ۔ وہ عرض کریں گے یا الہی ہم کس عمل کی بنا پر جنت کے قابل
ہوئے ہم سے تو جنت میں جانے والا کوئی کام نہیں ہوا ۔ اﷲ تعالی فرمائے گا
جس کا نام احمد یا محمد ہو وہ دوزخ میں نہیں جاسکتا اس لیے انہیں جنت میں
لے جاؤ ۔(ابن کثیر )اسی طرح پیغمبروں کے نام پر نام رکھنا بھی ٹھیک ہے
کیونکہ تمام پیغمبر اﷲ تعالی کے برگزیدہ بند ے ہیں۔
آداب طہارت
ایمان کے بعد طالبان حق و صداقت کا سب سے پہلا فرض عبادت الہی ہے عبادت کے
لیے طہارت ضروری ہے ۔قران پاک میں ہے ان میں ایسے لوگ ہیں جو پاک ہونے کو
پسند کرتے ہیں اﷲ تعالی بھی پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔(سپارہ 11
سورہ توبہ 108) بے شک اﷲ تعالی توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں سے
محبت رکھتا ہے ۔(البقرہ 222) یعنی وہ آسمان سے تم پر پانی اتارتا ہے کہ
تمہیں اس سے پاک کرے اور شیطان کی پلیدی تم سے دور کردے ۔
رفع حاجت کرتے وقت قبلہ کی جانب منہ کرنے اور پیٹھ کرنے سے منع فرمایا ہے
شرمگاہ کو دائیں ہاتھ سے چھونے کی ممانعت ہے ۔رفع حاجت ایسی جگہ پر کی جائے
جہاں کوئی دوسرا نہ دیکھ رہا ہو پیشاب بیٹھ کر نرم جگہ پر کیاجائے ۔ استنجے
کے لیے لوٹے کا استعمال بہتر ہے ۔بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے یہ دعا
ضرور پڑھ لینی چاہیئے تاکہ شیطان کی شیطانیت سے محفوظ رہا جاسکے ۔ اللھم
انی اعوذ بک من الخبث و الخبائث o اے اﷲ میں خبیث جنینوں اور جنات سے تیری
پناہ مانگتا ہوں ۔رفع حاجت سے فارغ ہونے کے بعد کی دعا ۔تمام تعریفیں اس
پروردگار کی ہیں جس نے ہمیں اذیت سے محفوظ کرکے عافیت عطا فرمائی ۔اب تو ہر
جگہ پانی میسر ہے وگرنہ پرانے وقتوں میں مٹی کے تین ڈھیلوں سے استنجا کیا
جاتا تھا۔طہارت کرتے وقت بائیں ہاتھ کو استعمال کریں ۔
سنت مسواک
مسواک نبی کریم ﷺ کی محبوب سنتوں میں سے ایک ہے ۔مسواک کرنے میں بڑی خیرو
برکت ہے مسواک کرنے سے نہ صرف ثواب ملتا ہے بلکہ اس سے جسمانی طور پر بھی
بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں ۔ مسواک سے منہ کی بدبو دور رہتی ہے بلغم کو
دور کرتی ہے نظر کو تیز کرتی ہے معدے کو درست رکھتی ہے عقل کو بڑھاتی ہے دل
کو پاک کرتی ہے دانت سفید اور چمکدار رہتے ہیں مسوڑھوں میں قوت پیدا کرتی
ہے دانت مضبوط ہوجاتے ہیں ۔نماز فجر اور نماز ظہرسے پہلے مسواک کی تاکید کی
گئی ہے ۔حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ دس چیزیں
فطرت میں شامل ہیں لبوں کا کم کرنا ٗ داڑھی کا بڑھانا ٗ مسوا ک کرنا ٗ ناک
میں پانی دینا ٗ ناخن ترشوانا ٗ جوڑوں کی جگہ دھونا ٗ بغلوں کے بال صاف
کرنا ٗ زیر ناف بال مونڈنا ٗ پانی احتیاط سے استعمال کرنا ۔ یعنی استنجا
