یوں تو دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ پچیس ہزار
پیغمبر آئے اور اپنے اپنے دور میں اﷲ کے دین کی تبلیغ کی اوربندوں کو
بتلایا کہ اﷲ ایک ہے اور اُسی کی عبادت کرو۔ ہر نبی نے خالص اﷲ کا کام کیا۔
انہیں میں اﷲ کے دو جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ
نے مکّہ معظّمہ میں جسے ــــــ نافِ زمین کہا جاتا ہے کرہ ارض پر پہلے پہل
اﷲ کے گھر کو تعمیر کیااور اُسی گھر کی طرف آنے اور اُسکا طواف کرنے کی خدا
کے اُن تمام بندوں کو دعوت دی جن کے ذہن ودل اور اعمال واقوال شرک وکفر کی
گرد آلود فضاء میں بھی آئینے کی طرح پاک وصاف ہیں۔
اﷲ کے اِس گھر کو امان گاہ قرار دیا گیااور تقریباً تین ہزار سال پہلے خدا
کی زمین پر تعمیر ہونے والا خدا کا یہ پہلا گھر نہ صرف امن وسلامتی بلکہ
نوعِ بشر کے اتحادِ ذہن و فکر اور اتحادِ عمل و قول کے مرکز کے طور پر وجود
میں آیا۔جس نے خدا کی زمین پر پھیلے ہوئے اس کے بندوں کے درمیان جغرافیائی
تفریقیں اور دولت و ثروت کے امتیازات تو کیا لباس کا فرق تک مٹا ڈالا ۔
حج دو حرفوں کا مجموعہ ہے۔ پہلا حرف ح ہے اور دوسرا حرف ج ۔یہ دونوں حرف
اشارہ ہیں حمد اور جہادِ نفس کی طرف۔گویا حج حمدِ الٰہی اور جہادِ نفس کا
مجموعی فریضہ ہے۔ حج اطاعت الٰہی کا ایک راستہ ہے اور اس راستے پر چلنے
والے لاکھوں آدمی جو ایک حال میں ہوتے ہیں رنگ و نسب اور خاندان و دولت کی
امتیازوں سے بلند و بالا ہو کر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ان کے حالات جانتے
ہیں اور یہ افہام و تفہیم ان کے مابین برابری کے وہ رشتے قائم کرتی ہے جو
باہمی سلامتی کی آرزو اور تمنّا پیدا کرتے ہیں۔ یہ انسانی برادری کو ایک
بندھن میں باندھنے کا عملی اقدام ہے۔جو دنیا کے ہر کونے میں بسنے والی
آبادیوں کو محبّت اور باہمی میل جول کے ایک رشتے میں پروتا ہے۔
حج صرف سفرِ مکّہ یا طوافِ حرم کا نام نہیں ہے۔ بلکہ عبادت کا یہ فریضہ
آدمی کو خدا کی اطاعت کا عادی بنا تا ہے اور اطاعتِ الٰہی کی عادت انسان کے
دل سے ابلیس کو اس طرح نکال باہر کرتی ہے جس طرح آدم کو سجدہ کرنے سے انکار
کرنے والا ملائک کی بزم سے مردود قرار دے کر نکال دیا گیا۔ حالانکہ وہ اپنی
عبادت کی وجہ سے معلم الملکوت کہا جاتا تھالیکن اسکے دماغ میں غرور کا جو
خلل تھا اس نے اُسے ذلیل و رسوا کرکے رکھدیا۔
حج کا فریضہ یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ غرور اور گھمنڈ ابلیس کا طریقہ ہے
خدا کے بندوں یا آدم کی اولاد کا طریقہ نہیں۔چنانچہ حج کے دن ہر بادشاہ اور
فقیر ایک لباس اور ایک حالت میں ہوتے ہیں اور تمام انسانوں کا ہمرنگ ہونا
اس حقیقت کو اُجاگر کردیتا ہے کے آدمی آدمی برابر ہے نہ گورے کو کالے پر
فضیلت ہے اور نہ کالے کو گورے پر۔ نہ شہری کو دیہاتی پر نہ دیہاتی کو شہری
پر۔
یہ دنیا فنا ہو جانے والی ہے اور آدمی کو ایک دن زمین کی گود میں جانا ہے۔
دنیا کی ہر چیز دنیا ہی میں چھوٹ جائے گی اور آدمی کے ساتھ صرف اُسکے اعمال
ہی جائیں گے وہ اعمال آخرت کے دن جزا یا سزا کی بنیاد بنیں گے۔حج کے اور
