بے بے ٹھیک کہندی سی

میں پاکستان کی اس نسل سے ہوں جو پاکستان کی ہم عمر تو نہیں لیکن ہم جولی ضرورہے۔ہم پاکستان کے لڑکپن میں پاکستان کے سنگ کھیلے ہیں۔ ہم نے کانٹوں کو پیپر پن کے طور پہ استعمال ہوتے تو نہیں دیکھا لیکن ان لوگوں کو ضرور دیکھا ہے جنہوں نے مٹی پہ بیٹھ کے پاکستان کو ایک بہتر ابتداء مہیاء کی تھی۔ہم نے قائد اعظم کی گاڑی کو ریلوے پھاٹک پہ تو رکتے نہیں دیکھا لیکن اس اے ڈی سی کو محبت سے یہ قصہ سناتے ضرور دیکھا ہے جسے قائد اعظم علیہ الرحمہ سے گاڑی جلدی گذارنے کی کوشش پہ ڈانٹ پڑی تھی۔ہم نے دنیا کے سب سے بڑے ڈیم کو پاکستان میں بنتے دیکھا ہے۔ہم نے یہاں قحط بھی دیکھا ہے اور فراوانی بھی دیکھی ہے۔ ہم نے ۶۵ء میں بھارت کی درگت بنتے بھی دیکھی اور ہم نے تاشقند بھی دیکھا اور وہاں سے آتی بھارتی وزیر اعظم شاستری کی لاش بھی۔ہم حرماں نصیبوں نے مشرقی پاکستان سے آئے اپنے بنگالی بھائیوں کو بھی دیکھ ا پھر جنرل نیازی اور جنرل اروڑاکو بھی۔

صحافت میں اخبار تو بس گنتی ہی کے تھے لیکن دو اخبار پاکستان کے بڑے اخبار سمجھے جاتے تھے۔ایک حزب اختلاف کا اور ایک حزب اقتدار کا۔ ایک کو نظریہ پاکستان کا محافظ سمجھا جاتا تھا جب کہ دوسرے کو نظریہ ضرورت کا۔ہم جو پیدائشی حزب مخالف کا مزاج رکھتے ہیں ۔ہمیں حکومتوں کی مٹھی چاپی کرنے والا وہ اخبار ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔حزب مخالف والے چونکہ دنیا میں ہمیشہ معتوب رہے ہیں اس لئے ہمارے اخبار کی وہ اٹھان نہ تھی جو اس مرغ باد نما کی تھی۔مراعات کی چاپلوسوں ہی پہ بارش ہوتی ہے لیکن پھر بھی کچھ آنکھ کی شرم ضرور تھی۔پاکستانیت اس اخبار کی بھی شک و شبہہ سے بالا تھی۔وہ کہتے ہیں ناں کہ آپ جو بیجیں گے وہی اگے گا بھی۔نئی نسل کے بگاڑ کا تو آجکل ہر کوئی شاکی ہے لیکن نئی نسل اسی شاخ پہ کلہاڑا چلائے گی جسے اس کے بزرگوں نے خونِ دل دے کے سینچا تھا۔ اس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔بزرگ حکومتِ وقت سے مراعات ضرور لیا کرتے تھے لیکن ہمارے علم میں نہیں کہ انہوں نے کبھی پاکستان کو ختم کرنے کے درپے قوتوں سے کوئی رعائت لی ہو۔اس لئے کہتے ہیں ناں کہ اولاد کو جو نوالہ کھلاؤ اس کو ہزار بار چھان پھٹک لو کہ یہی نوالہ آنے والے وقت میں اولاد کے لئے عذاب بن جاتا ہے۔