کرنا ۔کلی کرنا ۔حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا
اگر مجھے اپنی امت کی مشکل کا خیال نہ ہوتا تو میں ان کو نماز عشا ء تاخیر
سے اداکرنے کا حکم دیتا اور ہر نماز میں مسواک کرنے کوکہتا ۔ ( بخاری شریف
)
آداب نماز
اسلام کے نظام عبادت میں نماز ایک بنیادی رکن ہے جو امیر اور غریب ٗ عورت
اور مرد ٗ بوڑھے اور جوان سب پر یکساں فرض ہے ۔یہی وہ عبادت ہے جو کسی حال
میں بھی کسی شخص سے ساقط نہیں ہوتی درحقیقت تخلیق انسان کا مقصد ہی عبادت
ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت میں سب سے پہلے
نماز کا حساب کیاجائے گا اگر وہ اچھی اور پوری نکل آئی تو باقی اعمال بھی
پورے اتریں گے اگر نماز خراب ہوگئی تو باقی اعمال بھی خراب نکلیں گے ۔حضرت
عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضور ﷺ سے سنا کہ جو قیامت
کے دن پانچوں نمازیں اس صورت میں لے کر حاضر ہوکہ ان کے اوقات کی بھی حفاظت
کرتا رہا ہو اور وضو کابھی اہتمام کرتا رہاہو او ران نمازوں کو خشوع و خضوع
سے پڑھتا رہا ہو تو اﷲ تعالی نے اس کے لیے یہ حکم دے رکھا ہے کہ اس کو عذاب
نہیں دیاجائے گاجو ایسی نمازیں نہ لے کر حاضر ہو اس کے لیے کوئی وعدہ نہیں
۔اﷲ چاہے تو اپنی رحمت سے معاف کردے یا عذاب دے ۔ (جامعالصغیر) حضرت علی ؓ
فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اے علی ؓ تین کاموں میں تاخیرنہ کرو ۔
نماز میں جب اس کا وقت شروع ہو ٗ نماز جنازہ میں جب وہ تیار ہو اور بیوہ
عورت کے نکاح میں جب بہتر جوڑا موجود ہو ۔ (ترمذی)
آداب مسجد
مسجد اﷲ کا گھر ہے مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے ۔ مسجد کی فضیلت کے بارے میں
ارشاد باری تعالی ہے ۔ ترجمہ ۔ خدا کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں
جو خدا پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے اور نماز پڑھتے اور زکوہ دیتے ہیں
خداکے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۔ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔ ( سپارہ 10سورہ
توبہ 18) ایک اور جگہ ارشاد ہوا فرمایا کہ اے اولاد آدم اپنے آپ کو اچھا
بناؤ جب مسجد میں جاؤ ٗ کھاؤ اور پیو مگر حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے
والے کو اﷲ پسندنہیں کرتا ۔ (سپارہ 8 سورہ اعراف 31) ان آیات سے معلوم
ہواکہ مساجد کی تکریم و تعظیم کرنا اہل ایمان کا شیوہ ہے شریعت کی رو سے
آداب مسجد مندرجہ ذیل ہیں-: گھر سے مسجد میں جاتے ہوئے اپنی نگاہوں کونیچا
رکھو غیر اخلاقی حرکتیں نہ کی جائیں مسجد میں داخل ہوکر پہلے سے موجود
لوگوں کو سلام کرناچاہیے ۔حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے
فرمایا جو صبح کو اول دن میں یا آخر دن میں مسجد میں گیا اﷲ تعالی اس کی
