مابدولت کے دکھ

 سب عقلمند لوگ جو مجھے جانتے ہیں وہ میری عظمتوں سے تو واقف ہیں لیکن ان کو یہ نہیں پتہ کہ ان کا یہ عظیم دوست کتنے دکھ سہہ چکا اور سہہ رہا ہے۔

میری عظمت اور میرا ٹیلنٹ بچپن سے ہی سب پہ عیاں ہو گئے تھے مگر افسوس کہ میرے معصوم والدین اور ہٹلر اساتذہ میرے اندر چھپا جوہر نہ پہچان پائے۔

میں نے جب ہوش سنبھالا تو میرے والدین کو یہ شکایت تھی کہ میں دوسرے بہن بھائیوں کا حصہ بھی کھا جاتا ہوں۔دوسری شکایت یہ تھی کہ میری جگہ چھوٹا بھائی پیپر دیتا ہے تو ہی پاس ہوتا ہوں۔ تیسری شکایت یہ تھی کہ بہت پیارے پیارے جھوٹ بولتا ہوں جن کا نقصان بعد میں میرے علاوہ سب اٹھاتے ہیں کیونکہ میں تو پاکٹ منی سے بھی زیادہ پیسے اس جھوٹ کی وجہ سے لے کے کھا چکا ہوتا تھا۔

اب آپ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اس بات پہ تو ان کو خوش ہونا چاہیے تھا کہ ان کا بیٹا مستقبل کا کامیاب سیاستدان ہے۔بجائے میری حوصلہ افزائی کرنے کے الٹا مار مار کے میرے اندر کا سیاست دان ہی سلا دیا ورنہ آج مونس الہی، حمزہ شہباز، علی گیلانی سے زیادہ میں کامیاب ہوتا اور زیادہ نہیں تو کوئی وزیر شزیر تو ہوتا ہی۔

میرا یہی ٹیلنٹ صرف مجھ پہ بے تحاشہ تشدد کا سبب نہیں تھا۔ بلکہ اس بات پہ بھی مجھ پہ تشدد ہوتا تھا کہ میں ذرا سے ڈانٹنے پہ رونے کا ڈرامہ کر کے محلہ اکٹھا کر لیتا ہوں۔

میک اپ کے بعد میں بھی بغیر میک اپ کے شاہ رخ خان جتنا پیارا تو ہوں ہی۔ اگر میرے اس ٹیلنٹ کو بھی مرغا بنا بنا کے سلایا ناں جاتا تو آج ٹنڈولکر سے پہلے شاہ رخ فلمیں نہ ملنے کی وجہ سے ریٹائر ہو چکا ہوتا۔

میرے اساتذہ بھی بچپن سے ہی مجھ پہ ظلم و ستم روا رکھے ہوۓ ہیں۔ ویسے تو بزرگوں کی باتوں کو نقل کرنے کو اچھا کہتے ہیں لیکن امتحان کے دنوں میں انہی معزز لوگوں کی کتابوں سے نقل کرنے پہ میرے ساتھ ناقابلِ بیان تشدد آمیز سلوک کیا۔

جس سے پوچھ لیں محبت کے قصے گاتا ہے، سناتا ہے، دیکھتا ہے لیکن میرے معاملے میں یہاں بھی دنیا نے ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔

میں بچپن سے ہی عشق و محبت پہ یقین رکھتا ہوں۔ آج تک کوئی 37 بار محبت کر چکا ہوں جو اس ظالم دنیا نے حاصل نہیں کرنے دیں مگر میں نا امید نہیں ہوں۔ میں 38ویں محبت کے لیے بھی لڑکی دیکھ رہا ہوں۔

لوگ تو جوانی میں محبت کرتے ہیں لیکن میں نے تو بچپن میں ہی محبت شروع کر دی تھی۔ اور پھر اپنے والدین ،لڑکی کے والدین ، بھائیوں، چچا ، ماموں وغیرہ وغیرہ سے اتنی مار کھائی کہ میں نے گنیز بک والوں کو اپنا نام گینز بک میں درج کروانے کے لیے خط لکھ دیا ہے۔مجھے امید ہے کہ اگلی بار آپ لوگ ویلنٹائن ڈے کی بجائے کشافؔ ڈے منا رہے ہوں گے۔

یں بچپن سے ہی بزنس مائنڈڈ بندہ ہوں۔ ہمیشہ کرکٹ کھیلتے ہوئے مخالف ٹیم سے پیسہ بنایا۔

اس کے علاوہ امتحانی دنوں میں بوٹیاں بیچنے میں بھی ماہر تھا۔

مجھے امید ہے آپ میرے یہ چند دکھ سمجھ گئے ہونگے اور منزل مقصود تک پہنچنے میں میری مدد بھی کریں گے۔

Tauseef Ahmad
About the Author: Tauseef Ahmad Read More Articles by Tauseef Ahmad: 10 Articles with 8157 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.