ایک معنی تسلیم کے ہیں تسلیم کا مطلب ہے یقین اور یقین تصدیق کو کہتے ہیں
اور تصدیق سے مراد ہے اقرار۔ اور اقرار کا مفہوم ہے کے خدا نے انسان کے لئے
جو راستہ متعین کردیا ہے اُس راستے پر زندگی بھر چلتے رہنا اور اُس راستے
سے گریز کرنا جو ابلیس کا راستہ ہے ، نا فرمانی کا راستہ ہے۔
لغت میں ابلیس کے معنی ہیں خدا سے نااُمیدی کے ،لیکن اسلام کی تعلیم یہ ہے
کے سچّے دل میں مایوسی کے لئے نہ کوئی مقام ہے نہ کوئی جگہ۔ ہر مسلمان
اُمید کا پیکر ہے جو اپنے پیدا کرنے والے سے اپنی اُمیدوں کو لگاتا ہے۔
ارکانِ حج کا بغور مطالعہ کیجئے تو یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آجائے گی کے
اولادِ آدم کو ابلیس سے دور رکھنے کی غرض سے ابلیس کو کنکریاں مارنے کی
تاکید کی گئی۔ حالانکہ وہ عام آنکھوں سے نظر بھی نہیں آتا۔ لیکن اسکے
باوجود جن لوگوں کو اﷲ نے حج کرنے کی توفیق دی ہے وہ شیطان کو کنکریاں
مارتے ہیں۔ کیونکہ آدمی کی اُمید مایوسیوں کو سنگسار کرتی ہے انسان کی آرزو
نا اُمیدی پر فتحیاب ہوتی ہے اور اُمید کی بنیادیں عملی طور پر مضبوط اور
پائیدار بن جاتی ہیں۔
کعبہ کو دارلا مان قرار دیا گیاہے۔ تاکہ اولادِ آدم کا شعور یہ جان لے کے
اس کائنات کا پیدا کرنے والا جس طرح اپنے گھر میں امن وسلامتی دیکھنا چاہتا
ہے اِسی طرح مخلوق بھی اﷲ کی پیدا کی ہوئی زمین پر فساد نہ کرے اور فتنے نہ
پھیلائے۔ اﷲ نے کعبہ کو دارلا مان قرار دے کرساری دنیا میں امن وامان اور
سلامتی قائم اکھنے کے لئے انسان کے سامنے ایک نمونہ رکھ دیا۔
دنیا قیام گاہ نہیں ہے یہ حیاتِ انسانی کے سفر کی ایک منزل ہے اور اس میں
وہ سب تکلیفیں موجود ہیں جو انسان کو سفر کے دوران عملی طور پر ہوا کرتی
ہیں ان تکالیف کو برداشت کرنے کے بعد ہی انسان اپنے آرام کی منزل کو پہنچتا
ہے۔حج کا فریضہ ادا کرنے والے حضرات بھی جب مکّہ معظّمہ کے روانگی کا ارادہ
کرتے ہیں تو راستے کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہیں لیکن آج کل تو نئی نئی
ایجادات نے سفر کی مصیبتوں کو کم سے کم کر دیا ہے۔ لیکن اُس دور کو یاد
کیجئے جب آدمی میلوں پیدل چلتا ، اُنٹوں پر ریگستانوں اور چٹیل میدانوں سے
گزرتا تھا۔ پینے کا پانی تک میسّر نہ تھا۔ حج کا سفر طئے کرنے والے یہ جان
لیتے ہیں کہ دنیا قرار گاہ نہیں ہے یہ سفرِ حیات کی ایک منزل ہے اور انہیں
خداکی مقرر کی ہوئی منزل تک پہنچنے کے لئے ان مشکلوں کو ہنسی خوشی برداشت
کرنا ہے۔
حج کی فضیلت کے تعلق سے ایک حدیث کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ حضرت ابو
ہریرہؓ سے مروی ہے اﷲ کے رسول محمد ﷺ سے دریافت کیا گیاکے کون سا عمل افضل
ہے ؟
حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا اﷲ اور رسول ﷺ پر ایمان لانا ، عرض کیا گیا
پھر کون سا عمل افضل ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، اﷲ کی راہ میں جہاد کرنا ،
پھر عرض کیا گیا پھر کون سا عمل افضل ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، حجِ مبرور۔ |