مہمانی جنت میں کرے گا ۔( بخاری ) مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتار
دیں پہلے دایاں پاؤ ں پھر بایاں پاؤں بڑھائیں اور دعا کریں اے اﷲ میرے لیے
اپنی رحمت کے دروازے کھول دے ۔پھر جب نماز پڑھنے کے بعد مسجد سے باہر نکلنے
لگیں تو دعا کریں اے اﷲ بے شک میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں ۔ (مسلم)نبی
کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ مسجدمیں جھاڑو دینا ٗ پاک صاف رکھنا ٗ مسجد میں
خوشبو سلگانہ جنت میں جانے والے کام ہیں ( ابن ماجہ )مسجد میں ہنسی مذاق
اور دنیاوی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیئے اور نہ ہی کوئی سودے بازی کی جائے
مسجد میں پیاز ٗ لہسن کھاکر جانے ٗ شعر گوئی کرنے ٗ بلند آواز سے دوسرے سے
مخاطب ہونے اور تھوکنے کی بھی ممانعت ہے ۔مسجد کے لیے پہلے سے کوئی جگہ
مخصوص نہیں کی جاسکتی جو نماز ی پہلے مسجد میں داخل ہوگا وہی اپنی من پسند
جگہ پر بیٹھنے کا مجاز ہے ۔ایسا ذکر کرنا جس سے دوسرے نمازی پریشان ہوں بھی
منع فرمایا گیا ہے ۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے
فرمایا کہ آدمی کی نماز گھر میں ایک نماز ہے مسجد میں پانچ سو نمازوں کا
ثواب ٗ مسجد نبوی اور مسجد اقصی میں پچاس ہزار نمازوں کا ثواب جبکہ مسجد
حرام میں ادا کی جانے والی نمازوں کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے
۔مسجد کی تعمیر کرنا جنت میں گھر بنانے کے مترادف ہے ۔
آداب جمعہ
جمعہ کو سید ایام کہاجاتا ہے ۔ جمعہ کے روز نبی کریم ﷺ بطورخاص غسل فرماتے
کپڑے تبدیل کرتے جسم کے زائد بالوں کی تراش خراش کرتے ٗ ناخن تراشتے ٗ
خوشبو لگاتے یعنی ہر اعتبار سے اپنے جسم اطہر کو درست فرماتے یہی وجہ ہے کہ
یہ تمام اعمال مسلمانوں پر لازم ہیں ۔حضرت سلمان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ
ﷺ نے فرمایا جمعہ کے روز غسل کرنا ٗ جسم اور کپڑوں کو پاک کرنا ٗ سر کو
تیلٗ سرمہ لگانا اور جسم پر خوشبو لگا کر نماز جمعہ ادا کرنا ٗ دوران خطبہ
خاموش رہنا ٗ اس کے ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہ معاف کردیئے جاتے
ہیں۔(بخاری ) جمعہ کے دن سورہ یسں پڑھنے والے کی مغفرت ہوجاتی ہے جس شخص نے
سورہ کہف پڑھی وہ اس شخص کے برابر ہوگیا جس نے دس ہزار دینار خیرات کیے ۔
جمعہ کے دن سب سے افضل ترین عمل درود پاک پڑھنا ہے کیونکہ جمعہ کے روز ہی
حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیاگیا اسی دن قیامت آئے گی ۔ حضرت انس بن
مالک ؓ نے فرمایا میں حضور ﷺ کی خدمت میں کھڑا تھا کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو
شخص ہر جمعہ کو مجھ پر 80 بار درود پاک پڑھے گا اﷲ تعالی اس کے اسی سال کے