اس سے پہلے کہ میں آپ سے اس اجمال کی تفصیل بیان کروں ۔ایک واقعہ نما لطیفہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کو دل چاہتا ہے۔ایک لڑکی کچھ عاشق مزاج تھی۔ اس کی ماں بھی اپنی جوانی میں اپنے وقت کا چڑھتا سورج تھی۔ڈھلتے وقت نے لیکن اسے کہنہ مشق بنا دیا۔ برا آدمی خود چاہے جتنا برا ہواپنی اولاد کو ہر حال میں بچانا چاہتا ہے۔اس نے بھی بیٹی کو بہت منع کیا لیکن وہ باز نہ آئی۔ تنگ آ کے ماں نے اس کی شادی کر دی۔اس نے جب شادی کے بعد بھی اپنی حرکتیں جاری رکھیں تو ماں نے اسے پاس بٹھا کے سمجھایا کہ دیکھو تمہاری زندگی تباہ ہو جائے گی۔ تم کسی دن رنگے ہاتھوں پکڑی جاؤ گی اور ساری زندگی کے لئے منہ پہ کالک مل لو گی۔ برائی پہ آمادہ آدمی بھلا کسی کی سنتا ہے۔ اس نے بھی سنی ان سنی کر دی۔آخر کار وہی ہوا جس کی اماں نے اپنے تجربے کی روشنی میں پیش گوئی کی تھی۔لڑکی کا عاشق گھر میں تھا کہ اوپر سے اس کا میاں بھی آ گیا۔اب ایک کمرے کا مکان تھا۔اس نے اندر ہی سے واویلا شروع کیا کہ ہائے میں مر گئی "اماں ٹھیک کہندی سی"اماں ٹھیک کہندی سی"دروازہ وہ کیسے کھولتی۔میاں نے پہلے تو کچھ دیر دروازے پہ انتظار کیا۔پھر اپنی سادگی میں ساس کو بلانے دوڑا۔ساس نے ماجرا سنا تو سمجھ گئی کہ بیٹی نے کیا گل کھلایا ہے۔اس نے داماد کو بازار سے کچھ دوائیاں لانے بھیجا اور خود جا کے عاشق کو باہر نکالا۔ساتھ ہی بیٹی کو یہ نصیحت بھی کہ اب کی بار تو بچ گئی ہو شاید دوبارہ نہ بچو اس لئے اب یہ کام چھوڑ دو۔ بیٹی نے اس کے بعد چھوڑا یا نہیں راوی اس کے بارے میں خاموش ہے لیکن آج بھی جب کوئی گندا آدمی اس طرح کی حالت میں پکڑا جائے تو آواز آتی ہے کہ" اماں ٹھیک کہندی سی"

اب اسی حالت میں کچھ لوگ پکڑے گئے ہیں اور ان کی زبان پہ اب یہی فقرہ ہے کہ ہائے ربا! اماں ٹھیک کہندی سی۔ہم نے تو ان پہ شک کا اظہار اس وقت بھی نہیں کیا جب وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کے اجمل قصاب کا گاؤں تلاش کررہے تھے اور زبردستی یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کہ پاکستان ممبئی کے حملوں میں پوری طرح ملوث ہے۔ جب لوگ باگ یہ کہانیاں سنا رہے تھے کہ ایک بڑا میڈیا گروپ پاکستان کے خلاف اپنی خدمات کے عوض ایک دشمن سے کروڑوں ڈالر طلب کر رہا ہے تو بھی دل نہیں مانا۔جب کسی نے کہا کہ مسنگ پرسن کے پردے میں بھی مسنگ پرسن نہیں کوئی اور ہے تو ہم اسے بھی حق وصداقت کی آواز سمجھے۔جب کسی نے امن کی آشا کو بھی کسی کے اشارہ ابرو کی بھاشا قرار دیا تو بھی ہم نے امن کی اہمیت و ضرورت ہی کو مقدم جانا۔حتیٰ کہ وہ فقرہ سننے کو ملا کہ" ہائے ربا!بے بے ٹھیک کہندی سی۔"

جناب عالی! تفصیل اس اجمال کی اب میں کیا بتاؤں۔ آپ اب تک اخباروں میں پڑھ چکے ہوں گے کہ کیونکر ایک نام نہاد "پاکستانی "نجی چینل نے ایک دشمن ملک کی سیکرٹ سروس کے ساتھ مل کے کیسے اپنے ہی ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ کچھ لوگوں کے بول نے نہ صرف ڈھول کا پول کھولااور پھر پول نے بھی کھل کے یہ کہہ دیا کہ ان وطن دشمنوں نے نہ صرف اپنے ملک کو بدنام کیا بلکہ ہمارے اخبار کی بدنامی کا بھی باعث بنے۔اب ایک نامی گرامی سٹاک بروکر اور نجی میڈیا ہاؤس کا یہ بزنس ٹائیکون ایک کمرے میں بند ہیں۔پاکستانی عوام جسے یہ مدت سے اپنے ہی ملک کے خلاف پٹیاں پڑھا رہے تھے،دروازے کے باہر کھڑی ہے اور اندر سے ایک ہی آواز آ رہی ہے کہ ہائے ربا ! بے بے ٹھیک کہندی سی۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291919 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More