گناہ معاف فرمادے گا ۔اسی طرح جمعہ کے دن تیسرا کلمہ تمجید ۔ سبحان اﷲ
والحمد ﷲ و لا الہ الا اﷲ و اﷲ اکبر پڑھنا بھی افضل ترین عبادت ہے ۔
آداب تلاوت
قرآن مجید ایک عظیم کتاب ہے جو اﷲ تعالی نے اپنے محبوب پیغمبر کو عطا
فرمائی یہ سراپا ہدایت ہے لہذا اس کی تلاوت افضل ترین عبادت ہے قرآن مجید
کی تلاوت پر ایک ایک حرف کے بدلے نامہ اعمال میں دس دس نیکیاں لکھی جاتی
ہیں۔حضرت قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ اﷲ تعالی نے ہر ایک نبی کو خوش رو اور خوش
آواز مبعوث فرمایا اور نبی کریم ﷺ حسین صورت اور حسین آواز والے تھے اور
خوبصور ت انداز میں قرآن پڑھا کرتے تھے ۔( جامع ترمذی)قرآن پاک کی تلاوت اس
طرح کرنی چاہیئے کہ تلفظ کی صحیح ادائیگی بھی ہو ۔باوضو ہوکر قرآن پاک پڑھا
جائے ۔حضرت جندب بن عبداﷲ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا قرآن اس
وقت تک پڑھو جب تک تمہارا دل چاہے۔قرآن پاک کوگا کر پڑھنے کی بھی ممانعت ہے
۔قرآن کے بوسیدہ اورق کو جلانے اور اس کی جانب پیٹھ کرنا بھی منع ہے ۔
آداب دعا
دعا دراصل عبادت کا ماخذ اور ایک حصہ ہے کیونکہ انسانی زندگی کا اصل مقصد
عبادت اور اطاعت ہے یہی عبادت انسان کو مقام عبدیت تک پہنچاتی ہے جتنا کوئی
مقام عبدیت میں اﷲ کے قریب ہوتا ہے اس کی دعا بارگاہ رب العزت میں اتنی ہی
جلدی قبول ہوتی ہے ۔دعا اس وقت بھی قبول ہوتی ہے جب انسان کا دل ٗ دماغ اور
زبان ایک ہوکر دعامانگتے ہیں جب آنکھوں سے گریہ زاری کے آنسو ٹپک رہے ہوں
دل اور دماغ اﷲ تعالی کی دہلیز پرپوری شدت سے دستک دے رہا ہو تب زبان سے
نکلی ہوئی دعا قبول ہوتی ہے۔ دعامانگنے سے پہلے اﷲ تعالی کی حمد کرنا ٗ نبی
کریم ﷺ پر اول و آخر درود پاک پڑھنا ٗ قبلہ رخ بیٹھ کر توجہ قلبی سے دعا
کرنا رائیگاں نہیں جاتا ۔اسی طرح دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا اور دعا ختم کرکے
منہ پر ہاتھ پھیرنا بھی سنت ہے ۔کسی دوسرے کے لیے جب دعا کی جاتی ہے تو وہی
دعا اپنے لیے بھی قبول ہوتی ہے ۔دعا کی قبولیت کے بھی مخصوص اوقات بتائے
گئے ہیں شب قدر میں ٗ رمضان المبارک میں ٗ ذی الحجہ کی نویں تاریخ ٗ جمعرات
اور جمعہ کی درمیانی شب ٗ تہجد کے وقت ٗ شب برات ٗ نماز جمعہ سے پہلے خطبہ
کے لیے منبر پر بیٹھنے سے لے کر نماز جمعہ ختم ہونے تک ۔خانہ کعبہ پر پڑنے
والی نظر ٗ نبی کریم ﷺ کے روضہ مبارک پربھی دعا جلد قبول ہوتی ہے ۔
آداب روزہ
روزہ کا مطلب یہ ہے کہ ظاہری اور باطنی حالت کو ضبط میں رکھا جائے جسمانی
اعضا اور نفس کو گناہ والے کاموں سے روکا جائے روزہ میں اپنے تمام اعضاء کو
کھانے پینے اور جماع سے روکنے کے ساتھ ہر قسم کی بری حرکات اور ناشائستہ
امورسے بچایا جائے ۔احادیث کے مطابق روزہ کے آداب اور سنتیں حسب ذیل ہیں
۔زبان کو بری باتوں سے بچا نایعنی فحش گوئی سے پرہیز کرنا ٗ کسی کی دل
آزاری نہ کرنا ٗ کانوں کو بری باتیں سننے سے بچانا ٗ حالت روزہ میں آنکھوں
کو قابو میں رکھنا ٗ غیر محرم عورتوں کو دیکھنے سے ہر ممکن پرہیز کیا جائے
ٗ دل کو گندے خیالات سے بچانا ٗ جسم کے ہر عضوکو گناہوں سے بچانا ٗ ریاکاری
سے بچنا ٗ سحری اور افطاری کااہتمام کرنا ٗتمام نفلی اور فرضی نمازوں کی
بروقت اور باجماعت ادائیگی کرنا۔طہارت اور پاکیزگی کو برقرار رکھنا ٗ گندگی
سے بچنا وغیرہ وغیرہ
عیادت مریض
بیمار آدمی کی مزاج پرسی کرنا عیادت مریض کہاجاتا ہے یہ بڑا اہم اخلاقی
فریضہ ہے یہ نبی کریم ﷺ کی پسندیدہ سنت بھی ہے ۔عیادت کا لفظ عود سے نکلا
ہے جس کالفظی مطلب لوٹنا اور رجوع کرنا ہے چونکہ بیمار کی عیادت کرنے والا
بیمار کی طرف گاہے بگاہے آتا ہے اور رجوع کرتا ہے اس لیے یہ لفظ انہی معنوں
میں استعمال ہوتا ہے ۔حضرت ابو موسی ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
بھوکوں کو کھانا کھلاؤ ٗ مریض کی عیادت کرو اور قیدی کو قید سے چھڑاؤ ۔ (
بخاری )حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص
مریض کی عیادت کو جاتا ہے تو ایک غیبی منادی ندا کرتا ہے تجھے بشارت ہو
تیرا چلنا اچھا ہے اور تو نے جنت میں ایک بڑا مقام حاصل کرلیا ہے ( ابن
ماجہ)حضرت علی ؓ روایت کرتے ہیں میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا جو
مسلمان صبح کے وقت کسی مسلمان کی عیادت کرتا ہے ستر ہزار فرشتے شام تک اس
کے لیے مصروف دعا رہتے ہیں اور اگر شام کے وقت عیادت کرتا ہے تو صبح تک ستر
ہزار فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں اس کے لیے جنت میں ایک باغ مقرر کردیا
جاتا ہے۔(ترمذی ۔ ابو داؤد )حضرت عمر بن خطاب ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ
ﷺ نے فرمایا جب تم مریض کی عیادت کے لیے جاؤ تو اس سے اپنے لیے دعا کے
واسطے کہو کیونکہ مریض کی دعا ( قبولیت میں ) ملائکہ کی دعا جیسی ہے ۔
آدب جنازہ
جنازہ میں شامل ہونا اخلاقی فرض ٗ جنازے کو کندھا دینا کار ثواب ہے۔ جب کسی
کی موت واقع ہوجائے تو میت والے گھر جاکر لواحقین سے تعزیت کی جائے پھر جب
جنازہ اٹھایا جائے تو باوضوہوکر کلمہ شہادت کا ورد کرتے ہوئے ساتھ چلا جائے
۔ میت کو کندھا دینے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلا آدمی جس نے دائیں جانب کا پہلا
پایا اٹھایا تھا دس قدم چلنے کے بعد یہ پایاکسی اور کو پکڑا کر دائیں جانب
کے پچھلے پائے پر آجائے پھر دس قدم چلنے کے بعد میت کے بائیں جانب جاکر
بائیں جانب کا پہلا پایا پکڑے پھر دس قدم چلنے کے بعد پچھلا پایا پکڑے حتی
کہ یہ عمل بار ی باری دہرایا جائے ۔ میت کو تیارکرکے اس کے اصل مقام یعنی
قبر میں پہنچانے میں جلدی کرنا حضور ﷺ کی سنت ہے ۔ حضرت ابوہریر ہ ؓ روایت
کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا میت کو جلد دفن کرو اگر وہ نیک ہے تو تم
اس کو بھلائی کی طرف جلد پہنچا رہے ہو اور اگر اس کے علاوہ ہے یعنی برا ہے
تو اس بوجھ کو جلد اپنے کندھوں سے اتار رہے ہو ۔ ( مسلم شریف )جنازے کے
دائیں اور بائیں پیچھے رہ کر چلنا چاہیئے جنازہ اگر دور لے جانا مقصود ہو
تو سواری بھی استعمال کی جاسکتی ہے عورتوں کا جنازے کے ساتھ جانا ممنوع اور
خلاف شرع ہے اگر کوئی عورت جنازے میں شرکت کرے گی تو گنہگار ہوگی ۔جنازے کے
آگے ہرگز نہیں چلنا چاہیئے حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے
فرمایا جو شخص مسلمان کے جنازے کے ساتھ حالت ایمان میں حصول ثواب کے لیے
جاتا ہے اور نماز جنازہ کے بعد دفن ہونے تک ساتھ رہتا ہے تو وہ دو قیراط لے
کر واپس ہوتا ہے اور ہر قیراط کا اجر کوہ احد کے برابر ہے جو شخص نماز
جنازہ کے بعدد فن سے پہلے واپس آجاتا ہے تو وہ ایک قیراط لے کر واپس ہوتا
ہے ۔(بخاری شریف )علمائے کرام کا کہنا ہے کہ مردہ دوسروں کی آواز سنتا ہے
اگر چہ اس کی آواز پرواز کرچکی ہوتی ہے انسان کے علاوہ دوسرے جاندار اس کی
آواز سنتے ہیں نیک بخت مردے کی روح کہتی ہے مجھے اپنے اصلی مقام کی طرف جلد
ی لے جاؤ کیونکہ وہ اﷲ کی رحمت اور جنت کی نعمتیں دیکھ رہاہوتا ہے اس کے
برعکس بدبخت انسان عذاب الہی کو دیکھ کر واویلاکرتا ہے اور کہتاہے مجھے
کہاں لے جارہے ہو یعنی کہ جنازے کی حالت میں اس کی روح اس مادی دنیا سے
آخرت کی طرف نہیں جانا چاہتی ۔حضر ت ابو سعید ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ
ﷺ نے فرمایا کہ جب میت کو چار پائی پر رکھ کر اٹھایا جاتا ہے اگر وہ مرنے
والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے مجھے جلد لے چلو او راگر نیک نہیں ہوتا تو
اپنے رشتہ داروں سے کہتا ہے مجھے کہاں لے جارہے ہو اس کی آواز انسانوں کے
علاوہ سب مخلوق سنتی ہے اگر انسان سن لے تو بے ہوش ہوجائے ۔
اس بات کی بھی تاکید کی گئی ہے کہ جنازہ کو زمین پر رکھنے سے پہلے جنازے
میں شریک لوگوں کو نہیں بیٹھنا چاہیئے اور نہ ہی کسی قبر پر پاؤں رکھ گزرنے
کی اجازت ہے حضرت ابوسعید ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تم
جنازہ کو دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ اور جو شخص جنازہ کے ساتھ جائے وہ اس وقت تک
نہ بیٹھے جب تک کہ میت کو قبر میں نہ رکھ دیاجائے ۔( مسلم شریف )جنازہ دیکھ
کر احترام سے کھڑے ہونا بھی ثواب کا باعث ہے حضرت ابو موسی ؓ روایت کرتے
ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جب تمہارے سامنے سے یہودی نصرانی یا مسلمان
کا جنازہ گزرے تو تم اس کے لیے کھڑے ہوجاؤ اور تمہارا کھڑا ہونا جنازہ کی
وجہ سے نہیں بلکہ اس کے ساتھ جو فرشتے ہوتے ہیں ان کی وجہ سے ہے ۔(مسند
امام احمد)قبرستان نشان عبرت ہے جو ہمیں موت اور آخرت کی یاد دلاتا ہے
قبرستان میں بڑے عجز اور خاموشی سے داخل ہونا چاہیئے دل میں خوف الہی
کومدنظر رکھنا چاہیئے نبی کریم ﷺ جب قبرستان جاتے تو داخل ہوتے ہوئے اہل
قبو ر کو سلام کہتے ۔والدین کی قبروں پر جاکر ان کے لیے دعائے استغفار کرنا
ان کے لیے ایصال ثواب کرنا فائدہ مند ہے اگر کوئی عذاب میں مبتلا ہے تو
اولاد جب قبر پر جاکر ایصال ثواب کرتی ہے تو قبر والے کے عذاب میں کمی کردی
جاتی ہے اگر کوئی راحت میں ہو تو اسے مزید راحت میسر آتی ہے لہذا پسندیدہ
عمل یہ ہے کہ ہفتے میں اگر ایک مرتبہ والدین کی قبر پر حاضری کو یقینی
بنایاجائے تو والدین اور اولاد دونوں کے لیے مفید عمل ہے ۔جب قبرستان
پہنچیں تو قبروں پر پاؤں رکھنے سے پرہیز کریں پھر پاؤں کی جانب سے سر کی
جانب چھاتی کے برابر اس جانب آکر کھڑے ہوجائیں جس کی طرف میت کا رخ خانہ
کعبہ کی طرف تدفین کے وقت کیاجاتا ہے تاکہ قبر والے اپنے لیے دعامانگنے
والوں کو باآسانی دیکھ سکیں ۔سرکی جانب کھڑے ہوکر اگر دعامانگی جائے گی تو
مرنے والے کو انتہائی تکلیف سے گردن کا رخ تبدیل کرنے دعا مانگنے والے کو
دیکھنا پڑے گا جس سے میت کو تکلیف ہوتی ہے ۔اس کے بعد اول و آخردرود پاک
سورہ فاتحہ ٗ 11 مرتبہ قل شریف ٗ جنازہ کی دعا پڑھنے کے لیے نہ صرف جس قبر
پر کھڑے ہوئے ہیں اس کے لیے دعا کی جائے بلکہ تمام مسلمانو ں کی بخشش کی
التجا کی جائے تو اﷲ تعالی اس دعا کے طفیل سب مسلمانوں کو بخش دیتا ہے ۔
بظاہر یہ روزمرہ کی عام باتیں ہیں اگر ہم سچے دل سے ان باتوں اور طریقوں
پرعمل کرلیں تو نہ صرف زندگی کے معمولات نہایت خوبی سے انجام پائیں گے بلکہ
دنیااور آخرت میں ان عملوں کی بدولت ہم نبی کریم ﷺ کے حلقہ ارادات میں شامل
بھی ہو جائیں گے جس سے ہماری بخشش یقینی ہوگی ۔ انسان جب دنیا میں آتا ہے
تو اس کے ایک کان میں اذان جبکہ دوسرے کان میں تکبیر پڑھی جاتی ہے زندگی کا
اختتام ہونے میں صرف جماعت ہونے کا عمل رہ گیا ہے اگر اس مختصر عرصے کو ہم
نبی کریم ﷺ کے معمولات زندگی کو اپنانے اور دوسروں تک پہنچانے کی جستجو
کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا اور آخرت میں ہم سرخرو اور کامیاب نہ ہوں
۔چند لمحوں کے لیے ضرور سوچئیے اور عمل کرنے کی جستجو بھی کیجیئے بلکہ میرے
لیے دعا بھی کیجیئے۔اﷲ ہم سب مسلمانوں کو اپنے نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر عمل
پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ثم آمین |